عبدالرزاق قادری
معطل
مفتی غلام جان قادری
تاریخ اسلام کی ورق گردانی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ علماءربانی نے مختلف انداز میں مشکل سے مشکل اور آڑے وقت میں لالچ، دھونس اور دھمکی کی پرواہ کئے بغیر بڑی جرا¿ت سے محض رضائے الٰہی کے لیے اس شمع کو روشن و تابندہ رکھنے کے لیے فانوس بن کر سینہ سپر رہے ہیں۔
اسی قافلہ کے ایک راہ رو ا ور مقتدر شخصیت عالم باعمل پیر طریقت حضرت ابوالمظفر مفتی غلام جان قادری رضوی کی ذات گرامی ہے جو کہ ایک صدی قبل ضلع ہزارہ کے مشہور شہر مانسہرہ سے مغربی جانب تین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر قصبہ ”اوگرہ“ کے مشہور ہاشمی اعوان خاندان کے زمیندار گھرانے اور خدا ترس عالم دین قاضی محمد احمد جیؒ گے گھر متولد ہوئے۔ آپ کا شجرہ نسب حضرت محمد بن حنفیہؒ کے توسط سے حضرت علی ؓ سے جاملتا ہے۔ آپ کے گھرانے کے دینی ماحول اور فطرت سلیمہ سے اس مرد کوہستانی کے اندر حصول علم کے جذبے نے انگڑائی لی تو والد گرامی سے قرآن حکیم اور ابتدائی کتب پڑھنے کے بعد سلف صالحین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پنجاب، ہزارہ اور ہندوستان کی طرف بادیہ پیمائی کی۔
پنجاب کے مشہور صاحب علوم و فنون سے استفادہ کرتے ہوئے دہلی، آگرہ، میتھرہ، سہارنپور، راجپور، ٹونک کی مشہور درسگاہوں اور نامور علماءسے خوشہ چینی کرتے ہوئے اپنے آپ کو علم کے زیور سے آراستہ کیا۔
آپ حضرت پیر عبدالرحمن چھوہروی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعا عرض کیا، حضرت نے بڑی حوصلہ افزائی فرمائی اور اپنی دعا¶ں سے نوازا آپ ضلع گجرات کے موضع اَنی میں مولانا غلام رسول کے ہاں زیر تعلیم تھے تو سلطان الاولیاءحضرت قاضی سلطان محمودجنہیں کشف قلوب و کشف قبور کا مرتبہ حاصل تھا اُن سے مرید ہونے کی درخواست کی تو آپ نے اپنے خداداد علم سے فرمایا کہ بیٹا سب سے بڑا پیر علم ہے۔ ہندوستان کی طرف سفر کرو تکمیل کے بعد جہاں تمہارا دل لگے مرید ہوجا¶۔ چنانچہ آپ اسی جستجو میں رہے۔ آخر آپ دنیائے اسلام کی عظیم ملی و روحانی شخصیت امام المحدثین امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے وہاں تسکین روح کا سامان پایا تو اُن کے دست حق پرست پر شرف بیعت حاصل کیا اور پھر اُنہی کے ہو کر رہ گئے۔ ام احمد رضا بریلوی ؒ نے بھی حضرت مفتی صاحب کی سچی تڑپ، سلسلہ سے محبت اور کامل عقیدت کو دیکھتے ہوئے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی خلافت عطا فرمائی۔ اس کے ساتھ ساتھ مدرسہ کی ایک خصو صی سند دی جس میں حضرت مفتی صاحب کو تمام کتب تفسیر و حدیث، جوامع، سنن، مسانید، معاجیم بشمول م¶طا امام مالک و م¶طا امام محمد، کتاب الآثار و شرح معانی الآثار اور تقریباً 30 علوم کی اجازت عطا فرمائی جو حسب ذیل ہیں:
علم قرآن‘علم حدیث ‘اصول حدیث اصول عقائد ‘اسماءالرجال ‘ فقہ حنفی ‘کتب فقہ جملہ مذاہب ‘اصول فقہ ‘ جدل مھذب ‘ علم نحو ‘ علم صرف ‘ علم معانی ‘علم بیان‘ علم بدیع ‘ علم منطق ‘ علم مناظرہ ‘ علم فلسفہ مدلسہ ‘ علم ہیئت ‘ علم حساب ‘ علم توقیت ‘ علم الھندسہ ‘ علم قرا¿ت‘ علم تجوید ‘ علم تصوت ‘ علم سلوک ‘ علم اخلاق ‘ علم سیر ‘ علم تواریخ ‘ علم لغت ‘ علم ادب مع جملہ فنون
آپ نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس اور وعظ و ارشاد میں گزاری۔ بریلی شریف، مکھڈ شریف اور تونسہ شریف میں تدریسی خدمات سر انجام دیں۔ ہزاراہ کی ریاست شھیلیہ میں افتاءاور قضاءکی مسند پر رونق افروز رہے۔ آخر کار لاہور کو اپنا مسکن قرار دیا۔ دارالعلوم انجمن نعمانیہ میں درس و تدریس کے امور سرانجام دیئے، ملک و بیرون ملک سے آنے والے استفتا¶ں کے مدلل جواب مرحمت فرماتے رہے، فتاوئے غلامیہ کے نام سے آج بھی آپ کے فتوے محفوظ ہیں۔ افغانستان میں جب عبدالطیف نامی قادیانی مرزا کے عقائد کی تبلیغ کے لیے پہنچا تو والی افغانستان امیر امان اللہ خاں غازی نے اُسے سنگسار کیا اس بارے میں شاہ افغانستان نے استفتاءدارلعلوم نعمانیہ میں بھیجا جس کا مدلل و تفصیلی جواب حضرت مفتی غلام جان قادری نے دیا اور شاہ افغانستان کے اس اقدام کو خوب سراہا۔
آپ اپنے مریدین سے رسمی بیعت نہیں لیتے تھے بلکہ حقیقی بیعت لیا کرتے تھے جس سے مریدین میں حمیت دینی کارفرما ہوتی تھی۔ یہ آپ کی تربیت ہی کا اثر تھا کہ آپ کے مریدان باصفا نے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور عظمت اسلام پر تن ، من دھن قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی غازی تاج دین بھی ہیں جو گلاب سنگھ پریس لاہور (موجودہ حکومت پاکستان پریس) میں ملازم تھے، ایک سکھ ملازم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے نازیبا الفاظ استعمال کئے تو غازی تاجدین نے اُسے اس حرکت سے روکا جب وہ باز نہ آیا تو غازی تاجدین آف سوڈھیوال لاہور نے خنجر کے پے در پے وار کرکے اُسے واصل جہنم کر دیا۔
آپ کی دیندارای و تقویٰ و روحانیت کے مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی معترف تھے۔ عبادت ریاضت کے علاوہ خلق خدا کی خدمت، مسکین بیوا¶ں اور یتیموں کی خبر گیری آپ کا معمول تھا۔ ان خدمات کا کسی کو آپ کی زندگی میں علم نہ ہوسکا۔ وفات کے بعد آپ سے مستفید ہونے والوں نے اس امر کا اظہار کیا۔ تحریک پاکستان میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔ علم و عمل کا آفتاب جس کی ضیاءپاشیوں سے اہل لاہور عرصہ دراز تک فیض حاصل کرتے رہے۔ آخر کار 25 محرم الحرام 1379ہجری یکم اگست 1959ءکو ظہر کے وقت جب م¶ذن نے ”حی علی الصلوٰة“ کی آواز بلند کی آپ نے اپنا رخ قبلہ کی جانب پھیرا اور کلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوئے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔
مفتی اعظم پاکستان علامہ سید ابوالبرکات سید احمد شاہ صاحب، امیر مرکزی انجمن دارلعلوم حزب الاحناف نے نماز جناہ کی امامت فرمائی۔جنازہ کے درمیان ہلکی ہلکی پھوار رحمت جاری رہی۔ ہزاروں سوگواروں کی آہوں اور سسکیوں میں اسلام کے سپوت کو غازی علم دین شہید کے مزار کے پائیں جانب والے احاطہ قادریاں رضویاں میں اُن کی آخری آرامگاہ میں اتار دیا گیا۔ اُن کا عرس اتوار 9 دسمبر کو اُن کے مزار مبارک پر منایا جائے گا۔
بشکریہ:نوائے وقت
07 دسمبر 2012
محمد عاصم بٹ تاریخ اسلام کی ورق گردانی سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ علماءربانی نے مختلف انداز میں مشکل سے مشکل اور آڑے وقت میں لالچ، دھونس اور دھمکی کی پرواہ کئے بغیر بڑی جرا¿ت سے محض رضائے الٰہی کے لیے اس شمع کو روشن و تابندہ رکھنے کے لیے فانوس بن کر سینہ سپر رہے ہیں۔
اسی قافلہ کے ایک راہ رو ا ور مقتدر شخصیت عالم باعمل پیر طریقت حضرت ابوالمظفر مفتی غلام جان قادری رضوی کی ذات گرامی ہے جو کہ ایک صدی قبل ضلع ہزارہ کے مشہور شہر مانسہرہ سے مغربی جانب تین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر قصبہ ”اوگرہ“ کے مشہور ہاشمی اعوان خاندان کے زمیندار گھرانے اور خدا ترس عالم دین قاضی محمد احمد جیؒ گے گھر متولد ہوئے۔ آپ کا شجرہ نسب حضرت محمد بن حنفیہؒ کے توسط سے حضرت علی ؓ سے جاملتا ہے۔ آپ کے گھرانے کے دینی ماحول اور فطرت سلیمہ سے اس مرد کوہستانی کے اندر حصول علم کے جذبے نے انگڑائی لی تو والد گرامی سے قرآن حکیم اور ابتدائی کتب پڑھنے کے بعد سلف صالحین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پنجاب، ہزارہ اور ہندوستان کی طرف بادیہ پیمائی کی۔
پنجاب کے مشہور صاحب علوم و فنون سے استفادہ کرتے ہوئے دہلی، آگرہ، میتھرہ، سہارنپور، راجپور، ٹونک کی مشہور درسگاہوں اور نامور علماءسے خوشہ چینی کرتے ہوئے اپنے آپ کو علم کے زیور سے آراستہ کیا۔
آپ حضرت پیر عبدالرحمن چھوہروی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا مدعا عرض کیا، حضرت نے بڑی حوصلہ افزائی فرمائی اور اپنی دعا¶ں سے نوازا آپ ضلع گجرات کے موضع اَنی میں مولانا غلام رسول کے ہاں زیر تعلیم تھے تو سلطان الاولیاءحضرت قاضی سلطان محمودجنہیں کشف قلوب و کشف قبور کا مرتبہ حاصل تھا اُن سے مرید ہونے کی درخواست کی تو آپ نے اپنے خداداد علم سے فرمایا کہ بیٹا سب سے بڑا پیر علم ہے۔ ہندوستان کی طرف سفر کرو تکمیل کے بعد جہاں تمہارا دل لگے مرید ہوجا¶۔ چنانچہ آپ اسی جستجو میں رہے۔ آخر آپ دنیائے اسلام کی عظیم ملی و روحانی شخصیت امام المحدثین امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے وہاں تسکین روح کا سامان پایا تو اُن کے دست حق پرست پر شرف بیعت حاصل کیا اور پھر اُنہی کے ہو کر رہ گئے۔ ام احمد رضا بریلوی ؒ نے بھی حضرت مفتی صاحب کی سچی تڑپ، سلسلہ سے محبت اور کامل عقیدت کو دیکھتے ہوئے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی خلافت عطا فرمائی۔ اس کے ساتھ ساتھ مدرسہ کی ایک خصو صی سند دی جس میں حضرت مفتی صاحب کو تمام کتب تفسیر و حدیث، جوامع، سنن، مسانید، معاجیم بشمول م¶طا امام مالک و م¶طا امام محمد، کتاب الآثار و شرح معانی الآثار اور تقریباً 30 علوم کی اجازت عطا فرمائی جو حسب ذیل ہیں:
علم قرآن‘علم حدیث ‘اصول حدیث اصول عقائد ‘اسماءالرجال ‘ فقہ حنفی ‘کتب فقہ جملہ مذاہب ‘اصول فقہ ‘ جدل مھذب ‘ علم نحو ‘ علم صرف ‘ علم معانی ‘علم بیان‘ علم بدیع ‘ علم منطق ‘ علم مناظرہ ‘ علم فلسفہ مدلسہ ‘ علم ہیئت ‘ علم حساب ‘ علم توقیت ‘ علم الھندسہ ‘ علم قرا¿ت‘ علم تجوید ‘ علم تصوت ‘ علم سلوک ‘ علم اخلاق ‘ علم سیر ‘ علم تواریخ ‘ علم لغت ‘ علم ادب مع جملہ فنون
آپ نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس اور وعظ و ارشاد میں گزاری۔ بریلی شریف، مکھڈ شریف اور تونسہ شریف میں تدریسی خدمات سر انجام دیں۔ ہزاراہ کی ریاست شھیلیہ میں افتاءاور قضاءکی مسند پر رونق افروز رہے۔ آخر کار لاہور کو اپنا مسکن قرار دیا۔ دارالعلوم انجمن نعمانیہ میں درس و تدریس کے امور سرانجام دیئے، ملک و بیرون ملک سے آنے والے استفتا¶ں کے مدلل جواب مرحمت فرماتے رہے، فتاوئے غلامیہ کے نام سے آج بھی آپ کے فتوے محفوظ ہیں۔ افغانستان میں جب عبدالطیف نامی قادیانی مرزا کے عقائد کی تبلیغ کے لیے پہنچا تو والی افغانستان امیر امان اللہ خاں غازی نے اُسے سنگسار کیا اس بارے میں شاہ افغانستان نے استفتاءدارلعلوم نعمانیہ میں بھیجا جس کا مدلل و تفصیلی جواب حضرت مفتی غلام جان قادری نے دیا اور شاہ افغانستان کے اس اقدام کو خوب سراہا۔
آپ اپنے مریدین سے رسمی بیعت نہیں لیتے تھے بلکہ حقیقی بیعت لیا کرتے تھے جس سے مریدین میں حمیت دینی کارفرما ہوتی تھی۔ یہ آپ کی تربیت ہی کا اثر تھا کہ آپ کے مریدان باصفا نے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور عظمت اسلام پر تن ، من دھن قربان کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی غازی تاج دین بھی ہیں جو گلاب سنگھ پریس لاہور (موجودہ حکومت پاکستان پریس) میں ملازم تھے، ایک سکھ ملازم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے نازیبا الفاظ استعمال کئے تو غازی تاجدین نے اُسے اس حرکت سے روکا جب وہ باز نہ آیا تو غازی تاجدین آف سوڈھیوال لاہور نے خنجر کے پے در پے وار کرکے اُسے واصل جہنم کر دیا۔
آپ کی دیندارای و تقویٰ و روحانیت کے مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی معترف تھے۔ عبادت ریاضت کے علاوہ خلق خدا کی خدمت، مسکین بیوا¶ں اور یتیموں کی خبر گیری آپ کا معمول تھا۔ ان خدمات کا کسی کو آپ کی زندگی میں علم نہ ہوسکا۔ وفات کے بعد آپ سے مستفید ہونے والوں نے اس امر کا اظہار کیا۔ تحریک پاکستان میں آپ نے بھرپور حصہ لیا۔ علم و عمل کا آفتاب جس کی ضیاءپاشیوں سے اہل لاہور عرصہ دراز تک فیض حاصل کرتے رہے۔ آخر کار 25 محرم الحرام 1379ہجری یکم اگست 1959ءکو ظہر کے وقت جب م¶ذن نے ”حی علی الصلوٰة“ کی آواز بلند کی آپ نے اپنا رخ قبلہ کی جانب پھیرا اور کلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوئے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔
مفتی اعظم پاکستان علامہ سید ابوالبرکات سید احمد شاہ صاحب، امیر مرکزی انجمن دارلعلوم حزب الاحناف نے نماز جناہ کی امامت فرمائی۔جنازہ کے درمیان ہلکی ہلکی پھوار رحمت جاری رہی۔ ہزاروں سوگواروں کی آہوں اور سسکیوں میں اسلام کے سپوت کو غازی علم دین شہید کے مزار کے پائیں جانب والے احاطہ قادریاں رضویاں میں اُن کی آخری آرامگاہ میں اتار دیا گیا۔ اُن کا عرس اتوار 9 دسمبر کو اُن کے مزار مبارک پر منایا جائے گا۔
بشکریہ:نوائے وقت