مغلوں کا دسترخوان

سلمیٰ حسین ایک ایرانی اسکالر ہیں اور ان کا پسندیدہ موضوع انواع و اقسام کے کھانوں کی تاریخ ہے خاص طور پر مغلئ کھانوں کی تاریخ پر ان کی بہت سی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ THE EMPEROR’s TABLE ان کی ایک بہترین کتاب ہے جس میں انہوں نے تمام مغل شہنشاہوں کی پسندیدہ کھانوں کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے۔اس کتاب میں بابر سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کے تمام ادوار اور کھانوں کی تفصیل کا مفصل ذکر کیا ہے بلکہ ان تمام کھانوں کی تراکیب بھی پیش کی ہیں جس کے لئے انہوں نےمختلف مغل ادوار میں لکھی گئ کتابوں سے بھی مدد لی ہے۔

مغل شہنشاہ اکثر اپنی ملکائوں اور خاندان کے قریبی لوگوں کے ہمراہ کھانا پسند کرتے تھے البتہ خاص مواقع پر درباریوں اور اعلیٰ شخصیات کے ساتھ بھی دعوت طعام میں شریک ہوتے تھے۔سب سے پہلے شاہی حکیم ایک خاص مینیو ترتیب دیتا تھا جس میں ان تمام مفید اجزا کا خیال رکھا جاتا تھا کہ جن کے طبی خواص انسانی جسم اور صحت کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید ہوں۔
پلائو اور بریانی تیار کرنے سے پہلے چاولوں کو روغن نقرہ میں ڈبو کر نکالا جاتا تھا کہ چاولوں میں چاندی کے کشتے کی طاقت آ جائے اس کے علاوہ یہ ہاضم اور مانع تیزابیت بھی ہوتا تھا۔

شاہی مطبخ کے لئے پالی گئ مرغیوں، بکروں اور بھیڑوں کو ان کی خوراک میں سانے چاندی کے کشتے کی گولیاں، سچے موتی، زعفران، بھی کھلائ جاتی تھیں تاکہ ان کے گوشت میں ان کے طبی خواص جزب ہو جائیں۔ اور کھانے والے کو انتہائ مقوی و خوشبودار گوشت پیش کیا جا سکے۔

جب ایک مرتبہ مینیو کا فیصلہ ہو جاتا تو سینکڑوں ملازمین پر مشتمل شاہی مطبخ کا عملہ اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیتا۔ظہرانے اور عصرانے میں کم از کم سو مختلف اقسام کے کھانے پیش کئے جاتے اور ہر کھانا الگ الگ باورچی تیار کرتا۔سبزیوں، پھلوں، گوشت اور برتنوں کی دھلائ کے لئے الگ عملہ معمور ہوتا۔

تمام کھانوں کی تیاری میں بارش کے پانی کو استعمال کیا جاتا جبکہ اکبر کے دور میں اس میں گنگا جل بھی شامل کیا جانے لگا۔مغلئ کھانوں نے بابر سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک ایک طویل ارتقائ سفر طے کیا۔ ان کھانوں میں ایرانی، افغانی، ترکی، ذائقے تو شامل ہی تھے لیکن برصغیر میں ہونے کی وجہ سے ان میں کشمیری، پنجابی،اور دکھنی ذائقہ و رنگ بھی شامل ہوتا گیا۔بابر اور ہمایوں کے دور تک مغل کھانوں میں، ہلدی، لال مرچ، زیرہ، دھنیا لونگ، ادرک لہسن وغیرہ بالکل استعمال نہیں ہوتا تھا بلہ کثرت سے بادام، اخروٹ، کشمش،

