معین اختر۔ ہٹائیے، چھوڑئیے، وہ بھی کوئی اداکار تھا۔

جاسمن

لائبریرین

معین اختر۔ ہٹائیے، چھوڑئیے، وہ بھی کوئی اداکار تھا۔​

شعیب بن عزیز
21.9.2023
کالم نگاری کے پردے میں ساحری کو رواج دینے والے ہارون الرشید کا کہا بہت پہلے گرہ میں باندھ لیا تھا کہ زندگی دوسروں کی خامیوں پہ نہیں اپنی خوبیوں پہ بسر کرنی چاہیے۔ صبر کی بھی، لیکن، کوئی حد ہوتی ہے، برداشت کا بھی کوئی پیمانہ ہوتا ہے۔ یہ سرحد ختم ہو جائے اور یہ پیمانہ لبریز ہونے لگے تو انسان کیا کرے۔ معین اختر جیسے بے مثال فنکار اور نابغہ روزگار کو تحقیر کا نشانہ بنایا گیا، افسوس صد افسوس۔ اس عبقری کو اداکاری کے میدان میں محض ایک تابع مہمل ثابت کرنے کی کوشش کی گئی حیف صد حیف۔


معین اختر کے شہرہ آفاق پروگرام ”لوز ٹاک“ کے مصنف انور مقصود کے تازہ ترین ارشادات کے مطابق اس پروگرام کی تشکیل و ترتیب میں معین اختر کی کسی ذاتی صلاحیت کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یہ تمام سکرپٹ الف سے یے تک ان کا لکھا ہوتا تھا۔ معین نے اس میں ایک جملے کا تو کیا کبھی ایک لفظ کا اضافہ بھی اپنی طرف سے نہیں کیا، ترمیم کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

مرے پہ سو درے۔ موصوف کی اگلی بات کے اعادے کے لئے حوصلہ درکار ہے، کمزور دل قارئین صرف نظر سے کام لیں، ۔ مدعا یہ کہ معین اختر کی ایک ایک حرکت، باڈی لینگویج، بولنے کا سٹائل، آواز کا زیر و بم، لہجے کا اتار چڑھاؤ، اعضا کی جنبش حتی کہ پروگرام کے دوران معین جو سانس لیتے تھے ان کی تعداد تک سکرپٹ میں پہلے سے طے شدہ ہوتی تھی۔
چلئے سادہ دل مداحوں نے تو آپ کی یہ بات تسلیم کرلی، لیکن پروڈیوسروں اور ہدایت کاروں سمیت، فلم انڈسٹری اور ٹی وی سے وابستہ کارکنوں کا آپ کیا کریں گے۔ معین اختر اور اس کی پرفارمنس کے ساتھ جڑی ہوئی ان سینکڑوں افراد کی یادداشتیں تو ایک یکسر مختلف منظر نامے کی گواہی دیتی ہیں۔

”سات سروں کا بہتا دریا۔“ جیسی غزلوں اور بے شمار یادگار ٹی وی ڈراموں کے خالق ایوب خاور معین اختر مرحوم کے دیرینہ ساتھیوں میں سے ہیں۔ انہوں نے، ریڈیو پاکستان کراچی کی راہداریوں سے لے کر فلم اور سٹیج کی بلندیوں تک، معین کے سفر کو قریب سے دیکھا ہے۔ ان سے گفتگو ہوئی تو غالب کے بقول گویا دبستاں کھل گیا۔ ابتدا ہی اس بات سے کی کہ معین جیسے فنکاروں کی عظمت میں کسی تعریف سے اضافہ ہو سکتا ہے نہ تنقیص سے کمی۔ لہری اور معین، ان کے خیال میں، دو ایسے فنکار ہیں جنہوں نے اپنی اداکاری کے ذریعے فلم اور ٹیلی ویژن کو طنز و مزاح کی ایک نئی دنیا سے آگاہ کیا۔
ایوب خاور نے درست کہا کہ معین اختر ایک کثیر الجہت فنکار تھے۔ انہوں نے کئی یادگار کردار کیے ، لیکن شوبز کی کئی اور شخصیتوں کے برعکس، معین نے کسی ایک کردار کو اپنی واحد شناخت نہیں بننے دیا۔ دوسرے لفظوں میں وہ کسی ایک کردار کے اس طرح اسیر نہیں ہوئے کہ دنیا اسی ایک کردار کے حوالے سے انہیں پہچانتی۔ کمال فن، شاید اسی کو کہتے ہیں۔

