مغربی خواتین میں اسلام کی مقبولیت۔چندقابل غور پہلو - ثروت جمال اصعی

[انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے معروف اسکالر ثروت جمال اصمعی کا ایک تحقیقی مقالہ "عورت ،مغرب اور اسلام" شائع کیا ہے۔ اس مطالعہ میں مصنف نے جائزہ لیا ہے کہ اگرچہ مغرب میں اسلام کے خلاف جارحانہ مہم جاری ہے ،پھر بھی مغربی خواتین میں اسلام قبول کرنے کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے ۔ اس حیرت انگیز حقیقت کے پس منظر کا جائزہ لیتے ہوئے سوچ بچار کے بہت سے پہلو اجاگر کیے گئے ہیں۔ یہاں اس کتاب کا پہلا باب پیش کیا جا رہا ہے]
مغرب کے حکمرانوں، پالیسی سازوں ،اُن کے ہم نوا دانشوروں اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے اسلام کو دہشت گردی کا علم بردار اور عورتوں کے حقوق کی پامالی کا ذمہ دار قرار دیے جانے کے زبردست پرپیگنڈے اور عورتوں کے لیے حجاب کی اسلامی تعلیم کے خلاف جارحانہ مہم جوئی کے باوجود۔۔جس میں نائن الیون واقعات کے بعدموجودہ صدی کے پہلے عشرے میں غیرمعمولی شدت رہی۔۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت بیشتر مغربی ملکوں میں قبول اسلام کے واقعات کی حیرت انگیز رفتار اور اس میں عورتوں کے تناسب کا مردوں کی نسبت کہیں زیادہ ہونا، اپنے اندر سوچ بچار کا بڑا سامان رکھتا ہے۔
طالبان کی قید میں رہ کر اسلام سے متاثر ہونے والی برطانوی صحافی یوآن رِڈلے (Yuonne Ridley) اور افغانستان اور عراق پر حملے میں امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر کی خواہر نسبتی لارن بوتھ (Lauren Booth) جیسی نمایاں شخصیات سمیت ہزاروں مغربی عورتیں دس سال کے اسی عرصے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئی ہیں۔ مختلف مغربی ملکوں میں اسلام قبول کرنے والے افراد میں، بعض رپورٹوں کے مطابق عورتوں کا تناسب مردوں سے چار گنا تک ہے حالانکہ ایک طرف عموماً مسلمان معاشروں کے اسلام سے دور ہونے کے سبب اُن میں ایسے رسوم و رواج اور طور طریقے عام ہیں جو عورتوں کے ساتھ ظلم اور بے انصافی پر مبنی ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کے مغرب زدہ طبقوں میں باور کیا جاتا ہے کہ مغربی تہذیب نے عورتوں کو آزادی اور مساوات کی نعمتوں سے ہم کنار کیا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات اُس پر ناروا پابندیاں عائد کرتی، اُس کے استحصال کا سبب بنتی اوریوں مسلمان معاشروں کی ترقی میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں لہٰذا اُن کی جانب سے مسلمان خواتین کو اُس مقام کے حصول کے لیے جدوجہد کی ہر ممکن ترغیب دی جاتی ہے جہاں مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کے تقاضوں کے تحت چلنے والی آزادی نسواں کی تحریک نے مغرب کی عورت کوپہنچا دیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ مغرب میں انتہائی بااثر قوتوں کی جانب سے اہل مغرب خصوصاً مغربی عورتوں کو اسلام سے متنفر کرنے کی منظم کوششیں عروج پر ہیں ۔ اس کے باوجود مغربی ملکوں میں قبول اسلام کے سلسلے کا حیرت انگیز رفتار سے جاری رہنا جس میں عورتیں مردوں سے کہیں آگے ہیں، یقیناًمغربی دنیا اور عالم اسلام دونوں کے اہل فکر و نظر کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔ اس بارے میں وقتاً فوقتاًچونکا دینے والی رپورٹیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔مثلاً چارجنوری۲۰۱۱ء کو برطانوی روزنامہ انڈی پنڈنٹ میں’’برطانیہ کی اسلامی صورت گری:غیرمعمولی تعداد کا قبول اسلام‘‘The Islamification of Britain: record numbers embrace Muslim faith کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ’’پچھلے دس سال میں برطانیہ میں مسلمان ہونے والے انگریزوں کی تعداد تقریباً دگنی ہوگئی ہے۔‘‘ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اس کے باوجود کہ اسلام کو اکثر منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے، ہزاروں برطانوی ہر سال اسلام قبول کررہے ہیں۔‘‘ رپورٹ میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ مشرف بہ اسلام ہونے والوں میں بھاری اکثریت عورتوں کی ہے۔
