غلام ربانی فدا
محفلین
مطلع صاف ہے منجانب
نقشِ فریادی ہے، کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن، ہر پےکرِ تصویر کا
اردو کے مشہور شاعر اسد اللہ خاں غالب کا یہ شعر ان کے اردو دیوان کی پہلی غزل کا پہلا شعر ہے،اس کو معنی ومفہوم کے اعتبار سے جو بھی مقام ومرتبہ حاصل ہو تاہم اس کی اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ یہ مطلع بر سرِ دیوان ہے اور اس کا انتخاب اس مقامِ موزوں کے لئے خود صاحب دیوان نے اپنی صوابدید سے کیاہے، بطور خاص اس لئے بھی اس کے معنی ومفہوم کو لے کران کی حیات سے اب تک ادباءوشعراءاور نقادوں کے درمیان بڑی لے دے رہی ہے۔ اس کو گنجینہ¿ معنیٰ بھی کہا گیاہے اور بے معنیٰ ومطلب بھی بتایاگیا۔سر دست ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کس نے کیا کہا۔البتہ ہم نے اپنے طور پر اس کوکیا معنٰی پہنائے ہیںاور اس کا کیا مفہوم متعین کیاہے ہم اس کو یہاں مختصرا ًبیان کررہے ہیںتاہم یہ فیصلہ قارئین ہی کو لیناہے کہ ہماری رائے کس قدر متوازن ہے اور کس حدتک حقیقت سے قریب بھی ۔
نقشِ فریادی: اللہ خالق ومالک ہے باقی ہرچیز مخلوق اورمفلس وقلاش ،ہماری اس دنیا میں ذی شعور اور صاحب عقل وہوش مخلوق ابن آدم ہے۔ بظاہر اس کو یہاں بہت سی چیزوں پر ملکیت حاصل ہوتی ہے تاہم ابدی ملکیت ایک معمولی ذرے پر بھی حاصل نہیں۔یہ ایک ظاہر وباہر حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ نقش کا اطلاق خالق کے علاوہ باقی کل مخلوق پر ہوتاہے، اللہ کی اس عظیم کائنات میں ہرچھوٹی بڑی شئی ایک نقش ہے۔ ہم اس کو اپنی زبان میں نقشِ وجود کہہ سکتے ہیں۔اس کی وضاحت کے لیے علامہ اقبال کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے۔
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
اس شعر کے پس منظر میں انسان کی تمام سرگرمیاں،حرکات وسکنات، افعال وکردار ،دوڑ دھوپ اور ہر طرح کی جدوجہدچاہے وہ ذاتی نوعیت کی ہو یاقوم وملت کے حوالے سے کی گئی ہو’ نقش‘ کے مفہوم میں آتی ہیں۔ جبکہ خون جگر کامعنٰی ومطلب انسان کے جذبے، ذوق وشوق اوراخلاص ونیک نیتی سے عبارت ہے۔علامہ نے ایک دوسرے شعر میں’ نقش ‘کو اس طرح باندھاہے :
مجھ کو پیدا کرکے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا
نقش ہوں اپنے مصور کا گلا رکھتاہوں میں
یہاں’نقش‘ سے مراد اللہ تبارک وتعالیٰ کی شاہکار تخلیق آدم اور اولاد آدم ہے جبکہ ’مصور‘ اللہ رب العزت کو کہا گیاہے جوکہ خود اس کا ایک صفتی نام ہے۔اللہ کے نیانوے ناموں میں ایک نام’ مصور‘ بھی ہے۔ان اشعار سے نقش کا مفہوم کسی قدر متعین ہوجاتاہے اور وہ یہ ہے کہ ایک ذات واحد خدا وند قدوس کا استثنیٰ کرکے اس کی ساری خدائی، جن وانس، جمادات ونباتات، چرند پرند اور نوع بنوع حیوانات،یہ گنبد نیلگوں اور اس میں رقصاں بنات النعش،زندگی کی تخلیق کے لئے درکار تمام عناصر،کرہ¿ ارضی پر یہ جہانِ مرغ وماہی، دیر وحرم ،بت کدہ ومے خانے،ہر رہ گزر اور ہر ایک آستانہ غرض پتہ پتہ ،بوٹا بوٹا،خدا کی کل خدائی اور اس کی ساری کائنات ’نقش‘ کے مفہوم میں شامل ہے۔
یہ تو نقش کا مفہوم ہوا۔اور نقش کی صفت یہ ہے کہ وہ بے ثبات اور کم سواد ہے، اس کی زندگی عارضی اور آخر کار فناہونے والی ہے۔قرآن میں ہے” کل نفس ذائقة الموت“ کہ ہر ذی روح کو موت کا مزا چکھناہے۔موت کی تلخی شاید ذی روح ہی کو جھیلنی پڑے تاہم جن اشیاءکو غیر ذی روح سمجھاجاتاہے ان کا مقدر اور مآل بھی یہی ہے کہ وہ کم سواد اور بے ثبات ہیں ۔ قرآن میں ہے ” کل من علیہا فان“ یعنی ہر وہ چیز جو اس کائنات میں پیدا کی گئی ہے اس کو ایک نہ ایک دن فنا کے گھاٹ اترناہے۔
