محمد مبین امجد
محفلین
دُوئ نعت رسُول مقبُول والی ، جَیندے حق نزُول لولَاک کِیتا
خاکی آکھ کے مرتبہ وَدھَا دِتّا ، سَب خَلق دے عیب تِھیں پاک کِیتا
مکّے نُور رسُول دے چمک ماری ، قِلعہ محل نوشیرواں چاک کِیتا
ایہہ وی معجزہ نبی رسول دا اے نال انگلی چَن دو پَھاک کِیتا
سَرور ہوکے اَنبیاں اولیاں دا اگے حَق دے آپ نُوں خاک کِیتا
آکھے اُمتّی امتّی روز مَحشر خُوشی چَھڈ کے جیُو نمناک کِیتا
پنجابی زبان کا شیکسپیئر۔ ہیر وارث شاہ کا خالق۔نام تو میرے لیے نیا نئیں کیونکہ ابھی پالنے میں ہی تھا کہ پر دادا حضور جناب سید محمد کی کہانی سننا شروع کر دی تھی گو کہ میرے اس جہان رنگ وبو میں قدم رنجہ فرمانے سے پہلے ہی وہ اگلے جہان کو پدھار گئے مگر انکی کہانیاں زندہ رہ گئیں اور ابھی بھی زندہ ہیں کہ
انہوں نے زندگی بھر دو ہی کتابیں پڑھیں ایک قرآن اور ایک ہیر۔ لہٰذہ اگر میں یہ کہوں کہ ہیر سے آشنائی میں اپنے جینز میں لے کر آیا تھا تو بے جا نہ ہوگا۔
میرے دادا جان بتاتے ہیں کہ تمہارے بابا (پردادا) جب ہیر پڑھتے تو ایک زمانہ رک کر انکی ہیر سنتا تھا۔ایسے ہی ایک خاتون نے انکی آواز میں ہیر سنی تو ان پہ فریفتہ ہو گئی اور یہ فریفتگی شادی پہ منتج ہوئی۔ اور میری یہ سوتیلی پردادی ابھی بھی حیات ہیں۔ ماشاءاللہ
خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی جو ایسے ہی کر دی اصل میں بتانا یہ تھا کہ پنجابی زبان کے اس با کمال شاعر، صوفی اور مصلح سے میری دوسری ملاقات جناب Zafar Iqbal Awan Khan صاحب نے کر وائی۔
پچھلے رمضان میں جب انہوں نے یہ سیریل شروع کی تو میں افطاری کے بعد اپنے بابا اور بابا کے بابا (دادا جانی) کو اس کی قسط سناتا۔ یوں حقے کا دور بھی چلتا اور میرے دادا جان کی ہیر پہ کمنٹری بھی چلتی باوجود یکہ وہ چٹے گورے ان پڑھ ہیں مگر انکو پتہ چل جاتا کہ یہ ڈائیلاگ قاضی کا ہے اور یہ ہیر کا۔اگر چہ یہ ایک تمثیلی داستان ہے مگر صاحب تحریر کا یہ کمال ہے کہ قاری تحریر کے سحر میں کھو جاتا ہے اور ایک بار کتاب شروع کرنے کے بعد نہایت مجبوری کے بغیر رکھنے کو جی نئیں چاہتا۔زبان کی روانی،وارث شاہ کا طرز تحریر، خیال کی وسعت اور پھر حضرت ظفر جی کا ترجمہ سونے پہ سہاگے کا کام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔
ذرا ملاحظہ فرمائیں
"پنجاب کی صبح اپنی تمام تر حشر سامانیوں کیساتھ طلوع ہو رہی تھی.... گھروں سے سویرے سویرے ریہڑکے کی کھڑکھڑاہٹ ، چکّی کی گڑگڑاہٹ اور چرخے کی گھوں گھوں سنائ دے رہی تھی- اور سخن کا وارث سانجھلے کے کینوس پر شاعری کے رنگ بکھیرتا چلا جا رہا تھا-
