اسلامک محفل ڈاٹ کام پر آپ کی ایک تصینف نور نور چہرے پر کچھ یوں تبصرہ درج ہے۔ ربط یہ ہے۔
نام كتاب :نور نور چہرے
علامه محمد عبد الحكیم شرف قادری
صفحات :٠٠٤ قيمت :درج نہيں
ناشر :مكتبه قادریہ دربار ماركيٹ، گنج بخش روڈ، لاہور
مبصر :محمدقطب الدين رضا مصباحي
علامه محمد عبد الحكيم شرف قادري جماعت اهلِ سنت كے ايك ممتاز عالمِ دين اور بے مثال محقق تھے، الله تعاليٰ نے انھيں بهت ساري خوبيوں سے نوازا تھا۔ اهل سنت و جماعت كے داخلي و خارجي چيلنجوں كو انھوں نے سمجھا اور ان كے مقابلے كے ليے اپني حد تك بهت ساري جد و جهد بھي كي ۔ اپنے سرعت نگار قلم سے اردو، فارسي اور عربي ميں سيكڑوں صفحات پر مشتمل درجنوں كتابيں تحرير فرمائيں۔ اس وقت ميرے پيشِ نظر علامه موصوف كي كتاب ٫٫نور نور چهرے٬٬ هے۔ يه كتاب تبصرے كے ليے جب مجھے دي گئي تھي، اس وقت علامه با حيات تھے ۔ آج مجھے بے حد افسوس هے كه ان كي زندگي ميں اس پر تبصره نه كر سكا۔ خير اب بھي ٫٫خراجِ عقيدت٬٬ كے بطور يه چند سطور قبول هو جائيں تو زهے عز و شرف۔
يه كتاب 15علمي و روحاني شخصيات كے تذكرے پر مشتمل هے۔ كتاب كے شروع ميں علامه كے ٫٫كلمات تشكر٬٬ پھر خواجه رضي حيدر كا ٫٫ابتدائيه٬٬ هے۔ كلماتِ تشكر ميں علامه نے اپني زندگي كا ايك مختصر جائزه پيش كيا هے۔ موصوف كا ايك اقتباس هے:
٫٫آج پيچھے ديكھتا هوں تو ندامت كے ساتھ يه احساس دامن گير هو جاتا هے كه تصنيف و تاليف كا جتنا كام هونا چاهيے تھا وه نه هو سكا اور عصر حاضر كي ضرورت كے مطابق قرآن و حديث، كلام، فقه، تصوف، تاريخ اور سيرت طيبه كي خدمت كا جو كام هونا چاهيے تھا، نه كر سكا۔ اس كي بڑي وجه فرصت، وسائل اور راه نمائي كي كمي تھي۔٬٬ ﴿نور نور چهرے،ص:٨﴾
يه اقتباس پڑھ كر ميں مجسمه حيرت بن گيا كه جس شخص نے اپني پوري زندگي دين متين كي ترويج و اشاعت كے ليے وقف كر دي اور اپني تمام تر كوششيں جماعتي شيرازه بندي كے ليے صرف كر ديں، ان كي عاجزي و انكساري كا يه حال هے جب كه آج عام حالت تو يه هے كه اگر كسي نے دو چار كارنامے انجام دے ديے تو هر اسٹيج پر پهنچ كروه اس كا خطبه پڑھتے نظرآ تے هيں۔ كلمات تشكر كے آخر ميں انھوں نے لكھا هے كه چند مقالات دوسرے مقاله نگاروں كے بھي من و عن شامل كر ديے گئے هيں، پھر تين حضرات كا شمار بھي فرمايا هے :﴿١﴾مولانا شاه عبد العليم صديقي ميرٹھي، از پير علي محمد راشدي﴿٢﴾مولانا شاه محمد عارف الله قادري ميرٹھي، از پروفيسر خالد صديقي۔﴿٣﴾ قاضي محمد عبد الحكيم ايم اے، از مولانا محمد منشا تابش قصوري مگر جب هم نے فهرست پر نظر ڈالي تو ان ميں سے كسي بھي بزرگ پر كوئي تحرير نه ملي۔
بزرگوں كے حالات و كوائف اور اسلاف كي صالح روايات كو جمع كر كے لوگوں تك پهنچانے كا اهتمام هونا چاهيے۔ نسلوں كي ذهني و فكري تربيت ميں اس كا بڑا اهم كردار هو سكتا هے۔ علامه شرف قادري نے بزرگوں كي زندگي همارے سامنے ركھ كر ايك بڑي مشعل فراهم كر دي هے۔ ان كے حالاتِ زندگي پڑھ كر هميں ان ميں دينِ متين كي خدمات كي راهيں تلاش كرني چاهيے۔ علامه موصوف نے جا به جا اپني اس كتاب ميں بزرگوں كے حالات قلم بند نه كرنے پر افسوس كا اظهار كيا هے اور بڑے والهانه انداز ميں ان كو سميٹنے كي رغبت دلائي هے۔ ايك جگه تحرير فرماتے هيں:
٫٫بهت كم حضرات يه سوچنے كي زحمت گوارا كرتے هيں كه آخر اس ذمے داري كو كون نبھائے گا؟ كيا اغيار سے توقع ركھي جا سكتي هے يا بعد ميں آنے والي نسليں اس فريضے سے عهده بر آ هو سكيں گي؟ حقيقت يه هے كه يه صرف اور صرف هماري ذمے داري هے۔ ضرورت اس امر كي هے كه هم اس ذمے داري كو محسوس كر كے ميدان، عمل ميں قدم ركھيں۔٬٬﴿ص:95﴾