موت اورفنا ئیت کا احساس شاعر کے دل ودماغ پر اس طرح چھایا ہواہے کہ وہ خارج میں موجود ہرچیز کا مطالعہ اس کے مآل کے اعتبار سے کرتے ہیںاور زندگی کے رقص شرر کے پس پردہ موت کا رقصِ عریاںدیکھ لیتے ہیں۔یہی احساس جب ہمہ گیر ہو جاتاہے تو وہ یہاں تک بھی کہہ جاتے ہیں کہ یہ’ ہونا‘ کوئی’ ہونا‘ نہیں۔جس طرح ہم سطح آب پر ابھرے ہوئے ایک بلبلے کو دیکھ کر اس کی زندگی ہی کی نفی کرتے ہیں۔ جبکہ وہ بھی زندگی کا ایک نمونہ ہے، ہمیں اپنی نسبت سے اس کی زندگی بہت کم معلوم ہوتی ہے جبکہ خود ہماری زندگی آخرت کی حیات ابدی کے مقابل اس سے بھی زیادہ کم سواد اور حقیر ہے لیکن آخرت کی حیات ابدی ہمارے سامنے نہیں ۔اس لئے ہم اپنی حیات عارضی کا اس کے ساتھ موازنہ نہیں کرپاتے۔یہی فکر جب رنگ پکڑ تی ہے تو وہ شاعر کے خیال کو اس طرف لے جاتی ہے کہ وہ ہستی کی بھی نفی کرنے لگتے ہیں، انہیں خارج میں جوکچھ بھی نظر آتاہے یہاں تک کہ خود ان کا اپنا وجود بھی وہ اس کو ’فریبِ ہستی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
کھائیو مت اسد فریب ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
فریادی : نقش کی صفت کو مزید مو¿کد کرتاہے لفظِ ’فریادی‘ ۔جو مذکورہ شعر میں نقش کی صفت کے طور پر لایا گیاہے۔جس طرح کوئی سائل دوسرے لوگوں کے سامنے عاجزی ودرماندگی، مفلسی وبے چارگی کی تصویر بنا پھرتاہے اور ان کی مسیحانفسی اور دادودہش کا اپنے نفس غریب بلکہ ایک ایک سانس کے لئے منت کش رہتاہے با لکل اسی طرح ہماری اس کائنات کا ذرہ ذرہ اپنی چند روزہ حیات مستعارکے لیے اللہ کے دربار کا محتاج اور سائل ہے۔نقش جو مخلوق ومحتاج ہونے کی ایک متحرک علامت ہے اس پر ’فریادی‘ کی صفت لا نا گویا اس علامت کو ہویدا کرنا اور اس پر مزید رنگ وروغن چڑھانا ہے تاکہ اس کا وجود خود چیخ چیخ کر پکارے کہ میں مخلوق ومحتاج ہونے کی ایک زندہ علامت ہوں۔
’نقشِ فریادی ‘کی ترکیب بالکل اسی طرح ہے جس طرح خود غالب نے اپنے دیوان میں’ آہِ آتشیں‘اور ’کاکلِ سرکش‘کی ترکیبیں استعمال کی ہےں ع ”میری آہِ آتشیں سے بال عنقا جل گیا“ اور
سبزہ¿ خط سے تیرا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ عیسیٰ نہ ہوا
کس کی شوخیِ تحریر : نقش اور تحریر میں جومناسبت ہے وہ ادنیٰ وعالی سب پر واضح ہے البتہ حرفِ استفہام ’کس ‘ کامشار الیہ کیاہے اس کو سمجھنے کے لیے بھی ہم علامہ اقبال ہی کا ایک بہت ہی مشہور شعر پیش کریں گے۔
آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
اس شعر میں جو پہلی بار حرف’کسی‘ لایا گیا ہے اس سے مراد اللہ کی ذات ہے اور دوسرے’کسی‘ سے موجودہ زمانے کی امت محمدی کو مراد لیا گیا ہے۔مطلب یہ ہے کہ کیا آج پھر امت محمدی کواللہ کی طرف سے آزمائش وامتحان کی اسی انداز کی مشکل گھڑی سے گزرنا ہے جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام گزر چکے ہیں۔آج پھرنمرود صفت دشمنان اسلام کا ٹولہ پیدا ہوگیاہے اور دشت وجبل پر اس کا دبدبہ بھی قائم ہے، ایک طرف ان کی شاطرانہ چالیں ہیں اور دوسری طرف سادہ لوح امت ۔
