تاسف معروف ادیب ''انتظار حسین ''چل بسے

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

نور وجدان

لائبریرین
انتظار حسین نا صرف ایک افسانہ نگار ، سفرنامے اور کالم نگار رہے ہیں تاہم وہ ڈرامہ نگاری کے فن میں میں ماہر و یکتا ہیں ۔ ان کا نام مشہور سوانح نگار اور ایک صوفی کے طور پر بھی مشہور ہے ۔ International booker prize میں نومینیٹ بھی ہوچکے ہیں ۔ پاکستان کے ایک مشہور ادبی ہیرو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔۔۔۔انا للہ وانا الیہ رجعون ۔


ماخذ
 
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اس شخص میں یقیناً بہت کچھ غیرمعمولی تھا۔ عام طور پر بوڑھے ادیب کسی کی بات پر توجہ دینا کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ مگر میں نے انتظار صاحب کو بچوں کی طرح دیدے پھاڑے اور منہ کھولے دوسروں کی باتیں سنتے دیکھا ہے۔ مجھے نہیں معلوم وہ صوفی تھے یا نہیں۔ لیکن اگر تھے تو یقیناً مقامِ حیرت پر ہوں گے۔ ان کے اندر بچوں کا سا تحیر تھا۔ شاید اسی تحیر نے ان کا دامن اس علم سے بھر دیا جس کا خواب بھی متکبر دانشور نہیں دیکھ سکتے۔
 

یاز

محفلین
اناللہ وانا الیہ رٰجعون
انتظار حسین صاحب کی وفات بلاشبہ دنیائے ادب کا ایک نقصانِ عظیم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ہمارے معاشرے کے لئے بھی ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے کہ یہاں ادب اور قدردانِ ادب کمیاب ہوتے جا رہے ہیں۔
اللہ تعالٰی ان کے درجات بلند کرے اور ان کو جنت میں اعلٰی مقام عطا کرے۔
 

ظفری

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔ آمین۔
 
آخری تدوین:
پاکستان کے معروف افسانہ وناول نگاراورتنقید نگارانتظارحسین صاحب 92 برس کی عمر میں جہان فانی سے رخصت ہوگئے ایک عہد تمام ہوا۔ ایک نام امر ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اردو آج ایک باکمال فکشن رائٹر سے محروم ھو گئی۔اللہ تعالی ‫#‏انتظارحسین‬صاحب کو اپنےجوار رحمت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ (آمین)
7دسمبر 1923ء کومیرٹھ ضلع بلند شہرمیں پیداہوائے،20 یا 22 سال تک علی گڑھ کے زندگی بسرکی پھروہیں سے تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کی اورلاہورکواوڑھنا بچھونا بنا لیا اورآج وہیں روحِ پرواز کرگئی۔
مرحوم میں ماضی پرستی ، ماضی پرنوحہ خوانی، پرانی ویلیوز کے بکھرنے اورنئی ویلیوز کے سطحی اورجذباتی ہونے کادکھ اوراظہاربہت ہی نمایا ہوتاتھااسی وجہ سے پذیرائی نہ ملتی تھی، ان کا فن عوامی نہیں ، اساطیری رجحان غالب تھا،ظاہری بناوٹ کے بجائے باطنی کیفیات پریقین رکھتے تھیں۔
ان کا شمار موجودہ عہد میں پاکستان ہی کے نہیں بلکہ اردو فکشن، خاص طور پر افسانے یا کہانی کے اہم ترین ادیبوں میں کیا جاتا تھا۔
پنجاب یونیورسٹی سے اردو اور پھر انگریزی میں ایم اے کیا اور صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’گلی کوچے‘ 1953 میں شائع ہوا۔ایک داستان اور دو کتب آپ بیتی طرز کی لکھی ہیں۔
وہ پہلے پاکستانی ہیں جنھیں سنہ 2013 میں بین الاقوامی بکر پرائز ايوارڈ کے ليے شارٹ لسٹ کيا گيا،جبکہ حکومتِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز ، اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ سےاور حکومتِ فرانس نے ستمبر 2014ء میں آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز سے نوازا۔
انتظار حسین کے افسانوں کے آٹھ مجموعے، چار ناول، آپ بیتی کی دو جلدیں، ایک ناولٹ شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے تراجم بھی کیے ہیں اور سفر نامے بھی لکھے۔
ان کے اردو کالم بھی کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں اور وہ انگریزی میں بھی کالم لکھتے ہیں۔
انتظار حسین کا ایک ناول اور افسانوں کے چار مجموعے انگریزی زبان میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔
گوپی چند نارنگ نے ایک بار کہا تھا؛
"ہم پاکستان میں فکشن کے حوالے سے تین حُسین کے قائل ہیں— انتظارحسین، عبداﷲ حسین اور مستنصر حسین—"
 

نایاب

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون
بلاشبہ اک عہد تمام ہوا ۔۔
حق تعالی مغفرت فرمائے آمین
بہت دعائیں
 

دوست

محفلین
انا للہ وہ انا الیہ راجعون
اللہ سائیں مغفرت فرمائے۔
پچھلے سال جامعہ گجرات میں ہمارے شعبے کی دعوت پر تشریف لائے تھے۔ ترجمے کے حوالے سے کچھ باتیں کیں انہوں نے۔ لیکن تب بھی بمشکل چل سکتے تھے۔ بس اب تو ان کا ہونا ہی غنیمت تھا۔ وہ بھی ختم ہو گیا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top