فلک شیر
محفلین
عموماً موسیقی اور اداکاری سننے دیکھنے سے وقتی طور پہ روح کے دریچوں گوشوں علاقوں میں وقتی ہیجان پیدا ہوتا ہے، جو اس وقت ایک بلندی کا سا سماں پیدا کرتا ہے ، مگر یہ ایک بڑے نشیب کا پیش خیمہ ہی ہوتا ہے۔ طنز و مزاح کو تحریر اور پھر پرفارمنگ آرٹس میں یونانی دور سے اصلاح، نقدِ معاشرہ اور نئے خیالات کی نرم پیشکش اور ترسیل و ترویج کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے ، کیا کیا جوہر اس سلسلے میں یونانیوں سے لے کر انگریزوں نے نہیں دکھائے ۔ ہماری یعنی مسلم روایت نئے خیالات اور سوالات سے نہیں گھبراتی، مگر وحی سے ماخوذ اپنے مستند و مسلم و مجرب اخلاقی اصولوں سے شرماتی ہے اور نہ ان کے تحفظ و تسلسل کے لیے برسر منبر بات کرنے سے گھبراتی ہے ۔ فنون لطیفہ کی تمام فارمز میں ان اخلاقی اصولوں سے لاپروائی برتنا گراوٹ کی ایک بنیادی وجہ بن سکتی ہے اور اس سے نظر چرانا ایک جیتے جاگتے اور اپنے مستقبل سے متعلق فکرمند معاشرے کے شایانِ شایان بھی نہیں اور ممکن بھی نہیں ۔ اب جب کہ ہماری ٹیلیویژن سکرین پہ خیر اور شر کا تناسب شرمناک سے گزرتا ہوا خوفنا ک حدود تک پہنچ چکا ہے اور ٹیلیویژن سے بہت آگے فیس بک ریلز، یوٹیوب شارٹز اور انسٹاگرام کی ایسی مختصر ویڈیو سروس سمیت وٹس ایپ کلپس کے دامن میں ہر ہر لمحے "کانٹینٹ" کے نام پہ ہیجان، ڈی ہیومینائزئزیشن اور سب ہیومن مواد کی ایک منڈی لگی ہے، وہاں کسی نشیب کی فکر کرنا تو اچھی بات ہے ، مگر ساتھ ہی ساتھ اس نشیب کے باطن میں اگے ایسے پھول، جو انسانی سطح کے تعلقات اور انفرادی سطح پہ ہی سہی، ہماری روح کی بالیدگی کا کچھ سامان کر سکیں ، ان تک پہنچنا اور کچھ لمحات اپنے نفس، باطن اور جعلی سے تقوا پہ واویلا کرنا اور خود کو دوسروں سے کچھ متعلق کر کے انسانیت کی سطح تک تو آنے کی کوشش کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ معین اختر ایسے ہی ایک پھول تھے، جن سے تلقین شاہ کی لغت میں چکا چوند قسم کی گلگلاتی لہلہاتی روشنی اور خوشبو پھوٹا کرتی تھی، بلکہ آج بھی پھوٹتی ہے ۔
کچھ لوگ خوشبو کی پٹاریاں ہوتی ہیں ، بند بھی ہوں، تو مہک چھلک چھلک جاتی ہے۔ ہم چھوٹے چھوٹے تھے، سکرین پہ معین اختر کا چہرہ دیکھتے ہی صحت مند قہقہوں کی ایک قطار بے ساختگی سے اندر جنم لیتی اور ہمیشہ یہ محسوس ہوتا کہ ان قہقہوں کے بعد ایک خلا پیدا ہونے کی بجائے گویا روح میں ایک اندمال سا محسوس ہوتا ۔مغرب کے نقاد اور شاعر نے کہا کہ شاعر ی اضافی جذبات کے استفراغ یعنی بہہ نکلنے کا نام ہے ، یاد رہے کہ شاعری سے مراد ہر ایکسپریشن ہے ، بغیر نثر اور نظم کا فرق کیے۔ تو معین اختر کو دیکھ سن کر ، خواہ الفاظ کسی کے بھی ہوں ، جذبات کا استفراغ ایک قے کی شکل میں کبھی نہیں ہو گا۔ ایک اپنائیت آپ محسوس کریں گے کہ یہ بندہ اگر بات میرے ذوق کے خلاف بھی کر رہاہے تو اس سے مجھے گھن پھر بھی نہیں آ رہی اور یہ اگر میرا ہی مذاق اڑا رہا ہے اور میں اس سے لطف نہیں اٹھا پا رہا تو یہ میری بدذوقی کی علامت ہے ، نہ کہ اس کی کوتاہی ۔ انور مقصود کے بقول انہوں نے ان کے شہرہ آفاق پروگرام لوز ٹاک میں ان کو پابند کیا کہ آپ سکرپٹ ہی بولیں گے صرف، یعنی انور صاحب کے الفاظ ہی ادا کریں گے سکرین پہ، اب انور صاحب بعض اوقات ابہام کو ایہام کی حدوں سے ملنے دیتے ہیں ، گو کہ انتہائی subtility اور نفاست کے ساتھ ، مگر معین آپ کو اس سے بھی ایک گونہ لطافت پیدا کر کے دکھا دیں گے۔
احمد جاوید صاحب کچھ عرصہ سے اپنے احباب، دوستوں، متعلقین اور حتی کہ فکری مخالفین پہ بھی گزشتہ کچھ عرصے سے گفتگوئیں ریکارڈ کروا رہے ہیں ، مجھے ہمیشہ ان کا انتظار رہتا ہے ، کیونکہ بائیوگرافی سے میری دلچسپی پرانی ہے اور کتابی پیٹرن پہ لکھی سوانح سے مجھے سٹریچی ، خرم علی شفیق اور اسحاق بھٹی صاحبان کی سوانح زیادہ پرکشش معلوم ہوتی ہے ۔ جاوید صاحب کی دھلی دھلائی اردو اور خود ملامتی میں ڈوبی داستان گوئی نے ان گفتگوؤں میں ایسے ایسے ہیروں سے شناسائی کروائی ہے کہ دل ان کا شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتا۔ آج سکول سے واپسی پہ یوٹیوب کھولی ہی تھی کہ معین اختر کے عنوان سے ان کی تازہ گفتگو سامنے آئی، عجیب مسرت ہوئی، ایک ندیدے بچے کی طرح ویڈیو کی طوالت چالیس منٹ پائی تو گویا خوشی دوگنا ہو گئی۔ سننا شروع کی تو معین اختر صاحب کی زندگی کے چند اہم پہلوؤں یا خصوصیات سے متعلق متعدد واقعات سننے کو ملے
1) شوبز میں رہ کر عفت و حیا کا دامن تھامے رکھنا
2) صوم و صلوٰۃ کی مکمل پابندی
3) بے محابا اور محبوب بنا دینے والی سخاوت
4) اولاد کو شعوری طور پہ شوبز سے دور رکھنا
جاوید صاحب سے ان کی قمر جمیل کے حلقے میں ملاقاتیں رہی ہیں اور ان کے سنائے گئے واقعات ان کے چشم دید یا ان دونوں کے مشترک اور قریبی دوست منظر امام وغیرہ کے روایت کردہ ہیں ۔ بہرحال وہ تو ویڈیو دیکھ سن کر آپ خود لطف اٹھائیے اور اپنے نفس کو خیر کی طرف متوجہ اور اس پہ مطمئن کرنے کا کچھ سامان کیجیے ۔
مجھے تو اس حیرت کے اظہار کو کچھ اور طول دینا ہے کہ معین اختر کی طرف ہمیشہ سے دل کیوں کھنچتا تھا، اور بھی ذہین ، طباع اور عمدہ لہجے والے لوگ موجود تھے ، ایسے بھی کہ روتوں کو ہنسا دیں اور ہنستوں کو رلا دیں ۔ کئی ایسے کہ شعر پڑھتے تو سماں باندھ دیتے اور کئی ایسے کہ سماں ہی کو شعر کر دیتے۔ مگر معین اختر کا نام سنتے ہی ایک گھنٹی سی دل میں کیوں بجتی تھی ہمیشہ سے ۔ ایک تازگی جو اس کے وجود سے براستہ سکرین ہماری مضمحل روحوں کو میسر آیا کرتی تھی ، اس کا راز کیا یہی تھا کہ وہ صاحبِ کردار تھا ، صاحبِ راز تھا اور خدا کے بندوں کی ایسا خدمت گزار تھا کہ گھنٹہ گھنٹہ بھر کا ایک ایک کروڑ وصول کر سکنے والا شخص اپر مڈل کلاس تک ہی محدود رہا اور ستر کی دہائی میں ایک نامعلوم شخص کے بارے میں محض یہ سن کر کہ وہ پریشان حال ہے اور ایک جنرل سٹور بنانا چاہتا ہے ، خاموشی سے کسی اور کے نام سے اسے اڑھائی لاکھ تھما آیا تھا، حیرت ہے ، بلکہ حیرت کیا چیز ہے ، اپنے اردگرد آپ کو ایسے کتنے لوگ ملیں گے۔ معین کی اداکاری وغیرہ پہ بات کرنا ہمارا منصب نہیں ، گو کہ سہولت سے ایشیاء وغیرہ میں پہلے ایک دو لوگوں میں انہیں رکھا جا سکتا ہے ۔ مگر اس کی شخصیت میں وہ گہرائی گیرائی اور تسکین کی صلاحیت کہاں سے آئی تھی۔ آج معین کے ذکر سے میں اپنے اندر ایک اور طرح کی تسکین پاتا ہوں ، خدا اسے اپنے ہمیشہ رہنے والے باغاتِ بہشت میں آسودہ حال رکھے۔
فلک شیر چیمہ
کچھ لوگ خوشبو کی پٹاریاں ہوتی ہیں ، بند بھی ہوں، تو مہک چھلک چھلک جاتی ہے۔ ہم چھوٹے چھوٹے تھے، سکرین پہ معین اختر کا چہرہ دیکھتے ہی صحت مند قہقہوں کی ایک قطار بے ساختگی سے اندر جنم لیتی اور ہمیشہ یہ محسوس ہوتا کہ ان قہقہوں کے بعد ایک خلا پیدا ہونے کی بجائے گویا روح میں ایک اندمال سا محسوس ہوتا ۔مغرب کے نقاد اور شاعر نے کہا کہ شاعر ی اضافی جذبات کے استفراغ یعنی بہہ نکلنے کا نام ہے ، یاد رہے کہ شاعری سے مراد ہر ایکسپریشن ہے ، بغیر نثر اور نظم کا فرق کیے۔ تو معین اختر کو دیکھ سن کر ، خواہ الفاظ کسی کے بھی ہوں ، جذبات کا استفراغ ایک قے کی شکل میں کبھی نہیں ہو گا۔ ایک اپنائیت آپ محسوس کریں گے کہ یہ بندہ اگر بات میرے ذوق کے خلاف بھی کر رہاہے تو اس سے مجھے گھن پھر بھی نہیں آ رہی اور یہ اگر میرا ہی مذاق اڑا رہا ہے اور میں اس سے لطف نہیں اٹھا پا رہا تو یہ میری بدذوقی کی علامت ہے ، نہ کہ اس کی کوتاہی ۔ انور مقصود کے بقول انہوں نے ان کے شہرہ آفاق پروگرام لوز ٹاک میں ان کو پابند کیا کہ آپ سکرپٹ ہی بولیں گے صرف، یعنی انور صاحب کے الفاظ ہی ادا کریں گے سکرین پہ، اب انور صاحب بعض اوقات ابہام کو ایہام کی حدوں سے ملنے دیتے ہیں ، گو کہ انتہائی subtility اور نفاست کے ساتھ ، مگر معین آپ کو اس سے بھی ایک گونہ لطافت پیدا کر کے دکھا دیں گے۔