نائن الیون کے تقریباً ڈھائی سال بعد بائیس فروری۲۰۰۴ء کو سنڈے ٹائمز نے ’’اسلامی برطانیہ ممتاز افراد کو متاثر کررہا ہے‘‘ (Islamic Britain lures top people) کے عنوان سے شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ’’مغربی اقدار سے غیرمطمئن اور مایوس ہونے کے بعد چودہ ہزارگورے برطانویوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اوربرطانیہ کے کئی چوٹی کے لینڈ لارڈز، سیلی بریٹیز اورحکومت کی ممتاز شخصیتوں کی اولادیں مسلم عقیدے کے سخت اصول اپنا چکی ہیں۔‘‘
برطانیہ ہی کی طرح امریکہ میں بھی قبول اسلام کا رجحان حیرت انگیز ہے اور تین امریکی اسکالروں کی ایک مشترکہ تحقیقی تصنیف میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مشرف بہ اسلام ہونے والوں میں عورتوں کا تناسب مردوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے جبکہ نائن الیون کے بعد ہر سال اوسطاً بیس ہزار امریکی مسلمان ہورہے ہیں۔قبول اسلام کے رجحان میں یہ نمایاں اضافہ نائن الیون واقعات کے فوراً بعد رونما ہوا، جب اسلام کے بارے میں عمومی دلچسپی بڑھی ۔یہ عین اس وقت ہوا جب اس کے بالکل متضاد صورت حال زیادہ متوقع تھی۔ ان محققین کے مطابق، امریکیوں کی ایک قابل لحاظ تعداد اسلام قبول کررہی ہے،جن میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کا تناسب تقریباً ایک نسبت چار کا ہے۱۔
کئی مغربی ملکوں میں مسجد کے میناروں اور مسلمان عورتوں کے حجاب ونقاب تک پر پابندی عائد کردیے جانے ، متعدد مغربی پارلیمانوں میں اس مقصد کے لیے قانون سازی کا عمل جاری ہونے اور اس زبردست پروپیگنڈے کے باوجود کہ اسلام عورتوں کو مردوں کا تابع مہمل بناتا اور ان کے حقوق کو پامال کرتا ہے، مغرب کی عورتیں اسلام کی جانب کیوں مائل ہورہی ہیں؟ یہ سوال یقیناًقابل غور ہے۔
یہ صورت حال اس بناء پر اور بھی حیرت انگیز ہوجاتی ہے کہ خود مسلمان معاشروں کی اسلام سے دوری اور مقامی کلچر اور روایات کے اپنالیے جانے کی وجہ سے ان کے اندر جہیزکے جھگڑوں، غیرت کے نام پر قتل، کاروکاری، وٹہ سٹہ ، عورتوں کو وراثت سے محروم رکھنے، جائیداد کو خاندان سے باہر جانے سے روکنے کے لیے بیٹیوں کی شادی نہ کرنے بلکہ اس مقصد کے لیے قرآن سے شادی جیسے ڈھکوسلوں کے ایجاد کرلیے جانے، سسرالوں میں بہوؤں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کے عام ہونے، اور شوہروں کی جانب سے بیویوں کے ساتھ حاکمانہ برتاؤ اور ذہنی و جسمانی تشدد کے روا رکھے جانے جیسے معاملات رواج پاگئے ہیں اور یوں یہاں بھی عورتیں بہت بڑی تعداد میں بے انصافی کا شکار ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس کے باوجود مغربی عورتوں میں اسلام کی مقبولیت مسلسل کیوں بڑھ رہی ہے؟
مشرف بہ اسلام ہونے والی مغربی خواتین کے بقول --جن میں سے چند کے بیانات اس کتاب میں مشتے نمونہ از خروارے شامل کیے گئے ہیں--اس صورت حال کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے اصل ماخذوں یعنی قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام کو اور اسلام میں عورت کے مقام و مرتبے کو براہ راست سمجھ کر مسلمان ہوئی ہیں جبکہ مسلمان معاشروں کی خرابیوں کے بارے میں وہ یہ شعور رکھتی ہیں کہ وہ اسلام پر عمل کرنے کا نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات سے انحراف کا نتیجہ ہیں۔
اس تناظر میں اس موضوع پر سنجیدہ غوروفکر کہ -- مغربی عورتیں اسلام کو اس کے کن اوصاف کی بناء پر اپنا رہی ہیں اور مغربی تہذیب نے انہیں جو مقام دیا ہے ان کے اندر اس سے بیزاری کیوں بڑھ رہی ہے --یہ طے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس سوال پر بھی غور کیا جائے کہ اسلام اور مغربی تہذیب میں سے فی الحقیقت کون کرۂ ارض کی تقریباً نصف آبادی کے حقوق کا بہتر محافظ اور اس کے لیے باوقار زندگی کا ضامن ہے۔
مغرب کے ارباب حل و عقد اور پالیسی ساز اس صورت حال پر ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کریں تو انہیں اپنے طرز حیات کے ان نقائص اور اسلام کے اُن اوصاف کا ادراک ہوسکتا ہے جواہل مغرب کو اپنی تہذیب اور نظام زندگی سے غیرمطمئن اور اسلام کی جانب مائل کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ اِن خامیوں کے ازالے کی تدابیر بھی سوچ سکتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اسلام کا مطالعہ کرکے اس سے استفادہ کرنے پر بھی غور کرسکتے ہیں۔جبکہ اس صورت حال کا جائزہ مسلمانوں کو مغرب کی اندھی تقلید سے بچانے ،ا ن کے اندر اسلام کی نعمت عظمیٰ کی قدر وقیمت کا حقیقی احساس اُجاگر کرنے اور غیرمسلم دنیا تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے حوالے سے بحیثیت خیر امت اپنے فرض منصبی کا شعور پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
اہل مغرب کے قبول اسلام کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ بھی تو دیکھا جانا چاہیے کہ عیسائیت قبول کرنے اور مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ جانے والے مسلمان کتنی بڑی تعداد میں دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
بلا شبہ یہ درست ہے کہ عیسائی مشنریوں کے کام کے نتیجے میں دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں نے بڑی تعداد میں عیسائیت قبول کی ہے ، لیکن شاید ہی کہیں اس کا سبب اسلام کے مقابلے میں موجودہ عیسائیت کی تعلیمات کو زیادہ معقول اور منطقی باور کرنا ہو۔ عیسائی مشنریوں نے عام طور پر دنیا کے مختلف علاقوں میں قدرتی آفات اور دیگر اسباب سے شدید غربت اور افلاس میں مبتلا مسلمانوں کو عیسائیت قبول کرنے کی صورت میں روزگار اور دوسرے مفادات کی ترغیب دے کر اسلام ترک کرنے پر آمادہ کیا ہے، جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ جانا اس لیے کچھ زیادہ حیرت انگیز نہیں کیونکہ مغربی تہذیب دنیاوی اعتبار سے وقت کی غالب تہذیب ہے ، سائنس و ٹیکنالوجی اور زندگی کے دوسرے میدانوں میں اس کی بے پناہ ترقی نے ذہنوں پر اس کا رعب و دبدبہ طاری کررکھا ہے اور اسے اپناکر بہت سی دنیاوی آسائشیں اور مفادات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
حیرت انگیز اور انتہائی قابل غور بات تو یہ ہے کہ ایسی عالمی صورت حال میں جب دنیا میں مسلمان عددی طور پر ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہونے کے باوجود عالمی سطح پر صدیوں سے بالکل بے وقعت اور بے وزن ہیں، مغربی طاقتوں نے انہیں دنیا کے مختلف حصوں میں کھلی جارحیت کا نشانہ بنا رکھا ہے، ان کی قیادتیں بالعموم مغربی طاقتوں کی آلہ کار اور کاسہ لیس ہیں، دنیا کے بیشتر حصوں میں مسلمان انتہائی پسماندگی کا شکار ہیں، اس کے باوجود ان کا دین مغرب کی انتہاتی ترقی یافتہ اور طاقتور اقوام کے مرد وزن میں تعجب خیز حد تک مقبول ہورہا ہے تو اس کے اصل اسباب کیا ہیں؟ اسلام اپنے کن خصائص کی بناء پر مسلمانوں کی تمام تر پستی اور پسماندگی کے باوجود اہل مغرب کے دل جیت رہاہے؟ اور یہ کہ کیا اسلام انسانیت کے اتحاد و یکجہتی اور پوری انسانی دنیا کی اجتماعی ترقی اور خوش حالی میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے؟ اور اگر ایسا ہوسکتا ہے تو کس طرح؟
ہم آئندہ صفحات میں ان موضوعات پر بات کریں گے مگراس سے پہلے مغرب میں اسلام کے خلاف جاری مہم کا ،جو ’’اسلامو فوبیا‘‘ کے نام سے معروف ہے، ایک اجمالی جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ قارئین کو قبول اسلام کے اس عمل کے درست تناظر کا اندازہ ہوسکے۔
تحریر: ثروت جمال اصعی
نوعیت: کتاب کا ایک باب
کتاب: عورت ، مغرب اور اسلام
تاریخ :۲۶ جون ۲۰۱۲ء
ربط
http://www.ipsurdu.com/index.php?op...main-islam&catid=35:maghriaurislam&Itemid=274
 