علامہ کے شعر کا جو استفہامیہ انداز ہے وہ بتارہاہے کہ شاعر خدا کے حضور دست بستہ عرض کررہاہے کہ اے خدا ! اُس وقت تیرا ایک بر گزیدہ بندہ اپنے ایمان ویقین کی بنیاد پر اس آزمائش سے صحیح سالم گزر گیا تھا تاہم تیرے موجودہ بندوں میں نہ وہ براہیمی ایمان ہے کہ آگ کو تیری جناب سے انداز گلستاں پیدا کرنے کا حکم ملے اور نہ ہی مادی اعتبار سے وہ دم خم ہیں کہ وہ فرعونی طاقتوں کے مقابل آئیں۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ تو اس امت کو معاف کردے اور ایک بار پھر اسی طرح کی آزمائش میں نہ ڈالے۔
جب یہ معلوم ہوگیا کہ’ نقش‘ سے مراد مخلوق ہے اور’ نقاش ومصور‘ سے مقصود اللہ کی ذات ،تو یہ بات بھی متعین ہوجاتی ہے کہ غالب کے مذکورہ شعر میں حرفِ استفہام’کس‘ سے مراد بھی نقاش اور محرر یعنی اللہ کی ذات ہے۔البتہ اس میں لفظ’ شوخی ‘خود صاحب شعر کی شوخی پر دلالت کررہاہے کہ صاحب دیوان نے ازرہِ شوخی یہ بات سوچی کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی کائنات کی تخلیق محض کھیل یا تفریحِ طبع اور اپنی بڑائی کی خاطر کی ہے؟۔در اصل یہ بھی شوخی کی ایک نوع ہے کہ از رہ شوخ کسی کے عمل کو شوخی میں کیا گیا عمل بتایاجائے۔شوخی کی نسبت خالق کی طرف کرنے کا سبب یہ خیال بھی ہوسکتاہے کہ خالق نے اس دنیا کوگرچہ بلا وجہ اور بے مقصد پیدا نہیں کیا تاہم اس مقصدیت میں جزولاینفک کے طور پر جو مزاج شامل ہے وہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایک جہانِ فانی کو اور بطور خاص ابن آدم کو محض اس واسطے عارضی وجود کی خلعت پہنائی ہے کہ وہ اپنے آپ کو متعارف کرانا چاہتاتھا۔یہی ذوق خود نمائی ہے( جو بلا شبہ خالق اکبر کو زیب بھی دیتاہے بلکہ صرف اور صرف اسی کے لئے روا ہے )جس نے موت وحیات کی نا ختم ہونے والی کشمکش پیدا کی۔ایک ناپیداکنار وسعتوں کی حامل عظیم کائنات اور نہ سمجھ میں آنے والی زندگی کی تخلیق کی۔آدم کو سوچنے سمجھنے کے لئے دل و دماغ ضرور دیا تاہم حقائق کی سرحدوں کو اتنی دوریاں بخشیں کہ وہ اس کی پہونچ سے ہنوز دور ہےں،نفسیات انسانی کی ایک الجھی ہوئی گتھی اس کے سامنے رکھ دی اور اس کو سلجھانے کا حکم دیا مگر کچھ اس انداز سے کہ وہ آج تک اس کے اورچھور کی بھی تلاش نہ کرسکا۔
کاغذی پیرہن: کاغذی لباس کی نسبت بھی یک گونہ فریادوسوال سے ہے۔اس سلسلے میں ایک روایت خاصی مشہور ہے کہ ایران میں شاہِ ایران کے سامنے جب فریادی حاضرہوا کرتے تھے تو کاغذی لباس زیب تن کرلیا کرتے تھے،جس سے ان کا مقصود خود کو محتاج اور مسکین ظاہر کرناہوتاتھاتاکہ وہ شاہ وقت سے نان وشبینہ حاصل کرسکیں۔تاہم مذکورہ شعر کے اندر ’کاغذی پیرہن ‘ کے معنیٰ میں احتیاج ومسکینی کے علاوہ یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ کاغذی لباس بنسبت دوسرے معروف لباسوں کے بے ثبات و نا پائدار ہوتاہے ۔ اس کی عمر نہایت مختصر ہوتی ہے ،بالکل موسمی پتنگوں کی طرح اور پانی کے بلبلوں کی مانند۔
پیکر تصویر: تصویر یہاں پر’ نقش‘ کے ہم معنیٰ ہے اور جس طرح اس کے مفہوم میں اللہ کے ماسوا اس کی ساری خدائی شامل ہے۔اسی طرح تصویر کے مفہوم میں ماسوااللہ اس کی ساری خلقت آجاتی ہے ۔اور اس کی مخلوق بشمول ابن آدم کا پیکر یعنی ظاہرہ ،اس کی شکل وشباہت ،اُس فریادی کی مانند ہے جو کاغذی پیرہن زیب تن کئے ہوئے ہوتاہے۔یعنی خالق نے اپنی تخلیق کی زندگی عارضی اورمحض چند روزہ رکھی ہے اور وہ بھی اس شان کے ساتھ کہ ہر دم موت کا کھٹکا لگارہتاہے۔
تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
