مقدمہ شعر و شاعری ۔ مولانا حالی صفحہ 104 سے 170

محمد وارث

لائبریرین
مقدمہ شعر و شاعری ۔ مولانا حالی (صفحہ 104 سے 170)


غزل، قصیدہ اور مثنوی

پانچویں، اصنافِ سخن میں سے تین ضروری صنفیں جن کا ہماری شاعری میں زیادہ رواج ہے یعنی غزل، قصیدہ اور مثنوی انکے متعلق چند مشورے دیئے جاتے ہیں۔ سب سے اول ہم غزل کا ذکر کرتے ہیں اور ایک خاص مناسبت کی وجہ سے رباعی اور قطعہ کو غزل کی ذیل میں داخل کرتے ہیں۔

غزل

غزل میں جیسا کہ معلوم ہے کہ کوئی خاص مضمون مسلسل بیان نہیں کیا جاتا، الا ماشاءاللہ۔ بلکہ جدا جدا خیالات الگ الگ بیتوں میں ادا کئے جاتے ہیں۔ اس صنف کا زیادہ تر رواج موجودہ حیثیت کے ساتھ اول ایران میں اور کوئی ڈیڑھ سو برس سے ہندوستان میں ہوا ہے۔ اگرچہ غزل میں اصل وضع جیسا کہ لفظ غزل سے پایا جاتا ہے محض عشقیہ مضامین کیلیے ہوئی تھی مگر ایک مدت کے بعد وہ اپنی اصلیت پر قائم نہیں رہی۔ ایران میں اکثر اور ہندوستان میں چند شاعر ایسے بھی ہوئے ہیں جنہوں نے غزل میں عشقیہ مضامین کے ساتھ تصوف اور اخلاق و مواعظ کو بھی شامل کر لیا ہے۔

اگرچہ اس لحاظ سے کہ غزل کی حالت فی زمانہ نہایت ابتر ہے وہ محض ایک بے سود اور درو از کار صنف معلوم ہوتی ہے لیکن شاعر کو مبسوط اور طولانی مسلسل نظمیں لکھنے کا ہمیشہ موقع نہیں مل سکتا اور اسکی قوتِ متخیلہ بیکار بھی نہیں رہ سکتی، اس لیے بسیط خیالات جو وقتاً بعد وقت شاعر کے ذہن میں فی الواقع گزرتے ہیں یا تازہ کیفیات جن سے اس کا دل روزمرہ کسی واقعہ کو سنکر یا کسی حالت کو دیکھ کر سچ مچ متکیف ہوتا ہے انکے اظہار کا کوئی آلہ غزل یا رباعی یا قطعہ سے بہتر نہیں ہو سکتا۔ بعض حالات جو دو مصرعوں میں بالکل یا زیادہ خوبی کے ساتھ ادا نہیں ہوسکتے انکو قطعہ یا رباعی کے لباس میں ظاہر کیا جا سکتا ہے اور چند بسیط خیالات جو ایک دوسرے سے کچھ تعلق نہیں رکھتے وہ غزل کے سلسلہ میں بشرطیکہ ردیف اور قافیہ کی ناقابلِ برداشت قیدیں کسی قدر ہلکی کر دی جائیں، منسلک ہو سکتے ہیں۔ ردیف اور قافیہ کی بابت اگر وقت نے مساعدت کی تو ہم پھر اپنی رائے ظاہر کریں گے۔ یہاں نفسِ غزل کے متعلق چند باتیں بیان کرتے ہیں۔

غزل کی اصلاح تمام اصنافِ سخن میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ قوم کے لکھے پڑھے اور ان پڑھ سب غزل سے مانوس ہیں۔ بچے، جوان اور بوڑھے سب تھوڑا بہت اس کا چٹخارا رکھتے ہیں۔ وہ بیاہ و شادی کی محفلوں میں، وجد و سماع کی مجلسوں میں، لہو و لعب کی صبحتوں میں، تکیوں میں اور رمنوں میں برابر گائی جاتی ہے۔ اسکے اشعار ہر موقع اور ہر محل پر بطور سند یا تائید کلام کے پڑھے جاتے ہیں۔ جو لوگ کتاب کے مطالعہ سے گھبراتے ہیں اور نثر یا نظم میں لمبے چوڑے مضمون پڑھنے کا دماغ نہیں رکھتے وہ بھی غزلوں کے دیوان شوق سے پڑھتے ہیں۔ جس آسانی سے غزل کے اشعار ہر شخص کو یاد ہو سکتے ہیں، کوئی کلام یاد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس میں ہر مضمون دو مصرعوں پر ختم اور سلسلہ بیان منقطع ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو صنف قوم میں اس قدر دائر و سائر اور مرغوبِ خاص و عام ہو اسکا اثر قومی مذاق اور قومی اخلاق پر جس قدر ہو تھوڑا ہے۔ اسی لیے ہمارے نزدیک شعراء کو سب سے پہلے غزل کی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے۔ لیکن غزل کی اصلاح جس قدر ضروری ہے اسی قدر دشوار بھی ہے۔ غزل میں جو عام دلفریبی ہے اصلاح کے بعد اسکا قائم رہنا نہایت مشکل ہے۔ جو کان ٹپے، ٹھمری سے مانوس ہو جاتے ہیں وہ دھرپت اور خیال سے لذت نہیں اٹھا سکتے۔ داستان سننے والوں کی پیاس تاریخی واقعات سے ہر گز نہیں بجھ سکتی۔ بوالہوسی اور کام جوئی کی باتوں میں جو مزا ہے وہ خالص عشق و محبت میں ہر شخص کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ جن مذاقوں پر ہزل اور معائبہ کا رنگ چڑھ جاتا ہے ان پر حکمت اور اخلاق کا منتر کارگر نہیں ہوتا۔ جو لوگ سرمہ، کاجل، کنگھی، چوٹی پر فریفتہ ہیں وہ حسن ذاتی کی حقیقت پر کیونکر پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن زمانہ بآوازِ بلند کہہ رہا ہے کہ یا عمارت کی ترمیم ہوگی یا عمارت خود نہ ہوگی۔

