معرکہِ عشق میں کسی کا خیال کیا کرتے
ہتھیار جو اٹھا لایا اس سے سوال کیا کرتے
بندشیں ایسی تھیں کہ چپ ہار کے بیٹھ گئے
شکستہ کشتی پر طوفان میں کمال کیا کرتے
بجھ جاتا تھا ہوا کے ایک جھونکے سے جو
ایسے چراغ کو آندھیوں میں نڈھال کیا کرتے
ترکِ تعلق ہی بنالی ہو جس نے رسم اپنی
بار بار تعلقات پھراس سے بحال کیا کرتے
سورش میرے عقب سے ہی اٹھی تھی ظفر
سامنے دشمنوں کے رکھ کے ڈھال کیا کرتے
ہتھیار جو اٹھا لایا اس سے سوال کیا کرتے
بندشیں ایسی تھیں کہ چپ ہار کے بیٹھ گئے
شکستہ کشتی پر طوفان میں کمال کیا کرتے
بجھ جاتا تھا ہوا کے ایک جھونکے سے جو
ایسے چراغ کو آندھیوں میں نڈھال کیا کرتے
ترکِ تعلق ہی بنالی ہو جس نے رسم اپنی
بار بار تعلقات پھراس سے بحال کیا کرتے
سورش میرے عقب سے ہی اٹھی تھی ظفر
سامنے دشمنوں کے رکھ کے ڈھال کیا کرتے