مطلع کے پہلے مصرع میں جو سوال قائم کیا گیا ہے دوسرا مصرع اس کا جواب نہیںہے بلکہ اس سوال کی بنیاد،وجہ یا پھر ماخذ ِ خیال کی حیثیت رکھتاہے۔دوسرا مصرع گویا پہلے مصرع کی تاکید اور دلیل ہے۔اس پورے شعر کا مزاج وہی ہے جو درج ذیل فارسی شعر کا ہے۔
ہوا مخالف، شب تار، و بحر طوفاں خیز
گسستہ لنگر کشتی، و ناخدا خفت است
اس فارسی شعرمیں ایک ہی خیال ،ایک ہی بات یاایک ہی احساس کو مسلسل بیان کیا گیاہے۔ اور کئی مناظر یکے بعد دیگرے پیش کرکے ایک ہی منظر کی ہولناکی کومزید گہرا اوروحشتناک بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
خالق اور مخلوق کے درمیان بے شمار نسبتوں میں ایک نسبت یہ بھی ہے کہ خالق کا کام تخلیق کرنا، بو قلمونی پیدا کرنااور موت وحیات کے تعلق سے ابدی فیصلے کرناہوتاہے۔ جبکہ مخلوق کاکام بطور خاص ابن آدم کا کام یہ ہے کہ وہ ہمہ دم حیرت واستعجاب کے سمندر میں غرقاب رہے۔یہ عظیم کائنات بالخصوص ہماری دنیا ایک بڑے کارخانے کی طرح ہے جو آئینے کے گھر کے مثل ہے۔ جس کا آغاز بھی حیرت میں ڈالنے والا ہے اور اس کی انتہا بھی تعجب خیز۔ اور اس بڑے سے آئینہ خانے میں آدم زاد کی حیثیت حیرت واستعجاب کو کشیدکرنے والے کی ہے۔خالق ومخلوق کے اپنے اپنے کام کی درجہ بندی اور اس کے درمیان جداگانہ نوعیت کا کس قدر خوبصورت بیان درج ذیل شعر میں ملتاہے۔مزید یہ کہ مطلع برسردیوان میں مشاطگیِ قدرت کے مقابل ابن آدم کی حیرت واستعجاب کے سمندر میںغرقابی کی کیفیت کو استفہامیہ پیرائے بیان میں نظم کیا گیاہے جبکہ درج ذیل شعر میں اسی عجب وتحیر کو مثبت پیرایہ¿ بیان میںشعر ی قالب دیا گیاہے۔دیکھئے یہ شعر
گردشِ ساغرِ صد جلوہ¿ رنگیں تجھ سے
آئینہ داریِ یک دیدہ¿ حیراں مجھ سے
مطلب یہ ہے کہ اِس نوع بنوع اور رنگ برنگی کائنات کی پیہم گردش اللہ کی ذات واحد سے وابستہ ہے، اللہ کی اس عظیم کائنات میں ہر شے گردش کررہی ہے، اس کا ہر ایک جز اپنے اپنے مدار پر مختلف جہات میںمحو گردش ہے بلکہ بیک وقت دوطرفہ گردش بھی ہے اور یہ سب اللہ کی دست قدرت کے معمولی نمونے ہیں۔ اوراس کار گہہ حیات میں انسان کی حیثیت بس اتنی ہے کہ وہ شش جہات میںادھر ادھر دیدے نچا نچاکر ہونقوں کی طرح دیکھتا رہے اور سوالات پر سوالات قائم کرتا جائے کہ یہ کیا ہے اور وہ کیا ہے، ایساکیوں ہو رہاہے اور ویسا کیوں ہورہاہے۔وہ خود کہاں سے آیاہے اور موت اس کو کہاں لے جاتی ہے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ یہاں کیوں آیا اور اس کو کہیں اورکیوں جانا ہے۔ مستزاد برآں یہ کہ اس آنے جانے میں اس کا اپنا اختیار کس حد تک ہے اور خود اس کی مرضی کو کتنا دخل ہے۔
خود غالب کی ایک غزل اس خیال کی بھر پور عکاسی کرتی ہے بلکہ خود ان کی ذات انسانی دنیا کے ایک ایسے ہی نمائدہ جیسی ہے جو اللہ کی اس کاری گری کے سامنے صورتِ سوال بنا ہوا ہے، جیسے کوئی بچہ پہیلیوں کی تہہ داریوں میں الجھ جائے اور جیسے کوئی انسان فضائے بسیط کی وسعتوں میں اپنا وجود کھو دے اور حیراں وسرگرداں مارامارا پھرے:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟
شکنِ زلفِ عنبری کیوں ہے؟
نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟
ان تمام تشریحات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ یہ شعر دست قدرت کی مشاطگی اور ہنر مندی کے مقابل ا نسان کی اپنی عاجزی ودرماندگی،بے ثباتی و کم مائیگی اورحیرت واستعجاب کا صد فی صد اظہار بلکہ خوبصورت اور مکمل اظہار کرنے والا ان کے پورے اردو دیوان میںایک نمائندہ شعر ہے تو شاید کچھ ایسا غلط بھی نہ ہو اور نہ ہی مبالغہ آرائی پر مبنی ایسی ویسی کوئی بات۔
کاغذی ہے پیرہن، ہر پےکرِ تصویر کا
اردو کے مشہور شاعر اسد اللہ خاں غالب کا یہ شعر ان کے اردو دیوان کی پہلی غزل کا پہلا شعر ہے،اس کو معنی ومفہوم کے اعتبار سے جو بھی مقام ومرتبہ حاصل ہو تاہم اس کی اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ یہ مطلع بر سرِ دیوان ہے اور اس کا انتخاب اس مقامِ موزوں کے لئے خود صاحب دیوان نے اپنی صوابدید سے کیاہے، بطور خاص اس لئے بھی اس کے معنی ومفہوم کو لے کران کی حیات سے اب تک ادباءوشعراءاور نقادوں کے درمیان بڑی لے دے رہی ہے۔ اس کو گنجینہ¿ معنیٰ بھی کہا گیاہے اور بے معنیٰ ومطلب بھی بتایاگیا۔سر دست ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کس نے کیا کہا۔البتہ ہم نے اپنے طور پر اس کوکیا معنٰی پہنائے ہیںاور اس کا کیا مفہوم متعین کیاہے ہم اس کو یہاں مختصرا ًبیان کررہے ہیںتاہم یہ فیصلہ قارئین ہی کو لیناہے کہ ہماری رائے کس قدر متوازن ہے اور کس حدتک حقیقت سے قریب بھی ۔
نقشِ فریادی: اللہ خالق ومالک ہے باقی ہرچیز مخلوق اورمفلس وقلاش ،ہماری اس دنیا میں ذی شعور اور صاحب عقل وہوش مخلوق ابن آدم ہے۔ بظاہر اس کو یہاں بہت سی چیزوں پر ملکیت حاصل ہوتی ہے تاہم ابدی ملکیت ایک معمولی ذرے پر بھی حاصل نہیں۔یہ ایک ظاہر وباہر حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ نقش کا اطلاق خالق کے علاوہ باقی کل مخلوق پر ہوتاہے، اللہ کی اس عظیم کائنات میں ہرچھوٹی بڑی شئی ایک نقش ہے۔ ہم اس کو اپنی زبان میں نقشِ وجود کہہ سکتے ہیں۔اس کی وضاحت کے لیے علامہ اقبال کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے۔
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
اس شعر کے پس منظر میں انسان کی تمام سرگرمیاں،حرکات وسکنات، افعال وکردار ،دوڑ دھوپ اور ہر طرح کی جدوجہدچاہے وہ ذاتی نوعیت کی ہو یاقوم وملت کے حوالے سے کی گئی ہو’ نقش‘ کے مفہوم میں آتی ہیں۔ جبکہ خون جگر کامعنٰی ومطلب انسان کے جذبے، ذوق وشوق اوراخلاص ونیک نیتی سے عبارت ہے۔علامہ نے ایک دوسرے شعر میں’ نقش ‘کو اس طرح باندھاہے :
مجھ کو پیدا کرکے اپنا نکتہ چیں پیدا کیا
نقش ہوں اپنے مصور کا گلا رکھتاہوں میں
یہاں’نقش‘ سے مراد اللہ تبارک وتعالیٰ کی شاہکار تخلیق آدم اور اولاد آدم ہے جبکہ ’مصور‘ اللہ رب العزت کو کہا گیاہے جوکہ خود اس کا ایک صفتی نام ہے۔اللہ کے نیانوے ناموں میں ایک نام’ مصور‘ بھی ہے۔ان اشعار سے نقش کا مفہوم کسی قدر متعین ہوجاتاہے اور وہ یہ ہے کہ ایک ذات واحد خدا وند قدوس کا استثنیٰ کرکے اس کی ساری خدائی، جن وانس، جمادات ونباتات، چرند پرند اور نوع بنوع حیوانات،یہ گنبد نیلگوں اور اس میں رقصاں بنات النعش،زندگی کی تخلیق کے لئے درکار تمام عناصر،کرہ¿ ارضی پر یہ جہانِ مرغ وماہی، دیر وحرم ،بت کدہ ومے خانے،ہر رہ گزر اور ہر ایک آستانہ غرض پتہ پتہ ،بوٹا بوٹا،خدا کی کل خدائی اور اس کی ساری کائنات ’نقش‘ کے مفہوم میں شامل ہے۔
یہ تو نقش کا مفہوم ہوا۔اور نقش کی صفت یہ ہے کہ وہ بے ثبات اور کم سواد ہے، اس کی زندگی عارضی اور آخر کار فناہونے والی ہے۔قرآن میں ہے” کل نفس ذائقة الموت“ کہ ہر ذی روح کو موت کا مزا چکھناہے۔موت کی تلخی شاید ذی روح ہی کو جھیلنی پڑے تاہم جن اشیاءکو غیر ذی روح سمجھاجاتاہے ان کا مقدر اور مآل بھی یہی ہے کہ وہ کم سواد اور بے ثبات ہیں ۔ قرآن میں ہے ” کل من علیہا فان“ یعنی ہر وہ چیز جو اس کائنات میں پیدا کی گئی ہے اس کو ایک نہ ایک دن فنا کے گھاٹ اترناہے۔