غزل کو جن لوگوں نے چمکایا اور مقبولِ خاص و عام بنایا، یہ وہ لوگ تھے جو آج تک اہلِ اللہ اور صاحبِ باطن یا کم سے کم عشقِ الٰہی کا راگ گانے والے سمجھے جاتے ہیں جیسے سعدی، رومی، خسرو، حافظ، عراقی، مغربی، احمد جام اور جامی وغیرہم۔ ان بزرگوں سے پہلے غزل کی طرف زیادہ اعتنا نہیں پایا جاتا۔ ہم نے حیاتِ سعدی میں کسی موقع پر بیان کیا ہے کہ انکی غزل کا موضوع جیسا کہ ظاہر الفاظ سے مفہوم ہوتا ہے عشقِ مجازی نہ تھا بلکہ وہ حقیقت کو مجاز کے پردہ میں ظاہر کرتے یا یوں کہو کہ چھپاتے تھے۔ انکے ایک ایک لفظ سے پایا جاتا ہے کہ وہ عشق و محبت کے رنگ میں شرابور تھے۔ انکے کلام میں ضرور کوئی ایسی چیز ہے جسکو روحانیت کے ساتھ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ انکی غزل سنکر دنیا کی بے ثباتی اور بے اعتباری کا سماں دل پر چھا جاتا ہے۔ وہ خط و خال کا ذکر اسطرح کرتے ہیں جس سے شاہد پرستی کی ترغیب نہیں بلکہ دنیا پرستی سے نفرت ہوتی ہے۔ وہ شراب کی بد مستی کو دنیا دار مکاروں کی ہوشیاری سے بہتر بتاتے ہیں۔ وہ رندی اور بدنامی و رسوائی کو صوفیوں کی دلق طمع اور زاہدوں کی زہدِ ریائی پر ترجیح دیتے ہیں۔ وہ کوئی گناہ مکر و ریا سے، کوئی حماقت غرورِ مال و جاہ سے، کوئی شرک خود پرستی و نفس پرستی اور کوئی دھوکا دنیا سے بڑھ کر نہیں بتاتے۔ انکا کوئی کلام اثر سے خالی نہیں اور اس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ انکے دل سے نکلا ہے۔

ان لوگوں کی غزل گو بعض حیثیتوں سے قوم کی موجودہ حالت کے مناسب نہ ہو لیکن وہ اس حالت کے بالکل مناسب تھی جبکہ قوم نے دنیا کو یا دنیا نے قوم کو شکار کر رکھا تھا۔ ان کے اشعار ان لوگوں کے حق میں تازیانہ کا حکم رکھتے تھے جو حبِ دنیا اور حبِ جاہ میں منہمک، خدا سے غافل اور بادۂ نخوت سے مدہوش تھے۔ ان سے ظالم، طمّاع، حریص اور بخیل عبرت حاصل کرتے تھے۔ وہ ریا کار زاہدوں، واعظوں اور صوفیوں کی قلعی کھولتے تھے۔ وہ سادہ لوح امیروں کو عیار فقیروں کے دام تزویر سے بچاتے تھے۔ وہ اہلِ اللہ اور اربابِ صدق و صفا کو نفسِ امّارہ کی چوریوں اور خیانتوں سے آگاہ اور متنبہ کرتے تھے۔

اردو میں عام طور پر یہ رنگ تو ایک آدھ کے سوا کسی کی غزل میں کبھی پیدا نہیں ہوا۔ لیکن عاشقانہ خیالات، نیچرل اور سادہ طور پر ادا کرنے والے اردو غزل گو یوں کے ہر طبقہ میں کم و بیش ہوتے رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ اب یہ رنگ بھی روز بروز مٹتا جاتا ہے۔ الفاظ میں صنعت اور خیالات میں رکاکت و سخافت یوماً فیوماً بڑھتی جاتی ہے۔ ہم بجائے اس کے غزل گوئی کے موجودہ طریقہ پر نکتہ چینی کریں یہ زیادہ مناسب سمجھتے ہیں کہ عام طور پر اسکی اصلاح کے متعلق اہلِ وطن کی خدمت میں چند مشورے پیش کریں۔