احمد جاوید صاحب کچھ عرصہ سے اپنے احباب، دوستوں، متعلقین اور حتی کہ فکری مخالفین پہ بھی گزشتہ کچھ عرصے سے گفتگوئیں ریکارڈ کروا رہے ہیں ، مجھے ہمیشہ ان کا انتظار رہتا ہے ، کیونکہ بائیوگرافی سے میری دلچسپی پرانی ہے اور کتابی پیٹرن پہ لکھی سوانح سے مجھے سٹریچی ، خرم علی شفیق اور اسحاق بھٹی صاحبان کی سوانح زیادہ پرکشش معلوم ہوتی ہے ۔ جاوید صاحب کی دھلی دھلائی اردو اور خود ملامتی میں ڈوبی داستان گوئی نے ان گفتگوؤں میں ایسے ایسے ہیروں سے شناسائی کروائی ہے کہ دل ان کا شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتا۔ آج سکول سے واپسی پہ یوٹیوب کھولی ہی تھی کہ معین اختر کے عنوان سے ان کی تازہ گفتگو سامنے آئی، عجیب مسرت ہوئی، ایک ندیدے بچے کی طرح ویڈیو کی طوالت چالیس منٹ پائی تو گویا خوشی دوگنا ہو گئی۔ سننا شروع کی تو معین اختر صاحب کی زندگی کے چند اہم پہلوؤں یا خصوصیات سے متعلق متعدد واقعات سننے کو ملے
1) شوبز میں رہ کر عفت و حیا کا دامن تھامے رکھنا
2) صوم و صلوٰۃ کی مکمل پابندی
3) بے محابا اور محبوب بنا دینے والی سخاوت
4) اولاد کو شعوری طور پہ شوبز سے دور رکھنا
جاوید صاحب سے ان کی قمر جمیل کے حلقے میں ملاقاتیں رہی ہیں اور ان کے سنائے گئے واقعات ان کے چشم دید یا ان دونوں کے مشترک اور قریبی دوست منظر امام وغیرہ کے روایت کردہ ہیں ۔ بہرحال وہ تو ویڈیو دیکھ سن کر آپ خود لطف اٹھائیے اور اپنے نفس کو خیر کی طرف متوجہ اور اس پہ مطمئن کرنے کا کچھ سامان کیجیے ۔
مجھے تو اس حیرت کے اظہار کو کچھ اور طول دینا ہے کہ معین اختر کی طرف ہمیشہ سے دل کیوں کھنچتا تھا، اور بھی ذہین ، طباع اور عمدہ لہجے والے لوگ موجود تھے ، ایسے بھی کہ روتوں کو ہنسا دیں اور ہنستوں کو رلا دیں ۔ کئی ایسے کہ شعر پڑھتے تو سماں باندھ دیتے اور کئی ایسے کہ سماں ہی کو شعر کر دیتے۔ مگر معین اختر کا نام سنتے ہی ایک گھنٹی سی دل میں کیوں بجتی تھی ہمیشہ سے ۔ ایک تازگی جو اس کے وجود سے براستہ سکرین ہماری مضمحل روحوں کو میسر آیا کرتی تھی ، اس کا راز کیا یہی تھا کہ وہ صاحبِ کردار تھا ، صاحبِ راز تھا اور خدا کے بندوں کی ایسا خدمت گزار تھا کہ گھنٹہ گھنٹہ بھر کا ایک ایک کروڑ وصول کر سکنے والا شخص اپر مڈل کلاس تک ہی محدود رہا اور ستر کی دہائی میں ایک نامعلوم شخص کے بارے میں محض یہ سن کر کہ وہ پریشان حال ہے اور ایک جنرل سٹور بنانا چاہتا ہے ، خاموشی سے کسی اور کے نام سے اسے اڑھائی لاکھ تھما آیا تھا، حیرت ہے ، بلکہ حیرت کیا چیز ہے ، اپنے اردگرد آپ کو ایسے کتنے لوگ ملیں گے۔ معین کی اداکاری وغیرہ پہ بات کرنا ہمارا منصب نہیں ، گو کہ سہولت سے ایشیاء وغیرہ میں پہلے ایک دو لوگوں میں انہیں رکھا جا سکتا ہے ۔ مگر اس کی شخصیت میں وہ گہرائی گیرائی اور تسکین کی صلاحیت کہاں سے آئی تھی۔ آج معین کے ذکر سے میں اپنے اندر ایک اور طرح کی تسکین پاتا ہوں ، خدا اسے اپنے ہمیشہ رہنے والے باغاتِ بہشت میں آسودہ حال رکھے۔
فلک شیر چیمہ
آخری تدوین: