جاسمن
لائبریرین
معین اختر۔ ہٹائیے، چھوڑئیے، وہ بھی کوئی اداکار تھا۔
شعیب بن عزیز21.9.2023
کالم نگاری کے پردے میں ساحری کو رواج دینے والے ہارون الرشید کا کہا بہت پہلے گرہ میں باندھ لیا تھا کہ زندگی دوسروں کی خامیوں پہ نہیں اپنی خوبیوں پہ بسر کرنی چاہیے۔ صبر کی بھی، لیکن، کوئی حد ہوتی ہے، برداشت کا بھی کوئی پیمانہ ہوتا ہے۔ یہ سرحد ختم ہو جائے اور یہ پیمانہ لبریز ہونے لگے تو انسان کیا کرے۔ معین اختر جیسے بے مثال فنکار اور نابغہ روزگار کو تحقیر کا نشانہ بنایا گیا، افسوس صد افسوس۔ اس عبقری کو اداکاری کے میدان میں محض ایک تابع مہمل ثابت کرنے کی کوشش کی گئی حیف صد حیف۔
معین اختر کے شہرہ آفاق پروگرام ”لوز ٹاک“ کے مصنف انور مقصود کے تازہ ترین ارشادات کے مطابق اس پروگرام کی تشکیل و ترتیب میں معین اختر کی کسی ذاتی صلاحیت کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یہ تمام سکرپٹ الف سے یے تک ان کا لکھا ہوتا تھا۔ معین نے اس میں ایک جملے کا تو کیا کبھی ایک لفظ کا اضافہ بھی اپنی طرف سے نہیں کیا، ترمیم کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مرے پہ سو درے۔ موصوف کی اگلی بات کے اعادے کے لئے حوصلہ درکار ہے، کمزور دل قارئین صرف نظر سے کام لیں، ۔ مدعا یہ کہ معین اختر کی ایک ایک حرکت، باڈی لینگویج، بولنے کا سٹائل، آواز کا زیر و بم، لہجے کا اتار چڑھاؤ، اعضا کی جنبش حتی کہ پروگرام کے دوران معین جو سانس لیتے تھے ان کی تعداد تک سکرپٹ میں پہلے سے طے شدہ ہوتی تھی۔
چلئے سادہ دل مداحوں نے تو آپ کی یہ بات تسلیم کرلی، لیکن پروڈیوسروں اور ہدایت کاروں سمیت، فلم انڈسٹری اور ٹی وی سے وابستہ کارکنوں کا آپ کیا کریں گے۔ معین اختر اور اس کی پرفارمنس کے ساتھ جڑی ہوئی ان سینکڑوں افراد کی یادداشتیں تو ایک یکسر مختلف منظر نامے کی گواہی دیتی ہیں۔
”سات سروں کا بہتا دریا۔“ جیسی غزلوں اور بے شمار یادگار ٹی وی ڈراموں کے خالق ایوب خاور معین اختر مرحوم کے دیرینہ ساتھیوں میں سے ہیں۔ انہوں نے، ریڈیو پاکستان کراچی کی راہداریوں سے لے کر فلم اور سٹیج کی بلندیوں تک، معین کے سفر کو قریب سے دیکھا ہے۔ ان سے گفتگو ہوئی تو غالب کے بقول گویا دبستاں کھل گیا۔ ابتدا ہی اس بات سے کی کہ معین جیسے فنکاروں کی عظمت میں کسی تعریف سے اضافہ ہو سکتا ہے نہ تنقیص سے کمی۔ لہری اور معین، ان کے خیال میں، دو ایسے فنکار ہیں جنہوں نے اپنی اداکاری کے ذریعے فلم اور ٹیلی ویژن کو طنز و مزاح کی ایک نئی دنیا سے آگاہ کیا۔
ایوب خاور نے درست کہا کہ معین اختر ایک کثیر الجہت فنکار تھے۔ انہوں نے کئی یادگار کردار کیے ، لیکن شوبز کی کئی اور شخصیتوں کے برعکس، معین نے کسی ایک کردار کو اپنی واحد شناخت نہیں بننے دیا۔ دوسرے لفظوں میں وہ کسی ایک کردار کے اس طرح اسیر نہیں ہوئے کہ دنیا اسی ایک کردار کے حوالے سے انہیں پہچانتی۔ کمال فن، شاید اسی کو کہتے ہیں۔
اداکار مزاحیہ ہوں یا سنجیدہ دنیا بھر میں ان کے مقام کا تعین، سٹیج اور سکرین پر ان کی پرفارمنس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔ ان کے حصے میں آنے والی مدح و ستائش کی واحد بنیاد بھی ان کی پرفارمنس کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ ناظرین کو اس بات سے بہت کم غرض رہی ہے کہ ان کا پسندیدہ ہیرو جو الفاظ ادا کر رہا ہے وہ کس شوخ کی طبع رسا کا ثمر ہیں۔ دوسری طرف، مغرب ہو کہ مشرق، تھیٹر اور فلم کی دنیا میں ایسا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا کہ کسی لکھنے والے نے اپنا قد بڑھانے کے لئے کسی اداکار یا اداکارہ کی قامت کشی کو ضروری سمجھا ہو۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ نوٹنگ ہل (Notting hill) اور اس جیسی کئی اور فلموں اور سیریز کا مصنف Richard Curtis میڈیا والوں سے کہہ رہا ہو کہ یہ ہیو گرانٹ اور روون ایٹکنسن یعنی Mr Bean کیا بیچتے ہیں، ان کی شہرت کو تو میری جوتیوں کا صدقہ سمجھئے۔
کالم کا سفر جاری تھا کہ لندن سے برادرم عارف وقار کا فون آ گیا۔ جی ہاں وہی بی بی سی والے، زبان و بیاں کی دنیا کے رازداں مشہور براڈکاسٹر عارف وقار۔ پوچھنے پر موضوع زیر تحریر کا ذکر کیا تو سٹپٹا اٹھے کہ یہ سب تھڑ دلی کی باتیں ہیں۔ خود نمائی، خود ستائی اور سنک جیسی بیماریوں سے اللہ محفوظ رکھے۔ یہ وہ عوارض ہیں جو بڑھا پے میں شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ اس کے بعد دیر تک معین اختر کی ذاتی اور فنی خوبیوں کا ذکر کرتے رہے۔ آخر میں کیسی پتے کی بات کی کہ دور کیوں جاتے ہو خود ہمارے یہاں مقبولیت کی انتہا کو چھونے والی سیریز ”الف نون“ کا سکرپٹ ہمیشہ کمال احمد رضوی نے لکھا لیکن انہوں نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ پروگرام کے دوسرے کردار یعنی ننھے کی کار کردگی اور شہرت ان کے قلم کی مرہون منت ہے۔
عارف وقار کی باتوں سے فیض احمد فیض یاد آئے۔ ایک جینوئن فنکار اپنے جیسے بڑے فنکار کو کس طرح خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ فرمائش ہوئی کہ گلوں میں رنگ بھرے۔ والی غزل عنائیت کیجئے۔ فرمایا مہدی حسن صاحب سے سنئے۔ یہ غزل اب ان کی ہو چکی۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