معصوم شرارتیں اور بونگیاں

نیلم

محفلین
ہمارے انگریزی کے استاد ہمیں کہاکرتے تھےکہ تم اپنے اندر اپنے
بچپن کو کبھی مرنے نہ دینا۔ اس طرح تم بوڑھے نہیں ہو گے۔
اگر تم اپنے بچپن کو اپنے اندر سنبھال کر نہ رکھ سکے تو پھر تمھیں
بوڑھا ہونے سے کوئی روک نہ پائے گا۔ شاید ہم سب کو ضرورت
ہے کہ ہم سب اپنے اندر بچپن کی وہ خوبیاں اجاگر کریں جو نفرت‘
حسد اور اس جیسی برائیوں سے پاک ہوتی ہیں۔ محبت بچپن
کا خاصا ہے۔ معصوم شرارتیں اور بونگیاں ذہنی تندرستی کے لیے بہت ضروری ہیں.

(Ashfaq Ahmed)
 

زبیر مرزا

محفلین
بہت عمدہ اور یہ تحریر بابا کی ہے تو اس کی خوبصورتی میں کوئی شک نہیں
آپ کا شکریہ اسے شئیر کرنے کا
ویسے سب کو اپنی کچھ بچکانہ (موجودہ) عادات بتانی چاہیں :) اس دھاگے میں
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
بہت عمدہ اور یہ تحریر بابا کی ہے تو اس کی خوبصورتی میں کوئی شک نہیں
آپ کا شکریہ اسے شئیر کرنے کا
ویسے سب کو اپنی کچھ بچکانہ (موجودہ) عادات بتانی چاہیں :) اس دھاگے میں
تو آپ اس پر کوئی دھاگا شروع کر لیں بھیا!
 

نیلم

محفلین
بہت عمدہ اور یہ تحریر بابا کی ہے تو اس کی خوبصورتی میں کوئی شک نہیں
آپ کا شکریہ اسے شئیر کرنے کا
ویسے سب کو اپنی کچھ بچکانہ (موجودہ) عادات بتانی چاہیں :) اس دھاگے میں
آپ کابھی بہت شکریہ...بلکل بہت اچھا آہیڈیاہےیہ.میں سب کو دعوت دیتی ہوں اس عنوان کے مطابق سب اپنی اپنی شرارتیں اور بونگیاں شیئرکریں.ویسے ایسا ہی ایک دھاگہ میں نےخواتین کارنرمیں بھی شروع کیا تھا.
 

الف نظامی

لائبریرین
ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ڈپریشن کے مرض سے پریشان ہیں۔ کروڑوں روپے کی ادویات سے ڈپریشن ختم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور یہ مرض ایسا ہے کہ خوفناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور اچھوت کی بیماری لگتا ہے۔ ہمارے بابے جن کا میں ذکر کرتا ہوں وہ بھی اس Stress یا ڈپریشن کے مرض کا علاج ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں تا کہ لوگوں کو اس موذی مرض سے نجات دلائی جائے۔​
پرسوں ہی جب میں نے بابا جی کے سامنے اپنی یہ مشکل پیش کی تو انہوں نے کہا کہ​
کیا آپ ڈپریشن کے مریض کو اس بات پر مائل کر سکتے ہیں کہ وہ دن میں ایک آدھ دفعہ “ بونگیاں “ مار لیا کرے۔ یعنی ایسی باتیں کریں جن کا مطلب اور معانی کچھ نہ ہو۔
جب ہم بچپن میں گاؤں میں رہتے تھے اور جوہڑ کے کنارے جاتے تھے اور اس وقت میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا اس وقت بھی پاپ میوزک آج کل کے پاپ میوزک سے بہت تیز تھا اور ہم پاپ میوزک یا گانے کے انداز میں یہ تیز تیز گاتے تھے :​
“ مور پاوے پیل سپ جاوے کُھڈ نوں بگلا بھگت چک لیاوے ڈڈ‌ نوں تے ڈڈاں دیاں لکھیاں نوں کون موڑ دا “
(مور ناچتا ہے جبکہ سانپ اپنے سوراخ یا گڑھے میں جاتا ہے۔ بگلا مینڈک کو خوراک کے لیے اچک کر لے آتا ہے اور اس طرح سب اپنی اپنی فطرت پر قائم ہیں اور مینڈک کی قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے)۔​
ہم کو زمانے نے اس قدر سنجیدہ اور سخت کر دیا ہے کہ ہم بونگی مارنے سے بھی قاصر ہیں۔ ہمیں اس قدر تشنج میں مبتلا کر دیا ہے کہ ہم بونگی بھی نہیں مار سکتے باقی امور تو دور کی بات ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا کر دیکھیں آپ کو چوبیس گھنٹوں میں کوئی وقت ایسا نہیں ملے گا جب آپ نے بونگی مارنے کی کوشش کی ہو۔ لطیفہ اور بات ہے۔ وہ باقاعدہ سوچ سمجھ کر موقع کی مناسبت سے سنایا جاتا ہے جبکہ بونگی کسی وقت بھی ماری جا سکتی ہے۔ روحانی ادویات اس وقت بننی شروع ہوتی ہیں جب آپ کے اندر معصومیت کا ایک ہلکا سا نقطہ موجود ہوتا ہے۔ یہ عام سی چیز ہے چاہے سوچ کر یا زور لگا کر ہی لائی جائے خوبصورت ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں :​
بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل​
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے​
 

نیلم

محفلین
عمدہ
ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ڈپریشن کے مرض سے پریشان ہیں۔ کروڑوں روپے کی ادویات سے ڈپریشن ختم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور یہ مرض ایسا ہے کہ خوفناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور اچھوت کی بیماری لگتا ہے۔ ہمارے بابے جن کا میں ذکر کرتا ہوں وہ بھی اس Stress یا ڈپریشن کے مرض کا علاج ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں تا کہ لوگوں کو اس موذی مرض سے نجات دلائی جائے۔​
پرسوں ہی جب میں نے بابا جی کے سامنے اپنی یہ مشکل پیش کی تو انہوں نے کہا کہ​
کیا آپ ڈپریشن کے مریض کو اس بات پر مائل کر سکتے ہیں کہ وہ دن میں ایک آدھ دفعہ “ بونگیاں “ مار لیا کرے۔ یعنی ایسی باتیں کریں جن کا مطلب اور معانی کچھ نہ ہو۔​
جب ہم بچپن میں گاؤں میں رہتے تھے اور جوہڑ کے کنارے جاتے تھے اور اس وقت میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا اس وقت بھی پاپ میوزک آج کل کے پاپ میوزک سے بہت تیز تھا اور ہم پاپ میوزک یا گانے کے انداز میں یہ تیز تیز گاتے تھے :​
“ مور پاوے پیل سپ جاوے کُھڈ نوں بگلا بھگت چک لیاوے ڈڈ‌ نوں تے ڈڈاں دیاں لکھیاں نوں کون موڑ دا “
(مور ناچتا ہے جبکہ سانپ اپنے سوراخ یا گڑھے میں جاتا ہے۔ بگلا مینڈک کو خوراک کے لیے اچک کر لے آتا ہے اور اس طرح سب اپنی اپنی فطرت پر قائم ہیں اور مینڈک کی قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے)۔​
ہم کو زمانے نے اس قدر سنجیدہ اور سخت کر دیا ہے کہ ہم بونگی مارنے سے بھی قاصر ہیں۔ ہمیں اس قدر تشنج میں مبتلا کر دیا ہے کہ ہم بونگی بھی نہیں مار سکتے باقی امور تو دور کی بات ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا کر دیکھیں آپ کو چوبیس گھنٹوں میں کوئی وقت ایسا نہیں ملے گا جب آپ نے بونگی مارنے کی کوشش کی ہو۔ لطیفہ اور بات ہے۔ وہ باقاعدہ سوچ سمجھ کر موقع کی مناسبت سے سنایا جاتا ہے جبکہ بونگی کسی وقت بھی ماری جا سکتی ہے۔ روحانی ادویات اس وقت بننی شروع ہوتی ہیں جب آپ کے اندر معصومیت کا ایک ہلکا سا نقطہ موجود ہوتا ہے۔ یہ عام سی چیز ہے چاہے سوچ کر یا زور لگا کر ہی لائی جائے خوبصورت ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں :​
بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل​
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے​
 

عدیل منا

محفلین
بونگی کا مطلب میں یہ لیتا ہوں "وہ بےوقوفی جو انسان سے بے اختیار سرزد ہوجائے" کیا یہ ٹھیک مطلب ہے؟ بونگی کو پنجابی میں چَوَل بھی کہا جاتا ہے۔ کوئی اگر بے وقوفی کی بات کرتا ہے تو کہتے ہیں چولاں نہ مار۔
یہ واضح نہیں ہے کہ بونگی صرف باتوں کی حد تک ہوتی ہے یا حرکتیں بھی ان میں شامل ہیں۔
 
Top