جاسم محمد
محفلین
معصوم احمد شاہ، بے رحم میڈیا مالکان کے نرغے میں
زنیرہ ضیاء منگل 4 جون 2019
احمد شاہ کی معصومیت کو میڈیا پر خوب کیش کرایا جارہا ہے۔ (فوٹو: فائل)
سرخ وسفید رنگت والے گول مٹول بچے کسے اچھے نہیں لگتے؟ ایسے بچوں کو دیکھ کر بے اختیار ان پر پیار آتا ہے اور ان کے پھولے پھولے گلابی گالوں کو دیکھ کر زور سے کھینچنے اور ان پر چٹکی کاٹنے کا من کرتا ہے۔ ایسے گولو مولو بچوں کے بال سہلانے اور انہیں گدگدی کرنے میں بڑا مزہ آتا ہے اور اس طرح کی حرکتیں کرنے کے بعد جب بچے چلا چلا کر دوربھاگنے کی کوشش کرتے ہیں تو دل کرتا ہے انہیں مزید پریشان کیا جائے، ان کےگال مزید زور سے کھینچے جائیں اور زور سے بھینچ کر ان بچوں کی ساری کیوٹنیس اپنے اندر جذب کرلی جائے۔
اوپر بیان کی گئیں تمام باتیں بچوں سے والہانہ محبت ظاہر کرتی ہیں اور اکثر لوگ خوبصورت اور معصوم بچوں کو دیکھنے کے بعد اسی انداز میں ان سے پیار کرتے ہیں، اس بات سے بے نیاز کہ لوگوں کی محبت کا یہ جنونی انداز بچوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ اس انسان سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بچے بہت معصوم ہوتے ہیں۔ پیار و محبت کے نام پر ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے، انہیں اس بات کی اتنی سمجھ نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر بچوں کو ضرورت سے زیادہ پیار کیا جائے تو انہیں جھنجھلاہٹ ہوتی ہے۔ خدا نے بچوں میں ایک الارم فٹ کیا ہوا ہے جو اس وقت خودبخود بج جاتا ہے جب والدین کے علاوہ کوئی اور انہیں ضرورت سے زیادہ پیار کرتا ہے اور بچے اپنے ساتھ اس طرح کی حرکتیں کرنے والوں سے خوفزدہ ہوکر دور بھاگتے ہیں۔ جب کہ کچھ بچے تو ایسے شخص کو دیکھ کر ڈر کے باعث اپنے والدین کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔
اخلاقی طور پر بھی بچوں کو بھینچ بھینچ کر پیار کرنا، ان کے بے تحاشا بوسے لینا صحیح نہیں۔ چاہے کوئی میری بات سے کتنا ہی اختلاف کرے بچوں کے ساتھ اس طرح کا اظہار محبت ان کے استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ننھے احمد شاہ کے ساتھ یہ سب روز ہورہا ہے، سب کے سامنے ہورہا ہے اور بہت دھڑلے سے ہورہا ہے۔ لیکن اس بچے کی بدقسمتی دیکھیں وہ احتجاج بھی نہیں کرسکتا اور اسے روز اپنے ساتھ ہونے والی ان حرکتوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
میں بات کررہی ہوں معصوم احمد شاہ کی جو آج کل میڈیا پر بڑے بڑے سیلیبریٹیز کی آنکھوں کا تارہ بنا ہوا ہے اور لوگ پیار و محبت کے نام پر اس کے ساتھ روز اسی طرح کی حرکتیں کررہے ہوتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ احمد بہت پیارا بچہ ہے، اس کی معصومیت سے بھری باتیں اور غصہ کرنے کا انداز ہی تو تھا جس نے لوگوں کو اپنا دیوانہ بنالیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ننھے احمد کے سوشل میڈیا پر ہزاروں مداح بن گئے، جو اس کی معصومیت پر دل سے فدا ہیں۔ اور اس کی معصوم باتوں کو، غصہ کرنے کے انداز کو مزے لے لے کر دیکھتے ہیں۔ لیکن پھر اچانک میڈیا کی نظر سوشل میڈیا کے اس ننھے اسٹار پر پڑی اور انہوں نے ریٹنگ کے چکر میں احمد کی معصومیت کو کیش کرانے کا فیصلہ کرلیا۔
اب احمد روز ٹی وی پر آتا ہے اور میزبان ہوں یا شو میں شرکت کرنے والے مہمان، ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ احمد کوئی ایسی بات کردے جس سے ان کی ریٹنگ کو پَر لگ جائیں۔ غضب خدا کا! میڈیا ریٹنگ کے چکر میں کیا کیا حربے اختیار کرتا ہے! کبھی ریٹنگ بڑھانے کے لیے مارننگ شو میں اچھے خاصے سمجھدار فنکاروں کو بلواکر نچوایا جاتا ہے، کبھی منہ پر بے تحاشا میک اپ تھوپے مارننگ شو کی میزبان اچھی خاصی گوری رنگت کو مزید گورا کرنے کی کریمیں بیچنے کی دکان سجائے بیٹھی ہوتی ہیں اور کبھی شادیوں کا تماشا لگا کر ریٹنگ کی دوڑ میں فرسٹ آنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اور اب ان کے ہاتھ احمد کے روپ میں ننھا کھلونا آگیا ہے اور تمام میڈیا مالکان (بشمول سرکس سجانے والے میزبانوں کے) احمد کی معصومیت کو بیچ کر خوب مال بنارہے ہیں اور یہ تماشا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کوئی دوسرا احمد سوشل میڈیا پر مقبولیت حاصل نہ کرلے اور میڈیا کے ہاتھ دوسرا کھلونا نہ آجائے۔
میڈیا مالکان اور میزبان بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ پیسہ کیسے بنانا ہے۔ یہ لوگ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے لیے ہی تو اپنی اپنی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ جہاں موٹر سائیکلوں اور عمرے کے ٹکٹ کے نام پر روز معصوم انسانوں کا تماشا لگایا جاتا ہے اور ان کی جی بھر کر بےعزتی کرنے کے بعد ایک عدد اسکوٹر یا چھوٹے موٹے تحائف پکڑا دیئے جاتے ہیں۔ احمد کے ساتھ بھی یہی سب ہورہا ہے۔ اس معصوم بچے کو روز ٹرانسمیشن نامی تماشے میں زبردستی بٹھایا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ احمد پھر کوئی ایسی بات کہہ دے جو ریٹنگ بڑھانے کا سبب بن جائے۔
بات صرف ایک شوتک محدود رہتی تو ٹھیک تھا، لیکن ان ظالم میڈیا مالکان نے چار، پانچ سال کے ننھے احمد کو ریٹنگ بنانے کی مشین ہی سمجھ لیا ہے اور ایک شو کے بعد فوراً ہی دوسرے شو میں اس کی انٹری کروائی جاتی ہے۔ جہاں میزبان سمیت مہمان ایسے چمٹ چمٹ کر احمد سے پیار کررہے ہوتے ہیں جیسے اگر انہوں نے احمد کے بوسے نہ لیے تو خدانخواستہ کوئی بڑا گناہ سرزد ہوجائے گا؛ یا ان کی مقبولیت میں کمی آجائے گی۔
احمد کا استحصال صرف میڈیا پر ہی نہیں ہورہا بلکہ احمد کی چند وائرل ہونے والی تصاویر اور ویڈیو نے مجھے جھنجھوڑ کررکھ دیا جس میں ایک خاتون معصوم سے احمد کے ساتھ نہایت واہیات انداز میں چمٹ چمٹ کر پیار کررہی ہیں۔ اگر اس ویڈیو میں خاتون کی جگہ کوئی آدمی اور احمد کی جگہ کوئی معصوم بچی ہوتی تو ان حرکتوں پر اب تک، مختلف تنظیموں اور فنکاروں سمیت پورا میڈیا حرکت میں آچکا ہوتا اور اس شخص کے کردار پر سوال اٹھانے کے ساتھ اس کا بائیکاٹ کرچکا ہوتا۔ لیکن یہاں تو ایسا لگتا ہے جیسے پورے ملک میں احمد کو پیار کرنے کا مقابلہ سجا ہوا ہو، کہ احمد کے سب سے زیادہ بوسے کون لے گا، اور فنکاروں سمیت ہر کوئی اس مقابلے میں اول آنے کی کوششوں میں ہے۔
جہاں ایک طرف فنکاروں سمیت تمام افراد فرشتہ اور زینب جیسی معصوم کلیوں کے ساتھ ہوئے حادثے پر آواز اٹھاتے ہوئے بچوں کو گُڈ ٹچ اوربیڈ ٹچ کی آگاہی دینے کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں، وہیں احمد کے معاملے پر سب نے زبانیں اور آنکھیں کیوں بند کی ہوئی ہیں؟ احمد معصوم تو ہے ہی، نہایت ذہین بھی ہے اور اسے معلوم ہے اس کی معصوم شرارتوں سے اور اس کے بولے گئے الفاظ سے لوگ محظوظ ہوتے ہیں، لہٰذا یہ بچہ مزید معصوم شرارتیں کرتا ہے جس سے لوگ خوش ہوسکیں۔
لیکن اب احمد تھکنے لگا ہے، اسے ان جعلی چہروں کی بناوٹی ہنسی سے کوفت ہونے لگی ہے۔ احمد کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی چند تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے اب اپنے گھر کی یاد ستانے لگی ہے۔ ارے احمد جتنے معصوم بچے تو اپنے گھر کے بغیر تھوڑی دیر بھی نہیں رہ سکتے۔ اپنے بابا کے ساتھ ضد کرکے پارک جاتے ہیں یا کسی رشتے دار کے گھر جاتے ہیں تو تھوڑی دیر بعد ہی انہیں گھر کی یاد ستانے لگتی ہے۔ اور ان ریٹنگ کے لالچیوں نے تو احمد کو پچھلے کئی دنوں سے گھر سے اور اپنوں سے دور کیا ہوا ہے۔ احمد کی تصاویر کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ معصوم اپنی خاموش نگاہوں سے احتجاج کررہا ہے کہ اسے اب اپنوں کے پاس جانا ہے، اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنا ہے، ان کے ساتھ عید منانی ہے۔
خدا کے لیے اس معصوم بچے کو بخش دو، اسے اپنے گھر واپس جانے دو۔ ریٹنگ کسی معصوم بچے کے جذبات سے بڑھ کر نہیں ہوتی۔ جس طرح یہ میڈیا مالکان اور میزبان رمضان میں احمد کو کیش کروارہے ہیں اس سے تو ایسا لگتا ہے جیسے عید پر بھی یہ ننھے احمد کو نہ گھر جانے دیں گے اور نہ ہی دوستوں کے ساتھ عید منانے دیں گے، بلکہ عید پروگراموں کے نام سے لگنے والے تماشوں میں بھی احمد کو ریٹنگ کے لیے فنکاروں سے چمٹا چمٹا کر پیار کروایا جائے گا۔
اس میں قصور احمد کے والدین کا بھی ہے، جنہوں نے معصوم احمد کو مکمل طور پر میڈیا کے حوالے کردیا ہے اور خود پیچھے ہٹ گئے ہیں کہ جاؤ! جو کرنا ہے کرو۔ احمد کے والدین کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ان کا بچہ بہت معصوم ہے، جسے نہ تو پیسوں کی سمجھ ہے نہ ریٹنگ کی۔ خدا کے لئے! اسے ان تمام چیزوں کا عادی بناکر اس کا بچپن اور اس کی معصومیت نہ چھینیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
زنیرہ ضیاء منگل 4 جون 2019
احمد شاہ کی معصومیت کو میڈیا پر خوب کیش کرایا جارہا ہے۔ (فوٹو: فائل)
سرخ وسفید رنگت والے گول مٹول بچے کسے اچھے نہیں لگتے؟ ایسے بچوں کو دیکھ کر بے اختیار ان پر پیار آتا ہے اور ان کے پھولے پھولے گلابی گالوں کو دیکھ کر زور سے کھینچنے اور ان پر چٹکی کاٹنے کا من کرتا ہے۔ ایسے گولو مولو بچوں کے بال سہلانے اور انہیں گدگدی کرنے میں بڑا مزہ آتا ہے اور اس طرح کی حرکتیں کرنے کے بعد جب بچے چلا چلا کر دوربھاگنے کی کوشش کرتے ہیں تو دل کرتا ہے انہیں مزید پریشان کیا جائے، ان کےگال مزید زور سے کھینچے جائیں اور زور سے بھینچ کر ان بچوں کی ساری کیوٹنیس اپنے اندر جذب کرلی جائے۔
اوپر بیان کی گئیں تمام باتیں بچوں سے والہانہ محبت ظاہر کرتی ہیں اور اکثر لوگ خوبصورت اور معصوم بچوں کو دیکھنے کے بعد اسی انداز میں ان سے پیار کرتے ہیں، اس بات سے بے نیاز کہ لوگوں کی محبت کا یہ جنونی انداز بچوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ اس انسان سے دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بچے بہت معصوم ہوتے ہیں۔ پیار و محبت کے نام پر ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے، انہیں اس بات کی اتنی سمجھ نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر بچوں کو ضرورت سے زیادہ پیار کیا جائے تو انہیں جھنجھلاہٹ ہوتی ہے۔ خدا نے بچوں میں ایک الارم فٹ کیا ہوا ہے جو اس وقت خودبخود بج جاتا ہے جب والدین کے علاوہ کوئی اور انہیں ضرورت سے زیادہ پیار کرتا ہے اور بچے اپنے ساتھ اس طرح کی حرکتیں کرنے والوں سے خوفزدہ ہوکر دور بھاگتے ہیں۔ جب کہ کچھ بچے تو ایسے شخص کو دیکھ کر ڈر کے باعث اپنے والدین کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔
اخلاقی طور پر بھی بچوں کو بھینچ بھینچ کر پیار کرنا، ان کے بے تحاشا بوسے لینا صحیح نہیں۔ چاہے کوئی میری بات سے کتنا ہی اختلاف کرے بچوں کے ساتھ اس طرح کا اظہار محبت ان کے استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ننھے احمد شاہ کے ساتھ یہ سب روز ہورہا ہے، سب کے سامنے ہورہا ہے اور بہت دھڑلے سے ہورہا ہے۔ لیکن اس بچے کی بدقسمتی دیکھیں وہ احتجاج بھی نہیں کرسکتا اور اسے روز اپنے ساتھ ہونے والی ان حرکتوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
میں بات کررہی ہوں معصوم احمد شاہ کی جو آج کل میڈیا پر بڑے بڑے سیلیبریٹیز کی آنکھوں کا تارہ بنا ہوا ہے اور لوگ پیار و محبت کے نام پر اس کے ساتھ روز اسی طرح کی حرکتیں کررہے ہوتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ احمد بہت پیارا بچہ ہے، اس کی معصومیت سے بھری باتیں اور غصہ کرنے کا انداز ہی تو تھا جس نے لوگوں کو اپنا دیوانہ بنالیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ننھے احمد کے سوشل میڈیا پر ہزاروں مداح بن گئے، جو اس کی معصومیت پر دل سے فدا ہیں۔ اور اس کی معصوم باتوں کو، غصہ کرنے کے انداز کو مزے لے لے کر دیکھتے ہیں۔ لیکن پھر اچانک میڈیا کی نظر سوشل میڈیا کے اس ننھے اسٹار پر پڑی اور انہوں نے ریٹنگ کے چکر میں احمد کی معصومیت کو کیش کرانے کا فیصلہ کرلیا۔
اب احمد روز ٹی وی پر آتا ہے اور میزبان ہوں یا شو میں شرکت کرنے والے مہمان، ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ احمد کوئی ایسی بات کردے جس سے ان کی ریٹنگ کو پَر لگ جائیں۔ غضب خدا کا! میڈیا ریٹنگ کے چکر میں کیا کیا حربے اختیار کرتا ہے! کبھی ریٹنگ بڑھانے کے لیے مارننگ شو میں اچھے خاصے سمجھدار فنکاروں کو بلواکر نچوایا جاتا ہے، کبھی منہ پر بے تحاشا میک اپ تھوپے مارننگ شو کی میزبان اچھی خاصی گوری رنگت کو مزید گورا کرنے کی کریمیں بیچنے کی دکان سجائے بیٹھی ہوتی ہیں اور کبھی شادیوں کا تماشا لگا کر ریٹنگ کی دوڑ میں فرسٹ آنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اور اب ان کے ہاتھ احمد کے روپ میں ننھا کھلونا آگیا ہے اور تمام میڈیا مالکان (بشمول سرکس سجانے والے میزبانوں کے) احمد کی معصومیت کو بیچ کر خوب مال بنارہے ہیں اور یہ تماشا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کوئی دوسرا احمد سوشل میڈیا پر مقبولیت حاصل نہ کرلے اور میڈیا کے ہاتھ دوسرا کھلونا نہ آجائے۔
میڈیا مالکان اور میزبان بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ پیسہ کیسے بنانا ہے۔ یہ لوگ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے لیے ہی تو اپنی اپنی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ جہاں موٹر سائیکلوں اور عمرے کے ٹکٹ کے نام پر روز معصوم انسانوں کا تماشا لگایا جاتا ہے اور ان کی جی بھر کر بےعزتی کرنے کے بعد ایک عدد اسکوٹر یا چھوٹے موٹے تحائف پکڑا دیئے جاتے ہیں۔ احمد کے ساتھ بھی یہی سب ہورہا ہے۔ اس معصوم بچے کو روز ٹرانسمیشن نامی تماشے میں زبردستی بٹھایا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ احمد پھر کوئی ایسی بات کہہ دے جو ریٹنگ بڑھانے کا سبب بن جائے۔
بات صرف ایک شوتک محدود رہتی تو ٹھیک تھا، لیکن ان ظالم میڈیا مالکان نے چار، پانچ سال کے ننھے احمد کو ریٹنگ بنانے کی مشین ہی سمجھ لیا ہے اور ایک شو کے بعد فوراً ہی دوسرے شو میں اس کی انٹری کروائی جاتی ہے۔ جہاں میزبان سمیت مہمان ایسے چمٹ چمٹ کر احمد سے پیار کررہے ہوتے ہیں جیسے اگر انہوں نے احمد کے بوسے نہ لیے تو خدانخواستہ کوئی بڑا گناہ سرزد ہوجائے گا؛ یا ان کی مقبولیت میں کمی آجائے گی۔
احمد کا استحصال صرف میڈیا پر ہی نہیں ہورہا بلکہ احمد کی چند وائرل ہونے والی تصاویر اور ویڈیو نے مجھے جھنجھوڑ کررکھ دیا جس میں ایک خاتون معصوم سے احمد کے ساتھ نہایت واہیات انداز میں چمٹ چمٹ کر پیار کررہی ہیں۔ اگر اس ویڈیو میں خاتون کی جگہ کوئی آدمی اور احمد کی جگہ کوئی معصوم بچی ہوتی تو ان حرکتوں پر اب تک، مختلف تنظیموں اور فنکاروں سمیت پورا میڈیا حرکت میں آچکا ہوتا اور اس شخص کے کردار پر سوال اٹھانے کے ساتھ اس کا بائیکاٹ کرچکا ہوتا۔ لیکن یہاں تو ایسا لگتا ہے جیسے پورے ملک میں احمد کو پیار کرنے کا مقابلہ سجا ہوا ہو، کہ احمد کے سب سے زیادہ بوسے کون لے گا، اور فنکاروں سمیت ہر کوئی اس مقابلے میں اول آنے کی کوششوں میں ہے۔
جہاں ایک طرف فنکاروں سمیت تمام افراد فرشتہ اور زینب جیسی معصوم کلیوں کے ساتھ ہوئے حادثے پر آواز اٹھاتے ہوئے بچوں کو گُڈ ٹچ اوربیڈ ٹچ کی آگاہی دینے کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں، وہیں احمد کے معاملے پر سب نے زبانیں اور آنکھیں کیوں بند کی ہوئی ہیں؟ احمد معصوم تو ہے ہی، نہایت ذہین بھی ہے اور اسے معلوم ہے اس کی معصوم شرارتوں سے اور اس کے بولے گئے الفاظ سے لوگ محظوظ ہوتے ہیں، لہٰذا یہ بچہ مزید معصوم شرارتیں کرتا ہے جس سے لوگ خوش ہوسکیں۔
لیکن اب احمد تھکنے لگا ہے، اسے ان جعلی چہروں کی بناوٹی ہنسی سے کوفت ہونے لگی ہے۔ احمد کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی چند تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے اب اپنے گھر کی یاد ستانے لگی ہے۔ ارے احمد جتنے معصوم بچے تو اپنے گھر کے بغیر تھوڑی دیر بھی نہیں رہ سکتے۔ اپنے بابا کے ساتھ ضد کرکے پارک جاتے ہیں یا کسی رشتے دار کے گھر جاتے ہیں تو تھوڑی دیر بعد ہی انہیں گھر کی یاد ستانے لگتی ہے۔ اور ان ریٹنگ کے لالچیوں نے تو احمد کو پچھلے کئی دنوں سے گھر سے اور اپنوں سے دور کیا ہوا ہے۔ احمد کی تصاویر کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ معصوم اپنی خاموش نگاہوں سے احتجاج کررہا ہے کہ اسے اب اپنوں کے پاس جانا ہے، اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنا ہے، ان کے ساتھ عید منانی ہے۔
خدا کے لیے اس معصوم بچے کو بخش دو، اسے اپنے گھر واپس جانے دو۔ ریٹنگ کسی معصوم بچے کے جذبات سے بڑھ کر نہیں ہوتی۔ جس طرح یہ میڈیا مالکان اور میزبان رمضان میں احمد کو کیش کروارہے ہیں اس سے تو ایسا لگتا ہے جیسے عید پر بھی یہ ننھے احمد کو نہ گھر جانے دیں گے اور نہ ہی دوستوں کے ساتھ عید منانے دیں گے، بلکہ عید پروگراموں کے نام سے لگنے والے تماشوں میں بھی احمد کو ریٹنگ کے لیے فنکاروں سے چمٹا چمٹا کر پیار کروایا جائے گا۔
اس میں قصور احمد کے والدین کا بھی ہے، جنہوں نے معصوم احمد کو مکمل طور پر میڈیا کے حوالے کردیا ہے اور خود پیچھے ہٹ گئے ہیں کہ جاؤ! جو کرنا ہے کرو۔ احمد کے والدین کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ان کا بچہ بہت معصوم ہے، جسے نہ تو پیسوں کی سمجھ ہے نہ ریٹنگ کی۔ خدا کے لئے! اسے ان تمام چیزوں کا عادی بناکر اس کا بچپن اور اس کی معصومیت نہ چھینیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