وہ موجودہ عہد کے مزاحیہ ڈراموں سے مطمئن نہیں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ اب لگتا ہے کہ ہمارے ڈراموں میں ذومعنی فقروں کی بھرمار ہوگئی ہے اور اس سے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں مزاح دم توڑ رہا ہے
انہوں نے اپنی فنکارانہ زندگی کا آغاز انیس سو چھیاسٹھ میں سولہ سال کی عمر میں چھ ستمبر کو پاکستان کے پہلے یوم دفاع کی ایک تقریب سے کیا اور حاظرین کے دل جیت لیے۔
سنجیدہ مزاج والد اور مدبر و دین دار والدہ سمیت خاندان میں کسی بھی شخص میں فنون لطیفہ کا شوق موجود نہیں تھا اس کے باوجود وہ پاکستان ٹی وی پر ایسے انداز میں چھائے کہ اب تک اس کی مثال نہیں ملتی۔
اپنی زندگی کے آخری ایام میں معین اختر ٹی وی اور انٹرٹینمنٹ گروپس کو معتصب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں جب میرا بائی پاس ہوا تو مجھے ڈر تھا کہ اب لوگ مجھے بھول جائیں گے۔ ٹی وی اور انٹرٹینمنٹ گروپس نے بھی کہنا شروع کردیا تھا کہ اب میرا وقت ختم ہوچکا ہے۔