مطلع کا انتخاب۔۔۔

اساتذہ و دیگر قارئین کرام سے التماس ہے کہ درج ذیل اشعار میں سے غزل کے لئے بہتر مطلع تجویز کریں:

شہرِبے مہر سو گیا آخر
ختم سب شور ہو گیا آخر

کوئی برباد ہو گیا آخر
تجھ پہ مر مٹ کے سو گیا آخر

اگر ان دونوں ہی میں کچھ قباحت ہو تو اس کی بھی نشاندہی کیجیے۔

بہت شکریہ۔

الف عین ، محمد یعقوب آسی ، فاتح ، محمد خلیل الرحمٰن ، مزمل شیخ بسمل
 
شہرِبے مہر سو گیا آخر
ختم سب شور ہو گیا آخر

کوئی برباد ہو گیا آخر
تجھ پہ مر مٹ کے سو گیا آخر

پہلا شعر بہتر ہے میری ناقص رائے میں، کیونکہ دوسرے شعر میں برباد ہونے والے کا سونا سمجھ نہیں آ رہا، کہ برباد ہونے والوں کی نیندیں اُڑ جاتی ہیں

پہلا یوں کہیں تو کیسا ہو؟

شہرِبے مہر سو گیا آخر
ایسا ہونا تھا، ہو گیا آخر

یا
یہ تو ہونا تھا، ہو گیا آخر

یا
زور الفت کا ہو گیا آخر

ویسے اساتذہ کا انتظار رہے گا :biggrin:
 
بہت شکریہ جناب @محمد اظہر نذیر۔

دوسرے شعر میں موت کو سونے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور یہ موت ضروری نہیں جسمانی ہو، بلکہ روہانی یا جزبوں کی موت ہے۔ گویا سکوتِ بےبسی و لاچارگی۔۔۔ اب یہ تو اساتذہ کرام ہی بتائیں گے کہ 'سو جانے' کا ان معنوں میں استعمال جائز ہے کہ غلط۔
 

الف عین

لائبریرین
دوسرئے مطلع میں واقعی ابہام ہے، وہ مطلب برامد نہیں ہوتا جو شاعر چاہتا ہے۔
پہلا مطلع یقیناً بہتر ہے، اسی شکل میں یا الفاظ کی الٹ پھیر کے ساتھ
ختم سب شور ہو
کو
شور سب ختم
زیادہ رواں ہے
 
اساتذہ و دیگر قارئین کرام سے التماس ہے کہ درج ذیل اشعار میں سے غزل کے لئے بہتر مطلع تجویز کریں:

شہرِبے مہر سو گیا آخر
ختم سب شور ہو گیا آخر

کوئی برباد ہو گیا آخر
تجھ پہ مر مٹ کے سو گیا آخر

اگر ان دونوں ہی میں کچھ قباحت ہو تو اس کی بھی نشاندہی کیجیے۔

بہت شکریہ۔

الف عین ، محمد یعقوب آسی ، فاتح ، محمد خلیل الرحمٰن ، مزمل شیخ بسمل
یہ تو آپ کے کرنے کے فیصلے ہیں، اس میں کوئی دوسرا کیا تجویز کرے گا۔
اگر آپ کو دونوں مطلعے اچھے لگتے ہیں تو دونوں شامل کر لیجئے، دو مطلعوں کی مثالیں غزل میں بہت ہیں!
 
بہت شکریہ جناب @محمد اظہر نذیر۔

دوسرے شعر میں موت کو سونے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور یہ موت ضروری نہیں جسمانی ہو، بلکہ روہانی یا جزبوں کی موت ہے۔ گویا سکوتِ بےبسی و لاچارگی۔۔۔ اب یہ تو اساتذہ کرام ہی بتائیں گے کہ 'سو جانے' کا ان معنوں میں استعمال جائز ہے کہ غلط۔

معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ:
بہت عجیب صورت ہوتی ہے جہاں شاعر کو خود اپنے شعر کی یا اس کی جزئیات کی توضیح پیش کرنی پڑے۔
آپ تو پختہ شاعر ہیں، آپ کے ہاں تو ایسا نہیں ہونا چا ہئے تھا۔
 
