سیدہ سارا غزل
معطل
نائن الیون کے بعد سے مغربی استعمار نے امریکی قیادت میں عالم اسلام پر ہمہ جہتی حملہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ کھلی جنگ کا اعلان کیاہے۔ یہ جنگ عسکری،معاشی،معاشرتی اور تہذیبی و ثقافتی محاذوں پر جاری ہے۔استعماری قوتوں کا عسکری تسلط پچھلے اڑھائی سو سال سے قائم ہے، اوروہ اسے اگلی صدیوں میں بھی برقرار رکھ کر عالم اسلام کو اپنا ماتحت رکھنا چاہتی ہیں ۔ اپنی عسکری قوت کے بل بوتے پر وہ جہاں چاہتی ہیں یلغار کردیتی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں قبضہ کر لتیل ہیں۔ افغانستان و عراق پر امریکہ نے قبضہ کیا اور کہا کہ اسے حفظ ماتقدم کے طورپرکسی بھی جگہ حملہ کرنے کا حق حاصل ہے اور اس کے لئے اقوام متحدہ سمتن کسی کوخاطر میں نہیں لایاجائے گا۔جن ہتھا روں کو جوازبناکرعراق پر حملہ کیا گا ، وہ ابھی تک برآمد نہیں کیے جا سکے ،اوراب خود امریکی کہنے لگے ہیں کہ یہ جنگ غرس منصفانہ ہے۔اسی طرح افغانستان میں امریکی داخل ہوئے اور طالبان کی ایک ایسی حکومت کو جس نے وہاں پر امن قائم کیا، ختم کر کے افغانیوں کو ایک مرتبہ پھر تباہی اور انتشار کی طرف دھکیل دیا۔حال ہی میں صومالیہ میں المحاکم الاسلامیہ کی زیر نگرانی اسلامی حکومت قائم ہوئی تھی ، انھوں نے وہاں اسلامی عدالںی قائم کیں اور ان کے دور اقتدار جیسا استحکام ایک عرصے سے صومالیہ کو نصبی نہ ہواتھا،لیکن چونکہ وہ صحیح العقداہ مسلمان تھے اور اسلام کا نام لیتے تھے، اس لئے ایتھوپیا کے ذریعے سے ان پر حملہ کرواکے انھیں حکومت سے بے دخل کر دیا گاہ اور اب امریکہ القاعدہ کا نام لے کرچاروں طرف سے ان کا تعاقب کررہاہے ،اور حملے کرکے بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا رہاہے۔ کشمیر پر ہندوستان کے غرا قانونی قبضے کو مغربی طاقتوں کی حمائت حاصل ہے، اس حمائت کے بغر ہندوستان کے لئے کشمیریوں کی مزاحمت کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں تھا۔فلسطین پر یہودی استعماری طاقتوں بالخصوص امریکہ کی پشتبا نی کی وجہ سے قابض ہیں۔ فلسطینیوں کو اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین سے نکال کر اس کا نام اسرائیل رکھ دیااور۸۰ ممالک سے یہودیوں کو جمع کرکے وہاں لا بسایا گام، اور اب کہتے ہیں کہ جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا وہ دہشت گرد ہے۔ امریکی اور نےٹو افواج اب ہمارے قبائلی علاقے میں داخل ہو رہی ہیں، امریکی جب اورجہاں چاہتے ہیں طایروں کے ذریعے معصوم قبائلیوں پر بموں اور میزائلوں کی بو چھاڑ کرتے ہیں لیکن ہماری حکومت میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہے کہ امریکہ نے حملہ کرکے ہمارے بچوں کو قتل کیا ہے، ان کی خود سپردگی کا یہ عالم ہے کہ حملوں کی ذمہ داری ہی اپنے سر لے لتےن ہیں، اسی خود سپردگی اور خوف کا نتیجہ ہے کہ امریکی اب پاکستانی فوجیوں کو”غلط فہمی“ کے بہانے قتل کرنے لگے ہیں ۔ افغانستان میں تناں،ت امریکی کمانڈر آئے روز متکبرانہ انداز میں اعلان کرتا ہے کہ ضرورت پڑی تو ہم پاکستان کے قبائلی علاقوں میں براہ راست حملہ کر سکتے ہیں، حالانکہ پاکستانی حکومت اور فوج ان کی ہر طرح کی خدمت سرانجام دے رہی ہے، ان کے کہنے پر اپنے بچوں اور معصوم شہریوں کو قتل کررہی ہے،لیکن مسلمانوں کے خون سے ان کی پیاس بجھ نہیں رہی ہے۔وہ کہتے ہیں اور مارو، اور قتل کرو، اور خون بہاؤ، اور اگر تم نہیں کروگے تو ہم خود کریں گے۔ ہمارے گھر اور کوچہ و بازاراور مساجد و مدارس ان سے محفوظ نہیں ہیں، ہمارے علمائے کرام اور محب وطن سائنس دان ان کی زد میں ہیں۔ان کے دباؤ کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر حکمران بھارت کے سامنے بچھے جا رہے ہیں،اور نہیں معلوم کہ ہمارا ایٹمی پروگرام اب کس حال میں ہے۔ ان سے تعاون کے لے ہماری حکومت اور وفاقی ایجنسیوں نے پورے ملک میں ظلم کا بازار گرم کررکھا ہے اور ہز اروں لوگوں کو غائب کر دیا گاپ ہے، کسی کو بھی القاعدہ کا حامی کہہ کراس کے گھر سے اٹھا لیتے ہیں،اور پھراس کے والدین اور بو ی بچے اس کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔آج کل اسلام آباد میں روزانہ گم شدگان کے لواحقین کے مظاہرے ہورہے ہیں اور وہ دہائی دے رہے ہیں کہ ہمارے پیاروں کے بارے میں کچھ بتاؤ۔ حکمرانوں نے اپنا عقدکہ بنا لیا ہے کہ اے امریکہ تو مالک الملک ہے، اقتدار دینے والا بھی تو ہے اور اقتدار چھیننے والا بھی تو ہے، عزت دینے والا بھی تو ہے اور ذلت دینے والا بھی تو ہے۔تر ے ہاتھ میں ڈالر ہیں اور تو ہر چیز پر قادر ہے، اور ہم ترےے ہی تابع ہیں۔ حکمران شائد اس سے انکار کریں لیکن ان کا عمل اس بات کی گواہی دیتا ہے۔انھوں نے امریکی خوشنودی کے حصول کے لئے”سب سے پہلے پاکستان “کا نعرہ لگایاجس کا مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام کی دشمنی اختانر کرتے ہوئے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے ساتھ مل جاؤ ، اس میں پاکستان کا بھلا ہے، اور اگر وہ تم کو اسلام اورعالم اسلام کے خلاف جنگ میں استعمال کرنا چاہیں تو استعمال ہو جاؤاور اس کے لےے اپنا سب کچھ امریکہ کے حوالے کردو، اس سے ڈالر ملتے ہیں۔ اس طرح کے حکام اور اس طرح کی سوچ کے نتیجے میں مزید ذلت و خواری، اخلاقی زوال اور انحطاط کا ہمیں شکار کر دیا گاہ ہے، اور اسی راستے پر چلتے رہنے سے مستقبل میں بھی کوئی عزت و خوشحالی نہیں ملے گی۔ اس وقت مغربی استعمار سے ہمیں سب سے بڑا خطرہ نظریاتی اور ثقافتی میدان میں درپیش ہے۔وہ ہمارے عدیحے اور ایمان کو کمزور اور ہماری تہذیب و ثقافت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پرمسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ تم ہمارے کلچر،قوانین اور تہذیب و ثقافت کو قبول کرلو، ان کے خیال میں اعتدال پسندی یہ ہے کہ مسلمان اپنی شناخت سے دستبردار ہوجائیں اور قرآن و سنت کے قوانین کو تبدیل کردیا جائے۔ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ یہاں کے حکمران روشن خیالی کے اس برانڈ کے پرچارک ہیں، حدود قوانین میں ترمیم کرکے انھوں نے مغرب کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم تمھارے لے الٰہی قوانین میں بھی تبدیلی کر سکتے ہیں ۔اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک میں جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے کی کوشش ہو رہی ہے، اور ان کے پروردہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی قباحت اور برائی نہیں ہے۔ مغربی معاشرے میں فکری وجنسی انتشار ہے، ان کاخاندانی نظام تباہ ہوگاو ہے ، ان کے معاشرے میں بے چینی ہے، لیکن اپنی مادی قوت کے سہارے وہ تہذیبی میدان میں بھی برتری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے ہمارا خاندانی نظام ان کا خاص ہدف ہے۔ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے وہ خواتنت کو اکساتے ہیں اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلامی تہذیب اور قرآن و سنت کے قوانین میں تمھارے اوپر ظلم و زیادتی روا رکھی گئی ہے، تمھیں پابنداورغلام بناکر رکھاگاا ہے،مغرب کی عورت کے مقابلے میں تم ایک طرح سے قدں کی زندگی میں ہو۔ خواتنا سے کہا جاتا ہے کہ تم ان پابندیوں کو توڑوگی تو تمھیں آزادی نصبک ہوگی،حالانکہ اسی آزادی کے نتیجے میں ان کا خاندانی نظام تہس نہس ہو چکا ہے، ان کے ہاں کوئی چیز مقدس نہیں رہی، شادی کا تقدس بھی ختم ہو گان ہے،اور ان کے مرد اور عورتیں آسانی کے ساتھ شادی کے بندھن میں جانے کے لئے تاور نہیں ہیں۔اگر کوئی اس بندھن کو قبول کر بھی لے تو دو تنہ سال میں علیحدگی ہو جاتی ہے، اورزندہ والدین کے بچے بےخانماں بربادہو جاتے ہیں۔سنگل پیرنٹ چائلڈکی تعدادبڑھتی جا رہی ہے یعنی بچہ ماں کے ساتھ ہوتاہے اورباپ کا پتہ نہیں ہوتا۔ اس طرح سے معاشرتی طورپر ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو گاب ہے کہ بن باپ کے بچوں کا سارا بوجھ ماں پر آجاتا ہے۔اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ مغرب میں عورت کی آزادی حققتا میں مرد کی تفریح طبع کے سوا کچھ نہیں ہے۔ امریکہ کے بارے میں ایک رپورٹ آئی ہے کہ سا ہ فام باشندوں میں ۷۰ فیصد اور سفدافام میں۳۵ فیصد بچے سنگل پیرنٹ ہیں ،اور ان کے دانشور خبردار کر رہے ہیں کہ اگر سفدر فام لوگوں میں بھی سنگل پیرنٹ بچوں کا تناسب 70 فیصد ہو گاح تو ہمارا معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہے کہ اس فطری نظام سے تجاوز اختاںر کیا گاں ہے جس کی اللہ اور اس کے رسول نے نشاندہی کی ہے ۔ خاندانی نظام کے تاروپو بکھیرنا،گھرکی زندگی تباہ کرنا، مرد و زن کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑاکرنا اورعورت کو بغاوت پر آمادہ کرناشیطانی کام ہے۔علامہ اقبال رح نے جاوید نامہ میں مولانا رومی رح کے ہمراہ آسمانوں کی سیر کا خیالی نقشہ کھینچاہے، ایک آسمان پران کی ملاقات نبوت کی دعویدار ایک عورت کے ساتھ ہوتی ہے، جو عورتوں کی آزادی کی علمبردار ہوتی ہے، اور عورتوں سے خطاب کرتی ہے۔ اس وقت بعینہ ہمارے معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے اور مغرب جو کچھ کر رہا ہے،علامہ اقبال نے برسوں قبل جاوید نامہ میں نبوت کی جھوٹی دعویدار اور آزادی نسواں کی علمبردار عورت کی زبانی اس کی نشاندہی کر دی تھی۔ صلاحتونں اور ذمہ داریوں میں مساواتِ مردوزن کا نعرہ ایک سراب اوراپنی اصل میں خلاف حققتہ ہے، اس میں شک نہیں کہ دونوں اصناف حقوق میں برابر ہیں اور خود قرآن نے حقوق میں ان کو برابر قرار دیاہے، لیکن جسمانی ساخت کی وجہ سے صلاحتوشں اور ذمہ داریوں میں برابر نہیں ہیں ۔ بعض معاملات میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو فضیلت اور امتااز بخشا ہے اوربعض معاملات میں مردوں کو فوقتی حاصل ہے، اسی لیے ان کی ذمہ داریاں الگ الگ ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں خاندان کو کھلانے پلانے کی ذمہ داری مرد پر ہے، اور گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش عورت کے ذمے ہے۔ یہ خواتن کا امتااز ہے کہ نئی نسل کی تا ری کا کام ان کے سپرد کیا گاب ہے،ایک معاشرے کی اس سے بڑی خدمت کوئی نہیں ہو سکتی۔ ایک اسلامی معاشرے میں خواتن کو ماں،بہن، بٹی اور بوری کی حیثتپ سے ایک ممتازمقام حاصل ہے، وہ خاندان کی محبت کا مرکز ہوتی ہے، اس کے ذریعے سے گھرانہ آباد ہوتا ہے اور اس کے گرد لوگ جمع ہوتے ہیں۔عورت کے لئے اس سے بڑھ کر عزوشرف کا اور کیا مقام ہو سکتا ہے کہ جنت کو اس کے قدموں تلے قرار دیا گا ہے، اور حضور نے نماز اور خوشبو کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے۔مغرب کی عورت اس عظیم مقام واحترام کا تصور بھی نہیں کر سکتی جو مسلمانوں کے دلوں میں حضرت خدیجۃالکبریٰ، حضرت فاطمۃ الزہرا اور حضرت عائشہ صدیقہ کے لئے موجود ہے، بلکہ خود مسیحی بی بی مریم علیہما السلام کی وہ شان سمجھنے سے قاصر ہیں جو مسلمانوں کے دلوں میں انھیں حاصل ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے رب سے آشنا کیا اور تہذیب سکھائی، حلال و حرام کے بارے میں بتایا اور اچھی زندگی گذارنے کا سلیقہ سکھایا، ان کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی خواہشات نفس کوان کی لائی ہوئی شریعت کے تابع کردیں۔ خواہشات نفس کی پیروی کرنے میں اطمینان نہیں ہے، اس میں اضطراب اور بے چینی بڑھتی ہے۔ یہ سراب کی مانندہے جس میں انسان بالآخر مایوسی کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی اطاعت و وفاداری اور حدود کے اندر رہ کر زندگی گزاری جائے تو قلب و نظر کواطمینان و سکون نصبک ہوتا ہے۔
http://urdu.jamaat.org/site/article_detail/34
http://urdu.jamaat.org/site/article_detail/34