معروف شاعر ”#احسان_دانشؔ صاحب“ کا یومِ وفات....22۔3۔2022

سیما علی

لائبریرین
- 22؍مارچ 1982

بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائیوں کے مقبول ترین شاعروں میں شامل، فیض احمد فیضؔ کے ہم عصر اور معروف شاعر ”#احسان_دانشؔ صاحب“ کا یومِ وفات....

نام #احسان_الحق*٪، تخلص #احسانؔ اور #دانشؔ تھا۔
15؍فروری 1914ء میں کاندھلہ ، ضلع مظفر نگر میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی وطن قصبہ باغپت ، ضلع میرٹھ تھا۔ چوتھی جماعت تک احسان دانش نے تعلیم حاصل کی۔ مفلسی کی وجہ سے ان کے والدین چوتھی جماعت سے آگے تعلیم نہ دلاسکے۔ پندرہ سال کی عمر میں احسان دانش لاہور آگئے۔ یہاں انھوں نے مزدوری، چوکی داری، چپراسی اور باغ بانی کے فرائض انجام دیے۔ فرصت کے اوقات میں کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ دوران مطالعہ انھیں شعروسخن سے دل چسپی ہوگئی۔ تاجور نجیب آبادی سے اصلاح لینے لگے۔جب کچھ رقم جمع ہوگئی تو ’’مکتبۂ دانش‘‘ کے نام سے اپنا ذاتی کتب خانہ قائم کیا۔ ان کا سرمایۂ شعری زیادہ تر نظموں پر مشتمل ہے۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کے خطاب سے حکومت نے نوازا ۔ احسان دانش کو مذہب سے گہرا لگاؤ تھا۔ انھیں حج بیت اللہ اور روضۂ اقدس پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ 22؍مارچ 1982ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ احسان دانش متعدد کتابوں کے مصنف تھے جن میں چند یہ ہیں:
’’آتِش خاموش‘‘، ’’نوائے کارگر‘‘، ’’گورستان‘‘،’’چراغاں‘‘، ’’زخم ومرہم‘‘، ’’دردِ زندگی‘‘، ’’حدیثِ خواب‘‘،’’ جادۂ نو‘‘، ’’نفیرِ فطرت‘‘، ’’عکسِ آئینہ‘‘، ’’غبارِ کارواں‘‘، ’’زنجیرِ بہاراں‘‘، ’’رموزِ غالب‘‘، ’’اردو مترادفات‘‘، ’’قاموسِ محاورات‘‘، ’’جہانِ دانش‘‘ (خودنوشت حالات)۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق

*፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤፤*

💐 ممتاز شاعر احسان دانشؔ صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت... 💐💐