یوسف-2

محفلین
اُدھر باشعورمغربی خواتین کا یہ حال ہے کہ وہ قرآن و حدیث میں خواتین کو دئے گئے حقوق کی بنیاد پر اسلام قبول کر رہی ہیں تو اِدھر دیندار مسلم خواتین تک مرد و زن کی مغربی مساوات کا نعرہ بلند کرر ہی ہیں کہ جو مردوں کے لئے حلال ہے وہ ہمارے لئے کیوں نہیں۔ مرد کے لئے پتلون حلال ہے تو عورت کے لئے کیوں نہیں۔ مرد بلند آواز سے بول سکتا ہے تو عورتوں کی آواز کا پردہ کیوں؟ استغفر اللہ
 

ساجد

محفلین
اُدھر باشعورمغربی خواتین کا یہ حال ہے کہ وہ قرآن و حدیث میں خواتین کو دئے گئے حقوق کی بنیاد پر اسلام قبول کر رہی ہیں تو اِدھر دیندار مسلم خواتین تک مرد و زن کی مغربی مساوات کا نعرہ بلند کرر ہی ہیں کہ جو مردوں کے لئے حلال ہے وہ ہمارے لئے کیوں نہیں۔ مرد کے لئے پتلون حلال ہے تو عورت کے لئے کیوں نہیں۔ مرد بلند آواز سے بول سکتا ہے تو عورتوں کی آواز کا پردہ کیوں؟ استغفر اللہ
یوسف بھائی ، واقعی عورتوں کے لئے پتلون پہننا حرام نہیں۔ برصغیر اور افریقہ کے کچھ حصوں کے علاوہ باقی مُسلم دنیا میں خواتین بھی پتلون ہی پہنتی ہیں۔ انڈونیشیا ، ملائشیا ، فلپائن میں قریب قریب مکمل طور پر مسلم خواتین پتلون پہنتی ہیں جبکہ عرب ممالک اور ترکی میں بھی خواتین اسے پہنتی ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
یوسف بھائی ، واقعی عورتوں کے لئے پتلون پہننا حرام نہیں۔ برصغیر اور افریقہ کے کچھ حصوں کے علاوہ باقی مُسلم دنیا میں خواتین بھی پتلون ہی پہنتی ہیں۔ انڈونیشیا ، ملائشیا ، فلپائن میں قریب قریب مکمل طور پر مسلم خواتین پتلون پہنتی ہیں جبکہ عرب ممالک اور ترکی میں بھی خواتین اسے پہنتی ہیں۔
جی ساجد بھائی! میں نے یہ فتویٰ نہیں دیا کہ پتلون پہننا عورتوں کے لئے حرام ہے۔ نہ ہی یہ کوئی ”شرعی دلیل“ ہے کہ چونکہ فلاں فلاں ممالک کے مسلمان (مرد یا عورت ) چونکہ فلاں فلاں کام کرتے ہیں، لہٰذا یہ کام حرام نہیں ہے۔
پتلون کے بارے میں بہت سے علماء یہ موقف رکھتے ہیں کہ خواتین اگر پتلون کے اوپر کوٹ اس طرح پہنیں کہ ان کے پشت کے نشیب و فراز کور ہوجائیں تو جائز ہے۔ صرف شرٹ یا ٹی شرٹ کے ساتھ پینٹ یا جینز پہننا مسلم عورتوں کے لئے جائز نہیں۔ بلکہ بعض علماء تو یہی شرط مرد کے لئے بھی لگاتے ہیں، لیکن اتنی شدت کے ساتھ نہیں، جتنی کے خواتین کے لئے۔ واللہ اعلم بالصوب