اداکار مزاحیہ ہوں یا سنجیدہ دنیا بھر میں ان کے مقام کا تعین، سٹیج اور سکرین پر ان کی پرفارمنس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔ ان کے حصے میں آنے والی مدح و ستائش کی واحد بنیاد بھی ان کی پرفارمنس کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ ناظرین کو اس بات سے بہت کم غرض رہی ہے کہ ان کا پسندیدہ ہیرو جو الفاظ ادا کر رہا ہے وہ کس شوخ کی طبع رسا کا ثمر ہیں۔ دوسری طرف، مغرب ہو کہ مشرق، تھیٹر اور فلم کی دنیا میں ایسا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا کہ کسی لکھنے والے نے اپنا قد بڑھانے کے لئے کسی اداکار یا اداکارہ کی قامت کشی کو ضروری سمجھا ہو۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ نوٹنگ ہل (Notting hill) اور اس جیسی کئی اور فلموں اور سیریز کا مصنف Richard Curtis میڈیا والوں سے کہہ رہا ہو کہ یہ ہیو گرانٹ اور روون ایٹکنسن یعنی Mr Bean کیا بیچتے ہیں، ان کی شہرت کو تو میری جوتیوں کا صدقہ سمجھئے۔
کالم کا سفر جاری تھا کہ لندن سے برادرم عارف وقار کا فون آ گیا۔ جی ہاں وہی بی بی سی والے، زبان و بیاں کی دنیا کے رازداں مشہور براڈکاسٹر عارف وقار۔ پوچھنے پر موضوع زیر تحریر کا ذکر کیا تو سٹپٹا اٹھے کہ یہ سب تھڑ دلی کی باتیں ہیں۔ خود نمائی، خود ستائی اور سنک جیسی بیماریوں سے اللہ محفوظ رکھے۔ یہ وہ عوارض ہیں جو بڑھا پے میں شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ اس کے بعد دیر تک معین اختر کی ذاتی اور فنی خوبیوں کا ذکر کرتے رہے۔ آخر میں کیسی پتے کی بات کی کہ دور کیوں جاتے ہو خود ہمارے یہاں مقبولیت کی انتہا کو چھونے والی سیریز ”الف نون“ کا سکرپٹ ہمیشہ کمال احمد رضوی نے لکھا لیکن انہوں نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ پروگرام کے دوسرے کردار یعنی ننھے کی کار کردگی اور شہرت ان کے قلم کی مرہون منت ہے۔

عارف وقار کی باتوں سے فیض احمد فیض یاد آئے۔ ایک جینوئن فنکار اپنے جیسے بڑے فنکار کو کس طرح خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ فرمائش ہوئی کہ گلوں میں رنگ بھرے۔ والی غزل عنائیت کیجئے۔ فرمایا مہدی حسن صاحب سے سنئے۔ یہ غزل اب ان کی ہو چکی۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔
IMG-20230922-192317.jpg
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
انور مقصود بے شک اچھا لکھنے والوں میں سے ہیں، اگر انہوں نے ایسی بات کی ہے تو اس سے معین اختر کا کچھ نہیں گیا لیکن انور مقصود صاحب نے اپنا قد ضرور چھوٹا کر لیا۔
 

جاسمن

لائبریرین
انور مقصود اگر یہ کہتے ہیں کہ معین اختر خود کچھ نہیں تھے، محض ان کے لکھا ہوا بولتے تھے تو وہ خود ابھی زندہ ہیں، لکھتے بھی ہیں، کوئی اور معین اختر بنا لیں۔ ان کے لیے بھلا کیا مشکل ہے!!!
 

جاسمن

لائبریرین
جیدی ایک اچھے اداکار تھے لیکن ان پہ جیدی کی جو چھاپ لگی، مٹ نہ سکی۔
اسی طرح بہت سے مزاحیہ اداکاروں نے کسی ایک کردار کو اپنی ایسی پہچان بنایا کہ اس کے علاؤہ مزید کچھ اور نہ کر سکے۔ سونا چاندی کے دونوں سونا اور چاندی۔
لیکن معین اختر نے اپنی ایک ایسی پہچان بنائی کہ کردار پیچھے رہ گئے اور معین کہیں آگے نکل گئے۔
اللٌٰہ انھیں اونچے درجات عطا فرمائے۔ آمین!
 

سیما علی

لائبریرین
معین اختر کے شہرہ آفاق پروگرام ”لوز ٹاک“ کے مصنف انور مقصود کے تازہ ترین ارشادات کے مطابق اس پروگرام کی تشکیل و ترتیب میں معین اختر کی کسی ذاتی صلاحیت کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یہ تمام سکرپٹ الف سے یے تک ان کا لکھا ہوتا تھا۔ معین نے اس میں ایک جملے کا تو کیا کبھی ایک لفظ کا اضافہ بھی اپنی طرف سے نہیں کیا، ترمیم کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اگر ترمیم وتخفیف نہ بھی کی ہو تو اپنی آفاقی اداکاری و صداکاری کی صورت میں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے ۔۔۔یہ کسی مصنف کا کمال نہیں !!!کیونکہ اگر اداکاری شاندار و جاندار نہ ہو تو لاکھ لکھنے والا کمال دکھائے کوئی نہ دیکھے۔۔۔۔قصور انکا نہیں انکے نشے کا ہے کہ وہ ام الخبائث کے زیر اثر کچھ بھی کہیں یہ کوئی بڑائی نہیں ۔۔۔ انکے ایک چچا ہمارے کسٹمر تھے نام تھا انکا آئی ایچ حمیدی ۔۔۔ہم سنٹرل برانچ میں ہوا کرتے تھے تو ایک دو مرتبہ وہ نارمل حالت میں برانچ نہیں آئے ۔۔ہم نے کسٹمر ہونے کی وجہ سے پوری عزت دے کر بٹھایا ۔۔کیپچر کیا ہو ا اے ٹی ایم بھی واپس کیا ایک مرتبہ فون کیا کے بیٹا اگر ممکن ہو تو گھر جاتے ہوئے ۔۔کل رات ہم برانچ آئے تھے تو کار ڈ کیپچر ہوگیا ےو ہ ہمارے گھر ڈراپ کرتے ہوئے چلی جائیں ۔۔باہر جو نیم پلیٹ لگی تھی اس پہ لکھا تھا ۔۔۔
I.H.HAMEEDI
COLLECTOR CUSTOMS
R-P.T.V.
ہم بڑے حیران ہوئے پوچھا ۔۔انکی نصف بہتر سے پوچھا آخر یہ کیا ماجرہ ہے ۔۔۔بتا یا انھوں نے کہ جب نارمل نہیں ہوتے تو ایسئ حرکت ضرور کرتے ہیں ہم صرف جھیلتے ہیں ۔۔۔انکو بھٹو صاحب نے پی ٹی وی پر ایک اعلان کے ذریعے ریٹائر کیا تھا ۔۔یہ کوئی 2200 کے قریب گورنمنٹ افسران کو ریٹائیر کیا ۔۔۔۔ جو کرپٹ تھے ۔۔یہ نشے کی حالت میں کہتے تھے میں کیوں نہ رشوت لوں میں ریس کے گھوڑوں میں ہار گیا ۔۔کرلو گل🥹🥹🥹🥹🥹اب کرپشن میں ریٹاہئر بھی نہ کیے جائیں ۔۔۔یہ سب باتیں انکی نصف بہتر نے ہمارے گوش گزار کیں اور وہ انکی موجودگی میں۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
جیدی ایک اچھے اداکار تھے لیکن ان پہ جیدی کی جو چھاپ لگی، مٹ نہ سکی۔
اسی طرح بہت سے مزاحیہ اداکاروں نے کسی ایک کردار کو اپنی ایسی پہچان بنایا کہ اس کے علاؤہ مزید کچھ اور نہ کر سکے۔ سونا چاندی کے دونوں سونا اور چاندی۔
لیکن معین اختر نے اپنی ایک ایسی پہچان بنائی کہ کردار پیچھے رہ گئے اور معین کہیں آگے نکل گئے۔
اللٌٰہ انھیں اونچے درجات عطا فرمائے۔ آمین!
آمین ثم آمین
 

معین اختر۔ ہٹائیے، چھوڑئیے، وہ بھی کوئی اداکار تھا۔​

شعیب بن عزیز
21.9.2023
کالم نگاری کے پردے میں ساحری کو رواج دینے والے ہارون الرشید کا کہا بہت پہلے گرہ میں باندھ لیا تھا کہ زندگی دوسروں کی خامیوں پہ نہیں اپنی خوبیوں پہ بسر کرنی چاہیے۔ صبر کی بھی، لیکن، کوئی حد ہوتی ہے، برداشت کا بھی کوئی پیمانہ ہوتا ہے۔ یہ سرحد ختم ہو جائے اور یہ پیمانہ لبریز ہونے لگے تو انسان کیا کرے۔ معین اختر جیسے بے مثال فنکار اور نابغہ روزگار کو تحقیر کا نشانہ بنایا گیا، افسوس صد افسوس۔ اس عبقری کو اداکاری کے میدان میں محض ایک تابع مہمل ثابت کرنے کی کوشش کی گئی حیف صد حیف۔


معین اختر کے شہرہ آفاق پروگرام ”لوز ٹاک“ کے مصنف انور مقصود کے تازہ ترین ارشادات کے مطابق اس پروگرام کی تشکیل و ترتیب میں معین اختر کی کسی ذاتی صلاحیت کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یہ تمام سکرپٹ الف سے یے تک ان کا لکھا ہوتا تھا۔ معین نے اس میں ایک جملے کا تو کیا کبھی ایک لفظ کا اضافہ بھی اپنی طرف سے نہیں کیا، ترمیم کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

مرے پہ سو درے۔ موصوف کی اگلی بات کے اعادے کے لئے حوصلہ درکار ہے، کمزور دل قارئین صرف نظر سے کام لیں، ۔ مدعا یہ کہ معین اختر کی ایک ایک حرکت، باڈی لینگویج، بولنے کا سٹائل، آواز کا زیر و بم، لہجے کا اتار چڑھاؤ، اعضا کی جنبش حتی کہ پروگرام کے دوران معین جو سانس لیتے تھے ان کی تعداد تک سکرپٹ میں پہلے سے طے شدہ ہوتی تھی۔
چلئے سادہ دل مداحوں نے تو آپ کی یہ بات تسلیم کرلی، لیکن پروڈیوسروں اور ہدایت کاروں سمیت، فلم انڈسٹری اور ٹی وی سے وابستہ کارکنوں کا آپ کیا کریں گے۔ معین اختر اور اس کی پرفارمنس کے ساتھ جڑی ہوئی ان سینکڑوں افراد کی یادداشتیں تو ایک یکسر مختلف منظر نامے کی گواہی دیتی ہیں۔

”سات سروں کا بہتا دریا۔“ جیسی غزلوں اور بے شمار یادگار ٹی وی ڈراموں کے خالق ایوب خاور معین اختر مرحوم کے دیرینہ ساتھیوں میں سے ہیں۔ انہوں نے، ریڈیو پاکستان کراچی کی راہداریوں سے لے کر فلم اور سٹیج کی بلندیوں تک، معین کے سفر کو قریب سے دیکھا ہے۔ ان سے گفتگو ہوئی تو غالب کے بقول گویا دبستاں کھل گیا۔ ابتدا ہی اس بات سے کی کہ معین جیسے فنکاروں کی عظمت میں کسی تعریف سے اضافہ ہو سکتا ہے نہ تنقیص سے کمی۔ لہری اور معین، ان کے خیال میں، دو ایسے فنکار ہیں جنہوں نے اپنی اداکاری کے ذریعے فلم اور ٹیلی ویژن کو طنز و مزاح کی ایک نئی دنیا سے آگاہ کیا۔
ایوب خاور نے درست کہا کہ معین اختر ایک کثیر الجہت فنکار تھے۔ انہوں نے کئی یادگار کردار کیے ، لیکن شوبز کی کئی اور شخصیتوں کے برعکس، معین نے کسی ایک کردار کو اپنی واحد شناخت نہیں بننے دیا۔ دوسرے لفظوں میں وہ کسی ایک کردار کے اس طرح اسیر نہیں ہوئے کہ دنیا اسی ایک کردار کے حوالے سے انہیں پہچانتی۔ کمال فن، شاید اسی کو کہتے ہیں۔

اداکار مزاحیہ ہوں یا سنجیدہ دنیا بھر میں ان کے مقام کا تعین، سٹیج اور سکرین پر ان کی پرفارمنس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔ ان کے حصے میں آنے والی مدح و ستائش کی واحد بنیاد بھی ان کی پرفارمنس کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ ناظرین کو اس بات سے بہت کم غرض رہی ہے کہ ان کا پسندیدہ ہیرو جو الفاظ ادا کر رہا ہے وہ کس شوخ کی طبع رسا کا ثمر ہیں۔ دوسری طرف، مغرب ہو کہ مشرق، تھیٹر اور فلم کی دنیا میں ایسا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا کہ کسی لکھنے والے نے اپنا قد بڑھانے کے لئے کسی اداکار یا اداکارہ کی قامت کشی کو ضروری سمجھا ہو۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ نوٹنگ ہل (Notting hill) اور اس جیسی کئی اور فلموں اور سیریز کا مصنف Richard Curtis میڈیا والوں سے کہہ رہا ہو کہ یہ ہیو گرانٹ اور روون ایٹکنسن یعنی Mr Bean کیا بیچتے ہیں، ان کی شہرت کو تو میری جوتیوں کا صدقہ سمجھئے۔
کالم کا سفر جاری تھا کہ لندن سے برادرم عارف وقار کا فون آ گیا۔ جی ہاں وہی بی بی سی والے، زبان و بیاں کی دنیا کے رازداں مشہور براڈکاسٹر عارف وقار۔ پوچھنے پر موضوع زیر تحریر کا ذکر کیا تو سٹپٹا اٹھے کہ یہ سب تھڑ دلی کی باتیں ہیں۔ خود نمائی، خود ستائی اور سنک جیسی بیماریوں سے اللہ محفوظ رکھے۔ یہ وہ عوارض ہیں جو بڑھا پے میں شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ اس کے بعد دیر تک معین اختر کی ذاتی اور فنی خوبیوں کا ذکر کرتے رہے۔ آخر میں کیسی پتے کی بات کی کہ دور کیوں جاتے ہو خود ہمارے یہاں مقبولیت کی انتہا کو چھونے والی سیریز ”الف نون“ کا سکرپٹ ہمیشہ کمال احمد رضوی نے لکھا لیکن انہوں نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ پروگرام کے دوسرے کردار یعنی ننھے کی کار کردگی اور شہرت ان کے قلم کی مرہون منت ہے۔

عارف وقار کی باتوں سے فیض احمد فیض یاد آئے۔ ایک جینوئن فنکار اپنے جیسے بڑے فنکار کو کس طرح خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ فرمائش ہوئی کہ گلوں میں رنگ بھرے۔ والی غزل عنائیت کیجئے۔ فرمایا مہدی حسن صاحب سے سنئے۔ یہ غزل اب ان کی ہو چکی۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔
IMG-20230922-192317.jpg
خدا پاک معین اختر صاحب کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں سکون نصیب فرمائے کیا پائے کے اداکار تھے

انکا ایک ڈرامہ روزی ۔ ایک سچ مچ میرے پسندیدہ رہے

ہنسیاں بکھیرتے دنیا سے گئے

خدا انکی مغفرت فرمائے۔ بہت ہی لیخنڈ انسان تھے
 

سیما علی

لائبریرین
سیریز ”الف نون“ کا سکرپٹ ہمیشہ کمال احمد رضوی نے لکھا لیکن انہوں نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ پروگرام کے دوسرے کردار یعنی ننھے کی کار کردگی اور شہرت ان کے قلم کی مرہون منت ہے۔
کمال احمد رضوی ایک کمال کے رائٹر تھے ۔۔۔لیکن ہمیشہ رفیع خاور ( ننھے) کی بےحد تعریف کی۔۔اور انکی بہت عزت کی یہی ایک بڑے انسان کی نشانی ہے ۔۔۔پروردگا ر مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے آمین
 
کمال احمد رضوی ایک کمال کے رائٹر تھے ۔۔۔لیکن ہمیشہ رفیع خاور ( ننھے) کی بےحد تعریف کی۔۔اور انکی بہت عزت کی یہی ایک بڑے انسان کی نشانی ہے ۔۔۔پروردگا ر مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے آمین
آمین ثمہ آمین
 
کیا وقت تھا وہ ایسے جیسے ایک سحر طاری ہو جاتا ہے جب ماضی کے دریچوں میں ایسے انسان یاد آتے ہیں

افسوس کہ وقت کبھی واپس نہی پلٹتا
 

علی وقار

محفلین
انور مقصود ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں۔ میں گمان رکھتا ہوں کہ انہوں نے ایسی کو ئی بات نہ کی ہو گی۔ معین اختر مرحوم کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے یہ ویڈیو ملاحظہ فرمائیے:
 

جاسمن

لائبریرین
انور مقصود ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں۔ میں گمان رکھتا ہوں کہ انہوں نے ایسی کو ئی بات نہ کی ہو گی۔ معین اختر مرحوم کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے یہ ویڈیو ملاحظہ فرمائیے:
سننے لگی تو پوری کیے بغیر نہ رہی۔
اللہ پاک انھیں اعلیٰ درجات عطا فرمائے ۔ لواحقین کو خوشیوں اور آسانیوں والی زندگی دے۔ ہمیں بھی ایسی نیکیوں کی توفیق دے۔ آمین!
 

محمد وارث

لائبریرین
معین اختر تو خیر کسی اور ہی مقام کے آدمی تھے، نہ صرف انتہائی اچھے فنکار تھے بلکہ انسان بھی اتنے ہی اچھے تھے اور اس پر لاتعداد گواہیاں ہیں۔ انور مقصود کے اگر فینز بہت سے ہیں تو ان کو ناپسند کرنے والے بھی کافی ہیں اور یہ کالم نما تحریر کچھ ایسی ہی ہے۔

مثال کے طور پر اگر کوئی مصنف کہے کہ میرافلاں پروگرام سارے کا سارا اسکرپٹڈ ہوتا تھا اور کسی پرفارمر نے اسکرپٹ میں نہ کبھی کچھ اضافہ کیا اور نہ ترمیم کی تو اس میں پرفارمر کی توہین اور تحقیر کہاں سے نکل آئی؟ انور مقصود نے اگر ایسا کچھ بھی کہا ہے تو ظاہر ہے کہ معین اختر مرحوم کی اس میں کوئی توہین یا تحقیر نہیں ہے اور نہ ہی اس میں ان کے فن پر کوئی تبصرہ ہے ۔ ایسے کسی جملے کو بنیاد بنا کر پہاڑ کھڑا کر دینا اور اپنے تخیل سے محل کھڑے کرتے چلا جانا بھی کمالِ فن ہی ہے!

اس کالم کو دوبارہ پڑھیے، صرف ایک جگہ لکھا ہے کہ انور مقصود نے فلاں بات کہی جو میں نے بھی دہرا دی، باقی سب کچھ گُل بوٹے ہیں!
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
معین اختر تو خیر کسی اور ہی مقام کے آدمی تھے، نہ صرف انتہائی اچھے فنکار تھے بلکہ انسان بھی اتنے ہی اچھے تھے اور اس پر لاتعداد گواہیاں ہیں۔ انور مقصود کے اگر فینز بہت سے ہیں تو ان کو ناپسند کرنے والے بھی کافی ہیں اور یہ کالم نما تحریر کچھ ایسی ہی ہے۔

مثال کے طور پر اگر کوئی مصنف کہے کہ میرافلاں پروگرام سارے کا سارا اسکرپٹڈ ہوتا تھا اور کسی پرفارمر نے اسکرپٹ میں نہ کبھی کچھ اضافہ کیا اور نہ ترمیم کی تو اس میں پرفارمر کی توہین اور تحقیر کہاں سے نکل آئی؟ انور مقصود نے اگر ایسا کچھ بھی کہا ہے تو ظاہر ہے کہ معین اختر مرحوم کی اس میں کوئی توہین یا تحقیر نہیں ہے۔ ایسے کسی جملے کو بنیاد بنا کر پہاڑ کھڑا کر دینا اور اپنے تخیل سے محل کھڑے کرتے چلا جانا بھی کمالِ فن ہی ہے!

اس کالم کو دوبارہ پڑھیے، صرف ایک جگہ لکھا ہے کہ انور مقصود نے فلاں بات کہی جو میں نے بھی دہرا دی، باقی سب کچھ گُل بوٹے ہیں!
اگر تو یہ کالم، جو آپ نے فرمایا (ایسی ایک ویڈیو بہت عرصے پہلے میری نگاہ سے گزری تھی، جس میں مجھے کچھ معیوب نہیں لگا تھا) صرف اُسی بات پر بحث بلکہ دریدہ دہنی ہے کہ انور مقصود نے ایسا کہا کہ معین اختر مرحوم نے کبھی سکرپٹ میں کمی یا اضافہ نہیں کیا۔ تو لکھنے والا نے انتہائی زیادتی یا کہیے اپنے کسی بغض کو تسکین دی ہے۔
 
Top