ایک دو ججوں کی سوچ کو آپ کیسے سپریم کورٹ، ۴ ہائیکورٹ، انگنت سٹی کورٹس و سیشن کورٹس کی مجموعی سوچ قرار دے سکتے ہیں۔
ہر انسٹی ٹیوشن ایک پیرامڈ کی طرح ہوتا ہے۔ اس مخروط کی چوٹی کو دیکھ کر آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ کس سوچ کی بنیاد سے بنا ہے۔ اس لئے کہ سوچ کی بنیاد اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کون اس انبار میں سے اوپر جائے گا۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے چیف جسٹس اور دوسرے ججوں کی سوچ قرآن کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ یہ سارا نظام ہی اس طرح بنا ہے۔ پھر ایک قاتل کی پشت پناہی کرے کتنے لوگ نکل آئے۔ یہ بات سب کے سامنے ہے۔
پھر وہ شخص جو ایک ایسی کمزور عورت کی جان بچانے نکلا تھا جس کے خلاف کوئی چشم دید گواہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہوا، اس کا خون نا صرف سڑک پر بہا یا گیا ، اس کی حمایت میں کتنے لوگ نکلے یہ بھی سب کے سامنے ہے۔ یہ صرف مثالیں ہیں ۔
پھر اصولوں کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان ، سارا پاکستان، ججوں ، مققنہ اور انتظامیہ سمیت یہ نہیں جانتا کہ توہین قرآن و رسول کے لئے کتنے چشم دید گواہ پیش کئے جائیں گے ؟ کیا آپ بناء کسی چشم دید گواہ کی گواہی کے ، اپنی عمر کے دس سال کسی جیل میں گذارنے کے لئے تیار ہیں؟ اگر نہیں تو اس قانون کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
اگر کل کوئی قسم کھا کر یہ گواہی دوں کہ ان تین ججوں نے رسول اکرم کی شان میں گستاخی کی ہے تو ان تینوں ججوں کے بچنے کی کیا راہ ہوگی؟
یہ کس طرح بچیں گے ؟
تو کیا وجہ ہے کہ ایک کمزور عورت کو چشم دید گواہوں کی عدالت میں پیشی کے بغیر، بغیر جرح کے پھانسی کی سزا سنا دی جائے؟ اور گواہوں کی غیر موجودگی کو ایک ٹیکنیکل ڈیٹیل کا نام دے کر نظر انداز کردیا جائے؟
تو کیا یہ ایک شیطانی اصول کی پیروی نہیں ہے؟ کہ "اختلاف کی سزا موت"؟؟؟؟