پس تحریر: متذکرہ بالا بحث میں میری قابل احترام بہن نے اس پس منظر میں بات کی تھی کہ مرد کے لئے جو جو چیزیں حلال ہیں (بشمول پتلون، اونچی آواز سے بولنا)، وہ سب عورت کے لئے کیوں نہیں۔ مرد و زن کے مساوات کا یہ مغربی تصور ہے، اسلامی نہیں۔ جیسے مرد کے لئے شرعی ستر اور ہے، اورعورت کے لئے اور۔ مرد کے لئے ”پردہ“ نامحرم کو دیکھنے کے حوالہ سے ہے۔ جبکہ عورت کے لئے پردہ خود کو مستور رکھ کر نامحرم کی نگاہوں سے دور رہنے کے حوالہ سے ہے۔ مرد پر رزق کمانا فرض ہے۔ عورت پر فرض نہیں۔ اب کوئی یہ نہ کہے کہ فلاں فلاں ملکوں میں، بلکہ خود اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو مسلم خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ انہی کی طرح ملازمتین اور کاروبار کر رہی ہیں۔ :p
 

یوسف-2

محفلین
”اسلامی لباس“ کا ایک کلیہ یہ بھی ہے کہ خواتین، مروجہ مردانہ لباس اور مرد، مروجہ زنانہ لباس اور مسلمان مشرکین و کفار کی شناخت والے لباس نہیں پہن سکتے۔
 

ساجد

محفلین
جی ساجد بھائی! میں نے یہ فتویٰ نہیں دیا کہ پتلون پہننا عورتوں کے لئے حرام ہے۔ نہ ہی یہ کوئی ”شرعی دلیل“ ہے کہ چونکہ فلاں فلاں ممالک کے مسلمان (مرد یا عورت ) چونکہ فلاں فلاں کام کرتے ہیں، لہٰذا یہ کام حرام نہیں ہے۔
یوسف بھائی ، ذیل میں کہی گئی بات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پتلون کو حلال اور حرام کے درمیان "مُرغی" بنا دیا گیا ہے۔ اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ دو دینداروں کے درمیان "مُرغی" حرام ہو گی یا حلال۔:)

اب میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ صبح کے وقت پاکستان کے اکثر ایف ایم اسٹیشنز پر جو "زنانہ" وعظ ایک مشہوردینی ادارے کی سرپرستی میں کیا جاتا ہے اسے "حرام" سمجھوں یا "حلال"۔

دیندار مسلم خواتین تک مرد و زن کی مغربی مساوات کا نعرہ بلند کرر ہی ہیں کہ جو مردوں کے لئے حلال ہے وہ ہمارے لئے کیوں نہیں۔ مرد کے لئے پتلون حلال ہے تو عورت کے لئے کیوں نہیں۔ مرد بلند آواز سے بول سکتا ہے تو عورتوں کی آواز کا پردہ کیوں؟ استغفر اللہ
”اسلامی لباس“ کا ایک کلیہ یہ بھی ہے کہ خواتین، مروجہ مردانہ لباس اور مرد، مروجہ زنانہ لباس اور مسلمان مشرکین و کفار کی شناخت والے لباس نہیںپہن سکتے۔
باپردہ "مسلح" طالبات کو سڑکوں پر لانے میں بھی کوئی دینی امر ہی ملحوظ رکھا گیا ہوگا اور پھر "زنانہ" شناخت میں روپوش ہوتے وقت بھی تمام شرعی تقاضے پورے تو کئے گئے ہوں گے۔
اللہ کا واسطہ ہے مبلغین ہم مسلمانوں پر رحم فرمائیں اور سب سے پہلے اپنے اندر کے تضاد کو دور کریں۔
 
