مغربی سوٹ میں ملبوس ایک دیسی آدمی! ...روزن دیوار سے… عطاالحق قاسمی

منصور آفاق

محفلین
میرے لئے یہ مسئلہ دن بدن سنجیدہ سے سنجیدہ تر ہوتا چلا جا رہا ہے کہ جب کبھی کسی دوست کے بارے میں مجھے کچھ کہنا ہوتا ہے تو بات تیس چالیس سال پہلے سے شروع کرنا پڑتی ہے۔ مثلاً یہ کہ موصوف سے میری پہلی ملاقات آج سے چالیس سال پہلے ان کی چالیسویں سالگرہ کی تقریب میں ہوئی۔ اس تمہید کے نتیجے میں موصوف کے کالے بالوں کا بھید کھل جاتا ہے اور اس کی طرف سے چہرے کی جھریاں چھپانے کی کوشش موقع پر ہی ناکام ہوتی نظر آنے لگتی ہے، خیر مجھے دوسروں کی کیا پرواہ، لیکن اس تمہید سے عین چوراہے میں بھانڈا تو میری اپنی عمر کا بھی پھوٹتا ہے۔ میں لاکھ کہوں کہ موصوف اگرچہ میرے پرانے دوست ہیں لیکن جب یہ چالیس سال کے تھے اس وقت میری عمر صرف سات برس تھی مگر یہ عذر ویسا ہی عذر ثابت ہوتا ہے، جسے ”عذر گناہ بدتر از گناہ“ کا نام دیا گیا ہے کیونکہ سات سال کی عمر میں چالیس سالہ شخص سے دوستی کے بیان پر کچھ ”شکی القلب“ لوگوں کی دبی دبی سی ہنسی سنائی دینے لگتی ہے!
اس وقت میں اسی مسئلے سے دوچار ہوں کیونکہ منصور آفاق سے بھی میری پہلی ملاقات 35 سال پہلے ہوئی تھی اور ایسے مواقع پر ہر بار الزام اپنے سر لینے کی بجائے میں اس بار آپ سے اس ترمیم کی اجازت چاہتا ہوں کہ اس وقت میری نہیں منصور کی عمر سات سال تھی۔ عمر میں مجھ سے بڑا ہے تفنن برطرف، منصور سے میری ملاقات ہوئی تو 35 برس قبل ہی تھی لیکن نہ وہ اس وقت بچہ تھا اور نہ آج بچہ ہے۔ البتہ کل کے اور آج کے منصور آفاق میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میں نے اسے پہلی بار ملیشیا رنگ کے شلوار کرتے میں دیکھا تھا، اس کے چہرے پر ہر طرف بال ہی بال تھے۔ آدھا چہرہ چیرہ داڑھی اور آدھا چہرہ مونچھوں نے ڈھانپا ہوا تھا آج اس حلیئے کے کسی شخص کو پولیس والے کسی جلسے جلوس یا ہجوم میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ وہ میانوالی میں رہتا تھا اور اس کی پنجابی یا سرائیکی کا زیادہ تر حصہ میری سمجھ سے بالاتر تھا لیکن ایک دوسرے کو قریب لے جانے والی چیز زبان نہیں ہم زبانی ہوتی ہے چنانچہ یہ ”نوجوان“ مجھ ”جوان“ کو اچھا لگا اور ہماری دوستی ہو گئی۔ اس کے اچھا لگنے کی وجوہات میں ذرا آگے چل کر بیان کروں گا۔ پہلے آپ کویہ بتا لوں کہ اس نے اپنی زندگی کی پہلی پتلون اس وقت پہنی جب یہ میرے ساتھ لندن کے لئے روانہ ہو رہا تھا بلکہ یہ پتلون خریدنے کے لئے ہم دونوں اکٹھے بازار گئے تھے لیکن یہ پتلون خاصی ”نیشنلسٹ“ ثابت ہوئی اسے یہ بات پسند نہ آئی کہ پاکستانی لباس چھوڑ کر یہ شخص انگریزی لباس کیوں پہننے لگا ہے، چنانچہ جب سائز چیک کرنے کے لئے منصور نے یہ پتلون پہنی اور کرسی پر بیٹھنے لگا تو پتلون کا احتجاج ایک ”چر چر چر“ کی صورت میں سنائی دیا اور یوں یہ پتلون ہماری آنکھوں کے سامنے اللہ کو پیاری ہو گئی، ہم نے #
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
کا مصرعہ پڑھتے ہوئے نم آلود آنکھوں کے ساتھ اس کی ”میت#“ دکاندار کے سپرد کی اور اس کے عوض دوسری پتلون لے کر گھر آ گئے، جہاں سے ہم نے لندن کے لئے رخت سفر باندھا۔
اور اب یہ وہی منصور آفاق ہے جس سے میں پوچھتا ہوں کہ مجھے کیا پہننا چاہئے اور کیا نہیں پہننا چاہئے۔ داڑھی اس نے صاف کر دی ہے اور مونچھیں ابھی تک صحیح سلامت ہیں۔ وہ برس ہا برس سے برمنگھم میں مقیم ہے اور وہ جو میں نے اس ہم زبانی کا ذکر کیا تھا جو ہم دونوں کی ایک دوسرے کے قریب لانے کا باعث بنی تھی، اس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ تمام تر لبرل ازم اور جدید خیالات کا پرچارک ہونے کے باوجود وہ برطانیہ جانے سے پہلے بھی اور آج بھی راسخ العقیدہ بریلوی مسلک کا مسلمان ہے۔ عشق رسول (ﷺ)اس کی رگ و پے میں خون کی طرح رواں دواں ہے۔ وہ ایک غیر جذباتی شخص ہے لیکن حضور (ﷺ)کے ذکر کی محفل میں اس کی آنکھیں نم آلود ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی پاکستانیت ہے جس پر وہ کبھی کمپرومائز نہیں کرتا اور جہاں تک میری اور اس کی ادبی ہم آہنگی کا تعلق ہے اس کا تعلق اس کی شعری حسیت سے ہے۔ اس کی شاعری کا کوئی سرا #
پان لگ لگ کر میری جان کدھر جاتے ہیں
یہ میرے قتل کے سامان کدھر جاتے ہیں
قسم کی شاعری سے نہیں ملتا… وہ جدید غزل کا ایک اہم شاعر ہے اور جدید غزل کے حوالے سے اس کی ایک بہت اہم کنٹری بیوشن یہ ہے کہ اس نے مغرب میں رہتے ہوئے جو شاعری کی، اس میں مغربی تلمیحات، استعارے، الفاظ اور کلچر کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔ میں اسے تجرباتی شاعری کہتا ہوں، اسے فی الحال ہضم کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ہمارے ادبی معدے بہت حساس ہیں۔ یہی کام ناروے میں مقیم میرا دوست جمشید سرور اپنی نظموں میں بھی کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اردو غزل اور اردو نظم کو نئے خون کی ضرورت ہے۔ ہماری شاعری نے فارسی شعر و ادب سے خاصی توانائی حاصل کر لی ہے۔ اب اسے توانائی کے دوسرے ذریعوں کی تلاش کا عمل بھی شروع کرنا چاہئے اور یہ کام منصور آفاق بہت تن دہی سے کر رہا ہے۔
جو دوست منصور سے ذاتی طور پر واقف نہیں۔ میں انہیں ایک بردارانہ مشورہ دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اس کے ساتھ کبھی عروض کے مسئلے پر الجھنے کی کوشش نہ کریں اور دوسرے یہ کہ اردو شاعری کی تاریخ اور دلی دکنی سے لے کر آج تک کے شعراء کے کلام پر بھی اس سے یہ سمجھ کر ہم کلام نہ ہوں کہ وہ صرف ”تلیمذ الرحمن“ ہے یعنی اس نے خود کچھ نہیں پڑھا، وہ جہاں علم عروض کے ماہرین میں سے ہے وہاں اس کے ساتھ ساتھ پوری اردو شاعری پر بھی اس کی گہری نظر ہے۔ یہ صفات بعض اوقات شاعر اور شاعری کے لئے خود کش بمبار بھی ثابت ہوتی ہیں، شاعر ”عروضی“ ہو جاتا ہے اور اس کی شاعری موہنجوداڑو کے کھنڈرات میں دفن ہو کر رہ جاتی ہے۔ منصور آفاق نے خود کو ان بلاؤں سے بہت بچا بچا کر رکھا ہوا ہے۔ منصور کا ایک اور رویہ مجھے بہت پسند ہے۔ وہ شاعری کو نیکی سمجھتا ہے چنانچہ اسے دریا میں ڈال دیتا ہے۔ اسے قطعاً یہ گمان نہیں کہ وہ ملک الشعراء ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہمارے ہاں ہر دوسرا شاعر ملک الشعراء ہی ہے جو اپنی یہ حیثیت منوانے کے لئے منت ترلے سے شروع ہوتا ہے اور دلی مراد پوری نہ ہونے پر آخر میں میان سے تلوار نکال لیتا ہے!
اور منصور کی ایک ادا، جس کا بیان رہ چلا تھا، اس کی دوستوں کے ساتھ وہ کومٹ منٹ ہے جس سے وہ زندگی میں کبھی دستبردار نہیں ہوا، اس کی دوستیاں لازوال ہیں، وہ ان میں کبھی دراڑ نہیں آنے دیتا۔ اور ہاں وہ اعلیٰ درجے کا ڈرامہ نگار ہے۔ کالم نگار ہے۔ شاعر اور نقاد تو وہ ہے ہی، اس کے باوجود اس نے اپنی حق تلفیوں پر تلملانا اور جھلانا نہیں سیکھا۔ وہ برس ہا برس سے اپنے تخلیقی کاموں میں مگن ہے۔ ان دنوں سلطان باہو کے فارسی کلام پر اردو میں منظوم ترجمہ کر رہا ہے۔ میرے خیال میں جس شخص کے پاس اتنا کچھ ہو، اسے خواہشات کی غلامی نہیں کرنا پڑتی اور آخر میں یہ کہ منصور آفاق بالکل نہیں بدلا، وہ ویسے کا ویسا ہی ہے جیسا 35 سال پہلے تھا، میں جب اسے ملتا ہوں تو مجھے اس منصور آفاق پر بہت پیار آتا ہے جس نے ارمانی کے سوٹ کے نیچے آج بھی ملیشیا کا شلوار کرتا پہنا ہوا ہے! اگر آپ نے بھی اسے اس حلیئے میں دیکھنا ہو تو اسے میری آنکھوں سے دیکھیں!
(ادبی تنظیم ”سخنور“ رحیم یار خاں کے زیر اہتمام منصور آفاق کے ساتھ منعقدہ تقریب میں پڑھے گئے صدارتی کلمات)​
 
Top