نور وجدان
لائبریرین
بندگی کیا ہے ؟ کیا کوئی عمل ہے ؟ کیا نیت ہے ؟ کیا کسی نیت سے ملا اجر ہے؟ بندگی کی تشریح کیا ممکن ہے؟
جذبات کے یہ سمندر ہیں ، میرے افکار کے سمندر میں ذات غوطہ زن ہوئی اور اس غوطہ نما ذات نے سیپ نکالے ۔ ان سیپوں کو جب جانچا تو پایا رازِ نہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تُو ۔۔۔۔۔۔۔ تُو ۔۔۔ تو "ہر جگہ " ۔۔۔۔"جہاں تُو" ، وُہی اک جہاں ۔۔۔تُو رب العالمین ۔۔۔ الحمد اللہ ۔۔ قران پاک کی پہلی سورہ میں سب کہتے ہیں الحمد للہِ الرب العالمین ۔۔۔ اسکی تعریف انسان سے ممکن نہیں مگر ہاتھ دعا کو اٹھتے کہتے ہیں کہ مالک تو رب العالمین ہے
ہستی کا دُھواں خوشبو بنتا بکھرتا ہے ، خوشبو سندیسہ بنتی ہے ، عکس مکمل ہوتا جاتا ہے ۔۔ ارتقائی عمل ایسا ہے جیسا کہ اک گول شیشیہ ہے فلک سے جلوہ نما ہوا ، فلک سے اوپر جہاں کی تمثیل اک کمپیوٹر کی سی جہاں پر روشنیوں و تجلیات کا نظام ہے اور دل کی مثال بھی گول آئنے کی سی ہے یوں سمجھے اک شعاع وہاں سے پہنچتی ہے جیسے پہلی تاریخ کا چاند آہستہ آہستہ چودھویں کا چاند بنتا جاتا ہے ،یہ عمل ہر روح کے لیے جاری رہتا ہے ، وہاں سے روشنی دی ، جتنی روشنی ملی ، اتنی ہی مثبیت ملی
جوں جوں پیالہ بھرتا گیا ، توں توں عکس مکمل ہوگیا ، عبدیت مل گئی ، عبدیت مل گئی تو معراج حاصل ہوگئی
جب درد لا دوا ہوجائے ، تو ہم کیا کریں۔۔۔!
جب عشق عین و لا ہوجائے تو ہم کیا کریں۔۔۔!
عشق ،کسی بھی مظہر کی علامت میں ڈھلتا ہے وہ علامت "مٹی کا پتلا" انسان بھی ہوتا ہے ۔ جیسے جیسے سورج روشن ہوتا ہے تو اس سورج کی روشنی میں چودھویں کا چاند دکھتا ہے ، منظر نکھرجاتا ہے ، ہوا کا سندیہ ہوا کہ چلو پرواز کریں۔۔۔۔،
ہوا سے پوچھا گیا کہ پرواز کس جہان کی ؟ بڑی آس سے پوچھا کیا مسجد اقصی کی؟
ہوا نے جواب دیا کہ ہمیں کیا پتا ؟ ہوا نے آندھی تشکیل دے دی ۔۔ اپنا ٹھکانہ نہ رہا ۔۔ بے منزل خزاں کے پَتے کی مانند ہوا کے لَے پر اڑتے جائیں ، ذرے کی کیا اوقات سائیں ۔ ذرے کو جو اجال دیتا ہے ، وہی ہستی کو کمال دیتا ہے۔۔۔ معراج ہمیں ہمارے ہادی مرسل ، سچے سائیں نبی پاکﷺ کی بدولت ملی ، کہ ہماری روح کے لیے ویسے ہی نشانیاں بکھری ہیں ۔۔۔ بندگی کے بعد عکس کامل ہوتا ہے اور شبیہ مکمل ہوجائے تو فرق نہیں رہتا ۔۔
فرق بس پیالے کے سائز کا رہتا ہے ۔۔۔ یہ عطا ہوتی ہے ، جتنا پیمانہ بڑا ہوتا ہے اتنی کثرت سے جام ملتا ہے ، اتنی کثرت سے دل ویران ہوتا ہے ، ویرانے میں نقطہِ حرف کے نمو پانے سے مرکزیت ملتی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تشنگی ہر اک ذات میں ہے ، پیاس علم کی بڑی ہے ، ذات کے صحرا میں کنواں نہیں ملتا ۔۔۔! پانی کون پلائے گاَ ؟ کس کے پاس عظمت کے ایسے نشان جو ہمیں دے دے عبدیت کا احساس ، معراج کا وہ احساس جو ہم برسوں سے تلاس کیے جارہے ہیں ؟
یہ کیسی تلاش ہے؟ یہ کیسا سفر ہے جس میں ذات ایسا محسوس ہو کہ کوئل کی مانند گھومتی جارہی ہے ۔۔۔ کوئی نقطہ پانا چاہتی ہے !نقطہ حرف کو پانے کی کوشش میں کہاں سے یہ کوئل شروع ہوا ۔۔۔۔۔۔۔اسکا احساس ہی نہ ہوا۔۔۔۔ نقطہ آغاز ہی میرا نقطہ اختتام ہے ۔۔شاید یہی عبدیت ہے ، یہی سمندر ہے تلاطم کا ، یہی عکس ہے نہی کا کہ امر اس کا ہوتا ہے ، موت واقع ہوتی ہے ، وہ موت جس کو قران پاک میں لیل سے تعبیر کیا گیا ، جب لیل چھاجاتی ہے ۔۔۔ تو وہ خشیت کی چادر باری تعالیٰ نے پہلی وحی کے وقت نازل کی اور وہ سانچہ جس میں ہر عبد کو ڈھلنا ہوتا ہے ، اک ارتقائی عمل ہے جسکو ہم کہیں تو ایسے ۔۔۔۔ تب مزمل سے مدثر کا فرق ختم ہوجاتا ہے ، تب یسین کے مقام پر ایک حیرت کا سماں ہوتا ہے
علم کی لگن جو تجسس کے مقام پر جو ذات میں سوئی کو ہلاتی رہتی ہے ، بے تاب کیے دیتی ہے ، وہ ذات کی تکمیل تک بے چین رکھتی ہے ، یہ بے چینی ، آتش صفتی ، سیمابی کیفیت ، لامحدودیت ۔۔محدودیت میں سب اس نقطہ حرف کی پیش خیمہ ہے ، وہ جو ذات کی سرنگوں میں تہ در تہ مٹی کے تودوں تلے دبا ہے۔۔۔ جیسے برسوں کسی کوئلے کو بھی دفن کرو تو وہ ہیرہ ہو جائے ، وہی ہیرہ ہر ذات کی تلاش ہے وہ ہی ہر اک کی کامل ذات ہے ، انسان سارے بے چین رہتے ہیں جبتک کہ وہ کامل ذات کی تشکیل نہ پالیں ۔۔۔۔۔ جس کو عشق ہوگیا وہ ضم ہوگیا ، مکمل نفی اک سعی ہے ۔ لیس الانسان الا ما سعی ۔۔۔۔ ہماری سعی کا نقطہ سائنسی ہو ، تخیلاتی ہو ، وجدانی ہو ۔۔یہ سعی ، اس کی سمت ۔۔ہمارے افکار کے مطابق ذات کے کمپس پر سمت کا تعین کیے دیتی ہے ۔۔۔ یہی آیت رہ رہ کے میرے ذہن پر ہتھوڑے کی مانند برستی ہے
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1)
۔۔۔ سبحان الذی ۔۔۔ پاک ہے وہ ذات ، پاک ہے وہ ہر شرک سے کہ سب سے اولی وہی ہے ، بعد از خدا بزرگ توئیﷺ قصہ مختصر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعبدہ ۔۔۔ بندگی کی کامل مثال محمد ﷺ ہیں ، وہ تمثال گر کی مکمل تمثیل ہیں ، وہ مثال جس کو تراش کے آئنہ خود مسکرا ٹھا ، آئنے کو فخر ہوا ظاہر پر بھی ،باطن پر بھی ، وہ مثال اک جلوے کی مثال ، جلوے پر جب جلوہ ہوا تو آئنہ اس قدر نازاں تھا کہ حرف نہیں ، بس اس ناز میں بھی اک حجاب تھا ، اس ناز و حجاب کی قسم وہ ذات پاک ہے ہر کس شرک سے ، کہ اس کی پھر بھی کوئی مثال نہیں ۔ لیس کمثل شئی ۔۔۔۔۔ جس نے بے مثال خیال ک و نمو دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لے گئی مسجد احرام سے مسجد اقصی کی جانب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات میں ۔۔۔ رات بھی کیا ، خواب مکمل موت کی سی کیفیت کہ جب موت ہوگئی عارضی طور گویا وقت روح کے لیے ماوراء ہوگیا ، وہ وقت جب وقت جمع ہوگئے، جہاں تمام مثالیں اکٹھی ہوئیں ، کوئی روح اللہ تو کوئی کلیم اللہ تو کوئی ابتدائے حرف کا جمال ، تو کوئی کمال کی مثال، تو کوئی روح میں چھپے اسرار کی وحی ، سب کی ہوئی امام الانبیاء سے ہوئی ملاقات ، سب نے دیکھا کہ وہ ذات جو ان کے پاس آئی وہ کتنی کامل ہے ، انہوں نے محسوس کیا کہ وہ ذات کے کس حصے میں کتنے مکمل اور کس کس حصے میں مکمل جناب سید مصطفی ﷺ ۔۔۔،تو سب نے نماز قائم کی ، مان لیا آپ کو امام کہ سب کی اپنی اپنی شبیہ کا عکس جناب سید عالی مجتبی ﷺ میں چھپا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب نے مان لیا آپ کو مکمل تو جب گئے معراج کو تو دیدار رب ہوگیا ، دیدار کے بعد جب واپس آئے تو ملاقات ہوئی انبیاء سے تو سب نے اپنی اپنی تجلی کو جناب سید کائنات ﷺ میں پہچانا اور دیدار رب کرلیا ، گویا رب کا دیدار بھی سید کائنات ﷺ کی دید میں ہے ۔۔۔۔سبحان اللہ ، پاک ہے وہ ذات جس نے مسجد حرام سے لے کے مسجد اقصی تک اپنے انبیاء کو مختلف تجلیات سے تشکیل دیتے بھیجا اور اور ان نشانیوں میں کامل سید عالی شہ ابرار امام عالی سرور کائنات امام عالی میرے آقا ، رحمت دو جہاں تاجدار انبیاء رفعت زماں ، ہادی ، نور حق کی سچی نشانی ہیں ۔۔۔ ان کو سلام واجب ۔۔۔
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔۔كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ۔۔.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔۔كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ۔۔.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔
بیشک اس نے دیکھنے والوں کے لیے نشانیاں رکھی ہوئی ہیں ، وہ نشانیاں جو ہمارے پیامبر ﷺ نے دیکھیں ، وہ دیکھنے والے دید نے بھی دیکھنے کی سعی کی تو وہ بھی دیکھے گی ، اس لیے ہمارے نبی پاک ﷺ پر ایمان ہر عیسائی ، یہودی فرض ہے کہ وہ کمال کی تجلیات تو آپ ﷺ کے امتی ہونے کے باعث ہم دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔
جذبات کے یہ سمندر ہیں ، میرے افکار کے سمندر میں ذات غوطہ زن ہوئی اور اس غوطہ نما ذات نے سیپ نکالے ۔ ان سیپوں کو جب جانچا تو پایا رازِ نہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تُو ۔۔۔۔۔۔۔ تُو ۔۔۔ تو "ہر جگہ " ۔۔۔۔"جہاں تُو" ، وُہی اک جہاں ۔۔۔تُو رب العالمین ۔۔۔ الحمد اللہ ۔۔ قران پاک کی پہلی سورہ میں سب کہتے ہیں الحمد للہِ الرب العالمین ۔۔۔ اسکی تعریف انسان سے ممکن نہیں مگر ہاتھ دعا کو اٹھتے کہتے ہیں کہ مالک تو رب العالمین ہے
ہستی کا دُھواں خوشبو بنتا بکھرتا ہے ، خوشبو سندیسہ بنتی ہے ، عکس مکمل ہوتا جاتا ہے ۔۔ ارتقائی عمل ایسا ہے جیسا کہ اک گول شیشیہ ہے فلک سے جلوہ نما ہوا ، فلک سے اوپر جہاں کی تمثیل اک کمپیوٹر کی سی جہاں پر روشنیوں و تجلیات کا نظام ہے اور دل کی مثال بھی گول آئنے کی سی ہے یوں سمجھے اک شعاع وہاں سے پہنچتی ہے جیسے پہلی تاریخ کا چاند آہستہ آہستہ چودھویں کا چاند بنتا جاتا ہے ،یہ عمل ہر روح کے لیے جاری رہتا ہے ، وہاں سے روشنی دی ، جتنی روشنی ملی ، اتنی ہی مثبیت ملی
جوں جوں پیالہ بھرتا گیا ، توں توں عکس مکمل ہوگیا ، عبدیت مل گئی ، عبدیت مل گئی تو معراج حاصل ہوگئی
جب درد لا دوا ہوجائے ، تو ہم کیا کریں۔۔۔!
جب عشق عین و لا ہوجائے تو ہم کیا کریں۔۔۔!
عشق ،کسی بھی مظہر کی علامت میں ڈھلتا ہے وہ علامت "مٹی کا پتلا" انسان بھی ہوتا ہے ۔ جیسے جیسے سورج روشن ہوتا ہے تو اس سورج کی روشنی میں چودھویں کا چاند دکھتا ہے ، منظر نکھرجاتا ہے ، ہوا کا سندیہ ہوا کہ چلو پرواز کریں۔۔۔۔،
ہوا سے پوچھا گیا کہ پرواز کس جہان کی ؟ بڑی آس سے پوچھا کیا مسجد اقصی کی؟
ہوا نے جواب دیا کہ ہمیں کیا پتا ؟ ہوا نے آندھی تشکیل دے دی ۔۔ اپنا ٹھکانہ نہ رہا ۔۔ بے منزل خزاں کے پَتے کی مانند ہوا کے لَے پر اڑتے جائیں ، ذرے کی کیا اوقات سائیں ۔ ذرے کو جو اجال دیتا ہے ، وہی ہستی کو کمال دیتا ہے۔۔۔ معراج ہمیں ہمارے ہادی مرسل ، سچے سائیں نبی پاکﷺ کی بدولت ملی ، کہ ہماری روح کے لیے ویسے ہی نشانیاں بکھری ہیں ۔۔۔ بندگی کے بعد عکس کامل ہوتا ہے اور شبیہ مکمل ہوجائے تو فرق نہیں رہتا ۔۔
فرق بس پیالے کے سائز کا رہتا ہے ۔۔۔ یہ عطا ہوتی ہے ، جتنا پیمانہ بڑا ہوتا ہے اتنی کثرت سے جام ملتا ہے ، اتنی کثرت سے دل ویران ہوتا ہے ، ویرانے میں نقطہِ حرف کے نمو پانے سے مرکزیت ملتی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تشنگی ہر اک ذات میں ہے ، پیاس علم کی بڑی ہے ، ذات کے صحرا میں کنواں نہیں ملتا ۔۔۔! پانی کون پلائے گاَ ؟ کس کے پاس عظمت کے ایسے نشان جو ہمیں دے دے عبدیت کا احساس ، معراج کا وہ احساس جو ہم برسوں سے تلاس کیے جارہے ہیں ؟
یہ کیسی تلاش ہے؟ یہ کیسا سفر ہے جس میں ذات ایسا محسوس ہو کہ کوئل کی مانند گھومتی جارہی ہے ۔۔۔ کوئی نقطہ پانا چاہتی ہے !نقطہ حرف کو پانے کی کوشش میں کہاں سے یہ کوئل شروع ہوا ۔۔۔۔۔۔۔اسکا احساس ہی نہ ہوا۔۔۔۔ نقطہ آغاز ہی میرا نقطہ اختتام ہے ۔۔شاید یہی عبدیت ہے ، یہی سمندر ہے تلاطم کا ، یہی عکس ہے نہی کا کہ امر اس کا ہوتا ہے ، موت واقع ہوتی ہے ، وہ موت جس کو قران پاک میں لیل سے تعبیر کیا گیا ، جب لیل چھاجاتی ہے ۔۔۔ تو وہ خشیت کی چادر باری تعالیٰ نے پہلی وحی کے وقت نازل کی اور وہ سانچہ جس میں ہر عبد کو ڈھلنا ہوتا ہے ، اک ارتقائی عمل ہے جسکو ہم کہیں تو ایسے ۔۔۔۔ تب مزمل سے مدثر کا فرق ختم ہوجاتا ہے ، تب یسین کے مقام پر ایک حیرت کا سماں ہوتا ہے
علم کی لگن جو تجسس کے مقام پر جو ذات میں سوئی کو ہلاتی رہتی ہے ، بے تاب کیے دیتی ہے ، وہ ذات کی تکمیل تک بے چین رکھتی ہے ، یہ بے چینی ، آتش صفتی ، سیمابی کیفیت ، لامحدودیت ۔۔محدودیت میں سب اس نقطہ حرف کی پیش خیمہ ہے ، وہ جو ذات کی سرنگوں میں تہ در تہ مٹی کے تودوں تلے دبا ہے۔۔۔ جیسے برسوں کسی کوئلے کو بھی دفن کرو تو وہ ہیرہ ہو جائے ، وہی ہیرہ ہر ذات کی تلاش ہے وہ ہی ہر اک کی کامل ذات ہے ، انسان سارے بے چین رہتے ہیں جبتک کہ وہ کامل ذات کی تشکیل نہ پالیں ۔۔۔۔۔ جس کو عشق ہوگیا وہ ضم ہوگیا ، مکمل نفی اک سعی ہے ۔ لیس الانسان الا ما سعی ۔۔۔۔ ہماری سعی کا نقطہ سائنسی ہو ، تخیلاتی ہو ، وجدانی ہو ۔۔یہ سعی ، اس کی سمت ۔۔ہمارے افکار کے مطابق ذات کے کمپس پر سمت کا تعین کیے دیتی ہے ۔۔۔ یہی آیت رہ رہ کے میرے ذہن پر ہتھوڑے کی مانند برستی ہے
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (1)
۔۔۔ سبحان الذی ۔۔۔ پاک ہے وہ ذات ، پاک ہے وہ ہر شرک سے کہ سب سے اولی وہی ہے ، بعد از خدا بزرگ توئیﷺ قصہ مختصر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعبدہ ۔۔۔ بندگی کی کامل مثال محمد ﷺ ہیں ، وہ تمثال گر کی مکمل تمثیل ہیں ، وہ مثال جس کو تراش کے آئنہ خود مسکرا ٹھا ، آئنے کو فخر ہوا ظاہر پر بھی ،باطن پر بھی ، وہ مثال اک جلوے کی مثال ، جلوے پر جب جلوہ ہوا تو آئنہ اس قدر نازاں تھا کہ حرف نہیں ، بس اس ناز میں بھی اک حجاب تھا ، اس ناز و حجاب کی قسم وہ ذات پاک ہے ہر کس شرک سے ، کہ اس کی پھر بھی کوئی مثال نہیں ۔ لیس کمثل شئی ۔۔۔۔۔ جس نے بے مثال خیال ک و نمو دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لے گئی مسجد احرام سے مسجد اقصی کی جانب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات میں ۔۔۔ رات بھی کیا ، خواب مکمل موت کی سی کیفیت کہ جب موت ہوگئی عارضی طور گویا وقت روح کے لیے ماوراء ہوگیا ، وہ وقت جب وقت جمع ہوگئے، جہاں تمام مثالیں اکٹھی ہوئیں ، کوئی روح اللہ تو کوئی کلیم اللہ تو کوئی ابتدائے حرف کا جمال ، تو کوئی کمال کی مثال، تو کوئی روح میں چھپے اسرار کی وحی ، سب کی ہوئی امام الانبیاء سے ہوئی ملاقات ، سب نے دیکھا کہ وہ ذات جو ان کے پاس آئی وہ کتنی کامل ہے ، انہوں نے محسوس کیا کہ وہ ذات کے کس حصے میں کتنے مکمل اور کس کس حصے میں مکمل جناب سید مصطفی ﷺ ۔۔۔،تو سب نے نماز قائم کی ، مان لیا آپ کو امام کہ سب کی اپنی اپنی شبیہ کا عکس جناب سید عالی مجتبی ﷺ میں چھپا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب نے مان لیا آپ کو مکمل تو جب گئے معراج کو تو دیدار رب ہوگیا ، دیدار کے بعد جب واپس آئے تو ملاقات ہوئی انبیاء سے تو سب نے اپنی اپنی تجلی کو جناب سید کائنات ﷺ میں پہچانا اور دیدار رب کرلیا ، گویا رب کا دیدار بھی سید کائنات ﷺ کی دید میں ہے ۔۔۔۔سبحان اللہ ، پاک ہے وہ ذات جس نے مسجد حرام سے لے کے مسجد اقصی تک اپنے انبیاء کو مختلف تجلیات سے تشکیل دیتے بھیجا اور اور ان نشانیوں میں کامل سید عالی شہ ابرار امام عالی سرور کائنات امام عالی میرے آقا ، رحمت دو جہاں تاجدار انبیاء رفعت زماں ، ہادی ، نور حق کی سچی نشانی ہیں ۔۔۔ ان کو سلام واجب ۔۔۔
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔۔كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ۔۔.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔۔كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ۔۔.إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔۔۔
بیشک اس نے دیکھنے والوں کے لیے نشانیاں رکھی ہوئی ہیں ، وہ نشانیاں جو ہمارے پیامبر ﷺ نے دیکھیں ، وہ دیکھنے والے دید نے بھی دیکھنے کی سعی کی تو وہ بھی دیکھے گی ، اس لیے ہمارے نبی پاک ﷺ پر ایمان ہر عیسائی ، یہودی فرض ہے کہ وہ کمال کی تجلیات تو آپ ﷺ کے امتی ہونے کے باعث ہم دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