محمد احسن سمیع راحلؔ
محفلین
یہ بات ہر مسلمان نے لازما سنی اور پڑھی ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ کو عطا کیے گئے معجزات میں سب سے بڑا معجزہ قرآنِ کریم ہے۔
قرآنِ کریم کے معجزہ ہونے کی علمائے دین نے ہر دور میں اپنے اپنے ذوق کے مطابق مختلف توجیہات و تشریحات پیش کی ہیں، مثلاً یہ کہ دیگر کتب کے برعکس یہ کتاب حفظ کرنے میں آسان ہے اور نبی پاکﷺ کی بعثتِ مبارکہ کے بعد سے آج ہر دور میں اس کے کتاب کو حفظ کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود رہی ہے۔ یہ بھی کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود بھی اس کتاب کے متن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، اور قرآن کریم کے قدیم ترین نسخوں کی بازیابی کے بعد اس دعوے کی کسی حد تک سائنسی تصدیق بھی ہوچکی (اگرچہ ہم ایمانی معاملات کو سائنسی توجیہات پر موقوف کرنے کے بوجوہ قائل نہیں)۔ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اس کے متن میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ہونا خود اس کتاب کے دعوے کی دلیل ہے جس میں ربِ کائنات کا فرمانا ہے اس کی حفاظت کا ذمہ اس کا ہے۔ ثالثا، کچھ تاریخی واقعات کی حرف بہ حرف پیش گوئی کو بھی قرآنِ پاک کا اعجاز قرار دیا جاتا ہے، جیسے کہ رومیوں کا ساسانیوں سے شکست کے کچھ عرصے بعد ان پر دوبارہ غالب آجانا سب کی سب بلاشبہ اپنی جگہ درست ہیں۔ چونکہ یہ علمی مباحث ہیں اس لیے عوام کی اکثریت ان سے کما حقہ واقفیت نہیں رکھتی۔
اس طرح اور کئی توجیہات پیش کی جاسکتی ہے جو علمائے کرام نے قرآن کے معجزہ ہونے کے باب میں بیان کی ہیں، جنہیں خوفِ طوالت کے سبب یہاں نقل نہیں کیا جارہا۔ تاہم جو بات اعجازِ قرآن کے ذیل میں سب سے زیادہ بیان کی جاتی ہے وہ اس کی فصاحت و بلاغت ہے! یہ ایک ایسی بات ہے جو شاید غیر عرب مسلمانوں، اور خصوصا ہم برصغیر کے باسیوں کے لیے سمجھنا ذرا مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت کا معجزات کے بارے میں تصور محض خرقِ عادت افعال کے ظہور تک محدود ہے۔ اس لیے ہمیں آتشِ نمرود، عصائے موسیٰؑ، دمِ عیسیٰؑ، شق القمر وغیرہ جیسے معجزات تو آرام سے سمجھ آجاتے ہیں، لیکن قرآنِ کریم کا اعجاز اچھی طرح ہم پر واضح نہیں ہوتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو لوگ عربی سے واقف ہوتے ہیں، ان کا عربی زبان سے پہلا تعارف ہی قرآنی عربی کے ذریعے ہوتا ہے اور چونکہ عربی ہمارے معاشرے میں محض مذہبی زبان ہو کر رہ گئی ہے، اور مذہبی متون کا فہم حاصل کرنے کے لیے سیکھی سکھائی جاتی ہے، اس لیے ہم عام بول چال کی عربی اور عربی کے مختلف مقامی لہجوں سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف اس تحریر میں توجہ دلانا مقصود ہے۔
گزشتہ چار سال سے زائد ایک عرب ملک میں گزارنے اور عربی بولنے والوں کے ساتھ ہوئے انٹریکشنز (خصوصا عرب سوشل میڈیا کا جائزہ لینے کے بعد) مجھے قرآنِ کریم کا یہ اعجاز کچھ کچھ سمجھ آنے لگا ہے، اور اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ واقعی قرآن کی فصاحت و بلاغت ہی ہر توجیہ و تشریح سے بڑھ کر اس کا معجزہ ہے۔ کیسے؟ حقیقت یہ ہے کہ عربی ایک بہت متنوع اور گہری زبان ہے جس کے کئی مقامی لہجے ہیں، جن میں سے کچھ تو باہم قابلِ فہم بھی نہیں۔ مثلا مغربی لہجہ جو تونس، الجزائز، مراکش وغیرہ میں مستعمل ہے، وہ خلیجی یا مصری عربی بولنے والوں کے سمجھنا بہت دشوار ہے۔ چلیں یہ تو جغرافیائی طور پر بہت دور علاقے ہیں، خود جزیرۃ العرب میں ہی دیکھیں تو آپ کو کئی مقامی لہجے مل جائیں گے جن میں آپس میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ ان سب لہجوں کے اوپر ایک معیاری ڈائلکٹ ہے، جس کو ماڈرن اسٹینڈرڈ عربی، یا خود عربی زبان میں ’’فُصحیٰ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ڈائلکٹ ہے جو بطور مضمون اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے اور زیادہ تر فارمل کمیونیکیشن اسی ڈائلکٹ میں ہوتی ہے۔ جدید فصحیٰ قرآنی عربی کی ہی ایک نسبتاً سلیس شکل ہے جس کے قواعد کو کچھ آسان بنایا گیا ہے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس کی وکیبلری میں کچھ اضافے کیے گئے ہیں۔ دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ عام بول چال میں یہ لہجہ بالکل بھی استعمال نہیں کیا جاتا۔ اگر آپ عرب سوشل میڈیا کا جائز لیں تو پتہ چلتا ہے کہ لوگ زیادہ تر بات اپنے مقامی لہجوں میں ہی کرتے ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ فصحی ایک فصیح لہجہ ہے اور اس پر عبور رکھنا ہر کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اگر آپ گلیوں بازاروں میں کسی معمولی تعلیم یافتہ آدمی سے فصحی میں کچھ کہیں تو اکثر انہیں بات سمجھ ہی نہیں آتی، یا سمجھنے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔ میرے بہت کولیگز نے مجھے بتایا کہ انہیں اسکول کالج کی تعلیم کے دوران عربی سب سے مشکل مضمون لگتا تھا (کیونکہ نصاب میں فصحیٰ ہی پڑھائی جاتی ہے)۔
مقصد اس لمبی تمہید کا یہ عرض کرنا ہے کہ خود اہل زبان کے لیے ایک نسبتاً آسان معیاری ڈائلکٹ کو سمجھنا اور اس میں اظہار بیان کرنا ایک مشکل امر ہے، اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگ بھی اس پر قادر نہیں ہوتے۔ اب اس کو قرآنِ مجید کے تناظر میں دیکھیں کہ جس کی زبان فصاحت و بلاغت کے معاملے میں جدید فصحیٰ سے بھی کہیں گنا اعلیٰ درجہ کی ہے! جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اگر آپ عرب سوشل میڈیا کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ عرب لوگ عام بات چیت کے لیے کس قدر خام اور سادہ زبان استعمال کرتے ہیں، جبکہ جدید فصحیٰ میں اظہار خیال کرنے کے لیے ایک خاص علمی استعداد درکار ہوتی ہے۔ اب سوچیں کہ ہمارے سرکار دو عالم نبی پاک ﷺ، جنہوں نے اس دنیا میں کسی سے علم حاصل نہیں کیا، جن کو اللہ پاک نے اپنی حکمت کے تحت عمداً لکھنا پڑھنا (کم از کم معروف معنی میں) نہیں سکھایا ۔۔۔ انﷺ کی زبانِ مبارک سے ایسا کلام جاری ہوا جس کی فصاحت کا یہ عالم تھا کہ اسے دیکھ کر انﷺ کے دور کے بڑے بڑے شاعر بے ساختہ پکار اٹھے کہ یہ کسی انسان کا کلام ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔ سو ہمارے آقائے نامدار نبی الامی ﷺ کی زبان مبارک سے ایسی اعلیٰ و ارفع زبان پر مبنی کلام کا جاری ہونا، جو عام لوگ استعمال نہیں کرتے ۔۔۔ سوائے معجزے کے اور کچھ ہو سکتا ہے؟؟؟؟
