فلک شیر
یہ نام مغلوں، ایرانیوں ، ، پنجابیوں اور دیگر نسبتاً کم معروف اقوام میں مذکر انسانوں کے لیے معروف ہے۔ عجیب بات ہے ویسے، انسان کا نام جانور پہ رکھ دیتے ہیں ، اس کے برعکس کسی انسان کو یہ شرف ابھی تک حاصل نہیں ہوا کہ جانور کا نام پائے ۔ ویسے سنتے ہیں کہ عرب مختلف جانوروں کی انسانی کنیتیں رکھ چھوڑتے ہیں؛ جیسے کیکڑے کو ابو بحر ،شیر کو ابو حارث اور بھیڑیے کو ابوجعادہ کہتے ہیں ، ہاں گھوڑے کو بھی کچھ کہتے ہیں ، بھولتا ہوں ، خیر کچھ نہ کچھ تو کہتے ہی ہیں ۔ اس دنیا میں کچھ نہ کچھ کہے جانے سے کس کو مفر ہے ، وہ علی البر ہے یا فی البحر ہے ، انگلیاں اس کی گھی میں تر بہ تر ہیں یا وہ بے چارہ خود ابتر و بدتر ہے، اس کے خصائل مثلِ صر صر بر وزن و فعلِ ہوائے خطہ بربر ہیں یا پیغام برِ لطافت یعنی روزگارِکاشمیر او کاشغر ہیں۔۔۔ المختصر یہ کہ کچھ کہے جانے سے کسی کو نجات نہیں ، یہ بس بات نہیں ، آپ خود ہی کو دیکھ لیجیے ، آپ کے اپنے پرائے چھوٹے بڑے ننھیالی ددھیالی سسرالی ابالی و لاابالی ، ہمہ قسم کے اعزہ و اقارب، وہ جن کے بارے میں عربی میں غلط یا صحیح ، کسی نے کچھ کہا ہے ، کیا ہے ، وہ بھلا سا محاورہ، ہاں ۔۔۔ الاقارب کالعقارب۔۔۔ ترجمہ چھوڑیے ، پھر آپ میرے بارے میں کچھ نہ کچھ کہنا چاہیں گے ۔۔۔۔تو یہ ہمہ قسم عقارب، معذرت خواہ ہوں۔۔اقارب۔۔ آپ کے بارے میں کیاکیا کچھ نہ کچھ نہیں کہتے ۔۔۔حالانکہ آپ جیسا شریف النفس، وسیع الظرف ، عالی حوصلہ ،فراخ جبیں ، حلیم الطبع ، قتیلِ شرافت، اصیلِ دودمان خاندانوں کےچھان ماریے ، نہیں ملتا ، اور آپ نے ان کے بارے میں کبھی کچھ نہ کچھ نہیں کہا، آپ کو تو پتا ہی ہے اس سب کا۔۔۔ خیر انہیں بھی پتا ہے ۔۔۔
ویسے یہ بات فلک شیر سے چلی تھی ، احمد بھائی نے فرمایا کہ وجہ تسمیہ بیان کی جائے ، یقین کیجیے ، میں خود حیران ہوں کہ اس کی وجہ تسمیہ کیا ہو سکتی ہے ، آسمان سے انسان کا رابطہ رشتہ تو پرانا ہے ، ستارہ پرستوں کے طفیل ستارہ شناس اور ستارہ فروش تو ہم جانتے ہیں ۔ شمس کے بندوں اور قمر کے غلاموں وغیرہ کو ہم جانتے ہیں ، پہچانتے ہیں ، سنتے ہیں ، ان کے بارے میں پڑھتے ہیں ۔۔ گو ان سب کو ہم مانتے نہیں ، ہمارے شاعر نے کہا تھا :
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں
آسمان سے ویسے ہماری روایت کے شعراء کو گلے رہے ہیں ، اسے فطرت کی طرح کارگاہِ ہستی کے منتظم کے مترادف کے طور استعمال کرتے چلے آئے ہیں ۔ شاید اسلامی روایت سے انہیں اس لونڈی کی انگلی سے اشارہ ملا تھا، جسے سید ولد آدمﷺ نے آزاد فرمانے کے لیے امتحان کو پوچھا تھا:
اللہ کہاں ہے ؟
جواب میں اس نے عرض کیا:
فی السماء (آسمان میں)
اس لونڈی کے مالک نے اسے تھپڑ مارا تھا اور اب پیغمبرﷺ کی تشجیع پہ اسے آزاد کر کے دل کی تسکین اور اللہ کی رحمت پانا چاہتا تھا۔
خیر ہمارے شعراء تو کہتے چلے آئے ہیں :
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
یعنی فلک پھرتا ہے ، انتظام کرتا ہے ، قدر و قضا کا سلسلہ اسی کے دم سے ہے
یا
قبول تھا کہ فلک مجھ پہ سو جفا کرتا
پر ایک یہ کہ نہ تجھ سے مجھے جدا کرتا
فلک یہاں ظالم سماج کے مابعد الطبیعاتی مترادف کے طور پہ آیا ہے ، جو محکم و متحکم بھی ہے
اور بہتر نشتروں والے میر صاحب بھی لکھنوء والوں کے سامنے اپنی اور اپنی دلی کی بربادی کا الزام اسی پہ دھر چکے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
شاید پہلی دفعہ یہ نام رکھنے والوں نے شجاعت، استقامت، تیقن، تحکم، تسلط اور بے نیازی کے استعارے کے ساتھ الوہی تقدیس لف کرنے کا ارادہ کیا ہو گا۔ تسلیم کہ نام کا شخصیت پہ اثر تو ہوتا ہے ۔مگر خدا لگتی کہنی چاہیے ، ادھر تو ایسا کچھ ہمیں نظر نہیں آیا، آئینہ دیکھا، گریباں میں جھانکا، کتاب کی ورق گردانی کی ، بچپن کے قصے ماں سے سنے، نوجوانی کی حماقتوں سے تو واقف ہی ہیں، دیا جلایا، رات کے اندھیرے میں ڈبکی لگائی، دوستوں سے قسمیں دے دلا کر سچ اگلوایا، معاندین کو طیش دلا کر حقیقت کانوں میں انڈیلی ۔۔۔ قسم لے لیجیے جو نام کے دوسرے حصے والی کوئی بات پتہ چلی ہو۔ ہاں فلک تو فلک ہے بھائی، ہمارے شاعر اسے کچھ نہ کچھ کہتے رہے ہیں ، تو کیا ہوا۔۔۔ فلک تو فلک ہے ، استاذ مصحفی کے قول پہ کلام ختم کرتے ہیں :
فلک کی خبر کب ہے نا شاعروں کو
یوں ہی گھر میں بیٹھے ہوا باندھتے ہیں
پس نوشت: احمد بھائی، اس کی اصل جگہ بے پر کی والا دھاگہ تھا، آپ کا دھاگہ خراب کرنے پہ معذرت
اور یہ بھی کہ اس مراسلے میں مخاطب یعنی ۔۔آپ۔۔ سے مراد احمد بھائی نہیں ہیں
اور یہ بھی کہ جسے اس نام کے معروف ہونے کے دعوا پہ ہماری بصیرت وغیرہ پہ شبہ پیدا ہوا ہے، یقین کیجیے اسے یہ یقینی شائبہ بالکل درست پیدا ہوا ہے :۔۔)