موت اورفنا ئیت کا احساس شاعر کے دل ودماغ پر اس طرح چھایا ہواہے کہ وہ خارج میں موجود ہرچیز کا مطالعہ اس کے مآل کے اعتبار سے کرتے ہیںاور زندگی کے رقص شرر کے پس پردہ موت کا رقصِ عریاںدیکھ لیتے ہیں۔یہی احساس جب ہمہ گیر ہو جاتاہے تو وہ یہاں تک بھی کہہ جاتے ہیں کہ یہ’ ہونا‘ کوئی’ ہونا‘ نہیں۔جس طرح ہم سطح آب پر ابھرے ہوئے ایک بلبلے کو دیکھ کر اس کی زندگی ہی کی نفی کرتے ہیں۔ جبکہ وہ بھی زندگی کا ایک نمونہ ہے، ہمیں اپنی نسبت سے اس کی زندگی بہت کم معلوم ہوتی ہے جبکہ خود ہماری زندگی آخرت کی حیات ابدی کے مقابل اس سے بھی زیادہ کم سواد اور حقیر ہے لیکن آخرت کی حیات ابدی ہمارے سامنے نہیں ۔اس لئے ہم اپنی حیات عارضی کا اس کے ساتھ موازنہ نہیں کرپاتے۔یہی فکر جب رنگ پکڑ تی ہے تو وہ شاعر کے خیال کو اس طرف لے جاتی ہے کہ وہ ہستی کی بھی نفی کرنے لگتے ہیں، انہیں خارج میں جوکچھ بھی نظر آتاہے یہاں تک کہ خود ان کا اپنا وجود بھی وہ اس کو ’فریبِ ہستی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
کھائیو مت اسد فریب ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
فریادی : نقش کی صفت کو مزید مو¿کد کرتاہے لفظِ ’فریادی‘ ۔جو مذکورہ شعر میں نقش کی صفت کے طور پر لایا گیاہے۔جس طرح کوئی سائل دوسرے لوگوں کے سامنے عاجزی ودرماندگی، مفلسی وبے چارگی کی تصویر بنا پھرتاہے اور ان کی مسیحانفسی اور دادودہش کا اپنے نفس غریب بلکہ ایک ایک سانس کے لئے منت کش رہتاہے با لکل اسی طرح ہماری اس کائنات کا ذرہ ذرہ اپنی چند روزہ حیات مستعارکے لیے اللہ کے دربار کا محتاج اور سائل ہے۔نقش جو مخلوق ومحتاج ہونے کی ایک متحرک علامت ہے اس پر ’فریادی‘ کی صفت لا نا گویا اس علامت کو ہویدا کرنا اور اس پر مزید رنگ وروغن چڑھانا ہے تاکہ اس کا وجود خود چیخ چیخ کر پکارے کہ میں مخلوق ومحتاج ہونے کی ایک زندہ علامت ہوں۔
’نقشِ فریادی ‘کی ترکیب بالکل اسی طرح ہے جس طرح خود غالب نے اپنے دیوان میں’ آہِ آتشیں‘اور ’کاکلِ سرکش‘کی ترکیبیں استعمال کی ہےں ع ”میری آہِ آتشیں سے بال عنقا جل گیا“ اور
سبزہ¿ خط سے تیرا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ عیسیٰ نہ ہوا
کس کی شوخیِ تحریر : نقش اور تحریر میں جومناسبت ہے وہ ادنیٰ وعالی سب پر واضح ہے البتہ حرفِ استفہام ’کس ‘ کامشار الیہ کیاہے اس کو سمجھنے کے لیے بھی ہم علامہ اقبال ہی کا ایک بہت ہی مشہور شعر پیش کریں گے۔
آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
اس شعر میں جو پہلی بار حرف’کسی‘ لایا گیا ہے اس سے مراد اللہ کی ذات ہے اور دوسرے’کسی‘ سے موجودہ زمانے کی امت محمدی کو مراد لیا گیا ہے۔مطلب یہ ہے کہ کیا آج پھر امت محمدی کواللہ کی طرف سے آزمائش وامتحان کی اسی انداز کی مشکل گھڑی سے گزرنا ہے جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام گزر چکے ہیں۔آج پھرنمرود صفت دشمنان اسلام کا ٹولہ پیدا ہوگیاہے اور دشت وجبل پر اس کا دبدبہ بھی قائم ہے، ایک طرف ان کی شاطرانہ چالیں ہیں اور دوسری طرف سادہ لوح امت ۔
علامہ کے شعر کا جو استفہامیہ انداز ہے وہ بتارہاہے کہ شاعر خدا کے حضور دست بستہ عرض کررہاہے کہ اے خدا ! اُس وقت تیرا ایک بر گزیدہ بندہ اپنے ایمان ویقین کی بنیاد پر اس آزمائش سے صحیح سالم گزر گیا تھا تاہم تیرے موجودہ بندوں میں نہ وہ براہیمی ایمان ہے کہ آگ کو تیری جناب سے انداز گلستاں پیدا کرنے کا حکم ملے اور نہ ہی مادی اعتبار سے وہ دم خم ہیں کہ وہ فرعونی طاقتوں کے مقابل آئیں۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ تو اس امت کو معاف کردے اور ایک بار پھر اسی طرح کی آزمائش میں نہ ڈالے۔
جب یہ معلوم ہوگیا کہ’ نقش‘ سے مراد مخلوق ہے اور’ نقاش ومصور‘ سے مقصود اللہ کی ذات ،تو یہ بات بھی متعین ہوجاتی ہے کہ غالب کے مذکورہ شعر میں حرفِ استفہام’کس‘ سے مراد بھی نقاش اور محرر یعنی اللہ کی ذات ہے۔البتہ اس میں لفظ’ شوخی ‘خود صاحب شعر کی شوخی پر دلالت کررہاہے کہ صاحب دیوان نے ازرہِ شوخی یہ بات سوچی کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی کائنات کی تخلیق محض کھیل یا تفریحِ طبع اور اپنی بڑائی کی خاطر کی ہے؟۔در اصل یہ بھی شوخی کی ایک نوع ہے کہ از رہ شوخ کسی کے عمل کو شوخی میں کیا گیا عمل بتایاجائے۔شوخی کی نسبت خالق کی طرف کرنے کا سبب یہ خیال بھی ہوسکتاہے کہ خالق نے اس دنیا کوگرچہ بلا وجہ اور بے مقصد پیدا نہیں کیا تاہم اس مقصدیت میں جزولاینفک کے طور پر جو مزاج شامل ہے وہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایک جہانِ فانی کو اور بطور خاص ابن آدم کو محض اس واسطے عارضی وجود کی خلعت پہنائی ہے کہ وہ اپنے آپ کو متعارف کرانا چاہتاتھا۔یہی ذوق خود نمائی ہے( جو بلا شبہ خالق اکبر کو زیب بھی دیتاہے بلکہ صرف اور صرف اسی کے لئے روا ہے )جس نے موت وحیات کی نا ختم ہونے والی کشمکش پیدا کی۔ایک ناپیداکنار وسعتوں کی حامل عظیم کائنات اور نہ سمجھ میں آنے والی زندگی کی تخلیق کی۔آدم کو سوچنے سمجھنے کے لئے دل و دماغ ضرور دیا تاہم حقائق کی سرحدوں کو اتنی دوریاں بخشیں کہ وہ اس کی پہونچ سے ہنوز دور ہےں،نفسیات انسانی کی ایک الجھی ہوئی گتھی اس کے سامنے رکھ دی اور اس کو سلجھانے کا حکم دیا مگر کچھ اس انداز سے کہ وہ آج تک اس کے اورچھور کی بھی تلاش نہ کرسکا۔
کاغذی پیرہن: کاغذی لباس کی نسبت بھی یک گونہ فریادوسوال سے ہے۔اس سلسلے میں ایک روایت خاصی مشہور ہے کہ ایران میں شاہِ ایران کے سامنے جب فریادی حاضرہوا کرتے تھے تو کاغذی لباس زیب تن کرلیا کرتے تھے،جس سے ان کا مقصود خود کو محتاج اور مسکین ظاہر کرناہوتاتھاتاکہ وہ شاہ وقت سے نان وشبینہ حاصل کرسکیں۔تاہم مذکورہ شعر کے اندر ’کاغذی پیرہن ‘ کے معنیٰ میں احتیاج ومسکینی کے علاوہ یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ کاغذی لباس بنسبت دوسرے معروف لباسوں کے بے ثبات و نا پائدار ہوتاہے ۔ اس کی عمر نہایت مختصر ہوتی ہے ،بالکل موسمی پتنگوں کی طرح اور پانی کے بلبلوں کی مانند۔
پیکر تصویر: تصویر یہاں پر’ نقش‘ کے ہم معنیٰ ہے اور جس طرح اس کے مفہوم میں اللہ کے ماسوا اس کی ساری خدائی شامل ہے۔اسی طرح تصویر کے مفہوم میں ماسوااللہ اس کی ساری خلقت آجاتی ہے ۔اور اس کی مخلوق بشمول ابن آدم کا پیکر یعنی ظاہرہ ،اس کی شکل وشباہت ،اُس فریادی کی مانند ہے جو کاغذی پیرہن زیب تن کئے ہوئے ہوتاہے۔یعنی خالق نے اپنی تخلیق کی زندگی عارضی اورمحض چند روزہ رکھی ہے اور وہ بھی اس شان کے ساتھ کہ ہر دم موت کا کھٹکا لگارہتاہے۔
تھا زندگی میں موت کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
مطلع کے پہلے مصرع میں جو سوال قائم کیا گیا ہے دوسرا مصرع اس کا جواب نہیںہے بلکہ اس سوال کی بنیاد،وجہ یا پھر ماخذ ِ خیال کی حیثیت رکھتاہے۔دوسرا مصرع گویا پہلے مصرع کی تاکید اور دلیل ہے۔اس پورے شعر کا مزاج وہی ہے جو درج ذیل فارسی شعر کا ہے۔
ہوا مخالف، شب تار، و بحر طوفاں خیز
گسستہ لنگر کشتی، و ناخدا خفت است
اس فارسی شعرمیں ایک ہی خیال ،ایک ہی بات یاایک ہی احساس کو مسلسل بیان کیا گیاہے۔ اور کئی مناظر یکے بعد دیگرے پیش کرکے ایک ہی منظر کی ہولناکی کومزید گہرا اوروحشتناک بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
خالق اور مخلوق کے درمیان بے شمار نسبتوں میں ایک نسبت یہ بھی ہے کہ خالق کا کام تخلیق کرنا، بو قلمونی پیدا کرنااور موت وحیات کے تعلق سے ابدی فیصلے کرناہوتاہے۔ جبکہ مخلوق کاکام بطور خاص ابن آدم کا کام یہ ہے کہ وہ ہمہ دم حیرت واستعجاب کے سمندر میں غرقاب رہے۔یہ عظیم کائنات بالخصوص ہماری دنیا ایک بڑے کارخانے کی طرح ہے جو آئینے کے گھر کے مثل ہے۔ جس کا آغاز بھی حیرت میں ڈالنے والا ہے اور اس کی انتہا بھی تعجب خیز۔ اور اس بڑے سے آئینہ خانے میں آدم زاد کی حیثیت حیرت واستعجاب کو کشیدکرنے والے کی ہے۔خالق ومخلوق کے اپنے اپنے کام کی درجہ بندی اور اس کے درمیان جداگانہ نوعیت کا کس قدر خوبصورت بیان درج ذیل شعر میں ملتاہے۔مزید یہ کہ مطلع برسردیوان میں مشاطگیِ قدرت کے مقابل ابن آدم کی حیرت واستعجاب کے سمندر میںغرقابی کی کیفیت کو استفہامیہ پیرائے بیان میں نظم کیا گیاہے جبکہ درج ذیل شعر میں اسی عجب وتحیر کو مثبت پیرایہ¿ بیان میںشعر ی قالب دیا گیاہے۔دیکھئے یہ شعر
گردشِ ساغرِ صد جلوہ¿ رنگیں تجھ سے
آئینہ داریِ یک دیدہ¿ حیراں مجھ سے
مطلب یہ ہے کہ اِس نوع بنوع اور رنگ برنگی کائنات کی پیہم گردش اللہ کی ذات واحد سے وابستہ ہے، اللہ کی اس عظیم کائنات میں ہر شے گردش کررہی ہے، اس کا ہر ایک جز اپنے اپنے مدار پر مختلف جہات میںمحو گردش ہے بلکہ بیک وقت دوطرفہ گردش بھی ہے اور یہ سب اللہ کی دست قدرت کے معمولی نمونے ہیں۔ اوراس کار گہہ حیات میں انسان کی حیثیت بس اتنی ہے کہ وہ شش جہات میںادھر ادھر دیدے نچا نچاکر ہونقوں کی طرح دیکھتا رہے اور سوالات پر سوالات قائم کرتا جائے کہ یہ کیا ہے اور وہ کیا ہے، ایساکیوں ہو رہاہے اور ویسا کیوں ہورہاہے۔وہ خود کہاں سے آیاہے اور موت اس کو کہاں لے جاتی ہے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ یہاں کیوں آیا اور اس کو کہیں اورکیوں جانا ہے۔ مستزاد برآں یہ کہ اس آنے جانے میں اس کا اپنا اختیار کس حد تک ہے اور خود اس کی مرضی کو کتنا دخل ہے۔
خود غالب کی ایک غزل اس خیال کی بھر پور عکاسی کرتی ہے بلکہ خود ان کی ذات انسانی دنیا کے ایک ایسے ہی نمائدہ جیسی ہے جو اللہ کی اس کاری گری کے سامنے صورتِ سوال بنا ہوا ہے، جیسے کوئی بچہ پہیلیوں کی تہہ داریوں میں الجھ جائے اور جیسے کوئی انسان فضائے بسیط کی وسعتوں میں اپنا وجود کھو دے اور حیراں وسرگرداں مارامارا پھرے:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟
شکنِ زلفِ عنبری کیوں ہے؟
نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟
ان تمام تشریحات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ یہ شعر دست قدرت کی مشاطگی اور ہنر مندی کے مقابل ا نسان کی اپنی عاجزی ودرماندگی،بے ثباتی و کم مائیگی اورحیرت واستعجاب کا صد فی صد اظہار بلکہ خوبصورت اور مکمل اظہار کرنے والا ان کے پورے اردو دیوان میںایک نمائندہ شعر ہے تو شاید کچھ ایسا غلط بھی نہ ہو اور نہ ہی مبالغہ آرائی پر مبنی ایسی ویسی کوئی بات۔