اللھم صلی علی سیدنا و مولانا محمد و علی آلِ محمد و علی آلہ و اصحابہ و بارک وسلم
قرآنِ کریم کے معجزہ ہونے کی علمائے دین نے ہر دور میں اپنے اپنے ذوق کے مطابق مختلف توجیہات و تشریحات پیش کی ہیں، مثلاً یہ کہ دیگر کتب کے برعکس یہ کتاب حفظ کرنے میں آسان ہے اور نبی پاکﷺ کی بعثتِ مبارکہ کے بعد سے آج ہر دور میں اس کے کتاب کو حفظ کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود رہی ہے۔ یہ بھی کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود بھی اس کتاب کے متن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، اور قرآن کریم کے قدیم ترین نسخوں کی بازیابی کے بعد اس دعوے کی کسی حد تک سائنسی تصدیق بھی ہوچکی (اگرچہ ہم ایمانی معاملات کو سائنسی توجیہات پر موقوف کرنے کے بوجوہ قائل نہیں)۔ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اس کے متن میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ہونا خود اس کتاب کے دعوے کی دلیل ہے جس میں ربِ کائنات کا فرمانا ہے اس کی حفاظت کا ذمہ اس کا ہے۔ ثالثا، کچھ تاریخی واقعات کی حرف بہ حرف پیش گوئی کو بھی قرآنِ پاک کا اعجاز قرار دیا جاتا ہے، جیسے کہ رومیوں کا ساسانیوں سے شکست کے کچھ عرصے بعد ان پر دوبارہ غالب آجانا سب کی سب بلاشبہ اپنی جگہ درست ہیں۔ چونکہ یہ علمی مباحث ہیں اس لیے عوام کی اکثریت ان سے کما حقہ واقفیت نہیں رکھتی۔
اس طرح اور کئی توجیہات پیش کی جاسکتی ہے جو علمائے کرام نے قرآن کے معجزہ ہونے کے باب میں بیان کی ہیں، جنہیں خوفِ طوالت کے سبب یہاں نقل نہیں کیا جارہا۔ تاہم جو بات اعجازِ قرآن کے ذیل میں سب سے زیادہ بیان کی جاتی ہے وہ اس کی فصاحت و بلاغت ہے! یہ ایک ایسی بات ہے جو شاید غیر عرب مسلمانوں، اور خصوصا ہم برصغیر کے باسیوں کے لیے سمجھنا ذرا مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت کا معجزات کے بارے میں تصور محض خرقِ عادت افعال کے ظہور تک محدود ہے۔ اس لیے ہمیں آتشِ نمرود، عصائے موسیٰؑ، دمِ عیسیٰؑ، شق القمر وغیرہ جیسے معجزات تو آرام سے سمجھ آجاتے ہیں، لیکن قرآنِ کریم کا اعجاز اچھی طرح ہم پر واضح نہیں ہوتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو لوگ عربی سے واقف ہوتے ہیں، ان کا عربی زبان سے پہلا تعارف ہی قرآنی عربی کے ذریعے ہوتا ہے اور چونکہ عربی ہمارے معاشرے میں محض مذہبی زبان ہو کر رہ گئی ہے، اور مذہبی متون کا فہم حاصل کرنے کے لیے سیکھی سکھائی جاتی ہے، اس لیے ہم عام بول چال کی عربی اور عربی کے مختلف مقامی لہجوں سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف اس تحریر میں توجہ دلانا مقصود ہے۔
گزشتہ چار سال سے زائد ایک عرب ملک میں گزارنے اور عربی بولنے والوں کے ساتھ ہوئے انٹریکشنز (خصوصا عرب سوشل میڈیا کا جائزہ لینے کے بعد) مجھے قرآنِ کریم کا یہ اعجاز کچھ کچھ سمجھ آنے لگا ہے، اور اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ واقعی قرآن کی فصاحت و بلاغت ہی ہر توجیہ و تشریح سے بڑھ کر اس کا معجزہ ہے۔ کیسے؟ حقیقت یہ ہے کہ عربی ایک بہت متنوع اور گہری زبان ہے جس کے کئی مقامی لہجے ہیں، جن میں سے کچھ تو باہم قابلِ فہم بھی نہیں۔ مثلا مغربی لہجہ جو تونس، الجزائز، مراکش وغیرہ میں مستعمل ہے، وہ خلیجی یا مصری عربی بولنے والوں کے سمجھنا بہت دشوار ہے۔ چلیں یہ تو جغرافیائی طور پر بہت دور علاقے ہیں، خود جزیرۃ العرب میں ہی دیکھیں تو آپ کو کئی مقامی لہجے مل جائیں گے جن میں آپس میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ ان سب لہجوں کے اوپر ایک معیاری ڈائلکٹ ہے، جس کو ماڈرن اسٹینڈرڈ عربی، یا خود عربی زبان میں ’’فُصحیٰ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ڈائلکٹ ہے جو بطور مضمون اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے اور زیادہ تر فارمل کمیونیکیشن اسی ڈائلکٹ میں ہوتی ہے۔ جدید فصحیٰ قرآنی عربی کی ہی ایک نسبتاً سلیس شکل ہے جس کے قواعد کو کچھ آسان بنایا گیا ہے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس کی وکیبلری میں کچھ اضافے کیے گئے ہیں۔ دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ عام بول چال میں یہ لہجہ بالکل بھی استعمال نہیں کیا جاتا۔ اگر آپ عرب سوشل میڈیا کا جائز لیں تو پتہ چلتا ہے کہ لوگ زیادہ تر بات اپنے مقامی لہجوں میں ہی کرتے ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ فصحی ایک فصیح لہجہ ہے اور اس پر عبور رکھنا ہر کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اگر آپ گلیوں بازاروں میں کسی معمولی تعلیم یافتہ آدمی سے فصحی میں کچھ کہیں تو اکثر انہیں بات سمجھ ہی نہیں آتی، یا سمجھنے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔ میرے بہت کولیگز نے مجھے بتایا کہ انہیں اسکول کالج کی تعلیم کے دوران عربی سب سے مشکل مضمون لگتا تھا (کیونکہ نصاب میں فصحیٰ ہی پڑھائی جاتی ہے)۔
مقصد اس لمبی تمہید کا یہ عرض کرنا ہے کہ خود اہل زبان کے لیے ایک نسبتاً آسان معیاری ڈائلکٹ کو سمجھنا اور اس میں اظہار بیان کرنا ایک مشکل امر ہے، اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگ بھی اس پر قادر نہیں ہوتے۔ اب اس کو قرآنِ مجید کے تناظر میں دیکھیں کہ جس کی زبان فصاحت و بلاغت کے معاملے میں جدید فصحیٰ سے بھی کہیں گنا اعلیٰ درجہ کی ہے! جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اگر آپ عرب سوشل میڈیا کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ عرب لوگ عام بات چیت کے لیے کس قدر خام اور سادہ زبان استعمال کرتے ہیں، جبکہ جدید فصحیٰ میں اظہار خیال کرنے کے لیے ایک خاص علمی استعداد درکار ہوتی ہے۔ اب سوچیں کہ ہمارے سرکار دو عالم نبی پاک ﷺ، جنہوں نے اس دنیا میں کسی سے علم حاصل نہیں کیا، جن کو اللہ پاک نے اپنی حکمت کے تحت عمداً لکھنا پڑھنا (کم از کم معروف معنی میں) نہیں سکھایا ۔۔۔ انﷺ کی زبانِ مبارک سے ایسا کلام جاری ہوا جس کی فصاحت کا یہ عالم تھا کہ اسے دیکھ کر انﷺ کے دور کے بڑے بڑے شاعر بے ساختہ پکار اٹھے کہ یہ کسی انسان کا کلام ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔ سو ہمارے آقائے نامدار نبی الامی ﷺ کی زبان مبارک سے ایسی اعلیٰ و ارفع زبان پر مبنی کلام کا جاری ہونا، جو عام لوگ استعمال نہیں کرتے ۔۔۔ سوائے معجزے کے اور کچھ ہو سکتا ہے؟؟؟؟
اللھم صلی علی سیدنا و مولانا محمد و علی آلِ محمد و علی آلہ و اصحابہ و بارک وسلم
آخری تدوین: