مقبوضہ کشمیر میں کار بم دھماکا، 44 بھارتی فوجی ہلاک

جاسم محمد

محفلین
مقبوضہ کشمیر میں کار بم دھماکا، 44 بھارتی فوجی ہلاک
196994_940144_updates.jpg

زخمیوں کو بھارتی فوج کے 92 بیس اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے: بھارتی حکام۔ فوٹو: سوشل میڈیا
مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں کار بم دھماکے میں 44 بھارتی سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی بس پر کار بم دھماکا ضلع پلوامہ میں سری نگر جموں ہائی وے پر لٹھ پورا کے مقام پر ہوا۔

بھارتی پولیس حکام کے مطابق کار میں سوار حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی سی آر پی ایف کی بس سے ٹکرائی اور پھر اسے دھماکے سے تباہ کر دیا۔

196994_9031226_updates.jpg

دھماکے کی جگہ پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کے اہلکار کھڑے ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا۔
حکام کے مطابق دھماکے میں 44 سی آر پی ایف اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو بھارتی فوج کے 92 بیس اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

دھماکے کے بعد بھارتی سیکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد نے علاقے کا محاصرہ کر کے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کشمیر حملے میں پاکستان کا ہاتھ ہے، بھارت کا الزام
آخری بار اپڈیٹ کیا گیا فروری 15, 2019
  • سہیل انجم
7B087BEE-226F-49A8-9C5B-BD6691B52D69_w1023_r1_s.jpg

بھارتی وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ جو طاقتیں اس حملے کے پسِ پردہ ہیں ان کو بھی سزا دی جائے گی۔
نئی دہلی —
بھارت کی حکومت نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ روز ہونے والے خود کش حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے اس سے انتہائی مراعات یافتہ ملک کا تجارتی درجہ واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

جمعے کو نئی دہلی میں ایک اجلاس کے بعد وزیرِ خزانہ ارون جیٹلی نے الزام لگایا کہ حملے میں پاکستان کا براہِ راست ہاتھ ہے اور بھارت عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے تمام سفارتی امکانات کو بروئے کار لائے گا۔

جیٹلی نے کہا کہ حملے کے بعد بھارت پاکستان سے انتہائی مراعات یافتہ ملک کا درجہ واپس لے رہا ہے جب کہ حملے سے متعلق پاکستان کو تفصیلات بتانے کے لیے ایک دستاویز بھی تیار کی جا رہی ہے۔

مراعات یافتہ ملک ہونے کے ناتے پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت میں متعدد اشیا پر محصولات میں چھوٹ دی جاتی ہے۔

بھارت نے پاکستان کو یہ درجہ 1986ء میں دیا تھا اور اس کی واپسی کے بعد اب پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت میں نقصان ہوگا۔

پاکستان سے یہ درجہ واپس لینے کا فیصلہ جمعے کو نئی دہلی میں وزیرِ اعظم نریند رمودی کی صدارت میں سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔

4D8BBC0E-5245-4BDE-AF3F-75CFFE7C7209_w650_r1_s.jpg

گزشتہ روز بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے حملے میں 40 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اجلاس میں کشمیر کے ضلع پلوامہ کے نزدیک جمعرات کو ہونے والے حملے کے بعد وادی میں سکیورٹی کی صورت حال پر غور کیا گیا۔

گزشتہ روز ہونے والے حملے میں بھارت کی وفاقی پولیس (سی آر پی ایف) کے 40 اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

جمعے کو ہونے والے اجلاس میں وزیرِ اعظم مودی کے علاوہ وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ، وزیرِ دفاع نرملا سیتا رمن، وزیرِ خارجہ سشما سوراج، وزیرِ مالیات ارون جیٹلی، تینوں مسلح افواج کے سربراہوں اور حکومت کے اہم عہدے داروں نے شرکت کی۔

'حملہ کرنے والوں کو قیمت چکانا ہوگی'

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیرِ اعظم نے کہا کہ جن لوگوں نے یہ حملہ کیا ہے انھوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور انھیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ جو طاقتیں اس حملے کے پسِ پردہ ہیں ان کو بھی سزا دی جائے گی۔

3B5F6516-F8AE-458D-94AC-EAD1B1C0169C_w650_r1_s.jpg

بھارتی وزیرِ خزانہ ارون جیٹلی نے کہا ہے کہ بھارت عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے تمام سفارتی امکانات کو بروئے کار لائے گا۔
پاکستان کا نام لیے بغیر بھارتی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ اگر ہمارا پڑوسی ملک یہ سمجھتا ہے کہ وہ نفرت پھیلا کر اور سازشیں رچا کر ہمارے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔ ہم اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

بھارتی وزیرِ اعظم نے کہا کہ حملے کا جواب دینے کے لیے مسلح افواج کو پوری آزادی دی جائے گی اور ہمیں ان کی بہادری پر پورا یقین ہے۔

اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں ارون جیٹلی نے بتایا کہ اجلاس کے دوران حملے کی تفصیلات پر غور کیا گیا لیکن انہوں نے یہ تفصیل صحافیوں کو بتانے سے انکار کیا۔

وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ سکیورٹی کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی اور جن لوگوں نے یہ حملہ کیا ہے انھیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔

پاکستان کا اظہارِ تشویش

پاکستان نے بھی کشمیر میں ہونے والے اس حملے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ دنیا میں کہیں بھی ہونے والے پرتشدد واقعات کی مذمت کی ہے۔

46412E0B-9F40-41F5-AC57-78343070731B_w650_r1_s.jpg

بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر سیاست نہیں کرے گی۔ (فائل فوٹو)
جمعرات کی شب پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان بھارتی ذرائع ابلاغ اور حکومت کی جانب سے بغیر تحقیقات کے حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹہرانے کی کوششوں کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔

بھارت میں احتجاج اور مذمت

بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے کشمیر حملے کو ملک کی روح پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت حکومت کے ہر قدم کی تائید کرتی ہے۔

سابق وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بھی ایک نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ وہ اس موقع پر حکومت اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ ہیں اور اس معاملے پر کوئی سیاست نہیں کریں گے۔

بھارت کے مختلف حصوں میں اس حملے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ مظاہرین حکومت سے حملے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
 

زیک

مسافر

جاسم محمد

محفلین
کریک ڈاؤن ماضی میں ہوا تھا جس کے بعد تنظیم کے سربراہ مسعود اظہر نے پاکستانی اسٹیٹ سے جنگ بند کردی تھی۔ اس تبدیلی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ نے دوبارہ تنظیم کو تحفظ دینا شروع کیا تھا۔
Bringing back the Dead: Why Pakistan Used the Jaish-e-Mohammad to Attack an Indian Airbase
 

زیک

مسافر
کریک ڈاؤن ماضی میں ہوا تھا جس کے بعد تنظیم کے سربراہ مسعود اظہر نے پاکستانی اسٹیٹ سے جنگ بند کردی تھی۔ اس تبدیلی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ نے دوبارہ تنظیم کو تحفظ دینا شروع کیا تھا۔
Bringing back the Dead: Why Pakistan Used the Jaish-e-Mohammad to Attack an Indian Airbase
بونگیاں ماری جاؤ
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ "گوڈ طالبان، بیڈ طالبان" کے درمیان فرق رکھتی ہے۔ جو جہادی تنظیمیں 2002 کے بعد پالیسی میں تبدیلی کے ساتھ پاکستانی اسٹیٹ کے خلاف ہو گئی تھیں۔ وہ بیڈ طالبان ہیں۔جن کے خلاف کئی بار کریک ڈاؤن ہو چکا ہے۔ آپریشن ضرب عضب اسی کریک ڈاؤن کا اہم حصہ تھا۔
جیش محمد بھی اسی تناظر میں کچھ عرصہ کیلئے بیڈ طالبان بن گئی تھی مگر پھر ریاست پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھانا ترک کر دیا۔ جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے اسے دوبارہ تحفظ دینا شروع کیا۔
 

شکیب

محفلین
فہد اشرف
بھارتی میڈیا اور حکومت کا سانحہ پر کیا رد عمل ہے؟ پاکستان کی شامت تو نہیں آگئی پھر؟
میڈیا اور حکومت کا تو پتہ نہیں، لیکن کالج میں میرے ایک استاد تھے، ان کی فیسبک پر کچھ یوں پوسٹ آئی ہے۔

अब खून का बदला खून..
(اب خون کا بدلہ خون)
44के बदले 440..
(44 کے بدلے 440)
घर में घुस के मारो, अब इन्हे यही जह्ंनुम दिखाओ..
(گھر میں گھس کر مارو، اب انہیں یہیں جہنم دکھاؤ)
Indian army- let the guns roar..we are with you..

jitne maarenge usse 10times chahiye..
Ab koi sunvai nahi..bas thoko..
V wnt another surgical attack..

surgical ho ya sidha aamne saamne but ab attack chahiye..
Let's give them d reply in d same language that they betr undrstnd..

اور کوئی حیرت نہیں کہ یہ پوسٹ بہت بڑی تعداد کی سوچ کی عکاس ہے۔ ایک طرف امن کی کوششیں جاری ہیں، اور دوسری طرف ایسے واقعات ہیں۔

کیونکہ لڑنا مرنا تو فوجی جوانوں کو ہے۔ آگ بھڑکانے میں کیا جاتا ہے۔ عجب تماشا چل رہا ہے۔

خون اپنا بہے یا غیروں کا
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
(ساحر)
 