صُبح صادِق ہوئ جدُوں آن روشَن ، تدُوں لالیاں آن چَچلانیاں نے
چِڑی چُوہکدی نال جاں ٹُرے پَاہندِی ، پیّاں دُدھ دے وِچ مَدھانِیاں نے
سپیدہء سحر نمودار ہوا تو کرنوں نے ہر شے کو چمکا دیا- چڑیا کے چہکتے ہی مسافر چل پڑے اور دودھ میں مدھانیاں ڈل گئیں-
ہِکناں اُٹھ کے ریہڑکا پا دتاّ ، ہِکناں ڈھونڈدیاں پھِرن مدھانیاں نے
ہک اُٹھ کے ہَلِیّں تیاّر ہوئے ، ہک ڈھونڈدے پھرن پورانیاں نے
کچھ عورتوں نے اٹھتے ہی ریہڑکا ڈال دیا اور کچھ دھندلکے میں مدھانیاں ڈھونڈتی پھرتی ہیں-
کچھ مرد اٹھ کر ہل جوتنے کےلئے تیار ہو چکے اور کچھ ابھی ہل پنجالی کا سامان ہی پورا کر رہے ہیں-
لّیاں چا ہرنالیاں ہالیاں نے ، سِیاں جِنہاں نے بھوئیں تے لانِیاں نے
گھربارناں چکّیاں جھوتیاں نیں ، توناں جنہاں نے گُنھ پکاؤنیاں نے
دھرتی کا سینہ چیرنے والے کسانوں نے ہل کندھوں پر اٹھا لئے- ان کی گھر والیاں ، جنہوں نے روٹیوں کے انبار پکانے ہیں، چکّیوں پر آٹا پیسنے میں مصروف ہیں-
کاروبار وچ ہویا جہان سارا چرخے کتّن نوں اٹھّن سوانیاں نے
اٹھ جان غسّل نوں دوڑ پئے سیجاں رات نوں جنہاں نے مانیاں نے
سارا جہان کاروبار میں مصروف ہو گیا- عورتیں چرخہ کاتنے کےلیے جاگ اٹھی ہیں- وہ لوگ جنہوں نے رات کو سیج کے مزے لوٹے ہیں ، صبح ہوتے ہیں غسل کےلئے دوڑ پڑے ہیں-
غسل کےلئے یا تو کماد کا کھیت تھا ، یا نہر....اور جہاں یہ دونوں نعمتیں دستیاب نہ تھیں وہاں چار عدد چارپائیاں کھڑی کرکے کہیں بھی بلا تکلّف غسل فرمایا جا سکتا تھا-"
ایک اور فقرہ "بنا عمل دے نئیں نجات تیری،مارا جائیں گا قطب دیا بیٹیا اوئے"
قصہ ہیر وارث شاہ کو جس انداز میں جناب ظفر جی نے پیش کیا اس پہ وہ بلا شبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔کہیں کہیں انکا مزاحیہ پیرایہ مسکرانے پہ مجبور کر دیتا ہے تو کبھی وہ قاری کو رلا دیتے ہیں۔
ہیر وارث شاہ کو محض ایک عشقیہ داستان سمجھنے والوں کے سامنے انہوں نے اسکا اصلاحی پہلو بہت خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔
پورے قصے کا عرق انہوں نے اس کتاب کے شروع میں بیان کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا دار نہ رہے گا کوئی اوتھے،ثابت فقراللہ دے رہن گے نی
آپو آپ معلوم کر لین سبھے، جدوں حشر نوں معاملے پین گے نی
آخر پہ میں جناب فخر حسین بھٹی صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انکی فرمائش پہ یہ لازوال کتاب لکھی گئی۔ میں جناب محمد فیصل شہزاد صاحب کا بھی انتہائی مشکور ہوں کہ جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت میں خصوصی دلچسپی لی اور اس #معشوقہ کو #ہم تک پہنچایا۔۔۔۔۔۔۔
