عادل ـ سہیل
محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
سب محترم قارئین کرام سے گذارش ہے کہ میرے مضامین میں عربی عبارات کو درست طور عربی فونٹس میں دیکھنے اور پڑھنے کے لیے درج ذیل ربط میں موجود فونٹس ڈاون لوڈ کیجیے اور اپنی مشینز میں انسٹال کر لیجیے ،
اور انتظامیہ سے بھی گذارش ہے کہ میرے مضامین اور مراسلات کے سارے ہی مندرجات کو نستعلیقی خطوط میں تبدیل کرنے سے رخصت دی جائے ، تا کہ عربی عبارات جو کہ عموما قران کریم کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی احادیث شریفہ ہوتی ہیں ، واضح اور درست طور پر دکھائی دیں اور پڑھی جا سکیں، نستعلیقی خطوط میں انہیں ٹھیک سے پڑھنا تقریبا نا ممکن ہے کیونکہ اکثر اعراب ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتے ، جزاکم اللہ خیرا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
::::::: معیت اللہ یعنی اللہ کا ساتھ ہونا،معیت اللہ کی اِقسام ، اللہ کے ساتھ ہونے کے طریقے:::::::
بسّم اللہِ الذی احاط مخلوقاتہ کلھا بعلمہ و بقُدراتہِ ، و الحمد للہ الذی لا یخفی علیہ شیءٌ فی السَّماواتِ و الارض ِ، و الصَّلاۃُ و السَّلامُ علیَ مَن لا نبی بعدہ ُ
اللہ کے نام سے آغاز ہے جِس نے اپنی ساری ہی مخلوق کو اپنے عِلم اور اپنی قدرتوں کے احاطہ میں لے رکھا ہے ، اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے جِس سے آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ، اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں
اللہ جل و علا کی ذات مبارک کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی وحی میں جو کہ خود اللہ کے کلام مبارک میں قران حکیم کی صُورت میں ، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف کی صُورت میں ہم تک پہنچی ، اُس وحی میں بڑی ہی وضاحت کے ساتھ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اللہ جلّ جلالہ اپنی تمام تر مخلوق سے الگ، جُدا اور بلند ، اپنے عرش کے اوپر ہے ،
الحمد للہ ، کہ اللہ ہی کی توفیق سے میں نے اسلامی عقیدے کے اس أہم اور بنیادی عقیدے کی وضاحت کے بارے میں ایک کتاب بعنوان """ اللہ کہاں ہے ؟ """ تیار کی جو برقی میڈیا پر نشر کی جا چکی ہے ،
آن لائن مطالعہ کے لیے درج ذیل روابط دیکھیے :::
http://bit.ly/Wa59Gj
اور برقی نسخہ ڈاون لوڈ کرنے کے لیے درج ذیل ربط :::
http://bit.ly/WdOB00
اِس کتاب میں ، میں نے لکھا تھا :::
""""""" ( 7 ) اللہ الکریم کا فرمان ہے :::
((((( هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ::: اللہ وہ ہے جِس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دِن میں کی پھر عرش پر قائم ہوا وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ زمین سے نکلتا ہے ، اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور آسمان میں چڑھتا ہے اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو وہ تم لوگوں کے ساتھ ہے اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے ))))) سورت الحدید(57)/آیت 4 ۔
×××اس مندرجہ بالا آیت مُبارکہ میں ہمارے اِس رواں موضوع کی دلیل کے ساتھ ساتھ ایک اور بات کی بھی وضاحت ہے ، جس کے بارے میں اکثر لوگ غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں ، اور وہ ہے اللہ تبارک و تعالی کی "" معیت "" یعنی اُس کا ساتھ ہونا ،جس کے بارے میں عموماًٍ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اپنی ذات مُبارک کے ذریعے کسی کے ساتھ ہوتا ہے ، جو کہ دُرُست نہیں ہے کیونکہ اللہ جلّ جلالہُ نے خود ہی اپنی """ معیت """ کی کیفیت بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (((((وَاللَّہ ُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیرٌ::: اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے ))))) یعنی اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا ساتھ ہونا اُس کے علم و قدرت، سماعت و بصارت کے ذریعے ہے ، نہ کہ اُس کی ذات مبارک کے وجود پاک کے ساتھ کسی کے ساتھ ہونا ہے، اِن شاء اللہ اس موضوع پر بات پھر کسی وقت۔"""""""
گو کہ اس وضاحت کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کی معیت ( یعنی اُس کے اپنی مخلوق میں سے کسی کے ساتھ ہونے )کے ذِکر کی بنا پر اس شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ اللہ کا ساتھ ہونا اُس کی ذات شریف کا ساتھ ہونا ہے ،
لیکن پھر بھی قارئین کرام کی طرف سے ایسے سوالات یا شبہات کا اظہار ہوا ہےجو اُن آیات مبارکہ سے ، جِن میں اللہ تعالیٰ کے اپنی کسی مخلوق کے ساتھ ہونے کا ذِکر ہے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ساتھ ہونا اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک کا ساتھ ہونا ہے ،
جسے """ معیت اللہ """ کہا جاتا ہے ،
اپنے اِس مضمون میں اِن شاء اللہ میں اُن آیات مبارکہ کی تفسیر پیش کروں گا جِن آیات مبارکہ میں اللہ جلّ جلالہ ُ کی معیت کا ذِکر ہے ، جِس سے اِن شاء اللہ یہ واضح ہو جائے گاکہ اللہ کی معیت اُس کی ذات کا ساتھ ہونا نہیں ،
بلکہ اللہ عزّ و جلّ کی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق میں سے کسی کے ساتھ ہونے سے مُراد اُس مخلوق کا ، اور اُس کے ظاہری اور باطنی افعال و اقوال کا اپنے عِلم ، سماعت ، بصارت ، حِکمت ، قُدرت اور تدبیر کےذریعے احاطہ کیے رکھنا ہے،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق کے ساتھ ہونا ، دو بنیادی اقسام میں ہے ، یُوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دو بنیادی انداز میں ہوتا ہے ،
::::::: (1) :::::::: عمومی معیت ،
::::::: (2) ::::::: خصوصی معیت ،
اِن شاء اللہ ، کوشش کروں گا اِن دونوں اقسام کا مختصر لیکن کافی و شافی تعارف اِسی مضمون میں ذِکر کر سکوں ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی کی اِس صِفت یعنی ‘‘‘‘‘معیت ، ساتھ ہونا’’’’’ کی کیفیت کو دُرُست طور پر سمجھنے میں لوگوں کو دو اسباب سے غلط فہمی ہوتی ہے :::
::::::: (1) ::::::: اللہ تبارک و تعالیٰ کی صِفات کو اللہ ہی کی دی ہوئی خبر کے مطابق نہ سمجھنے کی وجہ سے اللہ کی معیت کی صِفت کو بھی سمجھنے میں لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے ،
وہ اللہ کی مخلوق کی صِفات کے مطابق ، اللہ کے بارے میں بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کا کسی جگہ پر موجود ہوئے بغیر اُس جگہ پر ہونے والی حرکات و سکنات کو جاننا ممکن نہیں ، جب کہ ہمارے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جو کچھ برقیاتی آلات مہیا کروا دیے ہیں اُن کی موجودگی میں اِس قسم کا کوئی خیال نہیں آنا چاہیے ،
::::::: (2) ::::::: اللہ جلّ جلالہ ُ کی معیت کی کیفیت سمجھنے میں غلط فہمی کا ایک سبب یہ بھی ہے لوگ """ معھُم ، یا ، معکُم، یا ، معہُ ،یا ، معک """ یعنی """ اُن سب کے ساتھ ، یا ،تُم لوگوں کے ساتھ ، یا ، اُس کے ساتھ ، یا ، تمہارے ساتھ """ وغیرہ قسم کے الفاظ سے یہ سمجھتے ہیں کہ کسی ایک شخصیت یا چیز کا کسی دوسری شخصیت یا چیز کے ساتھ ہونے کے ذِکر سے یہ لازم ہوتا ہے دونوں اپنی اپنی ذات کے وجود کے ساتھ ، ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں ، جبکہ ایسا سمجھنا دُرُست نہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے قران کریم میں فرمائے گئے فرامین مبارکہ کے مطابق ہی دُرُست نہیں ، اِس کا ذِکر بھی اِن شاء اللہ آگےہوتا چلے گا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق میں سے کسی کے ساتھ ہونے کا ذِکر اپنی کتاب کریم میں کئی مقامات پر ، اور ایک سے زیادہ انداز میں فرمایا ہے ،
اِن شاء اللہ اِس مضمون میں ، ہم اُن یات کریمہ کا مطالعہ کریں گے جن آیات مبارکہ کو نا دُرُست طور پر سمجھنے کی وجہ سے سمجھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنی مخلوق کے ساتھ ہوتا ہے ، اور معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ ، کچھ تو ایسے بھی ہوئے اور ہیں جو ان آیات مبارکہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا اُس کے مخلوق میں، مخلوق کے اندر ، مخلوق کے ساتھ مختلط ہونے کا کفریہ عقیدہ اپنانے کی دلیل بناتے ہیں، اور اللہ ہُو ، اللہ ہُو ، اور پھر ہُو ، ہُو کے کفر میں گمراہ ہوتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں، اور اسے اللہ کا ذِکر سمجھتے ہیں ،
اللہ ہُو ، اللہ ہُو ، اور پھر مدارج کی بلندی کے بعد ہُو ، ہُو نامی ، خود ساختہ باطل عقیدے پر مبنی شور شرابہ کسی بھی طور اللہ کا ذِکر نہیں ہیں ، بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرامین کے انکار کا اعلان ہیں ، کیونکہ نہ تو اللہ پاک ہر جگہ موجود ہے ، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اِس دُنیا میں کسی کو نظر آتی ہے ،
اِس موضوع پر اِن شاء اللہ کسی اور وقت بات کروں گا ، فی الحال تو اپنے اِس رواں مضمون کے موضوع یعنی‘‘‘ اللہ کی معیت ، اللہ کا ساتھ ہونا ’’’ کی طرف واپس آتا ہوں ، اورقران کریم ہی کی روشنی میں اُن آیات کریمہ کو دُرُست طور سمجھتے ہیں جن آیات شریفہ کی بنا پر لوگ """ معیت اللہ """ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا بذاتہ اُس کی مخلوق میں موجود ہونا سمجھتے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::::: پہلی آیت :::::::
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اِرشاد پاک ہے (((((أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ::: کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ اُس کے بارے میں سب عِلم رکھتا ہے ،(حتیٰ کہ)اگر کوئی تین لوگ شرگوشی کرتے ہیں تو اللہ (گویا کہ )اُن میں چوتھا ہوتا ہے ، اور اگر (سرگوشی کرنےو الے )پانچ ہوں تو اللہ اُن میں چَھٹا ہوتا ہے ، اور اگر سرگوشی کرنےو الے اس (تعداد)سے کم ہوں یا زیادہ ہوں، تو بھی اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں ، پھر قیامت والے دِن اللہ اُن لوگوں کو (اُن کی سرگوشیوں کے بارے میں)خبر کردے گا ، یقیناً اللہ ہر ایک چیز کا خوب عِلم رکھتا ہے)))))سُورت المُجادلہ(58)/آیت 7،
اِس مذکورہ بالا آیت کریمہ کے بارے میں اتنا ہی سمجھنا کافی ہے کہ اِس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا لوگوں کے ساتھ ہونا اُس کے عِلم کے ذریعے ہے کہ ، وہ لوگوں کے بارے میں اُن کی ہر ایک بات اِس طرح جانتا ہے کہ گویا وہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے ،
جی ہاں ، غور کیجیے کہ اِس آیت کریمہ کا آغاز اُس کے عِلم کے ذِکر کے ساتھ فرمایا ہے اور اِختتام بھی اُس کے عِلم کے ذِکر پر فرمایا ہے ،
اللہ تعالیٰ نے اُس کے عِلم کے ذِکر سے کیا ہے بارے میں اِس خبر کے ساتھ فرمایا ہے کہ(((((أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ::: کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ اُس کے بارے میں سب عِلم رکھتا ہے)))))
اور پھر اِس عِلم کی وسعت اور کیفیات میں سے ایک کیفیت کا بیان فرمایا ہے کہ(((((مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا:::(حتیٰ کہ)اگر کوئی تین لوگ شرگوشی کرتے ہیں تو اللہ (گویا کہ )اُن میں چوتھا ہوتا ہے ، اور اگر (سرگوشی کرنےو الے )پانچ ہوں تو اللہ اُن میں چَھٹا ہوتا ہے ، اور اگر سرگوشی کرنےو الے اس (تعداد)سے کم ہوں یا زیادہ ہوں، تو بھی اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں)))))
اور پھر اپنے اُسی عِلم کے مطابق لوگوں کو اُن کے اعمال کی خبر دینے کا ذِکر فرمایا (((((ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ:::پھر قیامت والے دِن اللہ اُن لوگوں کو (اُن کی سرگوشیوں کے بارے میں)خبر کردے گا ، یقیناً اللہ ہر ایک چیز کا خوب عِلم رکھتا ہے)))))
پس اِسی آیت مبارکہ میں سے ہی یہ واضح ہوتا ہے کہ اِس اللہ تبارک و تعالیٰ کا لوگوں کے ساتھ ہونا اللہ کے عِلم کے ذریعے ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ ، اپنی مخلوق کے ساتھ نہیں ہوتا ، دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ اللہ کی ذات پاک اُس کی مخلوق کے ساتھ نہیں ہوتی ہے ۔
سُورت المُجادلہ کی اِس مذکورہ بالا آیت کریمہ کی یہی تفسیر عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، امام الضحاک بن مزاحم الہلالی رحمہُ اللہ ، امام سُفیان الثوری رحمہُ اللہ اور امام احمد ابن حنبل رحمہُ اللہ سے منقول ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے ، قارئین کرام سے درخواست ہے کہ اپنے ملاحظات یا سوالات کو مضمون کی تکمیل تک روکے رکھیے ، تا کہ مضمون کا تسلسل برقرار رہے اور عین ممکن ہے کہ آپ کے سوال یا اشکال کا جواب اگلے حصوں میں موجود ہو ، جزاکم اللہ خیرا ، والسلام علیکم
سب محترم قارئین کرام سے گذارش ہے کہ میرے مضامین میں عربی عبارات کو درست طور عربی فونٹس میں دیکھنے اور پڑھنے کے لیے درج ذیل ربط میں موجود فونٹس ڈاون لوڈ کیجیے اور اپنی مشینز میں انسٹال کر لیجیے ،
اور انتظامیہ سے بھی گذارش ہے کہ میرے مضامین اور مراسلات کے سارے ہی مندرجات کو نستعلیقی خطوط میں تبدیل کرنے سے رخصت دی جائے ، تا کہ عربی عبارات جو کہ عموما قران کریم کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی احادیث شریفہ ہوتی ہیں ، واضح اور درست طور پر دکھائی دیں اور پڑھی جا سکیں، نستعلیقی خطوط میں انہیں ٹھیک سے پڑھنا تقریبا نا ممکن ہے کیونکہ اکثر اعراب ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتے ، جزاکم اللہ خیرا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
::::::: معیت اللہ یعنی اللہ کا ساتھ ہونا،معیت اللہ کی اِقسام ، اللہ کے ساتھ ہونے کے طریقے:::::::
بسّم اللہِ الذی احاط مخلوقاتہ کلھا بعلمہ و بقُدراتہِ ، و الحمد للہ الذی لا یخفی علیہ شیءٌ فی السَّماواتِ و الارض ِ، و الصَّلاۃُ و السَّلامُ علیَ مَن لا نبی بعدہ ُ
اللہ کے نام سے آغاز ہے جِس نے اپنی ساری ہی مخلوق کو اپنے عِلم اور اپنی قدرتوں کے احاطہ میں لے رکھا ہے ، اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے جِس سے آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ، اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں
اللہ جل و علا کی ذات مبارک کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی وحی میں جو کہ خود اللہ کے کلام مبارک میں قران حکیم کی صُورت میں ، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف کی صُورت میں ہم تک پہنچی ، اُس وحی میں بڑی ہی وضاحت کے ساتھ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اللہ جلّ جلالہ اپنی تمام تر مخلوق سے الگ، جُدا اور بلند ، اپنے عرش کے اوپر ہے ،
الحمد للہ ، کہ اللہ ہی کی توفیق سے میں نے اسلامی عقیدے کے اس أہم اور بنیادی عقیدے کی وضاحت کے بارے میں ایک کتاب بعنوان """ اللہ کہاں ہے ؟ """ تیار کی جو برقی میڈیا پر نشر کی جا چکی ہے ،
آن لائن مطالعہ کے لیے درج ذیل روابط دیکھیے :::
http://bit.ly/Wa59Gj
اور برقی نسخہ ڈاون لوڈ کرنے کے لیے درج ذیل ربط :::
http://bit.ly/WdOB00
اِس کتاب میں ، میں نے لکھا تھا :::
""""""" ( 7 ) اللہ الکریم کا فرمان ہے :::
((((( هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ::: اللہ وہ ہے جِس نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق چھ دِن میں کی پھر عرش پر قائم ہوا وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ زمین سے نکلتا ہے ، اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور آسمان میں چڑھتا ہے اور تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو وہ تم لوگوں کے ساتھ ہے اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے ))))) سورت الحدید(57)/آیت 4 ۔
×××اس مندرجہ بالا آیت مُبارکہ میں ہمارے اِس رواں موضوع کی دلیل کے ساتھ ساتھ ایک اور بات کی بھی وضاحت ہے ، جس کے بارے میں اکثر لوگ غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں ، اور وہ ہے اللہ تبارک و تعالی کی "" معیت "" یعنی اُس کا ساتھ ہونا ،جس کے بارے میں عموماًٍ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ اپنی ذات مُبارک کے ذریعے کسی کے ساتھ ہوتا ہے ، جو کہ دُرُست نہیں ہے کیونکہ اللہ جلّ جلالہُ نے خود ہی اپنی """ معیت """ کی کیفیت بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (((((وَاللَّہ ُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیرٌ::: اور جو کچھ تُم لوگ کرتے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے ))))) یعنی اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا ساتھ ہونا اُس کے علم و قدرت، سماعت و بصارت کے ذریعے ہے ، نہ کہ اُس کی ذات مبارک کے وجود پاک کے ساتھ کسی کے ساتھ ہونا ہے، اِن شاء اللہ اس موضوع پر بات پھر کسی وقت۔"""""""
گو کہ اس وضاحت کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کی معیت ( یعنی اُس کے اپنی مخلوق میں سے کسی کے ساتھ ہونے )کے ذِکر کی بنا پر اس شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ اللہ کا ساتھ ہونا اُس کی ذات شریف کا ساتھ ہونا ہے ،
لیکن پھر بھی قارئین کرام کی طرف سے ایسے سوالات یا شبہات کا اظہار ہوا ہےجو اُن آیات مبارکہ سے ، جِن میں اللہ تعالیٰ کے اپنی کسی مخلوق کے ساتھ ہونے کا ذِکر ہے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ساتھ ہونا اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک کا ساتھ ہونا ہے ،
جسے """ معیت اللہ """ کہا جاتا ہے ،
اپنے اِس مضمون میں اِن شاء اللہ میں اُن آیات مبارکہ کی تفسیر پیش کروں گا جِن آیات مبارکہ میں اللہ جلّ جلالہ ُ کی معیت کا ذِکر ہے ، جِس سے اِن شاء اللہ یہ واضح ہو جائے گاکہ اللہ کی معیت اُس کی ذات کا ساتھ ہونا نہیں ،
بلکہ اللہ عزّ و جلّ کی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق میں سے کسی کے ساتھ ہونے سے مُراد اُس مخلوق کا ، اور اُس کے ظاہری اور باطنی افعال و اقوال کا اپنے عِلم ، سماعت ، بصارت ، حِکمت ، قُدرت اور تدبیر کےذریعے احاطہ کیے رکھنا ہے،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق کے ساتھ ہونا ، دو بنیادی اقسام میں ہے ، یُوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دو بنیادی انداز میں ہوتا ہے ،
::::::: (1) :::::::: عمومی معیت ،
::::::: (2) ::::::: خصوصی معیت ،
اِن شاء اللہ ، کوشش کروں گا اِن دونوں اقسام کا مختصر لیکن کافی و شافی تعارف اِسی مضمون میں ذِکر کر سکوں ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی کی اِس صِفت یعنی ‘‘‘‘‘معیت ، ساتھ ہونا’’’’’ کی کیفیت کو دُرُست طور پر سمجھنے میں لوگوں کو دو اسباب سے غلط فہمی ہوتی ہے :::
::::::: (1) ::::::: اللہ تبارک و تعالیٰ کی صِفات کو اللہ ہی کی دی ہوئی خبر کے مطابق نہ سمجھنے کی وجہ سے اللہ کی معیت کی صِفت کو بھی سمجھنے میں لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے ،
وہ اللہ کی مخلوق کی صِفات کے مطابق ، اللہ کے بارے میں بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کا کسی جگہ پر موجود ہوئے بغیر اُس جگہ پر ہونے والی حرکات و سکنات کو جاننا ممکن نہیں ، جب کہ ہمارے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جو کچھ برقیاتی آلات مہیا کروا دیے ہیں اُن کی موجودگی میں اِس قسم کا کوئی خیال نہیں آنا چاہیے ،
::::::: (2) ::::::: اللہ جلّ جلالہ ُ کی معیت کی کیفیت سمجھنے میں غلط فہمی کا ایک سبب یہ بھی ہے لوگ """ معھُم ، یا ، معکُم، یا ، معہُ ،یا ، معک """ یعنی """ اُن سب کے ساتھ ، یا ،تُم لوگوں کے ساتھ ، یا ، اُس کے ساتھ ، یا ، تمہارے ساتھ """ وغیرہ قسم کے الفاظ سے یہ سمجھتے ہیں کہ کسی ایک شخصیت یا چیز کا کسی دوسری شخصیت یا چیز کے ساتھ ہونے کے ذِکر سے یہ لازم ہوتا ہے دونوں اپنی اپنی ذات کے وجود کے ساتھ ، ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں ، جبکہ ایسا سمجھنا دُرُست نہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے قران کریم میں فرمائے گئے فرامین مبارکہ کے مطابق ہی دُرُست نہیں ، اِس کا ذِکر بھی اِن شاء اللہ آگےہوتا چلے گا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی معیت ، یعنی اُس کا اپنی مخلوق میں سے کسی کے ساتھ ہونے کا ذِکر اپنی کتاب کریم میں کئی مقامات پر ، اور ایک سے زیادہ انداز میں فرمایا ہے ،
اِن شاء اللہ اِس مضمون میں ، ہم اُن یات کریمہ کا مطالعہ کریں گے جن آیات مبارکہ کو نا دُرُست طور پر سمجھنے کی وجہ سے سمجھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ اپنی مخلوق کے ساتھ ہوتا ہے ، اور معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ ، کچھ تو ایسے بھی ہوئے اور ہیں جو ان آیات مبارکہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا اُس کے مخلوق میں، مخلوق کے اندر ، مخلوق کے ساتھ مختلط ہونے کا کفریہ عقیدہ اپنانے کی دلیل بناتے ہیں، اور اللہ ہُو ، اللہ ہُو ، اور پھر ہُو ، ہُو کے کفر میں گمراہ ہوتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں، اور اسے اللہ کا ذِکر سمجھتے ہیں ،
اللہ ہُو ، اللہ ہُو ، اور پھر مدارج کی بلندی کے بعد ہُو ، ہُو نامی ، خود ساختہ باطل عقیدے پر مبنی شور شرابہ کسی بھی طور اللہ کا ذِکر نہیں ہیں ، بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرامین کے انکار کا اعلان ہیں ، کیونکہ نہ تو اللہ پاک ہر جگہ موجود ہے ، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اِس دُنیا میں کسی کو نظر آتی ہے ،
اِس موضوع پر اِن شاء اللہ کسی اور وقت بات کروں گا ، فی الحال تو اپنے اِس رواں مضمون کے موضوع یعنی‘‘‘ اللہ کی معیت ، اللہ کا ساتھ ہونا ’’’ کی طرف واپس آتا ہوں ، اورقران کریم ہی کی روشنی میں اُن آیات کریمہ کو دُرُست طور سمجھتے ہیں جن آیات شریفہ کی بنا پر لوگ """ معیت اللہ """ کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا بذاتہ اُس کی مخلوق میں موجود ہونا سمجھتے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::::::: پہلی آیت :::::::
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اِرشاد پاک ہے (((((أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ::: کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ اُس کے بارے میں سب عِلم رکھتا ہے ،(حتیٰ کہ)اگر کوئی تین لوگ شرگوشی کرتے ہیں تو اللہ (گویا کہ )اُن میں چوتھا ہوتا ہے ، اور اگر (سرگوشی کرنےو الے )پانچ ہوں تو اللہ اُن میں چَھٹا ہوتا ہے ، اور اگر سرگوشی کرنےو الے اس (تعداد)سے کم ہوں یا زیادہ ہوں، تو بھی اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں ، پھر قیامت والے دِن اللہ اُن لوگوں کو (اُن کی سرگوشیوں کے بارے میں)خبر کردے گا ، یقیناً اللہ ہر ایک چیز کا خوب عِلم رکھتا ہے)))))سُورت المُجادلہ(58)/آیت 7،
اِس مذکورہ بالا آیت کریمہ کے بارے میں اتنا ہی سمجھنا کافی ہے کہ اِس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا لوگوں کے ساتھ ہونا اُس کے عِلم کے ذریعے ہے کہ ، وہ لوگوں کے بارے میں اُن کی ہر ایک بات اِس طرح جانتا ہے کہ گویا وہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے ،
جی ہاں ، غور کیجیے کہ اِس آیت کریمہ کا آغاز اُس کے عِلم کے ذِکر کے ساتھ فرمایا ہے اور اِختتام بھی اُس کے عِلم کے ذِکر پر فرمایا ہے ،
اللہ تعالیٰ نے اُس کے عِلم کے ذِکر سے کیا ہے بارے میں اِس خبر کے ساتھ فرمایا ہے کہ(((((أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ::: کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ اُس کے بارے میں سب عِلم رکھتا ہے)))))
اور پھر اِس عِلم کی وسعت اور کیفیات میں سے ایک کیفیت کا بیان فرمایا ہے کہ(((((مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا:::(حتیٰ کہ)اگر کوئی تین لوگ شرگوشی کرتے ہیں تو اللہ (گویا کہ )اُن میں چوتھا ہوتا ہے ، اور اگر (سرگوشی کرنےو الے )پانچ ہوں تو اللہ اُن میں چَھٹا ہوتا ہے ، اور اگر سرگوشی کرنےو الے اس (تعداد)سے کم ہوں یا زیادہ ہوں، تو بھی اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں)))))
اور پھر اپنے اُسی عِلم کے مطابق لوگوں کو اُن کے اعمال کی خبر دینے کا ذِکر فرمایا (((((ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ:::پھر قیامت والے دِن اللہ اُن لوگوں کو (اُن کی سرگوشیوں کے بارے میں)خبر کردے گا ، یقیناً اللہ ہر ایک چیز کا خوب عِلم رکھتا ہے)))))
پس اِسی آیت مبارکہ میں سے ہی یہ واضح ہوتا ہے کہ اِس اللہ تبارک و تعالیٰ کا لوگوں کے ساتھ ہونا اللہ کے عِلم کے ذریعے ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ ، اپنی مخلوق کے ساتھ نہیں ہوتا ، دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ اللہ کی ذات پاک اُس کی مخلوق کے ساتھ نہیں ہوتی ہے ۔
سُورت المُجادلہ کی اِس مذکورہ بالا آیت کریمہ کی یہی تفسیر عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، امام الضحاک بن مزاحم الہلالی رحمہُ اللہ ، امام سُفیان الثوری رحمہُ اللہ اور امام احمد ابن حنبل رحمہُ اللہ سے منقول ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے ، قارئین کرام سے درخواست ہے کہ اپنے ملاحظات یا سوالات کو مضمون کی تکمیل تک روکے رکھیے ، تا کہ مضمون کا تسلسل برقرار رہے اور عین ممکن ہے کہ آپ کے سوال یا اشکال کا جواب اگلے حصوں میں موجود ہو ، جزاکم اللہ خیرا ، والسلام علیکم