جاسم محمد

محفلین
پڑھیں کہ اس خودکش بمبار نے کیا کہا۔ کشمیر سے زیادہ اسے اور چیزوں کی پڑی تھی۔ دہشتگرد جیش محمد کی پڑھائی پٹی
مان لیتے ہیں یہ حملہ پاکستانی ایجنسیوں نے جیش محمد کے ذریعہ کروایا۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ اس نوجوان کو بھارتی ظلم و بربریت کے بعد برین واش کیا گیا تھا۔
لیکن کیا اس طرح کھلے عام حملے کی ذمہ داری قبول کرنا درست تھا؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان اس وقت بین الاقوامی تنہائی سے گزر رہا ہے۔ معیشت بیٹھی ہوئی ہے۔ یقینا یہ کام کرنے والے حب وطن نہیں ملک دشمن غدار ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
ہندوستان اور پاکستان اکیسویں صدی میں امن اور شانتی کے ساتھ داخل ہونا چاہتے تھے۔ دونوں ملکوں کی سیاسی قیادتوں نے اس پر اتفاق کر لیا تھا۔ تب سرحد کے دونوں اطراف موجود شدت پسند عناصر نے مسٹر واجپائی اور نواز شریف صاحب کی ایک نہ چلنے دی۔ بتائے، اس قسم کے واقعات کیسے نہ ہوں گے! اور ہم بدنام بھی کیونکر نہ ہوں گے۔ بد اچھا، بدنام برا۔ سب کچھ ہمارے کھاتے میں ہی جائے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ ملکی و غیر ملکی معاملات طے کرنا کند ذہنوں کے بس کی بات نہیں۔ سیاسی قیادت بری ہو یا بھلی ہو، ہمیں اپنی توقعات کا رخ ان کی طرف ہی رکھنا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہندوستان اور پاکستان اکیسویں صدی میں امن اور شانتی کے ساتھ داخل ہونا چاہتے تھے۔ دونوں ملکوں کی سیاسی قیادتوں نے اس پر اتفاق کر لیا تھا۔
21 فروری 1999 کو پاکستان اور بھارت لاہور اعلامیہ پر دستخط کرتے ہیں جسے دونوں اطراف کی عوام میں بھرپور مقبولیت و پزیرائی ملتی ہے۔
3 مئی 1999 کو پاکستان کشمیر فتح کرنے کارگل کے مقام پر اپنی فوجیں داخل کرتا ہے۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ملک کی سیاہ تاریخ کا حصہ بن کر قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
21 فروری 1999 کو پاکستان اور بھارت لاہور اعلامیہ پر دستخط کرتے ہیں جسے دونوں اطراف کی عوام میں بھرپور مقبولیت و پزیرائی ملتی ہے۔
3 مئی 1999 کو پاکستان کشمیر فتح کرنے کارگل کے مقام پر اپنی فوجیں داخل کرتا ہے۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ملک کی سیاہ تاریخ کا حصہ بن کر قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔
ہائے یہ خاکیان! اب تو ہم ان پر تنقید کر کے بھی تھک گئے۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
ہائے یہ خاکیان! اب تو ہم ان پر تنقید کر کے بھی تھک گئے۔۔۔!
اسٹریٹیجی بدلنے کی ضرورت ہے۔ سیاست دان خاکیان پر تنقید کرے تو جیل۔ جج کرے تو نوکری سے فارغ۔ عوام الناس کرے تو بندہ غائب۔ ایسا کب تک چلے گا؟ اب بات تنقید سے بہت اوپر چلی گئی ہے۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ فوج الیکشن سے قبل، دوران اور نتائج کی کاؤنٹنگ کے ساتھ ہر بار کھلواڑ کرتی ہے۔ اس کے باوجود الیکشن میں کھڑے ہونے والے امید وار آج تک ایسا انتخابی نظام کیوں نہ لا سکے۔ جو فوج کی پہنچ سے باہر ہو؟ صاف شفاف انتخابات کرانا کیا کوئی راکٹ سائنس ہے؟ الیکشن کمیشن خود ۳ لاکھ فوجیوں کو آرڈر دے کر پولنگ ڈے پر بلاتا ہے کیونکہ ماضی کی سیاسی جماعتوں نے پولیس کو سیاسی کرکے دھاندلی کیلئے بار بار استعمال کیا۔ اور جب فوج کے زیر نگرانی انتخابات ہوتے ہیں تو ہارنے والے کہتے ہیں دھاندلا ہو گیا۔
یعنی اس گورکھ دھندے میں خود سیاسی جماعتیں ملوث ہیں۔ خاکیان کو سیاست میں آنے کا جواز خود فراہم کرتی ہیں۔ اور بعد میں نتائج متوقع نہ آنے پر سارا الزام فوج پر :)
 

جاسم محمد

محفلین
پڑھیں کہ اس خودکش بمبار نے کیا کہا۔ کشمیر سے زیادہ اسے اور چیزوں کی پڑی تھی۔ دہشتگرد جیش محمد کی پڑھائی پٹی
پاکستان میں آزادی اظہار کا رونا رونے والے اب بھارت کی فکر کریں۔ سرکاری بیانیہ سے ہٹ کر بات کرنے پر پنجاب کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو کو معروف کپل شرما شو سے ہٹا دیا گیا
Navjot Singh Sidhu sacked from The Kapil Sharma Show after comments on Pulwama attack
 
Top