خشک آلوچے اور خوبانی، پستہ، زعفران، وغیرہ استعمال کئے جاتے تھے جو بطور خاص افغانستان سے منگوائے جاتے تھے۔
ابر کے دور کے ساتھ رفتہ رفتہ دیگر مصالحہ جات بھی استعمال ہونے لگے۔۔ اکبر نامہ، آئین اکبری اور الون نعمت میں کئ باب صرف دور اکبری کے مطبخ، مختلف کھانے۔ پھل اور سبزیوں کی تفاصیل پر مشتمل ہیں۔ بابر کو ہندوستان بالکل بھی پسند نہ تھا، نہ تو یہاں برف جیسا ٹھنڈا پانی دستیاب تھا اور نہ افغانستان جیسے عمدہ نان۔ اس کے علاوہ وہ کابل کے انگور، گرما، اور دیگر عمدہ پھلوں کو بھی بہت یاد کرتا تھا۔۔ انڈیا میں نہ حمام تھے اور نہ مومی شمعیں اور قندیلیں۔۔ بابر کے دور تک مغلوں کا کھانا بالکل سادہ ہوتا تھا۔ بھیڑ کا آگ پر سکا ہوا گوشت، نان، اور تازہ پھل۔۔ابراہیم لوھی کو شکست سینے کے بعد بابر نے اس کے باورچیوں کو شاہی باورچی خانے سے بے دخل نہیں کیا لیکن جب ابراہیم لودھی کے وفادار ایک باورچی نے اس کو خرکوش کے اسٹیو میں زعفران کے ساتھ زہر چھڑک کر پیش کیا تو وہ محسوس نہ ہو سکا لیکن بابر نے تھوڑا سا کھانے کے بعد قے کردی۔ملازم کو انتہائ بے رحم اور سخت سزا دی گئ لیکن اس کے بعد بابر محتاط ہو گیا۔
بابر کے بعد ہمایوں کا دور آیا تو ہمایوں نے ہندوستانی باورچی بھی شاہی مطبخ میں بھرتی کئے۔ ہمایوں کا زیادہ وقت جلا وطنی میں گزرا ۔ جب وہ شاہ یران کے پاس پناہ گزین ہوا تو اس نے اپنا ایک ہندوستانی باورچیشاہ ایران کو بطور تحفہ پیش کیا اور شاہ کو بھی ہندوستانی کھانوں کا چسکا پڑ گیا۔ اس کو خاص طور پر کھچڑی بہت پسند آئ۔ دوسری طرف ہمایوں کو ایرانی کھانے بے حد پسند آئے۔ اس کی ملکہ بھی ایرانی تھی۔

شیر شاہ کی وفات کے بعد ب ہمایوں وپس ہندوستان پہنچا تو اپنے ساتھ ایرانی فنکار، مجسمہ ساز، مصور، موسیقار اور باورچی بھی ستھ لے کر گیا اور یوں مغل کھانوں میں ایرانی کھانے مثلا” کوفتہ،، تندوری بھیڑ، مصالحہ مرغ اور ایرانی پلائو بھی شامل ہو گئے۔
دور اکبر میں ہندوستانی کھانے بھی مغل مینیو میں شامل ہوگئے کیونکہ اکبر نے ہندو رانی سے بھی شادی کی تھی۔ اکبر ہفتہ میں تین دن صرف سبزیوں پر گزارہ کرتا تھا۔ خاص طور پر جمعہ کے دن وہ گوشت بالکل بھی استعمال نہیں کرتا تھا۔
ابوالفضل لکھتا ہے کہ دور اکبر میں دستر خوان تین اقسام کے کھانوں پر مشتمل وتا تھا۔ پہلے درجے میں بغیر گوشت کے کھانے جن کو ” صوفیانہ” کہا جاتا تھا۔ درجہ دوم میں گوشت اور چاول سے تیار کردہ ڈشز اور تیسرے درجے میں مصالحوں کے ساتھ پکا ہوا گوشت۔

بریانی، کھچڑی، حلوہ، دوپیازہ،کباب،قیمہ پلائو، چپاتی، نان اور خشکہ، قلیہ، قورمہ،پلائو،۔۔ بقول ابو الفضل کھانوں کی فہرست اتنی وسیع ہے کہ وہ تمام کا ذکر نہیں کر سکتا۔ مشروبات میں مغلوں کا پسندیدہ مشروب کوٹی ہوئ برف کے ساتھ مختلف اقسام کے پھلوں کا رس تھا۔ اکبرکھانے کے اتھ گنگا جل پینا پسند کرتا تھا۔حتیٰ کہ جب وہ پنجاب میں ہوتا تب بھی اس کے لئے دو سو میل کے فاصلے پر گنگا جل اونٹوں پر لاد کر لایا جاتا تھا۔

بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اکبر کی خوراک بھی کم ہوتی گئ اور ایک دور ایسا آیا کہ وہ دن میں صرف ایک وقت کا کھانا کھاتا تھا اور شکم سیر ہونے سے پہلے دسترخوان سے اٹھ جاتا تھا۔ باورچی خانے کا داروغہ جسے میر بھکوال کہا جاتا تھا، تمام تر انتظامات اور لوازمات کا ذمہ دار ہوتا تھا۔وہی کھانے کو چکھنے کے بعد اس کو بادشاہ تک پہنچانے یا نہ پہنچانے کا حکم صادر کرتا تھا اور دوران طعام وہ بادشاہ کی خدمت میں پیش رہتا تھا۔