ابھی جو پاکستان میں خواتین پہنتی ہیں ا سکے مقابلے میں پتلون بہت ہی مناسب ہے

یہ جو لیگنگ کے نام پر پتلا چست پاجامہ پہنا جاتا ہے اس سے تمام باڈی لائن عیاں ہوتی ہے ۔ بلکہ اسکا رنگ بھی بیچ ہوتا ہے جس سے وہ پاجامہ جلد ہی نظر اتا ہے

مجھے تو یہ نظراتا ہے کہ پاکستان میں جلد ہی شارٹ اسکرٹس عام ہونے والے ہیں۔
وہیں یہ بھی نظر اتا ہے کہ مغرب میں خواتین اسلام قبول کرکے حجاب استعمال کرتی ہیں۔

ایک واقعہ یہ ہوا ہے ایک مغربی خاتون جب اسلام قبول کرکے پاکستان اپنے شوہر کے ساتھ ائیں کہ بچوں کو اسلام سے روشناس کرادیں۔ غریب شوہر نے بچوں کو ایک انگریزی میڈیم اسکول جو عباس ٹاون کے قریب ہے داخل کرادیا۔ وہ خاتون جب داخلہ کرانے گئیں توان کا استقبال ایک پاکستانی فیشن زدہ خاتون نے کیا۔ جب دونوں میں مکالمہ ہوا تو معلوم یہ پڑا کی پاکستانی خاتون زیادہ مغرب زدہ ہیں۔ خود انکو بھی شرم انے لگی۔ ان ہی کے الفاظ ہیں جو ان پاکستانی خاتون نے مغربی خاتون کے شوہر سے کہے اور شوہر نے براہ راست مجھ سے کہے کہ " ہم کافر ہوتے جارہے ہیں اور کافر مسلمان"
 

ساجد

محفلین
ابھی جو پاکستان میں خواتین پہنتی ہیں ا سکے مقابلے میں پتلون بہت ہی مناسب ہے

یہ جو لیگنگ کے نام پر پتلا چست پاجامہ پہنا جاتا ہے اس سے تمام باڈی لائن عیاں ہوتی ہے ۔ بلکہ اسکا رنگ بھی بیچ ہوتا ہے جس سے وہ پاجامہ جلد ہی نظر اتا ہے

مجھے تو یہ نظراتا ہے کہ پاکستان میں جلد ہی شارٹ اسکرٹس عام ہونے والے ہیں۔
وہیں یہ بھی نظر اتا ہے کہ مغرب میں خواتین اسلام قبول کرکے حجاب استعمال کرتی ہیں۔

ایک واقعہ یہ ہوا ہے ایک مغربی خاتون جب اسلام قبول کرکے پاکستان اپنے شوہر کے ساتھ ائیں کہ بچوں کو اسلام سے روشناس کرادیں۔ غریب شوہر نے بچوں کو ایک انگریزی میڈیم اسکول جو عباس ٹاون کے قریب ہے داخل کرادیا۔ وہ خاتون جب داخلہ کرانے گئیں توان کا استقبال ایک پاکستانی فیشن زدہ خاتون نے کیا۔ جب دونوں میں مکالمہ ہوا تو معلوم یہ پڑا کی پاکستانی خاتون زیادہ مغرب زدہ ہیں۔ خود انکو بھی شرم انے لگی۔ ان ہی کے الفاظ ہیں جو ان پاکستانی خاتون نے مغربی خاتون کے شوہر سے کہے اور شوہر نے براہ راست مجھ سے کہے کہ " ہم کافر ہوتے جارہے ہیں اور کافر مسلمان"
کیا کہنے ہیں بھئی خان صاحب کی نظر اور مستقبل بینی کے ، کہاں تک مار کر جاتی ہے ہاک آئی کے ریڈار سسٹم کی طرح۔
خان صاحب ایک بات عرض کر دوں کہ "زدگی" مغرب کی ہو یا شمال و جنوب اور مشرق کی ہمارے لئے تباہ کن ہے اس لئے اس سے بچنا چاہئیے تا کہ معاشرے میں مزید تقسیم پیدا نہ ہو۔
 
یوسف بھائی ، ذیل میں کہی گئی بات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پتلون کو حلال اور حرام کے درمیان "مُرغی" بنا دیا گیا ہے۔ اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ دو دینداروں کے درمیان "مُرغی" حرام ہو گی یا حلال۔:)

اب میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ صبح کے وقت پاکستان کے اکثر ایف ایم اسٹیشنز پر جو "زنانہ" وعظ ایک مشہوردینی ادارے کی سرپرستی میں کیا جاتا ہے اسے "حرام" سمجھوں یا "حلال"۔



باپردہ "مسلح" طالبات کو سڑکوں پر لانے میں بھی کوئی دینی امر ہی ملحوظ رکھا گیا ہوگا اور پھر "زنانہ" شناخت میں روپوش ہوتے وقت بھی تمام شرعی تقاضے پورے تو کئے گئے ہوں گے۔
اللہ کا واسطہ ہے مبلغین ہم مسلمانوں پر رحم فرمائیں اور سب سے پہلے اپنے اندر کے تضاد کو دور کریں۔
مسٹر ساجد گو آپ باتیں غلط کررہے ہو لیکن آپ کے براہین کافی مضبوط اور مدلل ہیں اب دیکھتے ہیں یوسف صاحب اوہ سوری سابقہ ماہ کنعان ثانی نزدیک سے کونسی دور کی دونمبری کوڑی لاتے ہیں۔
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
داغ دل ہم یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے
 
کیا کہنے ہیں بھئی خان صاحب کی نظر اور مستقبل بینی کے ، کہاں تک مار کر جاتی ہے ہاک آئی کے ریڈار سسٹم کی طرح۔
خان صاحب ایک بات عرض کر دوں کہ "زدگی" مغرب کی ہو یا شمال و جنوب اور مشرق کی ہمارے لئے تباہ کن ہے اس لئے اس سے بچنا چاہئیے تا کہ معاشرے میں مزید تقسیم پیدا نہ ہو۔

مجھے تو اپکا مسقبل اور زدگی کا علم ہے
 
اُدھر باشعورمغربی خواتین کا یہ حال ہے کہ وہ قرآن و حدیث میں خواتین کو دئے گئے حقوق کی بنیاد پر اسلام قبول کر رہی ہیں تو اِدھر دیندار مسلم خواتین تک مرد و زن کی مغربی مساوات کا نعرہ بلند کرر ہی ہیں کہ جو مردوں کے لئے حلال ہے وہ ہمارے لئے کیوں نہیں۔ مرد کے لئے پتلون حلال ہے تو عورت کے لئے کیوں نہیں۔ مرد بلند آواز سے بول سکتا ہے تو عورتوں کی آواز کا پردہ کیوں؟ استغفر اللہ
توبی استغفراللہ کیا زمانہ آ گیا ہے ! سب قرب قیامت کی نشانیاں ہیں ۔ آپ فلم کو بھول گئے ؟ شاید دیندار خاتون نے یہ بھی لکھا تھا کہ مسلم عورتوں کے لیے فلم بھی حلال کریں ۔
 
یہاں تو ایک دوسرے پر الزام تراشیاں شروع ہو گئی ہیں
بہت ہی افسوس کی بات ہے
کسی کو زیب نہیں دیتا کہ کسی پر الزام تراشی کرے انسان کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے غیر مسلم اسلامی تعلیمات سے متاثرہو کر اسلام قبول کر رہے ہیں اور ہم اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ حیا اور پردے کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے جب کہ سب کچھ واضح ہے
 

S. H. Naqvi

محفلین
اُدھر باشعورمغربی خواتین کا یہ حال ہے کہ وہ قرآن و حدیث میں خواتین کو دئے گئے حقوق کی بنیاد پر اسلام قبول کر رہی ہیں تو اِدھر دیندار مسلم خواتین تک مرد و زن کی مغربی مساوات کا نعرہ بلند کرر ہی ہیں کہ جو مردوں کے لئے حلال ہے وہ ہمارے لئے کیوں نہیں۔ مرد کے لئے پتلون حلال ہے تو عورت کے لئے کیوں نہیں۔ مرد بلند آواز سے بول سکتا ہے تو عورتوں کی آواز کا پردہ کیوں؟ استغفر اللہ
میرے خیال میں یوسف صاحب آپکو محترمہ کی تحریر دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے، آپ نے انکی تحریر کو وہ رخ دیکھ لیا ہے جو شاید وہ کہنا چاہتی ہی نہیں تھیں۔۔۔۔۔! بہرحال اگر ان کی مذکورہ منظوم تحریر کو غور سے پڑھا جائے تو واضح سمجھ آتا ہے کہ وہ عورت کو مرد کے برابر کرنے کے بجائے مروجہ برائیوں کی طرف اور مردوں کے دہرے معیار کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔۔۔۔! خیر آپ ان کی تحریر کو ایک بالکل الگ رخ پر لے جا رہے تھے تو مجھے کچھ لکھنا پڑا باقی بحث تو اس متعلق ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔! یہاں تو اسلام کی اس حقانیت و صداقت کو موضوع بنایا جانا چاہیے جو ترقی یافتہ اقوام کو تاریکی سے نکال کر اسلام کی روشنی کی طرف لا رہی ہے۔
مجھے تو لگتا ہے کہ اللہ اسلام کو انھیں اقوام کے ذریعے غالب کر دے گا اور جو اسلام کے اصل وارث یا پرانے ماننے والے ہیں بسسب اپنی بد اعمالیوں کے مقہور ہوتے رہیں گے۔۔۔۔۔!
 
اُدھر باشعورمغربی خواتین کا یہ حال ہے کہ وہ قرآن و حدیث میں خواتین کو دئے گئے حقوق کی بنیاد پر اسلام قبول کر رہی ہیں تو اِدھر دیندار مسلم خواتین تک مرد و زن کی مغربی مساوات کا نعرہ بلند کرر ہی ہیں کہ جو مردوں کے لئے حلال ہے وہ ہمارے لئے کیوں نہیں۔ مرد کے لئے پتلون حلال ہے تو عورت کے لئے کیوں نہیں۔ مرد بلند آواز سے بول سکتا ہے تو عورتوں کی آواز کا پردہ کیوں؟ استغفر اللہ
تنگ لباس کے بارے میں میری رائے یہاں واضح ہے ۔
http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=21750
http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=30218
http://www.urduvb.com/forum/showpost.php?p=408876&postcount=26
 
پہلے یہ مسئلہ نہیں ہؤا کرتے تھے کہ عورتیں پینٹ وغیرہ پہنے یا نہیں لیکن آج کے دور کی مغرب زدہ وبا نے لوگوں کو جدت پسندی کے خبط میں مبتلا کردیا ہے ، کہ اگر ہم نے مغرب کا طرز نہ اپنایا تو ہماری بڑی سبکی ہوگی
نت نئے فتنے ،نت نئی باتیں ،
سیدھی سی بات ہے کہ اگر لباس ستر کو چھپانے والا ہو ، تنگ و چشت نہ ہو ساتھ ساتھ غیر اقوام کا مخصوص کردہ یا ان سے مشابہت والا نہ ہو
تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن معاملہ برعکس ہے تو لازمی احتراز کرنا چاہیئے ۔۔۔
میرا خیال ہے کہ جیز ، پینٹ ، ساڑھی، اسکارف(جسے پتا نہیں کہاں سے اسلامی سمجھا جاتا ہے) اور اسی قسم کے لباس عورتوں کے لچر و بے ہودہ ہیں ساتھ ساتھ تنگ شلوار قمیض اور بڑھکیلے برقعہ و نقاب بھی ناپسندیدہ اور بے ہودہ ہیں۔۔۔۔ان سے مؤمنات کو احتراز کرنا چاہیئے
ڈھیلا ڈھالا ، جسم کو نمائش نہ کرنے والا پر وقار لباس جو چہرے سمیت سر سے پاؤں تک ڈھکا ہؤا ہو، وہی مناسب ہے

اگر کوئی نہ مانے پھر بھی وہی گھسی پٹی راگ الاپے کہ نہیں خواتین کو جینز اور دوسرے لچر لباس پہننا چاہیئے تو اسکو مغرب زدہ سمجھ کر گریز کرنا چاہیئے ۔۔۔ایسے لوگ "اسپیشل لوگوں" میں شمار ہوتے ہیں
 
Top