سید عمران
محفلین
سنجافِ فلک پر جھلملاتی لامتناہی کہکشاں، تاروں بھرا، رنگ بدلتا،پُراسرار آسمان۔ روشن، چمکدار، گرمیِ زیست سے بھرپور آفتاب۔ مشفق، مہربان، رگ و پے میں سموتا لوریاں سناتا ماہتاب۔ لپکتی، جھپکتی، دوڑتی، بھاگتی، رواں دواں بدلیاں۔سرسراتی، سنسناتی، سائیں سائیں کرتی ہوائیں۔ چہچہاتے، پر پھڑپھڑاتے، زمزمہ پرداز طیور۔
لاوا اُگلتا، دہکتا، بھسم کرتا رُستخیز آتش فشاں۔ برف آلود، یخ بستہ، سفید اُجلی سر بفلک چوٹیاں، سرسبز و شاداب، درختوں سے لدے، پُر بہار جبال۔ پھلوں کے بوجھ سے جھکے، بلند قامت، ہرے بھرے اشجار۔ رنگا رنگ، خوشبو دار، مہکتے، گُل کِھلاتے پودے۔جھلملاتی، بانہیں پھیلاتی، پُرسکون زمرد رنگ جھیلیں۔ گاتے، گنگناتے، مسکراتے جھرنے۔ اِٹھلاتی، چمچماتی، بل کھاتی ندِّیاں۔ ٹھاٹھیں مارتے، راہ میں آنے والی ہر شئے اپنے دھارے میں بہالے جاتے، شِتاب کار دریا۔ رعب دار، حد سے نکلتا، موجیں مارتا بحرِ بیکراں۔ وسیع و عریض ، بنجر، ریتیلے، سنہرے صحرا۔ حیات بخش، امید افزا، شفیق نخلستان۔ خاموش، تاریک، پُرخطر جنگلات۔ دھاڑتے،غرّاٹے، شور مچاتے درندے۔
بے لگام، سرکش ، موسلادھار، بے تکان برستی برسات۔ گرجتی، کڑکڑاتی، جلاکر راکھ کرتی بجلیاں۔ منہ زور، زمین سر پر اُٹھاتے، اُٹھا پٹخ کرتے آندھی طوفان۔ سطحِ زمین تہہ و بالا کرتے ہلاکت آفرین زلزلے۔ بستیوں کی بستیاں اپنے شکنجہ میں لینے والے مانند خرچنگ سیلاب۔ اور۔۔۔ ہنستے، بولتے، چہکتے، قہقہے لگاتے ساری مخلوقات سے جُدا، کثیرالعادات کے حامل، انواع و اقسام کی حرکات کے مرقع افضل المخلوقات انسان!!!
یہ جہاں اپنی تمام تر رنگینیوں سمیت دُکھوں کا، مصیبتوں کا، بیماریوں کا گھر بھی ہے۔یہاں آئے دن نت نئی پریشانیاں، حوادث، بوڑھا کردینے والے آلام اور نڈھال کردینے والے ایامِ زیست بے چین و بے کل رکھتے ہیں۔ عیش کے دن بھی تھوڑے ہیں اور لذتوں کی راتیں بھی چھوٹی۔ تھوڑی سی خوشیاں، طویل غم!!!
یہ دنیا، یہ جہاں نہ ازلی ہے نہ ابدی۔ نہ اس کی خوشیاں دائمی ہیں نہ اس کے غم۔ گردشِ ایام سب لپیٹ کر ختم کرتے جاتے ہیں۔ یہاں آلامِ روزگار سے کسے رستگاری ہے؟ ایامِ پُرکیف کب ٹھہرے رہتے ہیں؟ سکونِ دائمی کہاں نصیب ہوتا ہے؟ من کا چاہا کب پورا ہوا ہے؟
من کا چاہا پورا کرنے کی، عیشِ حقیقی و دائمی کی، سکون و آرام کی ایک اور ہی دنیا ہے، جہاں۔۔۔
سڑی ہوئی حبس زدہ گرمی ہے نہ ٹھٹھراتی، دانت بجاتی سردیاں۔ روح جلاتا، بدن سلگاتا سورج ہے نہ تیرہ و تاریک راتیں۔ بارشیں، سیلاب و زلزلے ہیں نہ نیند، موت و بیماریاں۔ مسائل و آلامِ روزگار ہیں نہ فکر و پریشانیاں۔ جہاں خوفِ عذاب ہے نہ محنتِ ثواب!!!
