ضیاء حیدری
محفلین
معراج النبی ﷺ وہ عظیم معجزہ ہے جس کی تصدیق قرآن حکیم بھی کرتا ہے۔ قرآن بھی حضور ﷺ کا ایک دائمی اور ابدی معجزہ ہے۔واقعہ معراج اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔واقعہ کی حقیقت سے انکار کرنے والے ابو جہل اور تصدیق کرنے والے سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کے لقب سے جانے گئے۔واقعہ معراج کا تعلق ایمان،ایقان اور وجدان سے ہے۔
واقعہ معراج اعلان نبوت کے دسویں سال اور مدینہ ہجرت سے ایک سال پہلے مکہ میں ماہ رجب کی ستائیسویں رات پیش آیا۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا۔ سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔ اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیا پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔
(بخاری شريف جلد اول صفحة: 56
مسلم شریف میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند کردیا۔
(مسلم شربف جلد اول صفحة: 92)
سینہ اقدس کے شق کئے جانے میں کئی حکمتیں ہیں۔ جن میں ایک حکمت یہ ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ شامل ہوجائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدار الہٰی کرنے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے۔
سفر معراج کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰ۔رَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيٰتِنَا.
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں‘‘۔
(بنی اسرائيل،17: 1)
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ وادی بطحا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ حضور یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے یہ آپ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔ نفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے۔ راستے میں ایک سرخ ٹیلا آتا ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ معراج کی رات میں سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس بھی آگیا جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کے لئے موجود ہے۔ حوروغلماں خوش آمدید کہنے کے لئے اور تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین استقبال کے لئے بے چین و بے قرار کھڑے تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر تشریف فرماہوئے جسے باب محمد( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا جاتا ہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ موجود تھا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر اس میں سوراخ کردیا اور براق کو اس میں باندھ دیا۔
(تفسير ابن کثير جلد3، ص7)
حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصیٰ میں داخل ہوتے ہیں۔ تمام انبیاء و رسل امام الانبیاء کی اقتداء میں دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نوری مخلوق کے جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ثم عرج بی پھر مجھے اوپر لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ کی انتہاء ہوتی وہاں براق پہلا قدم رکھتا۔ فوراً ہی پہلا آسمان آگیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دربان نے پوچھا کون ہے؟ جواب دیا جبرائیل! دربان نے پوچھا، من معک تمہارے ساتھ کون ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا حضرت محمد(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! دربان نے کہا: مرحبا دروازے انہی کے لئے کھولے جائیں گے۔ چنانچہ دروازہ کھول دیا گیا۔ آسمان اول پر حضرت آدم علیہ السلام نے حضور سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ دوسرے آسمان پر پہنچے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام نے، چوتھے آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام نے، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا اور خوش آمدید کہا۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اس کے بعد پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہٰی تک پہنچے۔ سدرہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کے علوم کی انتہاء ہے۔ فرشتوں نے اذن طلب کیا کہ اے اللہ تیرے محبوب تشریف لارہے ہیں، ان کے دیدار کی ہمیں اجازت عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام فرشتے سدرۃ المنتہٰی پر جمع ہوجائیں اور جب میرے محبوب کی سواری آئے تو سب زیارت کرلیں۔ چنانچہ ملائکہ سدرہ پر جمع ہوگئے اور جمال محمد ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھنے کے لئے سدرہ کو ڈھانک لیا۔
(درمنشور، جلد6، ص126)
سدرہ پر حضرت جبرائیل علیہ السلام رک گئے اور عرض کرنے لگے: یارسول اللہ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ہم سب کے لئے ایک جگہ مقرر ہے۔ اب اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلاکر رکھ دیں گے۔
حضور تاجدار انبیاء صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جبرائیل امین کو چھوڑ کر تنہا انوار و تجلیات کی منازل طے کرتے گئے۔ مواہب الدنیہ میں ہے کہ جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش کے قریب پہنچے تو آگے حجابات ہی حجابات تھے تمام پردے اٹھادیئے گئے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید اس طرح بیان فرماتا ہے:
فَاسْتَوٰیo وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعَلٰیo
(النجم: 6، 7)
’’پھر اُس (جلوہِ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا۔ اور وہ (محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سرور دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج آسمان بریں کے بلند کناروں پر پہنچے تو تجلی الہٰی متوجہ نمائش ہوئی۔ صاحب تفسیر روح البیان نے فرمایا کہ فاستوی کے معنی یہ ہیں کہ حضور سید عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افق اعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر جلوہ فرمایا۔
پھر وہ مبارک گھڑی بھی آگئی کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حریم الہٰی میں پہنچے اور اپنے سر کی آنکھوں سے عین عالم بیداری میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی۔ قرآن مجید محبوب و محب کی اس ملاقات کا منظر ان دلکش الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo
(النجم:8، 9)
’’پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔ پھر (جلوۂِ حق اور حبیبِ مکرّم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)‘‘۔
صاحب روح البیان فرماتے ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے قرب سے مشرف ہوئے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو اپنے قرب سے نوازا۔ (روح البیان)
جب حضور سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہ الہٰی میں پہنچے تو ارشاد فرمایا:
فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِهِ مَآ اَوْحٰی.
(النجم: 10)
’’پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی‘‘۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ وحی اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے محبوب کو ارشاد فرمائی درمیان میں کوئی وسیلہ نہ تھا۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی.
(النجم: 11)
’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں حضور سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب انور کی عظمت کا بیان ہے کہ شب معراج آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے انوار و تجلیات اور برکات الہٰی دیکھے حتی کہ اللہ تعالیٰ کے دیدار پر انوار سے مشرف ہوئے تو آنکھ نے جو دیکھا دل نے اس کی تصدیق کی یعنی آنکھ سے دیکھا اور دل نے گواہی دی اور اس دیکھنے میں شک و تردد اور وہم نے راہ نہ پائی۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنے محبوب کی آنکھوں کا ذکر فرماتا ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی.
(النجم:17)
’’اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)‘‘۔
اس آیت کریمہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں کا ذکر ہے کہ جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج کی رات اس مقام پر پہنچے جہاں سب کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں وہاں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دیدار الہٰی سے مشرف ہوئے تو اس موقع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں بائیں کہیں بھی نہیں دیکھا۔ نہ آپ کی آنکھیں بہکیں بلکہ خالق کائنات کے جلوؤں میں گم تھی۔ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مزید ارشاد فرماتا ہے:
لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰ يٰتِ رَبِّهِ الْکُبْرٰی.
(النجم: 1
’’بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘۔
اس آیت مقدسہ میں بتایا گیا ہے کہ معراج کی رات حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں ملک و ملکوت کے عجائب کو ملاحظہ فرمایا اور تمام معلومات غیبیہ کا آپ کو علم حاصل ہوگیا۔
(روح البيان)
رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
رايت ربی فی احسن صورة فوضع کفه بين کتفی فوجدت بردها...
’’میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا پھر اس نے میرے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا ید قدرت رکھا اس سے میں نے اپنے سینہ میں ٹھنڈک پائی اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا‘‘۔
(مشکوٰة شريف صفحة: 2
ایک موقع پر مزید ارشاد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے:
رايت ربی بعينی وقلبی
’’میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا‘‘۔
(مسلم شريف)
دیدار الہٰی کا ذکر ایک اور حدیث میں اس طرح فرمایا:
فخاطبنی ربی ورايتة بعينی بصری فاوحی.
’’میرے رب نے مجھ سے کلام فرمایا اور میں نے اپنے پروردگار کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور اس نے میری طرف وحی فرمائی‘‘۔
(صاوی صفحة: 32
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شب معراج حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سر کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ فرمایا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل، موسیٰ علیہ السلام کو کلام اور حضرت سیدالمرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دیدار کا اعزاز بخشا۔ حضرت امام احمد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قائل ہوں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ قسم کھاتے ہیں کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔
فخر دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شب معراج اللہ تعالیٰ نے تین تحفے عطا فرمائے۔ پہلا سورہ بقرہ کی آخری تین آیتیں۔ جن میں اسلامی عقائد ایمان کی تکمیل اور مصیبتوں کے ختم ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ دوسر اتحفہ یہ دیا گیا کہ امت محمدیہ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جو شرک نہ کرے گا وہ ضرور بخشا جائے گا۔ تیسرا تحفہ یہ کہ امت پر پچاس نمازیں فرض ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تینوں انعامات و تحائف کو لے کر اور جلوہ الہیٰ سے سرفراز ہوکر عرش و کرسی، لوح و قلم، جنت و دوزخ، عجائب و غرائب، اسرار و رموز کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ فرمانے کے بعد جب پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم واپسی کے لئے روانہ ہوئے تو چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا، کیا عطا ہوا؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت پر پچاس نمازوں کی فرضیت کا ذکر فرمایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نے اپنی قوم (بنی اسرائیل) پر خوب تجربہ کیا ہے۔ آپ کی امت یہ بار نہ اٹھاسکے گی۔ آپ واپس جایئے اور نماز میں کمی کرایئے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تشریف لے گئے اور دس نمازیں کم کرالیں۔ پھر ملاقات ہوئی اور موسیٰ علیہ السلام نے پھر کم کرانے کے لئے کہا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بارگاہ الہٰی میں پہنچے دس نمازیں کم کرالیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشوروں سے بار بار مہمان عرش نے بارگاہ رب العرش میں نماز میں کمی کی التجا کی کم ہوتے ہوتے پانچ وقت کی نماز رہ گئی اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اے محبوب! ہم اپنی بات بدلتے نہیں اگرچہ نمازیں تعداد میں پانچ وقت کی ہیں مگر ان کا ثواب دس گنا دیا جائے گا۔ میں آپ کی امت کو پانچ وقت کی نماز پر پچاس وقت کی نمازوں کا ثواب دوں گا‘‘۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر سوار ہوئے اور رات کی تاریکی میں مکہ معظمہ واپس تشریف لائے۔
(تفسير ابن کثير، جلد سوئم صفحه: 32)
واقعہ معراج اعلان نبوت کے دسویں سال اور مدینہ ہجرت سے ایک سال پہلے مکہ میں ماہ رجب کی ستائیسویں رات پیش آیا۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا۔ سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔ اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیا پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔
(بخاری شريف جلد اول صفحة: 56
مسلم شریف میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند کردیا۔
(مسلم شربف جلد اول صفحة: 92)
سینہ اقدس کے شق کئے جانے میں کئی حکمتیں ہیں۔ جن میں ایک حکمت یہ ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ شامل ہوجائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدار الہٰی کرنے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے۔
سفر معراج کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰ۔رَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰيٰتِنَا.
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں‘‘۔
(بنی اسرائيل،17: 1)
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ وادی بطحا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ حضور یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے یہ آپ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔ نفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے۔ راستے میں ایک سرخ ٹیلا آتا ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ معراج کی رات میں سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس بھی آگیا جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کے لئے موجود ہے۔ حوروغلماں خوش آمدید کہنے کے لئے اور تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین استقبال کے لئے بے چین و بے قرار کھڑے تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر تشریف فرماہوئے جسے باب محمد( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا جاتا ہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ موجود تھا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر اس میں سوراخ کردیا اور براق کو اس میں باندھ دیا۔
(تفسير ابن کثير جلد3، ص7)
حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد اقصیٰ میں داخل ہوتے ہیں۔ تمام انبیاء و رسل امام الانبیاء کی اقتداء میں دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نوری مخلوق کے جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ثم عرج بی پھر مجھے اوپر لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ کی انتہاء ہوتی وہاں براق پہلا قدم رکھتا۔ فوراً ہی پہلا آسمان آگیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دربان نے پوچھا کون ہے؟ جواب دیا جبرائیل! دربان نے پوچھا، من معک تمہارے ساتھ کون ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا حضرت محمد(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! دربان نے کہا: مرحبا دروازے انہی کے لئے کھولے جائیں گے۔ چنانچہ دروازہ کھول دیا گیا۔ آسمان اول پر حضرت آدم علیہ السلام نے حضور سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ دوسرے آسمان پر پہنچے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام نے، چوتھے آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام نے، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا اور خوش آمدید کہا۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اس کے بعد پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہٰی تک پہنچے۔ سدرہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کے علوم کی انتہاء ہے۔ فرشتوں نے اذن طلب کیا کہ اے اللہ تیرے محبوب تشریف لارہے ہیں، ان کے دیدار کی ہمیں اجازت عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام فرشتے سدرۃ المنتہٰی پر جمع ہوجائیں اور جب میرے محبوب کی سواری آئے تو سب زیارت کرلیں۔ چنانچہ ملائکہ سدرہ پر جمع ہوگئے اور جمال محمد ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھنے کے لئے سدرہ کو ڈھانک لیا۔
(درمنشور، جلد6، ص126)
سدرہ پر حضرت جبرائیل علیہ السلام رک گئے اور عرض کرنے لگے: یارسول اللہ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ہم سب کے لئے ایک جگہ مقرر ہے۔ اب اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلاکر رکھ دیں گے۔
حضور تاجدار انبیاء صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جبرائیل امین کو چھوڑ کر تنہا انوار و تجلیات کی منازل طے کرتے گئے۔ مواہب الدنیہ میں ہے کہ جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش کے قریب پہنچے تو آگے حجابات ہی حجابات تھے تمام پردے اٹھادیئے گئے۔ اس واقعہ کو قرآن مجید اس طرح بیان فرماتا ہے:
فَاسْتَوٰیo وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعَلٰیo
(النجم: 6، 7)
’’پھر اُس (جلوہِ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا۔ اور وہ (محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سرور دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج آسمان بریں کے بلند کناروں پر پہنچے تو تجلی الہٰی متوجہ نمائش ہوئی۔ صاحب تفسیر روح البیان نے فرمایا کہ فاستوی کے معنی یہ ہیں کہ حضور سید عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افق اعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر جلوہ فرمایا۔
پھر وہ مبارک گھڑی بھی آگئی کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حریم الہٰی میں پہنچے اور اپنے سر کی آنکھوں سے عین عالم بیداری میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی۔ قرآن مجید محبوب و محب کی اس ملاقات کا منظر ان دلکش الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo
(النجم:8، 9)
’’پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔ پھر (جلوۂِ حق اور حبیبِ مکرّم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)‘‘۔
صاحب روح البیان فرماتے ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے قرب سے مشرف ہوئے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو اپنے قرب سے نوازا۔ (روح البیان)
جب حضور سرور کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہ الہٰی میں پہنچے تو ارشاد فرمایا:
فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِهِ مَآ اَوْحٰی.
(النجم: 10)
’’پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی‘‘۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ وحی اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے محبوب کو ارشاد فرمائی درمیان میں کوئی وسیلہ نہ تھا۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی.
(النجم: 11)
’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا‘‘۔
اس آیت مبارکہ میں حضور سرور کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب انور کی عظمت کا بیان ہے کہ شب معراج آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے انوار و تجلیات اور برکات الہٰی دیکھے حتی کہ اللہ تعالیٰ کے دیدار پر انوار سے مشرف ہوئے تو آنکھ نے جو دیکھا دل نے اس کی تصدیق کی یعنی آنکھ سے دیکھا اور دل نے گواہی دی اور اس دیکھنے میں شک و تردد اور وہم نے راہ نہ پائی۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنے محبوب کی آنکھوں کا ذکر فرماتا ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی.
(النجم:17)
’’اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)‘‘۔
اس آیت کریمہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں کا ذکر ہے کہ جب آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شب معراج کی رات اس مقام پر پہنچے جہاں سب کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں وہاں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دیدار الہٰی سے مشرف ہوئے تو اس موقع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں بائیں کہیں بھی نہیں دیکھا۔ نہ آپ کی آنکھیں بہکیں بلکہ خالق کائنات کے جلوؤں میں گم تھی۔ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مزید ارشاد فرماتا ہے:
لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰ يٰتِ رَبِّهِ الْکُبْرٰی.
(النجم: 1
’’بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘۔
اس آیت مقدسہ میں بتایا گیا ہے کہ معراج کی رات حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں ملک و ملکوت کے عجائب کو ملاحظہ فرمایا اور تمام معلومات غیبیہ کا آپ کو علم حاصل ہوگیا۔
(روح البيان)
رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
رايت ربی فی احسن صورة فوضع کفه بين کتفی فوجدت بردها...
’’میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا پھر اس نے میرے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا ید قدرت رکھا اس سے میں نے اپنے سینہ میں ٹھنڈک پائی اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا‘‘۔
(مشکوٰة شريف صفحة: 2
ایک موقع پر مزید ارشاد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے:
رايت ربی بعينی وقلبی
’’میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا‘‘۔
(مسلم شريف)
دیدار الہٰی کا ذکر ایک اور حدیث میں اس طرح فرمایا:
فخاطبنی ربی ورايتة بعينی بصری فاوحی.
’’میرے رب نے مجھ سے کلام فرمایا اور میں نے اپنے پروردگار کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور اس نے میری طرف وحی فرمائی‘‘۔
(صاوی صفحة: 32
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شب معراج حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سر کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ فرمایا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل، موسیٰ علیہ السلام کو کلام اور حضرت سیدالمرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دیدار کا اعزاز بخشا۔ حضرت امام احمد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قائل ہوں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ قسم کھاتے ہیں کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔
فخر دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شب معراج اللہ تعالیٰ نے تین تحفے عطا فرمائے۔ پہلا سورہ بقرہ کی آخری تین آیتیں۔ جن میں اسلامی عقائد ایمان کی تکمیل اور مصیبتوں کے ختم ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ دوسر اتحفہ یہ دیا گیا کہ امت محمدیہ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جو شرک نہ کرے گا وہ ضرور بخشا جائے گا۔ تیسرا تحفہ یہ کہ امت پر پچاس نمازیں فرض ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تینوں انعامات و تحائف کو لے کر اور جلوہ الہیٰ سے سرفراز ہوکر عرش و کرسی، لوح و قلم، جنت و دوزخ، عجائب و غرائب، اسرار و رموز کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ فرمانے کے بعد جب پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم واپسی کے لئے روانہ ہوئے تو چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا، کیا عطا ہوا؟ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت پر پچاس نمازوں کی فرضیت کا ذکر فرمایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نے اپنی قوم (بنی اسرائیل) پر خوب تجربہ کیا ہے۔ آپ کی امت یہ بار نہ اٹھاسکے گی۔ آپ واپس جایئے اور نماز میں کمی کرایئے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تشریف لے گئے اور دس نمازیں کم کرالیں۔ پھر ملاقات ہوئی اور موسیٰ علیہ السلام نے پھر کم کرانے کے لئے کہا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بارگاہ الہٰی میں پہنچے دس نمازیں کم کرالیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشوروں سے بار بار مہمان عرش نے بارگاہ رب العرش میں نماز میں کمی کی التجا کی کم ہوتے ہوتے پانچ وقت کی نماز رہ گئی اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اے محبوب! ہم اپنی بات بدلتے نہیں اگرچہ نمازیں تعداد میں پانچ وقت کی ہیں مگر ان کا ثواب دس گنا دیا جائے گا۔ میں آپ کی امت کو پانچ وقت کی نماز پر پچاس وقت کی نمازوں کا ثواب دوں گا‘‘۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر سوار ہوئے اور رات کی تاریکی میں مکہ معظمہ واپس تشریف لائے۔
(تفسير ابن کثير، جلد سوئم صفحه: 32)