خاکی آکھ کے مرتبہ وَدھَا دِتّا ، سَب خَلق دے عیب تِھیں پاک کِیتا
مکّے نُور رسُول دے چمک ماری ، قِلعہ محل نوشیرواں چاک کِیتا
ایہہ وی معجزہ نبی رسول دا اے نال انگلی چَن دو پَھاک کِیتا
سَرور ہوکے اَنبیاں اولیاں دا اگے حَق دے آپ نُوں خاک کِیتا
آکھے اُمتّی امتّی روز مَحشر خُوشی چَھڈ کے جیُو نمناک کِیتا
پنجابی زبان کا شیکسپیئر۔ ہیر وارث شاہ کا خالق۔نام تو میرے لیے نیا نئیں کیونکہ ابھی پالنے میں ہی تھا کہ پر دادا حضور جناب سید محمد کی کہانی سننا شروع کر دی تھی گو کہ میرے اس جہان رنگ وبو میں قدم رنجہ فرمانے سے پہلے ہی وہ اگلے جہان کو پدھار گئے مگر انکی کہانیاں زندہ رہ گئیں اور ابھی بھی زندہ ہیں کہ
انہوں نے زندگی بھر دو ہی کتابیں پڑھیں ایک قرآن اور ایک ہیر۔ لہٰذہ اگر میں یہ کہوں کہ ہیر سے آشنائی میں اپنے جینز میں لے کر آیا تھا تو بے جا نہ ہوگا۔
میرے دادا جان بتاتے ہیں کہ تمہارے بابا (پردادا) جب ہیر پڑھتے تو ایک زمانہ رک کر انکی ہیر سنتا تھا۔ایسے ہی ایک خاتون نے انکی آواز میں ہیر سنی تو ان پہ فریفتہ ہو گئی اور یہ فریفتگی شادی پہ منتج ہوئی۔ اور میری یہ سوتیلی پردادی ابھی بھی حیات ہیں۔ ماشاءاللہ
خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی جو ایسے ہی کر دی اصل میں بتانا یہ تھا کہ پنجابی زبان کے اس با کمال شاعر، صوفی اور مصلح سے میری دوسری ملاقات جناب Zafar Iqbal Awan Khan صاحب نے کر وائی۔
پچھلے رمضان میں جب انہوں نے یہ سیریل شروع کی تو میں افطاری کے بعد اپنے بابا اور بابا کے بابا (دادا جانی) کو اس کی قسط سناتا۔ یوں حقے کا دور بھی چلتا اور میرے دادا جان کی ہیر پہ کمنٹری بھی چلتی باوجود یکہ وہ چٹے گورے ان پڑھ ہیں مگر انکو پتہ چل جاتا کہ یہ ڈائیلاگ قاضی کا ہے اور یہ ہیر کا۔اگر چہ یہ ایک تمثیلی داستان ہے مگر صاحب تحریر کا یہ کمال ہے کہ قاری تحریر کے سحر میں کھو جاتا ہے اور ایک بار کتاب شروع کرنے کے بعد نہایت مجبوری کے بغیر رکھنے کو جی نئیں چاہتا۔زبان کی روانی،وارث شاہ کا طرز تحریر، خیال کی وسعت اور پھر حضرت ظفر جی کا ترجمہ سونے پہ سہاگے کا کام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔
ذرا ملاحظہ فرمائیں
"پنجاب کی صبح اپنی تمام تر حشر سامانیوں کیساتھ طلوع ہو رہی تھی.... گھروں سے سویرے سویرے ریہڑکے کی کھڑکھڑاہٹ ، چکّی کی گڑگڑاہٹ اور چرخے کی گھوں گھوں سنائ دے رہی تھی- اور سخن کا وارث سانجھلے کے کینوس پر شاعری کے رنگ بکھیرتا چلا جا رہا تھا-
صُبح صادِق ہوئ جدُوں آن روشَن ، تدُوں لالیاں آن چَچلانیاں نے
