داڑھ درد کرے یا گاڑی کا پرزہ خراب ہوجائے ، معلومات عام مل جاتی ہیں۔ استفادہ کرنے والے استفادہ کرلیتے ہیں۔
مکینیک ہو، ڈینٹسٹ ہو، پائلٹ ہو یا ڈاکٹر۔ آپ کے پاس چوائس ہے۔ چاہے تو ان سے علاج کروا لیں۔ یا کسی متبادل شخص کے پاس چلے جائیں۔ مذکورہ افراد میں کوئی بھی ملاؤں کی طرح فتوے نہیں ٹھوکتا کہ میری ہی رائے برحق ہے، ایمان لاؤ نہیں تو گئے کام سے۔
ملا اپنی رائے دے ، اور اپنا راستہ ناپے۔ لوگوں پر اپنا فہم اور فتوے نافذ کرنا بند کرے!
كسى كمپنی كى گاڑی خريدى جائے تو بعض شرائط پر عمل كرنا پڑتا ہے ايك مخصوص عرصے بعد ان ہی سے سروس كروانا ہو گی، حادثے وغيرہ كى صورت ميں سپیئر پارٹس سے لے كر ضرورى مرمت تك سب كے ليے انہی سے رجوع كرنا ہو گا وغيرہ وغيرہ ۔ ۔ ۔آپ ٹویوٹا كى مصنوعات ميں فورڈ يا ہنڈا کے سپیئر پارٹس كيسے لگا سكتے ہیں؟
كسى ايك ڈینٹسٹ سے فلنگ كروا ليں تو بار بار اسى كے در دولت پر حاضرى دينا پڑتی ہے ، كسى سرجن سے درد دل كا مداوا كروا بيٹھیں تو آئندہ وہی طبيب ٹھہرتا ہے۔
سڑک پر گاڑی لے كر نكليں تو ٹريفك قوانين سے لے كر سگنلز تك سب كى پابندى كرنى پڑے گی يہ ممكن نہیں کہ حادثے يا چالان كى صورت ميں ٹريفك كانسٹیبل قانون كا حوالہ دے كر باز پرس كرے تو ہم اسے كہیں كہ مياں قوانين كى سارى كتاب ہميں حفظ ہے جاؤ ہمارا دماغ مت چاٹو ہمارى مرضى ہم قوانين پر عمل كريں يا نہ كريں !
حضرت علامہ محمد اقبال رحمت اللہ عليہ نے بھی عام انسان كو فہم قرآن سے نہیں روكا ، بلكہ ان نام نہاد مفسرين پر افسوس كا اظہار كيا ہے جو علم واصول تفسير سے ناواقف ہیں مگر اس عظيم ذمہ دارى ميں سر دے بیٹھتے ہیں۔
ياد رہے كہ علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ نو آبادياتى دور كى دانش ور شخصيت ہیں۔ اس دور كے بيشتر تراجم وتفاسير ايك خاص رنگ ليے ہوئے ہیں۔ اور اس بات سے علوم اسلاميہ کے ماہرين خوب واقف ہیں ۔
برسبيل تذكرہ قرآن مجيد اور احاديث مباركہ بغير علم كے بولنے والوں کے متعلق كيا كہتے ہیں ؟ ملاحظہ فرمائيے :
[ARABIC]قُلْ إِنَّمَا
حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَ
أَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ[/ARABIC]
ترجمہ: آپ فرمائیے کہ البتہ میرے رب نے صرف
حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو علانیہ ہیں اور جو پوشیده ہیں اور ہر گناه کی بات کو، اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو، اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ، اور اس بات کو کہ
تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات لگادو جس کو تم جانتے نہیں۔ سورت اعراف ، آيت نمبر 33، ترجمہ: مولانا جوناگڑھی
[ARABIC]عن عبدالله بن عمرو بن العاص قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء ، حتى إذا لم يبق عالما ، اتخذ الناس رؤوسا جهالا ، فسئلوا ، فأفتوا بغير علم ، فضلوا وأضلوا . متفق عليه[/ARABIC]
عبداللہ بن عمرو بن العاص فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (ترجمہ : مولانا داؤد راز دہلوى )
برصغير پاك وہند کے استاذ الاساتذہ شيخ الحديث علامہ عبدالغفار حسن رحمانى اپنی مشہور كتاب : انتخاب حديث ميں "دین کے معاملہ میں غیر ذمہ دارانہ کلام کی ممانعت" كے عنوان سے درج ذيل احاديث ذكر فرماتے ہیں :
[ARABIC]عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من قال في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار۔ وفي رواية من قال في القرآن بغير علم فليتبوأ مقعده من النار۔( رواه الترمذي، مشكوة، كتاب العلم ص 37)[/ARABIC]
حضرت ابن عباس رضي اللہ عنہ سے روايت ہے كہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : " جس نے قرآن ميں اپنی رائے سے بات كى وہ اپنا ٹھكانہ جہنم میں بنالے۔ اور ايك دوسرى روايت ميں ہے جس نے قرآن ميں علم كے بغير گفتگو كى وہ اپنا ٹھكانہ جہنم میں بنا لے۔"
[ARABIC]- عن عوف بن مالك الاشجعي قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يقص إلا أمير أو مأمور أو مختال[/ARABIC]۔(رواه أبو داؤد)
بروايت عوف بن مالك الاشجعي رضي الله عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: نہیں خطاب كرتا مگر امير يا مامور يا مغرور ۔
وعظ وتقرير اور خطاب كرنے كا حق امير كو ہے یا وہ جس كو امير اپنی طرف سے مقرر كر دے، ان دو صورتوں کے علاوہ اگر كوئى شخص اس منصب كو اختيار كرتا ہے تو وہ غير ذمہ دارانہ طرز عمل كا ارتكاب كرتا ہے۔ جس سے معاشرہ میں فساد وانتشار رونما ہوتا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالى ہمارے حكام، علمائے كرام اور عوام الناس كو ہدايت دے۔ ہم سب كو اپنے خوب صورت دين كا فہم اور اس كے متعلق سنجيدگی اور ذمہ دارى سے گفتگو كى توفيق عطا فرمائے۔