کوئی برباد ہو گیا آخر
تجھ پہ مر مٹ کے سو گیا آخر

دوسرے شعر میں موت کو سونے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور یہ موت ضروری نہیں جسمانی ہو، بلکہ روہانی (روحانی) یا جزبوں (جذبوں)کی موت ہے۔ گویا سکوتِ بےبسی و لاچارگی۔

اس توضیح کے مطابق ’’سو گیا‘‘ کو ’’مر گیا‘‘ قبول کر لیں تو الفاظ ’’مر مٹ کے‘‘ کا کیا کریں؟ تجھ پہ مر مٹ کے مر گیا؟ تجھ پہ قربان ہو کے مر گیا؟ تجھ پہ قربان ہو گیا؟
تو پھر ’’برباد ہو گیا‘‘ کا جواز نہیں ہے۔ معذرت خواہ ہوں۔
 
دوسرئے مطلع میں واقعی ابہام ہے، وہ مطلب برامد نہیں ہوتا جو شاعر چاہتا ہے۔
پہلا مطلع یقیناً بہتر ہے، اسی شکل میں یا الفاظ کی الٹ پھیر کے ساتھ
ختم سب شور ہو
کو
شور سب ختم
زیادہ رواں ہے

بہت شکریہ اعجاز بھائی۔ ساری مشکل قافیوں کے انتہائی محدود ہونے کی وجہ سے پیش آ رہی ہے۔ اس غزل ہی کو حذف کر دیتا مگر باقی اشعار اچھے ہیں۔ سوچ رہا تھا مناسب مطلع سمجھ آجائے تو پوری غزل پیش کروں۔
 
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ:
بہت عجیب صورت ہوتی ہے جہاں شاعر کو خود اپنے شعر کی یا اس کی جزئیات کی توضیح پیش کرنی پڑے۔
آپ تو پختہ شاعر ہیں، آپ کے ہاں تو ایسا نہیں ہونا چا ہئے تھا۔

استاد آسی صاحب،

بے حدممنون ہوں آپ نے اپنی نظرِ کرم ڈالی۔ مجھ میں کہاں کی پختگی جناب، مجھے تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں شاعری کرتے۔ مجھ سے ایسی حماقتوں کی توقع رکھیے گا :embarrassed:
 
دوسرئے مطلع میں واقعی ابہام ہے، وہ مطلب برامد نہیں ہوتا جو شاعر چاہتا ہے۔
پہلا مطلع یقیناً بہتر ہے، اسی شکل میں یا الفاظ کی الٹ پھیر کے ساتھ
ختم سب شور ہو
کو
شور سب ختم
زیادہ رواں ہے

استادِ محترم،

مطلع کا مسئلہ تو آپ نے حل کر دیا۔ اب اس سے پہلے کہ غزل پوسٹ کروں اس شعر میں 'موقوف' کی صحت پر بھی کچھ فرما دیجیے۔ مجھے یہ شعر بہت پسند ہے مگر بار بار یہ ڈر ہو رہا ہے کہ کہیں موقوف پر پکڑ نہ ہو جائے!

تجھ پہ موقوف زیست تھی اپنی
تُو ملا اور کھو گیا آخر
 
بہت شکریہ اعجاز بھائی۔ ساری مشکل قافیوں کے انتہائی محدود ہونے کی وجہ سے پیش آ رہی ہے۔ اس غزل ہی کو حذف کر دیتا مگر باقی اشعار اچھے ہیں۔ سوچ رہا تھا مناسب مطلع سمجھ آجائے تو پوری غزل پیش کروں۔

آپ کو مزے کی بات بتاؤں۔ صبح میں نے تاثرات لکھ دئے بعد میں سوچ رہا تھا کہ قوافی بہت محدود رہے ہوں گے؛ سو گیا، تو گیا، پرو گیا، سمو گیا، دھو گیا، کھو گیا، سو گیا، سو (دوسرے معانی میں) گیا، بو گیا، بھگو گیا، ڈبو گیا ۔۔ اور اگر استادانہ بندشیں لا سکیں تو: سنو، کہو، وغیرہ ملا کے کافی قوافی مل جاتے ہیں۔ موجودہ ردیف اور قافیے کا امتزاج البتہ محنت طلب ہے اور ہو سکتا ہے مضامین کو بھی محدود کرتا ہو۔
میں تو ایسی مشکلات میں پڑنے سے اجتناب کرتا ہوں صاحب۔ مزاج اپنا اپنا۔
 
تجھ پہ موقوف زیست تھی اپنی
تُو ملا اور کھو گیا آخر

’’موقوف‘‘ میں تو مجھے کوئی کلام نہیں، تاہم دوسرا مصرع پہلے کا ساتھ نہیں دے رہا یا یوں کہہ لیجئے کہ شعر میں معنوی تشنگی ہے۔ یا پھر میں نہیں پا سکا۔
 
تجھ پہ موقوف زیست تھی اپنی
تُو ملا اور کھو گیا آخر

’’موقوف‘‘ میں تو مجھے کوئی کلام نہیں، تاہم دوسرا مصرع پہلے کا ساتھ نہیں دے رہا یا یوں کہہ لیجئے کہ شعر میں معنوی تشنگی ہے۔ یا پھر میں نہیں پا سکا۔

استادِ محترم،

آپکی رائے سر آنکھوں پر۔ پوچھنا یہ چاہ رہا ہوں کہ آیا آپکو مفہوم تو سمجھ آگیا مگر شعر سے مفہوم واضح نہیں ہو رہا، یا شعر کوئی واضح مفہوم کو پیش نہیں کر پا رہا؟

ایک دوست کے لیے اس شعر کا انگریزی ترجمہ یوں کیا تھا:
My life depended on you
I found and lost you finally
 
استادِ محترم،

آپکی رائے سر آنکھوں پر۔ پوچھنا یہ چاہ رہا ہوں کہ آیا آپکو مفہوم تو سمجھ آگیا مگر شعر سے مفہوم واضح نہیں ہو رہا، یا شعر کوئی واضح مفہوم کو پیش نہیں کر پا رہا؟

ایک دوست کے لیے اس شعر کا انگریزی ترجمہ یوں کیا تھا:
My life depended on you
I found and lost you finally

آپ کا سوال بہت مشکل ہے سید صاحب۔ میں اپنے کہے پر کوئی اضافہ نہیں کر سکوں گا۔

البتہ، پہلے مصرعے پر ایک بات سوجھی ہے، آپ کو شریک کر لوں: ’’تجھ پہ موقوف تھی حیات اپنی‘‘
 
موقوف کا استعمال بالکل درست ہے۔

استادِ محترم،

کہیں ایسا تو نہیں کہ میں 'موقوف' کو غلط معنوں میں استعمال کر گزرا ہوں؟ میں نے اسے منحصر کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔

آپ سے اور استاد محمد یعقوب آسی صاحب سے شرمندہ ہوں کہ بار بار وحی سوال کیے جا رہا ہوں۔ مگر سچ یہ ہے مجھے اب تک سمجھ نہ آ سکا کہ اس شعر میں غلطی کیا ہے۔ بہت کنفیوزڈ ہوں۔۔۔ امید ہے مدد فرمائیں گے۔
 
استادِ محترم،

کہیں ایسا تو نہیں کہ میں 'موقوف' کو غلط معنوں میں استعمال کر گزرا ہوں؟ میں نے اسے منحصر کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔

آپ سے اور استاد محمد یعقوب آسی صاحب سے شرمندہ ہوں کہ بار بار وحی سوال کیے جا رہا ہوں۔ مگر سچ یہ ہے مجھے اب تک سمجھ نہ آ سکا کہ اس شعر میں غلطی کیا ہے۔ بہت کنفیوزڈ ہوں۔۔۔ امید ہے مدد فرمائیں گے۔
وحی تو نازل ہوتی ہے اوپر سے :kissed:
اس موقوف کے متعدد مواقع ہیں۔ آپ کا مصرع درست ہے، دوسرے مصرعے پر بات الگ سے ہو چکی۔
 
Top