ابر کے بعد جہانگیر کا دور ۱۶۰۵۔۱۶۲۷ شروع ہوا۔ جہانگیر اپنے آبائو اجداد کی طرح اعلیٰ طعام کا کوئ خاص شوقین نہ تھا البتہ شراب کا رسیا تھا۔البتہ جہانگیر کو کھچڑی بہت پسند تھی جو مختلف داکوں اور چاوکوں سے تیار کی جاتی تھی۔ سر تھامس رائے جو جہانگیر کے زانے میں ہندوستان میں اگکستان کا سفیر تھا نے اپنی کتاب میں تفصیل سے اس دور اور جہانگیر کی عیاشی و اوباشی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بادشاہ شاذونادر ہی ہوش و حواس میں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی تو اس کو اٹھا کر دربار لایا جاتا اور خدام اس کو بمشکل کھانا کھلاتے تھے۔ شراب کے ساتھ ساتھ وہ افیون کا بھی شوقین تھا۔ ان ہی بدکاریوں نے اس کو وقت سے پہلے ہی تباہ کردیا تھا۔ اس کی صحت برباد ہو گئ تھی اور اکثر اس کے ہاتھوں میں رعشہ آتا تھا۔

جہانگیر کے معالجین نے اسے سْختی سے شراب سے پرہیز کرنے کیا مشورہ دیا تھا مگر وہ باز نہ آیا حتیٰ کہ جب وہ شدید بیمار ہوگیا تو اس نے روزانہ شراب کی مقدار گھْٹا کر چھجام کر دی تھی۔ وہ اکثر انتہائ اہم نوعیت کی گفتگو کے دوران سو جاتا تھا ۔ اکثر فرش پر بھی لڑھک جاتا تھا۔ کبھی وہ زور زور سے رونے لگتا اور او فول بکنے لگتا۔ ان تمام باتوں کے راوی سر تھامس رائے ہیں جو کہ شراب نوشی میں جہانگیر کے ہم پیالہ تھے۔

اسی دور کی ایک دعوت کا ذکر بھی سن لیجئے۔ آصف خان جو کہ جہانگیر کا وزیر تھا اس نے سر تھامس رائے اور اس کےپادری ٹیری کو دعوت پر مدعو کیا۔اس دعوت میں صرف میزبان اور دو مہمان شامل تھے۔ جب کھانا دستر خوان پر چن دیا گیا تو تینوں افراد ایک تکون ی صورت میں اس کے گرد آلتی پالت مار کر بیٹھ گئے۔ رائے کو بطور مہمان خصوصی میزبان کے مقابلے میں دس ڈشز زیادہ پیش کی گئیں جبکہ ٹیری کو کم درجے کی بنا پر دس ڈشز کم پیش کی گئیں۔اس حال میں بھی اس کے سامنے کم از کم پچاس مْختلف اقسام کے کھانے چنے گئے تھے۔ٹیری نے اپنی پر تجسس طبیعت سے مجبور ہو کر تقریبا” ہر کھانے کو تھوڑا تھوڑا ضرور چکھا جس می ں اس کو خاص طور پر چاولوں سے تیار کردہ ایک رنگ برنگی ڈش بہت پسند آئ جس میں سبز اور جامنی رنگ بھی شامل تھا۔ ٹیری نے مشاہدہ کیا کہ مغل گوشت کے بڑے بْڑے ٹکڑے کھانے کے بجائے ان کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں بنوا کر ان میں مختلف اقسام کے گرم مصلحے۔ پیاز، ادرک اور دیگر مصالحہ جست کی مدد سے مختلف اقسام کے سالن تیار کرتے تھے جو ذائقے اور مہک میں اپنی مثال ْآپ تھے۔ ٹیری کے مطابق یہ دعوت طعام کئ گھنٹے تک جاری رہی حتیٰ کہ آلتی پالتی مار کر بیٹھے رہنے کی وجہ سے اس کے گھٹنوں میں شدید درد هو گیا۔ یہ ایک انتہائ دلچسپ کتاب ہے۔ اس میں اور بھی بہت کچھ ہے۔

تحریر : ثنا اللہ خان احسن
 
Top