محمد وارث
لائبریرین
فیس بُک سے خبر ملی کہ آج 20 جنوری 2011ء کو اردو کے معروف شاعر راغب مراد آبادی وفات پا گئے ہیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ کا اصل نام سید اصغر حسین تھا۔
محترم عزم بہزاد صاحب نے فیس بُک پر جو پوسٹ کی ہے وہی نیچے درج کر رہا ہوں۔
محترم عزم بہزاد صاحب نے فیس بُک پر جو پوسٹ کی ہے وہی نیچے درج کر رہا ہوں۔
احباب کے لیئے یہ خبر یقینا رنج کا باعث ہوگی کہ اردو کے ممتاز شاعر حضرت راغب مرادآبادی طویل علالت کے بعد اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔۔۔ راغب صاحب ۲۷ مئی ۱۹۱۸ کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔۔۔ راغب صاحب کو شاعری میں مرزا یاس یگانہ چنگیزی اور صفی لکھنوی ، جب کہ صحافت میں مولانا ظفر علی خاں سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔
راغب صاحب بدیہہ گوئی میں یدِطولی رکھتے تھے اور کسی بھی موقع برجستہ منظوم اظہار کو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ۔۔
ساتھ ہی ساتھ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ رباعی گوئی میں جوش ملیح آبادی کے بعد ان کو کوئی ہمسر نہ تھا۔ راغب صاحب نے زندگی کے تقریبا تمام موضوعات پر رباعیات کہیں ، آخری دنوں میں وہ صرف موت کے موضوع پر لکھ رہے تھے اور اس موضوع پر ان کی رباعیات مجموعے کی شکل میں غالبا منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔
زبان و عروض کے حوالے سے وہ اپنی ایک الگ شناخت رکھتے تھے۔۔ انھیں بیک وقت اردو ، فارسی ، عربی ، سنسکرت ، پنجابی اور انگریزی پر عبور حاصل تھا۔۔۔ راغب صاحب کے چالیس کے قریب شعری و نثری مجموعے شائع ہوئے اور قریبی حلقوں کے مطابق اتنے ہی مجموعوں کا مواد موجود ہے جو طبع ہونے سے رہ گیا۔
ان کے متعلق اور ان کے اوصاف سے متعلق بہت سی باتیں کی جاسکتی ہیں ، لیکن اس وقت نہ دل ساتھ دے رہا اور نہ وقت ۔۔۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ ان کی مغفرت کے لیئے دعا فرما دیجئے۔ آخر میں ان کا ایک شعر پیش کر رہا ہوں جو ان کی شخصیت کی مجموعی عکاسی کے لیئے کافی ہے۔
سائے کا بھی ہم نے اگر احسان لیا ہے
گھر کس کا ہے ، دیوار سے پہچان لیا ہے
راغب مراد آبادی