چِڑی چُوہکدی نال جاں ٹُرے پَاہندِی ، پیّاں دُدھ دے وِچ مَدھانِیاں نے
سپیدہء سحر نمودار ہوا تو کرنوں نے ہر شے کو چمکا دیا- چڑیا کے چہکتے ہی مسافر چل پڑے اور دودھ میں مدھانیاں ڈل گئیں-
ہِکناں اُٹھ کے ریہڑکا پا دتاّ ، ہِکناں ڈھونڈدیاں پھِرن مدھانیاں نے
ہک اُٹھ کے ہَلِیّں تیاّر ہوئے ، ہک ڈھونڈدے پھرن پورانیاں نے
کچھ عورتوں نے اٹھتے ہی ریہڑکا ڈال دیا اور کچھ دھندلکے میں مدھانیاں ڈھونڈتی پھرتی ہیں-
کچھ مرد اٹھ کر ہل جوتنے کےلئے تیار ہو چکے اور کچھ ابھی ہل پنجالی کا سامان ہی پورا کر رہے ہیں-
لّیاں چا ہرنالیاں ہالیاں نے ، سِیاں جِنہاں نے بھوئیں تے لانِیاں نے
گھربارناں چکّیاں جھوتیاں نیں ، توناں جنہاں نے گُنھ پکاؤنیاں نے
دھرتی کا سینہ چیرنے والے کسانوں نے ہل کندھوں پر اٹھا لئے- ان کی گھر والیاں ، جنہوں نے روٹیوں کے انبار پکانے ہیں، چکّیوں پر آٹا پیسنے میں مصروف ہیں-
کاروبار وچ ہویا جہان سارا چرخے کتّن نوں اٹھّن سوانیاں نے
اٹھ جان غسّل نوں دوڑ پئے سیجاں رات نوں جنہاں نے مانیاں نے
سارا جہان کاروبار میں مصروف ہو گیا- عورتیں چرخہ کاتنے کےلیے جاگ اٹھی ہیں- وہ لوگ جنہوں نے رات کو سیج کے مزے لوٹے ہیں ، صبح ہوتے ہیں غسل کےلئے دوڑ پڑے ہیں-
غسل کےلئے یا تو کماد کا کھیت تھا ، یا نہر....اور جہاں یہ دونوں نعمتیں دستیاب نہ تھیں وہاں چار عدد چارپائیاں کھڑی کرکے کہیں بھی بلا تکلّف غسل فرمایا جا سکتا تھا-"
ایک اور فقرہ "بنا عمل دے نئیں نجات تیری،مارا جائیں گا قطب دیا بیٹیا اوئے"
قصہ ہیر وارث شاہ کو جس انداز میں جناب ظفر جی نے پیش کیا اس پہ وہ بلا شبہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔کہیں کہیں انکا مزاحیہ پیرایہ مسکرانے پہ مجبور کر دیتا ہے تو کبھی وہ قاری کو رلا دیتے ہیں۔
ہیر وارث شاہ کو محض ایک عشقیہ داستان سمجھنے والوں کے سامنے انہوں نے اسکا اصلاحی پہلو بہت خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔
پورے قصے کا عرق انہوں نے اس کتاب کے شروع میں بیان کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا دار نہ رہے گا کوئی اوتھے،ثابت فقراللہ دے رہن گے نی
آپو آپ معلوم کر لین سبھے، جدوں حشر نوں معاملے پین گے نی
آخر پہ میں جناب فخر حسین بھٹی صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انکی فرمائش پہ یہ لازوال کتاب لکھی گئی۔ میں جناب محمد فیصل شہزاد صاحب کا بھی انتہائی مشکور ہوں کہ جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت میں خصوصی دلچسپی لی اور اس #معشوقہ کو #ہم تک پہنچایا۔۔۔۔۔۔۔