اٹھا جو ابرِ دل کی امنگیں چمک اٹھیں
لہرائیں بجلیاں تو میں لہرا کے پی گیا
---
بلا سے کچھ ہو ہم احسانؔ اپنی خو نہ چھوڑیں گے
ہمیشہ بے وفاؤں سے ملیں گے باوفا ہو کر
---
تم سادہ مزاجی سے مٹے پھرتے ہو جس پر
وہ شخص تو دنیا میں کسی کا بھی نہیں ہے
---
حسن کو دنیا کی آنکھوں سے نہ دیکھ
اپنی اک طرزِ نظر ایجاد کر
---
*دل کی شگفتگی کے ساتھ راحتِ مے کدہ گئی*
*فرصتِ مے کشی تو ہے حسرتِ مے کشی نہیں*
---
دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن
اس آگ کو نہ ترا پیرہن چھپائے گا
---
رہتا نہیں انسان تو مٹ جاتا ہے غم بھی
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی
---
سنتا ہوں سرنگوں تھے فرشتے مرے حضور
میں جانے اپنی ذات کے کس مرحلے میں تھا
---
شورش عشق میں ہے حسن برابر کا شریک
سوچ کر جرم تمنا کی سزا دو ہم کو
---
*عشق کب اپنے مقاصد کا نگہباں نہ ہوا*
*کون سا غم ہے جو آخر غمِ جاناں نہ ہوا*
---
ضبط بھی صبر بھی امکان میں سب کچھ ہے مگر
پہلے کم بخت مرا دل تو مرا دل ہو جائے
---
مقصدِ زیست غمِ عشق ہے صحرا ہو کہ شہر
بیٹھ جائیں گے جہاں چاہو بٹھا دو ہم کو
---
میں جس رفتار سے طوفاں کی جانب بڑھتا جاتا ہوں
اسی رفتار سے نزدیک ساحل ہوتا جاتا ہے
---
*مجھے پوچھا ہے آ کر تم نے اس اخلاقِ کامل سے*
*کہ میں شرمندہ ہو کر رہ گیا اندازۂ دل سے*
---
میں حیراں ہوں کہ کیوں اس سے ہوئی تھی دوستی اپنی
مجھے کیسے گوارہ ہو گئی تھی دشمنی اپنی
---
وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے
---
*کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر*
*تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر*
---
کس کس کی زباں روکنے جاؤں تری خاطر
کس کس کی تباہی میں ترا ہاتھ نہیں ہے
---
کون دیتا ہے محبت کو پرستش کا مقام
تم یہ انصاف سے سوچو تو دعا دو ہم کو
---
ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرفِ غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو
---
*یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو*
*تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ*
---
جب رُخِ حسن سے نقاب اٹھا
بن کے ہر ذرہ آفتاب اٹھا
---
رعنائی کونین سے بے زار ہمیں تھے
ہم تھے ترے جلووں کے طلب گار ہمیں تھے
---
زندگی میں اس کو کیف زندگی حاصل نہیں
جس کا دل راز و نیاز عشق کے قابل نہیں
---
کر رہا ہوں دوستوں کے زعم پر ترک وطن
شاید اب آغاز دور گردش ایام ہے

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

🍁 احسان دانشؔ 🍁
 
آپا جی شکریہ ایک عظیم شاعر کو یاد کرنے کا-
اللہ پاک ان کے درجا ت بلند فرمائے
ان کی ایک غزل جو مجھے بہت پسند ہے:
بسا اوقات مایوسی میں یہ عالم بھی ہوتا ہے
تبسم کی تہوں میں اہتمام غم بھی ہوتا ہے

خوشی تنہا نہیں آتی جلو میں غم بھی ہوتا ہے
جہاں ہنستی ہیں کلیاں گریۂ شبنم بھی ہوتا ہے

نئی تہذیب کے معمار شاید اس سے غافل ہیں
بہ ایں آثار عالم درہم و برہم بھی ہوتا ہے

جو آنکھیں گھونگھٹوں میں روز کے فاقوں سے پر نم ہیں
ان آنکھوں میں فسون عصمت مریم بھی ہوتا ہے

بہ ایمائے خرد تم دیکھتے ہو جس کو نفرت سے
وہ دیوانہ خرد کی اصل کا محرم بھی ہوتا ہے

رباب زندگی کے زمزموں پر جھومنے والے
ہر اک نغمے میں نا معلوم سا ماتم بھی ہوتا ہے

وہ انساں ناز کرتا ہے جو اول سے شرافت پر
بہکتا ہے تو ننگ عظمت آدم بھی ہوتا ہے

جوانی سیل شعر و بادۂ نغمہ سہی لیکن
یہ طوفان لطافت خود بخود مدھم بھی ہوتا ہے

جسے کوئی سمجھ لے سادگی سے حاصل ہستی
وہ جب حاصل نہیں ہوتا تو آخر غم بھی ہوتا ہے

تبسم پھول برساتا ہے جن رنگین ہونٹوں سے
انہی ہونٹوں پہ اک دن نالۂ پیہم بھی ہوتا ہے

بجز ذات خدا احسانؔ کوئی بھی نہیں اپنا
سنا تھا لاکھ دشمن ہوں تو اک ہمدم بھی ہوتا ہے​
 
Top