وہاں۔۔۔
جدھر نظر اُٹھتی ہے دور دور تک ملکِ عظیم کی سرحدیں پھیلی ہوئی ہیں۔ چپّہ چپّہ روشن و منور، گوشہ گوشہ مہکتا ہوا، کونہ کونہ رنگ و نور سے چمکتا دمکتا۔ سونے چاندی کی اینٹوں اور مشک و کافور کے گارے سے بنے، ہیرے جواہرات سے منقش، نگاہوں کو چکا چوند کرتے محلات۔ زرق برق لباس میں اٹھکھیلیاں کرتی کنیزوں کے جھرمٹ۔ خوشبوئیں اُڑاتی عطر بیز ہوائیں۔ میوے پیش کرتی جھکی ہوئی ٹہنیاں۔
سرسبز و شاداب باغات۔ ثمر دار اشجار۔ گاتی، گنگناتی انہار۔ خراب نہ ہونے والے، سڑنے سے محفوظ پانی کی نہریں، خالص، لذیذ، میٹھے دودھ کی نہریں، صاف شفاف میل کچیل سے پاک شہد کی نہریں اور خوشبودار فرحت بخش شراب کی رواں دواں نہریں۔خوش گپیاں کرتی، ہنستی مسکراتی، موتیوں کی طرح بکھری حسین و دلنشین خدام کی ٹولیاں۔۔۔۔ خواہش سننے کی منتظر، فرمائش پوری کرنے کی جویند، چاق و چوبند، ہمہ دم تازہ دم۔ جو چاہا وہ حاضرِ خدمت کردیا، کسی بات کو منع نہیں، کسی چیز سے انکار نہ کیا۔
دستر خوان ہے کہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ دوستوں یاروں کا مجمع ہے کہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ کسی کے دل میں شکوہ شکایت ہے نہ رنج و میل۔ گرما گرم بھاپ اُڑاتے کھانوں کے قابوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ٹھنڈے یخ مشروبات کے جام پہ جام لنڈھائے جارہے ہیں۔تازہ بہ تازہ میوے حسب خواہش دستیاب ہیں۔
دھیمی دھیمی دل موہ لینے والی موسیقی جو کبھی نہ سنی۔ آواز کے جادو وہ جو ہم و گماں سے باہر۔ محفلِ موسیقی کو شراب نے سہ آتشہ کردیا۔ خوشبودار نہروں سے بھری گئی شراب، مشک کی مہر سے سربند بوتلوں والی شراب، دودھ سے زیادہ سفید شراب، صاف شفاف جگمگاتے جاموں میں ہتھیلیوں پر سجاکر پیش کی جانے والی سرخ انگار سی چمک دار شراب۔ شراب۔۔۔۔ جس سے چکر آئیں نہ سر میں درد ہو، اُلٹی آئے نہ بہکی بہکی باتیں کرے۔ پاکیزہ، لذیذ اور معطر شراب!!!
نہ ختم ہونے والی خوشیاں، لامتناہی لذتیں، نہ فنا ہونے والا عیش۔ نعمتیں ہیں کہ ختم یا کم ہونے کی بجائے لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی ہیں۔ شوق و ذوق اور جذبۂ وارفتگی ہےکہ سب لوگ کشاں کشاں جانب منزل کھنچے چلے جارہے ہیں۔ دیدارِ خالقِ لذّاتِ کائنات نے دیگر تمام لذائذ و نعم نسیاً منسیّا کردِیں۔ پیاسی نگاہیں ہیں کہ سیراب ہونے کو تیار نہیں۔
اِنہیں سرشار، پُرکیف، لذت آگیں لمحات میں ارشاد ہوتا ہے کہ کیا اس جہانِ دگر میں کسی شئے کی کمی، کوئی کوتاہی محسوس کرتے ہو؟ عرض کیا جاتا ہے، عیش و عشرت کی انتہا ہوگئی، ساری کلفت ہوا ہوگئی، ریاضتیں قبول کی گئیں، کوتاہیاں در گزر کی گئیں۔ ظرف سے زیادہ ملا، نہ کوئی شکوہ رہا نہ کوئی گِلہ۔ جس چیز کی تمنا کی فزوں تر ملی۔ اب کچھ اور چاہنے کی آرزو ہے نہ کہیں اور جانے کی جستجو۔ بس یہی ہماری منزل ہے۔
یہ مقام بے بدل ہے!!!
لاوا اُگلتا، دہکتا، بھسم کرتا رُستخیز آتش فشاں۔ برف آلود، یخ بستہ، سفید اُجلی سر بفلک چوٹیاں، سرسبز و شاداب، درختوں سے لدے، پُر بہار جبال۔ پھلوں کے بوجھ سے جھکے، بلند قامت، ہرے بھرے اشجار۔ رنگا رنگ، خوشبو دار، مہکتے، گُل کِھلاتے پودے۔جھلملاتی، بانہیں پھیلاتی، پُرسکون زمرد رنگ جھیلیں۔ گاتے، گنگناتے، مسکراتے جھرنے۔ اِٹھلاتی، چمچماتی، بل کھاتی ندِّیاں۔ ٹھاٹھیں مارتے، راہ میں آنے والی ہر شئے اپنے دھارے میں بہالے جاتے، شِتاب کار دریا۔ رعب دار، حد سے نکلتا، موجیں مارتا بحرِ بیکراں۔ وسیع و عریض ، بنجر، ریتیلے، سنہرے صحرا۔ حیات بخش، امید افزا، شفیق نخلستان۔ خاموش، تاریک، پُرخطر جنگلات۔ دھاڑتے،غرّاٹے، شور مچاتے درندے۔
بے لگام، سرکش ، موسلادھار، بے تکان برستی برسات۔ گرجتی، کڑکڑاتی، جلاکر راکھ کرتی بجلیاں۔ منہ زور، زمین سر پر اُٹھاتے، اُٹھا پٹخ کرتے آندھی طوفان۔ سطحِ زمین تہہ و بالا کرتے ہلاکت آفرین زلزلے۔ بستیوں کی بستیاں اپنے شکنجہ میں لینے والے مانند خرچنگ سیلاب۔ اور۔۔۔ ہنستے، بولتے، چہکتے، قہقہے لگاتے ساری مخلوقات سے جُدا، کثیرالعادات کے حامل، انواع و اقسام کی حرکات کے مرقع افضل المخلوقات انسان!!!
یہ جہاں اپنی تمام تر رنگینیوں سمیت دُکھوں کا، مصیبتوں کا، بیماریوں کا گھر بھی ہے۔یہاں آئے دن نت نئی پریشانیاں، حوادث، بوڑھا کردینے والے آلام اور نڈھال کردینے والے ایامِ زیست بے چین و بے کل رکھتے ہیں۔ عیش کے دن بھی تھوڑے ہیں اور لذتوں کی راتیں بھی چھوٹی۔ تھوڑی سی خوشیاں، طویل غم!!!
یہ دنیا، یہ جہاں نہ ازلی ہے نہ ابدی۔ نہ اس کی خوشیاں دائمی ہیں نہ اس کے غم۔ گردشِ ایام سب لپیٹ کر ختم کرتے جاتے ہیں۔ یہاں آلامِ روزگار سے کسے رستگاری ہے؟ ایامِ پُرکیف کب ٹھہرے رہتے ہیں؟ سکونِ دائمی کہاں نصیب ہوتا ہے؟ من کا چاہا کب پورا ہوا ہے؟
من کا چاہا پورا کرنے کی، عیشِ حقیقی و دائمی کی، سکون و آرام کی ایک اور ہی دنیا ہے، جہاں۔۔۔
سڑی ہوئی حبس زدہ گرمی ہے نہ ٹھٹھراتی، دانت بجاتی سردیاں۔ روح جلاتا، بدن سلگاتا سورج ہے نہ تیرہ و تاریک راتیں۔ بارشیں، سیلاب و زلزلے ہیں نہ نیند، موت و بیماریاں۔ مسائل و آلامِ روزگار ہیں نہ فکر و پریشانیاں۔ جہاں خوفِ عذاب ہے نہ محنتِ ثواب!!!
وہاں۔۔۔
جدھر نظر اُٹھتی ہے دور دور تک ملکِ عظیم کی سرحدیں پھیلی ہوئی ہیں۔ چپّہ چپّہ روشن و منور، گوشہ گوشہ مہکتا ہوا، کونہ کونہ رنگ و نور سے چمکتا دمکتا۔ سونے چاندی کی اینٹوں اور مشک و کافور کے گارے سے بنے، ہیرے جواہرات سے منقش، نگاہوں کو چکا چوند کرتے محلات۔ زرق برق لباس میں اٹھکھیلیاں کرتی کنیزوں کے جھرمٹ۔ خوشبوئیں اُڑاتی عطر بیز ہوائیں۔ میوے پیش کرتی جھکی ہوئی ٹہنیاں۔
سرسبز و شاداب باغات۔ ثمر دار اشجار۔ گاتی، گنگناتی انہار۔ خراب نہ ہونے والے، سڑنے سے محفوظ پانی کی نہریں، خالص، لذیذ، میٹھے دودھ کی نہریں، صاف شفاف میل کچیل سے پاک شہد کی نہریں اور خوشبودار فرحت بخش شراب کی رواں دواں نہریں۔خوش گپیاں کرتی، ہنستی مسکراتی، موتیوں کی طرح بکھری حسین و دلنشین خدام کی ٹولیاں۔۔۔۔ خواہش سننے کی منتظر، فرمائش پوری کرنے کی جویند، چاق و چوبند، ہمہ دم تازہ دم۔ جو چاہا وہ حاضرِ خدمت کردیا، کسی بات کو منع نہیں، کسی چیز سے انکار نہ کیا۔
دستر خوان ہے کہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ دوستوں یاروں کا مجمع ہے کہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ کسی کے دل میں شکوہ شکایت ہے نہ رنج و میل۔ گرما گرم بھاپ اُڑاتے کھانوں کے قابوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ٹھنڈے یخ مشروبات کے جام پہ جام لنڈھائے جارہے ہیں۔تازہ بہ تازہ میوے حسب خواہش دستیاب ہیں۔
دھیمی دھیمی دل موہ لینے والی موسیقی جو کبھی نہ سنی۔ آواز کے جادو وہ جو ہم و گماں سے باہر۔ محفلِ موسیقی کو شراب نے سہ آتشہ کردیا۔ خوشبودار نہروں سے بھری گئی شراب، مشک کی مہر سے سربند بوتلوں والی شراب، دودھ سے زیادہ سفید شراب، صاف شفاف جگمگاتے جاموں میں ہتھیلیوں پر سجاکر پیش کی جانے والی سرخ انگار سی چمک دار شراب۔ شراب۔۔۔۔ جس سے چکر آئیں نہ سر میں درد ہو، اُلٹی آئے نہ بہکی بہکی باتیں کرے۔ پاکیزہ، لذیذ اور معطر شراب!!!
نہ ختم ہونے والی خوشیاں، لامتناہی لذتیں، نہ فنا ہونے والا عیش۔ نعمتیں ہیں کہ ختم یا کم ہونے کی بجائے لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی ہیں۔ شوق و ذوق اور جذبۂ وارفتگی ہےکہ سب لوگ کشاں کشاں جانب منزل کھنچے چلے جارہے ہیں۔ دیدارِ خالقِ لذّاتِ کائنات نے دیگر تمام لذائذ و نعم نسیاً منسیّا کردِیں۔ پیاسی نگاہیں ہیں کہ سیراب ہونے کو تیار نہیں۔
اِنہیں سرشار، پُرکیف، لذت آگیں لمحات میں ارشاد ہوتا ہے کہ کیا اس جہانِ دگر میں کسی شئے کی کمی، کوئی کوتاہی محسوس کرتے ہو؟ عرض کیا جاتا ہے، عیش و عشرت کی انتہا ہوگئی، ساری کلفت ہوا ہوگئی، ریاضتیں قبول کی گئیں، کوتاہیاں در گزر کی گئیں۔ ظرف سے زیادہ ملا، نہ کوئی شکوہ رہا نہ کوئی گِلہ۔ جس چیز کی تمنا کی فزوں تر ملی۔ اب کچھ اور چاہنے کی آرزو ہے نہ کہیں اور جانے کی جستجو۔ بس یہی ہماری منزل ہے۔
یہ مقام بے بدل ہے!!!
آخری تدوین: