کبھی میں نظم لکھنے بیٹھتا ہوں جب
رجسٹر کھول کر، پنسل ترش کر
میز پر کہنی جما کر
اور ابھی تاریخ ہی کاغذ پر لکھ پاتا ہوں
یک دم وہ مری کرسی کے پیچھے آ دھمکتی ہے
حنا آلود ہاتھوں سے مری آنکھوں کو ڈھکتی ہے
تو اس کی گرم سانسوں سے
مری گردن پگھلتی ہے۔۔۔
وہ مجھ سے چھین کر پنسل
سبھی سطریں مکمل کرتی جاتی ہے
میں پنسل کی صراصر
اور اس کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ
پی کے مدہوشی میں کھو جاتا ہوں
پھر جب آنکھ کھلتی ہے
مرا دل ایک لمحے کو دھڑکنا بھول جاتا ہے
میں حیرانی سے کاغذ کی طرف جب دیکھتا ہوں
ایک کومل نظم کاغذ سے جھلکتی ہے
میں بیٹھا سوچتا رہتا ہوں
کیا میں نظم لکھتا ہوں
کہ مجھ کو نظم لکھتی ہے؟
رجسٹر کھول کر، پنسل ترش کر
میز پر کہنی جما کر
اور ابھی تاریخ ہی کاغذ پر لکھ پاتا ہوں
یک دم وہ مری کرسی کے پیچھے آ دھمکتی ہے
حنا آلود ہاتھوں سے مری آنکھوں کو ڈھکتی ہے
تو اس کی گرم سانسوں سے
مری گردن پگھلتی ہے۔۔۔
وہ مجھ سے چھین کر پنسل
سبھی سطریں مکمل کرتی جاتی ہے
میں پنسل کی صراصر
اور اس کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ
پی کے مدہوشی میں کھو جاتا ہوں
پھر جب آنکھ کھلتی ہے
مرا دل ایک لمحے کو دھڑکنا بھول جاتا ہے
میں حیرانی سے کاغذ کی طرف جب دیکھتا ہوں
ایک کومل نظم کاغذ سے جھلکتی ہے
میں بیٹھا سوچتا رہتا ہوں
کیا میں نظم لکھتا ہوں
کہ مجھ کو نظم لکھتی ہے؟