دوسري جگه سراج الفقها مولانا سراج احمد رحمۃ الله عليه كي سوانح ميں رقم طراز هيں:
٫٫كتنے افسوس كي بات هے كه قوم نے ان كے علوم و معارف كي معتد به اشاعت نه كي اور نه هي اهلِ علم ميں ان كي فضيلتِ علمي كو نماياں كيا گيا، جس كے وه در حقيقت مستحق تھے۔ قوم كي كوتاهي اور ناعاقبت انديشي كا يه بين ثبوت هے ۔ نه معلوم علوم كے كتنے خزينے اسي طرح زاويه گم نامي وقت بسر كر كے هماري ظاهر بيں نظروں سے ايسے اوجھل هوئے كه آج ان كے نقشِ حيات كا دھندلا سا تصور بھي همارے سامنے نهيں هے۔٬٬﴿ص:96﴾
ابتدائ ً مجھے بڑا تردد تھا كه اس كتاب ميں شخصيات كا انتخاب كس طور هوا هے ۔ نه تو صدي كا لحاظ هے اور نه مولد و مسكن يا علمي مراتب كا۔ اسي درميان علامه كے يه جملے ميري نظر سے گزرے: ٫٫يه حصه علمي اور روحاني شخصيات كے تذكرے پر مشتمل هے۔ چوں كه يه مقالات كسي منصوبے كے تحت نهيں لكھے گئے۔ ان ميں كچھ متقدمين سے متعلق هيں اور كچھ متاخرين سے۔ كچھ طويل هيں اور كچھ بهت هي مختصر۔٬٬ البته اتنا ضرور هے كه چند كو چھوڑ كر اكثر حضرات كا تعلق پاكستان هي سے هے۔اور اسي بنياد پر قيامِ پاكستان ميں
علما كي سرگرميوں اور نظامِ مصطفي كے نفاذ ميں ان كي كوششوں كا بھي ذكر آگيا هے اور اس گوشے پر بڑي اچھي روشني پڑ گئي هے۔ان ميں بهتيري ايسي شخصيات هيں جن كي طرف اهلِ علم نے بهت كم توجه كي هے بلكه كچھ كي طرف تو توجه هي نهيں كي گئي۔ علامه صاحب نے تلاش و جستجو كر كے ان كے حالات يكجا كيے اور ان كي ديني و علمي خدمات پر خامه فرسائي كي۔ شخصيات كے تعارف ميں هر گوشے پر روشني نهيں ڈالي گئي هے بلكه صرف اهم گوشوں كو اختيار كيا گيا هے اور نماياں و ممتاز خدمات هي پر اكتفا كيا گيا هے۔
سب سے طويل تذكره حضرت شيخ محقق علامه عبد الحق محدث دهلوي قدس سره كا هے۔ سوانحي خاكه پيش كرنے كے بعدديني و علمي خدمات اور علمِ حديث كي تشريح و ترويج ميں ان كے گراں قدر حصے پر روشني ڈالي گئي هے۔ پھر علم مصطفي اختيار و تصرف، حاظر و ناظر، جسم بے سايه، ديدارِ الٰهي، حيات انبيا، سماع موتي، زيارت قبور اور زيارتِ روضه انور جيسے نزاعي مسائل ميں حضرت شيخ محقق كي تصنيفات سے ان كا نظريه پيش كيا گيا هے۔
حضرت علامه شرف قادري نے اپنے والد محترم حضرت مولانا مولوي الله دته هوشياري ثم لاهوري معروف به ٫٫حافظ جي٬٬ كا تذكره بھي شاملِ كتاب كيا هے اور زندگي كے مختلف پهلوو ں پر تفصيل سے روشني دالي هے۔ حافظ جي كے وصال پر چهلم كي تقريب ميں شريك هونے والے علماے كرام كے خطابات بھي پيش كيے هيں، پھر ملك و بيرون ملك سے آنے والے تعزيت نامے اور جرائد اهلِ سنت ميں شائع هونے والي انتقال كي خبروں كو بھي جمع فرما ديا هے۔
اس طرح چھوٹے بڑے مضامين 15شخصيات پر مشتمل هيں جو اس سے پهلے مختلف كتب و رسائل ميں شائع هو چكے هيں اور بغير كسي تبديلي اور حذف و اضافه كے يهاں يك جا كر ديے گئے هيں، مگر چند هي مضامين هيں جن كا اخير ميں حواله ديا گيا هے۔ زياده تر مضامين كے ماخذ كا كوئي پته نهيں ۔ اس كتاب كو پڑھنے كے بعد علامه كے تعلق سے ايك خاص بات هم نے يه نوٹ كي كه اساتذه تو اساتذه اپنے هم عصروں كا بھي جب تذكره آيا هے تو بڑے ادب و احترام سے ان كا نام ليا هے اور يه احساس هي نهيں هوتا كه يه ان كے هم عصر هيں۔
ترے میکدے میں کمی کیا ہے جو کمی ہے ذوق طلب میں ہے
جو ہوں پینے والے تو آج بھی وہی بادہ ہے وہی جام ہے