مظلوم طالبان اور ظالم عوام

ریاض

محفلین
سرزمین پاکستانی میں قتل و غارت گری کوئی نئی بات نہیں، قیام پاکستان سے پہلے بھی یہ سلسلہ جاری تھا اور اب بھی زور و شور سے جاری ہے، ہاں وقت کے ساتھ ساتھ نمونہ بھی جدید ہوتا چلا آیا ہے .

انجمن سپاہ صحابہ بنتے ہی ملک میں فرقہ واریت کی ایک نئی دوڑ شروع ہوگئی تھی جو آہستہ آہستہ مجاہدین کا تکلیف دہ سفر طے کرتی ہوئی طالبان تک آ پہنچی ہے . اس سفر میں مظلوم طالبان کو ہزاروں ظالم لوگوں کی لاشوں سے گزرنا پڑا ہے اور کئی مظلوم طالبان بھی اپنی قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں ، لیکن بڑی تعداد ان ظالم لوگوں کی ہے جن میں کوئی سامان ڈھونے والا ، کوئی جوتیاں گانٹھنے والا ، سبزی فروش، متوسط طبقے کا سفید پوش، حصول علم کے لیے اسکول جانے والا بچہ، بوڑھے بزرگ یا کمزور دل کی خواتین ، کچھ پولیس افسران ، کچھ سیاستدان ، سفارتکار ، ڈاکٹر ، انجینیر اور بزنس مین اور وہ صحافی جو ان شریف لوگوں کے خلاف لکھتے ہیں ، شامل ہیں .

یہ 'مظلوم طبقہ' کہتا ہے کہ وہ جہاد کر رہا ہے اور یہ ظالم سماج ان کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے . یہ وہی جہاد ہے جس کی فضیلت بیان کرتے ہوُے لشکر طیبہ کے امیر صاحب گلی کوچوں سے اکٹھے کیے ہوے نوجوانوں کو بتاتے ہیں کہ بعد از شہادت ان کا رتبہ کیا ہوگا ، جنت میں ان کو ستر منزہ و پاکیزہ اور انتہائی خوب صورت حوریں ، ایک ملکہ حور ، ہیرے جواہرات سے بنا ہوا تاج پہنایا جائے گا اور خاندان کے ستر لوگ شہید کے کوٹا پر جنت میں داخل ہو جائیں گے .

تو بھئی جن عظیم ہستیوں کو بقول امیر لشکر طیبہ اللہ پاک اتنے انعامات سے نوازے گا ان کی راہ میں روڑے اٹکا کے ہم نعوذ بااللہ اپنے رب کے کام میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں ، اور ان مظلوم لوگوں کو ہم دہشتگرد بھی کہہ رہے ہیں ، یہ تو سراسر ناانصافی ہے حضور!

یہ حضرات تو کمال کا کام کر رہے ہیں ، اس کام پر تو یہ انعام کے حقدار ہیں اور ہم بیوقوف لوگ انہیں دہشتگرد، شدت پسند انسانیت کے دشمن … اور پتا نہیں کیا کیا کہتے ہیں ، نا جی نا ! ان کے تو گلے میں پھولوں کے مالا ڈالنی چاہیے جو ہمارے بچوں بوڑھوں ، خواتیں کے چیتھڑے اڑاتے ہیں . امام بارگاہوں، مسجدوں ، مزارات کو خون میں نہلاتے ہیں ، خود کو صحیع ثابت کرنے کے لیے دلیل کے بجائے دھماکہ خیز مواد کا استعمال کرتے ہیں .

معروف مورخ و محقق ڈاکٹر مبارک علی دہشتگردی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں كہ دہشتگردی کی تاریخ میں کوئی ایک قسم نہیں رہی ہے بلکہ یہ وقت ، ضرورت اور حالات کے تحت بدلتی رہتی ہے اور دہشتگردی تیں شكل میں ہوتا ہے . دہشتگردی کی پہلی شكل صرف افراد کے خلاف استعمال ہوتا ہے . دہشتگردی کی دوسری شکل میں وہ مذہبی ، سیاسی اور سماجی تنظیمیں ملوث ہوتی ہیں جو ریاستی و حکومتی دہشت گردی شکار ہوتی تھیں . دہشتگردی کی تیسری قسم کولونیل ازم اور اس کے تسلط کے خلاف ابھری ہے .

بدقسمتی سے اوپر بیان کی گئی دہشگردی کی قسموں میں سے ایسی کوئی قسم نہیں جو پاکستان میں ہو بلکہ پاکستاں میں پائی جانے والی انوکھی دہشتگردی عجیب غریب فلسفہ یا گتھی ہے جس كو سلجھانا قدرے مشکل ہے اور عجیب بات تو یہ ہے کہ ملک کے کئی بڑے شہروں میں ان جہادی گروپوں کے مراکز قائم ہیں ، مگر کوئی بھی ان کے خلاف کاروائی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا . اب یقینا یہ سوال ذہن میں ابھر رہا ہو گا کہ آخر كب تك ان مظلوموں نے اتنی آسانی سے اپنا كاروبار كر كے رہینگے اور كب تك ہم ظالموں كو یہ مظلوم لوگ اپنی دہشتگردی كا شكار بنا كے رہینگے اور ایك بار پہر ، بدقسمتی سے میرے پاس اس سوال كا جواب نہیں ہے .
 

arifkarim

معطل
عجیب بات تو یہ ہے کہ ملک کے کئی بڑے شہروں میں ان جہادی گروپوں کے مراکز قائم ہیں ، مگر کوئی بھی ان کے خلاف کاروائی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا . اب یقینا یہ سوال ذہن میں ابھر رہا ہو گا کہ آخر كب تك ان مظلوموں نے اتنی آسانی سے اپنا كاروبار كر كے رہینگے اور كب تك ہم ظالموں كو یہ مظلوم لوگ اپنی دہشتگردی كا شكار بنا كے رہینگے اور ایك بار پہر ، بدقسمتی سے میرے پاس اس سوال كا جواب نہیں ہے .
اسکا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ اسلامی دہشت گردجہاد کی حکومتی سطح پر پابندی لگا دی جائے۔ اور ان تمام مراکز پر جہاں یہ جہادی ٹریننگ حاصل کرتے ہیں افواج پاکستان اپنی تحویل میں لے لیں۔ قوم پرستی اور اسلامی جہاد ایک نہیں ہو سکتی۔
 
Top