۱۔ غزل کیلیے یہ ایک ضروری سی بات قرار پا گئی ہے کہ اسکی بنا عشقیہ مضامین پر رکھی جائے اور حق یہ ہے کہ اگر غزل میں محبت کی چاشنی نہ دی جائے تو حالتِ موجودہ میں اس کا سرسبز اور مقبول ہونا ایسا ہی مشکل ہے جیسا شراب میں سرکہ بن جانے کے بعد سرور قائم رہنا۔ لیکن اصل اور نقل میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔ جو کیفیت عشق میں ہے وہ تعشق میں ہر گز پیدا نہیں ہوسکتی۔ جو غزلیں محض تقلیداً عاشقانہ لکھی جاتی ہیں ان میں اتنا ہی اثر ہو سکتا ہے جتنا کہ ایک بھانڈ کی نقل میں جو مجنوں یا فرہاد بن کر مجلس میں آئے۔ اثر قائل اور سامعین کی حالت کا تابع ہے۔ اگر قائل اور سامع میں یا کم سے کم صرف قائل کے دل میں فی الواقع کوئی کیفیت موجود ہے تو اسکی کیفیت کا بیان ضرور موثر ہوگا۔ جو شخص فی الواقع مظلوم یا مصیبت زدہ ہے جب وہ اپنی سرگزشت بیان کرے گا، ضرور اسکے بیان سے لوگوں کے دل پر چوٹ لگے گی۔ لیکن اگر یہی بیان کسی ایسے شخص کی زبان سے سرزد ہوگا جسکی حالت خود اسکی تکذیب کرتی ہے تو اس سے سوائے اسکے کہ لوگوں کو ہنسی آئے اور کوئی اثر مرتب نہیں ہوسکتا۔ پس ایک بوالہوسی کی قابلیت نہین رہی۔ انکو ہرگز زیبا نہیں معلوم ہوتا کہ غزل میں شاہد بازی اور ہوا پرستی کے مضمون باندھ کر پہلے اپنے اوپر بہتان باندھے اور دوسرے اپنے تئیں رسوا اور بدنام کرے۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
محبت کچھ ہوا و ہوس اور شاہد بازی و کام جوئی پر موقوف نہیں ہے۔ بندہ کو خدا کے ساتھ، اولاد کو ماں باپ کے ساتھ، ماں باپ کو اولاد کے ساتھ، بھائی بہن کو بھائی بہن کے ساتھ، خاوند کو بی بی کے ساتھ، بی بی کو خاوند کے ساتھ، نوکر کو آقا کے ساتھ، رعیت کو بادشاہ کے ساتھ، دوستوں کو دوستوں کے ساتھ، آدمی کو جانور کے ساتھ، مکین کو مکان کے ساتھ، وطن کے ساتھ، ملک کے ساتھ، قوم کے ساتھ، خاندان کے ساتھ غرضکہ ہر چیز کے ساتھ لگاؤ اور دل بستگی ہو سکتی ہے۔ پس جب کہ عشق و محبت میں اس قدر احاطہ اور جامعیت ہے اور جب کہ عشق کا اعلان کم ظرفی اور معشوق کا پتہ بتانا بے غیرتی ہے تو کیا ضرور ہے کہ عشق کو محض ہوائے نفسانی اور خواہش حیوانی میں محدود کر دیا جائے اور ایسے سر مکتوم کو فاش کر کے اپنی تنک ظرفی اور بے حوصلگی ظاہر کی جائے۔

اسی لیے ہماری یہ رائے ہے کہ غزل میں جو عشقیہ مضامین باندھے جائیں وہ ایسے جامع الفاظ میں ادا کئے جائیں جو دوستی اور محبت کی تمام انواع و اقسام اور تمام جسمانی اور روحانی تعلقات پر حاوی ہوں اور جہاں تک ہو سکے کوئی ایسا لفظ نہ آنے پائے جس سے کھلم کھلا مطلوب کا مرد یا عورت ہونا پایا جائے۔ مثلاً کلاہ، چیرہ، دستار، جامہ، قبا، سبزہ و خط، مسیں بھیگنا، زرگر پسر، مطرب پسر، مغچہ، ترسا بچہ وغیرہ وغیرہ یا محرم کرتی، مہندی، چوڑیاں، موباف، آرسی، جھومر وغیرہ۔

اگرچہ (جیسا کہ حیاتِ سعدی کے خاتمہ پر ہم نے مفصل بیان کیا ہے) مرد کا مطلوب مرد کو قرار دینا جو ایران اور ہندوستان کی شاعری میں مروج ہے یہ محض ایک غلط فہمی اور قومی حمیت کے خیال پر مبنی ہے نہ کہ حقائق و واقعات پر۔ لیکن پھر بھی یہ ایک ایسا قبیح اور نالائق دستور ہے جو قومی اخلاق کو داغ لگاتا ہے۔ لہذا اسکو جہاں تک جلد ممکن ہو ترک کرنا چاہیئے۔ اور اس بات کا خیال بالکل چھوڑ دینا چاہیئے کہ ایران اور ہندوستان کے تمام شعرائے نامور اسی طریقہ پر غزل کہتے چلے آئے ہیں۔ ہر زمانہ کا اقتضاء الگ ہوتا ہے۔ جو فخش اور بے حیائی کی باتیں ایران اور ہندوستان کے بڑے بڑے براتمول کے کلام میں موجود ہیں اگر ہم آج ویسی باتوں میں انکی تقلید کریں تو قانوناً مجرم ٹھہرتے ہیں۔ پس جہاں ہم نے انکی بہت سی خرافات مواخذۂ عدالت کے خوف سے چھوڑی ہیں انکی ایک آدھ خرافت محض عقل اور اخلاق کے حکم سے بھی چھوڑنی چاہیئے۔

اسی طرح غزل میں ایسے الفاظ استعمال کرنے جو عورتوں کے لوازمات اور خصوصیات پر دلالت کریں اس قوم کی حالت کے بالکل نامناسب ہیں جو پردہ کی پابند ہو۔ کیونکہ اگر معشوقہ منکوحہ یا مخطوبہ ہے تو اسکے حسن و جمال کی تعریف کرنی اور اسکے ناز و انداز کی تصویر کھینچنی گویا اپنے ننگ و ناموس کو اپنوں اور پرایوں سے انٹروڈیوس کرانا ہے اور اگر کوئی بازاری بیسوا ہے تو اپنی نالائقی یا بد دیانتی کا ڈھنڈورا پیٹنا ہے۔ اسی بنا پر ایران میں جتنے ممتاز اور برگزیدہ اور اعلٰی درجہ کے غزل گو گزرے ہیں انکی غزل میں عورتوں کی خصوصیات اس قدر کم پائی جاتی ہیں کہ گویا بالکل نہیں ہیں اور اتنی بات اب تک ہندوستان میں بھی موجود ہے کہ گو غزل میں مطلوب کبھی مرد کو اور کبھی عورت کو قرار دیتے ہیں اور کبھی مرد کی اور کبھی عورت کی خصوصیات کا بھی ذکر کرتے ہیں لیکن کبھی مطلوب کیلیے افعال یا صفات مؤنث نہیں لاتے بلکہ ہمیشہ مذکر لاتے ہیں۔ مثلاً یوں کبھی نہیں کہتے کہ وہ روزنِ دیوار سے جھانکتی تھی، یا وہ پری ہمارا دل لے گئی، یا وہ آرسی میں منہ دیکھتی تھی، یا وہ ہالے پہن رہی تھی، یا وہ اپنی صورت کی متوالی ہے، یا وہ عاشق کا دل جلانے والی ہے، بلکہ ایسی حالتوں میں بھی افعال و صفات ہمیشہ مذکر ہی لاتے ہیں حالانکہ وہ مقام تانیث کا متقضی ہوتا ہے۔ مثلاً ذوق کہتے ہیں۔

جھانکتے تھے وہ ہمیں جس روزنِ دیوار سے
وائے قسمت ہو اسی روزن میں گھر زنبور کا

یا امانت لکھنوی کہتے ہیں۔

شاعروں کو وہ پری زلف میں وا کیا کرتا
موشگافوں کو گرفتارِ بلا کیا کرتا

غرضکہ کسی اردو غزل گو نے معشوق کیلیے جہاں تک ہم کو معلوم ہے فعل یا صفت مؤنث استعمال نہیں کی۔

اگر معشوق کو اطلاق کی حالت پر چھوڑ دیا جائے اور کوئی خصوصیت رجال یا نساء کی غزل میں ذکر نہ کی جائے تو اس صورت میں افعال و صفات کا مذکر لانا بالکل قاعدہ کے موافق ہوگا۔ تمام دنیا کی زبانوں میں یہ قاعدہ عام معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی حکم مطلق انسان کی نسبت لگایا جاتا ہے اور مرد یا عورت کی تخصیص مقصود نہیں ہوتی تو گو نوع انسان میں ذکور و اناث دونوں داخل ہیں مگر اس حکم کا موضوع ہمیشہ فرد کامل یعنی مذکر قرار دیا جاتا ہے نہ مؤنث۔ مذہب میں، فلسفہ میں، طب میں، اخلاق میں اور تمام علوم و قوانین میں یہی قاعدہ عموماً جاری ہے لیکن معشوق کا کبھی چہرہ یا قبا یا سبزۂ خط کے ساتھ اور کبھی چوٹی موباف آرسی اور چوڑیوں کے ساتھ ذکر کرنا اور باوجود اس کے افعال و صفات کو ہمیشہ مذکر لانا اسکے یہ معنی ہونگے کہ معشوق نہ مرد ہے اور نہ عورت بلکہ زنانہ ہے یا ہیجڑا۔

ایسے اشعار جن میں عشق کا بیان ایسے لفظوں میں کیا گیا ہو جو محبت کے عام مفہوم پر حاوی ہوں یا جو محض عشق روحانی یا عشق الٰہی ہر محمول ہو سکیں اور جن سے مطلوب کا مرد یا عورت ہونا مطلقاً نہ پایا جائے، کیا فارسی اور کیا اردو دونوں زبانوں کی غزل میں بکثرت موجود ہیں۔ خصوصاً شعرائے متصوفین کے کلام میں زیادہ تر اسی قبیل کے اشعار پائے جاتے ہیں۔ پس غزل میں ہمیشہ کیلیے ایسا التزام کرنے کی خواہش کرنی ایسی بات نہیں ہے جس کو تکلیف مالایطاق سمجھا جائے۔


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
۲- جس طرح عشقیہ مضامین غزل کے نیچر میں داخل ہیں، اسی طرح خمریات یعنی شراب اور اسکے لوازمات کا ذکر اور نیز فقہا و زہاد اور تمام اہلِ ظاہر پر طعن و تعریض کرنی، اپنی مے خواری و توبہ شکنی و خرابات نشینی پر فخر کرنا اور اہلِ شرع اور اہلِ تقوٰی کے اعمال اور اقوال کے عیب نکالنے اور اسی قسم کی باتیں جو عقل و شرع کے خلاف ہوں یہ مضامین بھی غزل کے اجزائے غیر منفک قرار پا گئے ہیں۔ سب سے پہلے غزل میں یہ طریقہ شعرائے متصوفین نے، جو اہلِ اللہ اور صاحبِ باطن سمجھے جاتے ہیں، اختیار کیا تھا، جیسے سعدی و رومی و حافظ، خسرو وغیرہم۔ چونکہ ان لوگوں کی غزل نے ایران اور ہندوستان میں زیادہ رواج اور حسنِ قبول پایا اور خاص کر خواجہ حافظ کی غزل، جس میں ان مضامین کی بہتات سب سے بڑھ کر ہے، حد سے زیادہ مشہور و مقبول ہوئی۔ اس سے متاخرین نے بھی انکی تقلید سے یہی شیوہ اختیار کر لیا۔ مگر ہم کو دیکھنا چاہیئے کہ ان بزرگوں نے جو ایسے مضامین میں اس قدر غلو کیا، اس کا منشا کیا تھا۔

فقہا اور اہلِ ظاہر ہمیشہ دو فرقوں کے سخت مخالف رہے ہیں۔ ایک اہلِ باطن کے، دوسرے اہلِ رائے کے۔ فقہا کے فتووں سے ان دونوں گروہوں کے ہمیشہ سخت نقصان پہنچتے رہے، قتل کیے گئے ہیں، دار پر چڑھائے گئے ہیں، مشکیں بندھی ہیں، کوڑے کھائے، قیدیں بھگتی ہیں، جلا وطن کئے گئے، کتابیں جلائی گئی ہیں اور اور کیا کیا کچھ ہوا ہے۔ جب کہ فقہا کی مخالفت کا ان لوگوں کے ساتھ یہ حال تھا تو یہ بھی اپنی تصنیفات میں نثر ہو یا نظم خوب دل کے بخارات نکالتے تھے۔ بقول شخصے "کسی کا ہاتھ چلے کسی کی زبان"۔ فقہا و واعظین انکے اقوال و افعال پر گرفت کرتے تھے، انہوں نے انکے اخلاق کی قلعی کھولنی شروع کی۔ وہ کہتے تھے کہ یہ لوگ خلافِ شرع کام کرتے ہیں، انہوں نے کہا شراب خوری و قمار بازی جو اکبر الکبائر ہیں وہ بھی جو فروشی و گندم نمائی سے بہتر ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ یہ لوگ خلافِ شرع باتیں کہتے ہیں، انہوں نے کہا علانیہ کفر بکنا اس سے بہتر ہے کہ دل میں کفر ہو اور زبان پر اسلام ہو۔ وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ اوروں کو ہدایت کرنے اور آپ گمراہ رہنے سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں۔ وہ کہتے تھے کہ تم لوگ حقوقِ الٰہی ادا نہیں کرتے، انہوں نے کہا کہ تم حقوقِ عباد میں خیانت کرتے ہو۔ الغرض شعرائے متصوفین نے جو اہلِ ظاہر پر خردہ گیریاں کی ہیں وہ اسی قسم کی تعریضات اور مطارحات ہیں۔

اسکے سوا ان لوگوں کی غزل میں اکثر شراب و ساقی و جام و صراحی اور انکے لوازمات اور خلافِ شرع الفاظ مجاز اور استعارہ کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ یہ لوگ (یا تو اس خیال سے کہ دوست کا راز اغیار پر ظاہر نہ ہو یا اس نظر سے کہ لوگوں کا حسنِ ظن جو رہزن طریقت ہے اس سے محفوظ رہیں یا اسلئے کہ عشق و محبت کی بھڑاس آزادانہ اور رندانہ گفتگو میں بہ نسبت سنجیدہ اور مؤدب گفتگو کے خوب نکلتی ہے اور یا اس غرض سے کہ حریفوں کو چھیڑ چھاڑ کر اور زیادہ بھڑکائیں اور انکے زجر و ملامت جو بے گناہ ملزموں کو تحسین و آفرین سے زیادہ خوشگوار ہوتی ہے مزے لے لے کر سنیں) روحانی کیفیات کو شراب و شاہد کے پیرایہ میں بیان کرتے تھے۔ سب سے اخیر درجہ کا ثبوت مولانا روم کی اس رباعی سے ہوتا ہے۔

وے بر سر کوئے زلّہ غارت کردم
مر پاکاں را جذب زیارت کردم
شکرانۂ آں کہ روزہ خوردم رمضاں
در عید نماز بے طہارت کردم

شاہ ولی اللہ صاحب نے اس رباعی کی شرح لکھی ہے وہ کہتے ہیں رمضان میں روزے کھانے کے یہ معنی ہیں کہ جب مجاہدہ سے مشاہدہ تک نوبت پہنچ گئی تو ریاضت ترک کر دی گئی اور نماز بے طہارت سے یہ مراد ہے کہ جب وصل کی عید میسر آ گئی اور جدائی کا الم جاتا رہا تو اب حضوری کا کیف جو حقیقت صلوٰۃ ہے ہر وقت رہنے لگا یہاں تک کہ ظاہری طہارت اور عدم طہارت اور جاگتے اور سوتے غرضکہ ہر حالت میں دولتِ حضوری موجود ہے۔ خواجہ حافظ کا یہ شعر بھی اسی قبیل کا ہے۔

پیر ما گفت خطا در قلمِ صنع نہ رفت
آفریں بر نظرِ پاک خطا پوشش باد

دوسرے مصرعے میں خطا پوش کے لفظ سے قلمِ صنع کی خطا پوشی کا خیال ذہن میں گزرتا ہے مگر فی الحقیقت یہ مطلب نہیں ہے بلکہ انسان کی عیب پوشی مقصود ہے۔ کیونکہ قلمِ صنع میں کبھی خطا نہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ جو اس نے لکھ دیا وہ امِٹ ہے اور اسے سے انسان کا مجبور ہونا اور اسلیئے اسکا بے خطا ہونا ثابت ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا اشعار سے صاف پایا جاتا ہے کہ یہ بزرگوار قصداً ایسے الفاظ برتتے تھے جن سے اہلِ ظاہر کو نکتہ گیری کرنے کا موقع ملے۔ اسی لیے مولانا روم فرماتے ہیں۔

خوشتر آں باشد کہ سرّ ِ دلبراں
گفتہ آید در حدیثِ دیگراں

ان بزرگوں کے سوا بعضے شعرا ایسے بھی گزرے ہیں جو فی الواقع شراب پینے کے عادی تھے اور نشہ یا خمار کی حالت میں جو کیفیت انکے دل پر گزرتی تھی یا جو اثر انکی طبیعت یا اخلاق پر ہوتا تھا اسکو شعر میں بیان کرتے تھے۔ چونکہ شاعری کا جزو اعظم (جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے) یہ ہے کہ اس میں جو خیال باندھا جائے اسکی بنیاد اصلیت پر ہونی چاہیئے۔ اس لیے اصولِ شاعری کے موافق شراب و کباب کے مضمون باندھنا صرف ان لوگوں کا حق ہونا چاہئیے جو یا تو خود اس میدان کے مرد ہوں اور یا اپنے اصلی خیالات خمریات کے پیرایہ میں بطور مجاز و استعارہ کے ادا کر سکتے ہوں ورنہ وہ قدما کے ایسے ہی مقلد سمجھے جائیں گے جیسا بندر انسان کا ہوتا ہے۔ نیز واعظ و زاہد کو لتاڑنا اور ان پر نکتہ چینی کرنی انہیں کو زیبا ہے جنکو فی الواقع انکے ساتھ کوئی وجہ مخالفت کی ہو۔ ہاں باوجود نہ ہونے کسی قسم کی مخالفت کے صرف ایک صورت سے واجبی طور پر ایسے مضامین باندھے جا سکتے ہیں یعنی نکتہ چینی ایسے طریقہ سے کی جائے جس سے معلوم ہو کہ محض ریا و مکر و سالوس کی برائی بیان کرنی مقصود ہے نہ کہ زہاد اور واعظین کی ذات پر حملہ کرنا۔ کیونکہ رذائل کی برائی اور فضائل کی خوبی بغیر اس کے دل نشین نہیں کی جا سکتی کہ کسی شخص یا گروہ کو انکا موضوع فرض کر لیا جائے اور معقولات کو محسوسات کے پیرایہ میں ظاہر کیا جائے۔ ظلم اور عدل کا بیان واضح طور پر اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ظالم یا منصف بادشاہ کی مذمت یا تعریف کی جائے اور نامردی یا بہادری کی تصویر یونہی دکھائی جا سکتی ہے کہ انکو کسی بزدل یا بہادر کے قالب میں ڈھالا جائے لیکن اس صورت میں ضرور ہے کہ واعظ و زاہد وغیرہ کی کسی ایسی صفت کی طرف جو عقلاً یا شرعاً قابلِ الزام ہو کچھ اشارہ کیا جائے ورنہ کہا جائے گا کہ نیکوں پر نہ اس لیے کہ وہ قابلِ الزام ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ نیک ہیں حملہ کیا جاتا ہے۔ یہاں بطور مثال کے ہم شیخ ابراہیم ذوق کے دو شعر لکھتے ہیں۔

رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

اس شعر میں کسی قدر اس خصلت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے جو اکثر زاہدوں اور عابدوں میں ہوتی ہے کہ اوروں کو ذرا ذرا سے قصور پر ملامت کرتے ہیں اور اپنے ظاہری احکام کی پابندی پر مغرور ہو کر باطن کی اصلاح سے غافل رہتے ہیں۔ لہذا اس طرزِ بیان پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ مگر دوسری جگہ وہ فرماتے ہیں۔

ذوق زیبا ہے جو ہو ریشِ سفید شیخ پر
وسمہ آبِ بھنگ سے، مہندی مئے گل رنگ سے

اس شعر میں شیخ کا کوئی گناہ یا قصور سوا اسکے کہ شیخ شیخ ہے نہیں جتلایا گیا اور شعر میں اسکے سوا اور کوئی خوبی نہیں رکھی گئی کہ مقدس آدمی پر دو پھبتیاں کہہ کر بھنگڑوں اور شرابیوں کی ضیافتِ طبع کی جائے۔ ایسے اشعار ہمارے شعراء کے کلام میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور ایسے شعروں، کو اگر ہم اپنے شعراء کا حد سے زیادہ ادب کریں تو، سعدی اور سوزنی کی ہزلیات سے زیادہ وقعت نہیں دے سکتے۔


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
۳- مذکورہ بالا مضامین کے سوا اور جس بات کا سچا جوش اور ولولہ دل میں اٹھے خواہ اس کا منش خوشی ہو یا غم، یا حسرت، یا ندامت، یا شکر، یا شکایت، یا صبر، یا رضا، یا قناعت، یا توکل، یا رغبت، یا نفرت، یا رحم، یا انصاف، یا غصہ، یا تعجب، یا امید، یا ناامیدی، یا شوق، یا انتظار، یا حبِ وطن، یا قومی ہمدردی، یا رجوع الی اللہ، یا حمایتِ دین و مذہب، یا دنیا کی بے ثباتی اور موت کا خیال، یا اور کوئی جذبہ جذباتِ انسانی میں سے، اس کو بھی غزل میں بیان کر سکتے ہیں۔

اگرچہ اصل وضع کے لحاظ سے غزل کا موضوع عشق و محبت کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہے لیکن ہمارے شعراء نے اسکو ہر مضمون کے لیے عام کر دیا ہے اور اب بھی اس صنف کو محض مجازاً غزل کہا جاتا ہے۔ پس ہر قسم کے خیالات جو شاعر کے دل میں وقتاً فوقتاً پیدا ہوں وہ غزل یا رباعی یا قطعہ میں بیان ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے کہ جو خیالات اگلوں نے زمانہ کے اقتضا سے یا اپنے جذبات کے جوش میں ظاہر کیے ہیں، ہم بھی وہی راگ گاتے رہیں اور انہیں کے خیالات کا اعادہ کرتے رہیں۔ نہیں بلکہ ہم کو چاہیئے کہ اپنی غزل کو خود اپنے خیالات اور اپنے جذبات کا آرگن بنائیں۔ ممکن ہے کہ اگلوں میں سے کسی نے دنیا کیلیے ہاتھ پاؤں مارنے اور کوشش کرنے کو عبث اور فضول بتلایا ہو لیکن ہمارے دل میں اس خیال کی حقارت ہو یا انہوں نے اسکے برعکس پاؤں توڑ کر بیٹھنے کو نامردی اور بے غیرتی کی بات سمجھا ہو لیکن ہم میں سے کسی دل پر اس کے برخلاف حالت طاری ہو۔ دونوں صورتوں میں ہمارے منہ سے وہی صدا نکلنی چاہیئے جو ہمارے دل سے اٹھی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خود ہمیں پر ایک وقت ایسا گزرے کہ مثلاً کوشش و تدبیر ہم کو محض بے سود و لاحاصل معلوم ہو اور دوسرے وقت ہمارے ہی دل میں ایسا جوش پیدا ہو کہ پہاڑ کو جگہ سے ہٹا دینے کا ارادہ کریں۔ ہم کو دونوں حالتوں کی تصویر اپنے اپنے موقع پر بے کم و کاست کھینچ دینی چاہیئے۔ اس سے نہ صرف فطرتِ انسانی کے وقائع و غوامض اور جو انقلاب کہ اسکی طبیعت میں آناً فاناً پیدا ہوتے ہیں وہی منکشف ہونگے بلکہ قومی اخلاق پر بھی عمدہ اثر ہوگا۔ کیونکہ جب تک ہر چیز کا اچھا اور برا دونوں پہلو نہ دکھائے تب تک اعتدال کی خوبی جلوہ گر نہیں ہوتی۔ مثلاً صائب ایک جگہ کہتے ہیں۔

قناعت کن بہ نانِ خشک تا بے آرزو گردی
کہ خواہش ہائے الوانست نعمت ہائے الواں را

دوسری جگہ یہی صائب کہتے ہیں

صرف بیکاری مگر داں روزگار خویش را
پردۂ روئے توکل سازگارِ خویش را

ظاہر ہے کہ جب تک دونوں مختلف خیال ملحوظ نہ رکھے جائیں تم تک قناعت کا وہ درجہ جو تن آسانی اور حرص کے بیچوں بیچ واقع ہے، حاصل نہیں ہو سکتا۔

شاید کسی کو یہ خیال ہو کہ اخلاقی مضامین سے غزل میں وہ گرمی پیدا نہیں ہوسکتی جو عشقیہ مضامین میں ہوتی ہے۔ جو اثر شوق و آرزو اور دردِ جدائی اور کاہشِ انتظار اور رشکِ اغیار کے بیان میں ہے وہ واعظانہ پند و نصیحت میں ہر گز نہیں ہو سکتا۔ بے شک اخلاقی مضامین کو مؤثر پیرایہ میں بیان کرنا نہایت مشکل کام ہے اور بلاشبہ غزل جس میں سوز و گداز نہ ہو اور بچہ جو چلبلا اور چونچال نہ ہو، دونوں میں کچھ کشش اور گیرائی نہیں ہوتی لیکن ہمارے معاصرین کے لیے سوز و گداز کا اس قدر مصالحہ موجود ہے جو صدیوں تک نبڑ نہیں سکتا۔ دنیا میں ایک انقلابِ عظیم ہو رہا ہے اور ہوتا چلا جاتا ہے۔ آج کل دنیا کا حال صاف اس درخت کا سا نظر آتا ہے جس میں برابر نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں اور پرانی ٹہنیاں جھڑتی چلی جاتی ہیں۔ تناور درخت زمین کی تمام طاقت چوس رہے ہیں اور چھوٹے چھوٹے تمام پودے جو انکے گرد و پیش ہیں سوکھتے چلے جاتے ہیں۔ پرانی قومیں جگہ خالی کرتی جاتی ہیں اور نئی قومیں انکی جگہ لیتی جاتی ہیں اور یہ کوئی گنگا جمنا کی طغیانی نہیں ہے جو آس پاس کے دیہات کو دریا برد کرکے رہ جائے گی بلکہ یہ سمندر کی طغیانی ہے جس سے تمام کرہ زمین پر پانی پھرتا نظر آتا ہے۔ اگر کوئی دیکھے اور سمجھے تو صد ہا تماشے صبح سے شام تک ایسے عبرت خیز نظر آتے ہیں کہ شاعر کی تمام عمر اس کی جزئیات کے بیان کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی۔ کسی واقعہ کو دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیا ہوا یا کسی کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ یہ کیوں ہوا؟ کبھی خوف معلوم ہوتا ہے کہ کیا ہوگا اور کبھی یاس دل پر چھا جاتی ہے کہ بس اب کچھ نہیں۔ اس سے زیادہ دلچسپ میڑیل غزل کیلیے اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہر بات کا ایک محل اور ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ عشق و عاشقی کی ترنگیں اقبال مندی کے زمانہ میں زیبا تھیں۔ اب وہ وقت گیا، عیش و عشرت کی رات گزر گئی اور صبح نمودار ہوئی۔ اب کالنگڑے اور بہاگ کا وقر نہیں رہا، اب جوگئے کی الاپ کا وقت ہے۔

اسکے سوا بڑے بڑے استادوں نے اکثر مسلسل غزلیں بھی لکھی ہیں جن میں ایک شعر کا مضمون دوسرے شعر سے الگ نہیں ہے بلکہ ساری ساری غزل کا مضمون اول سے آخر تک ایک ہے۔ ایسی غزل اگر کوئی لکھنی چاہے تو ان میں کسی قدر طولانی مضمون بھی بندھ سکتے ہیں۔ مثلاً ہر ایک موسم کی کیفیت، صبح اور شام کا سماں، چاندنی رات کا لطف، جنگل یا باغ کی بہار، میلے تماشوں کی چہل پہل، قبرستان کا سناٹا، سفر کی روئداد اور وطن کی دلبستگی اور اسی قسم کی اور بہت سی باتیں مسلسل غزل میں بہت خوبی سے بیان ہو سکتی ہیں۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
الغرض غزل کو باعتبار زمین اور خیالات کے جہاں تک ممکن ہو وسعت دینی چاہیے۔ شعر کی لوگوں کو ایسی ضرورت نہیں ہے جیسی کہ بھوک میں کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کو اگر ہمیشہ طرح بہ طرح کے کھانے میسر نہ آئیں تو وہ تمام عمر ایک ہی کھانے پر قناعت کر سکتا ہے لیکن شعر یا راگ میں تلون اور تنوع نہ ہو اس سے جی اکتا جاتا ہے۔ جو گویا صبح شام رات اور دن بھیرویں ہی الاپے جائے اسکا گانا اجیرن ہوجاتا ہے۔ اسی طرح شعر میں ہمیشہ ایک ہی قسم کے مضامین سنتے سنتے نفرت ہو جاتی ہے۔

مکرر گرچہ سحر آمیز باشد
طبیعت را ملال انگیز باشد

اگرچہ اس میں شک نہیں کہ جس طرح شعر میں جدت پیدا کرنی اور ہمیشہ نئے اور اچھوتے مضامین پر طبع آزمائی کرنی شاعر کا کمال ہے، اسی طرح ایک ایک مضمون کو مختلف پیرایوں اور متعدد اسلوبوں میں بیان کرنا بھی شاعری میں داخل ہے۔ لیکن جب ایک ہی مضمون ہمیشہ نئی صورت مین دکھایا جاتا ہے تو اس میں تازگی باقی نہیں رہتی۔ ہر مضمون کے چند محدود پہلو ہوتے ہیں جب وہ تمام پہلو ہو چکتے ہیں تو اس مضمون میں تنوع کی گنجائش نہیں رہتی، اب بھی اگر اسی کو چیتھڑے چلے جائیں تو بجائے تنوع کے تکرار اور اعادہ ہونے لگے گا۔ بہروپیا دو چار روپ بھر کر لوگوں کو شبہ میں ڈال سکتا ہے مگر پھر اسکی قلعی کھل جاتی ہے۔ ہر کوئی اس کو دور ہی سے دیکھ کر پہچان لیتا ہے کہ بہروپیا ہے۔ ہم لوگ جب غزل لکھ کر مشاعرہ میں جاتے ہیں تو اپنے دل میں سمجھتے ہیں کہ ہم سب سے الگ اور اچھوتے مضمون باندھ کر چلے ہیں مگر غزل کو دیکھئے تو وہی انگریزی مٹھائی کا بکس ہے کہ مٹھائیوں کی شکلیں مختلف ہیں لیکن مزہ سب کا ایک ہے۔ فرض کرو کہ مختلف شکلوں کے متعدد سانچے تیار ہیں، کوئی مدور ہے، کوئی مستطیل، کوئی مثلث، کوئی مربع، کوئی مسدس اور کوئی مثمن۔ اب ہر ایک سانچے میں موم پگھلا کر ڈالو، ظاہر ہے کہ ہر سانچے سے موم نئی شکل پر ڈھل کر نکلے گا۔ بعینہ ایسا ہی حال غزل کا ہے۔ مضمون وہی معمولی ہیں مگر بحر و ردیف و قافیہ کے اختلاف سے مختلف شکلیں پیدا کر لیتے ہیں۔

ایک مشہور شاعر کا دیوانِ غزلیات اس وقت ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس میں چاکِ گریباں کا مضمون مفصلہ ذیل صورتوں میں بندھا ہوا ہے۔

1- اے جنوں گریبان تو چاک کرچکے، اب کیا کریں کوئی اور شکل بتا۔
2- لوگ پھر جامہ دری کرنے لگے اور ہمارا ہاتھ پھر گریبان تک جانے لگا۔
3- بہار کے دن قریب آ گئے تو گریبان خود بخود پھٹا جاتا ہے۔
4- اگر بہار میں میری پوشاک نہ چھین لی جاتی تو بدن پر نہ دامن نظر آتا نہ گریبان۔
5- اگر عقل کی پابندی نہ ہوتی تو ہم دامن اور گریبان سب پھاڑ ڈالتے۔
6- وہ ہاتھ چھڑا کر چلا گیا میں بھی اب گریبان کو پھاڑ کر چھوڑوں گا۔
7- اے جنوں ہم جدائی میں گریبان پھاڑتے ہیں تُو ساری رات اس کے تار گنتا رہ۔
8- اس کی تحریر سے میں ایسا دیوانہ ہوا کہ پیرہن چاک کر ڈالا۔
9- اس کی چست قبا کا دامن دیکھ کر گریبان پھٹتے ہیں۔
10- اے جنون دامن کی طرح گریبان کے بھی لتے لے۔
11- دیکھئے ہم کب تک کپڑے پھاڑتے ہیں اور کب تک ہم کو جنون سوزن کی طرح عریاں رکھتا ہے۔
12- اے جنون اب جامہ دری مت کر، ہم دامن کو پھاڑ کر کب تک گریبان میں رفو کرتے رہیں۔
13- بہار میں ہاتھ کیسے بیکار ہیں۔
14- اے جنون گریبان مجھ کو پھانسی سے بھی زیادہ تنگ کرتا ہے، اسکی دھجیاں اڑا دے۔
15- اے جنون اب کے سال بہار میں گریبان کو ایسا چاک کر کہ کسی سے رفو نہ ہوسکے۔
16- تم تو ہاتھ سے دامن چھڑا کر نکل گئے ہم اپنا گریبان چاک کر کے نکل گئے۔
17- جنوں جو حد سے بڑھا تو گریبان چاک ہو کر دامن سے نکل گیا۔
18- مجھے چاک گریبانوں پر حسرت آتی ہے کہ کیسے دامن صحرا کی طرف دوڑے جاتے ہیں۔
19- ہمارے ہاتھ جنوں کی بدولت زوروں پر ہیں کہ نئے نئے گریبان چاک ہوتے ہیں۔
20- اے جنوں تیرے ہاتھوں سے کتنا تنگ ہوں، روز نئے گریبان کہاں سے لاؤں۔
21- اس کے عاشق ہمیشہ گریبان چاک رکھتے ہیں، گل کے گریبان میں کہیں بھی رفو ہے؟
22- بہار آئی اور جنوں پھر کپڑے پھاڑنے لگا، کتنے ہی گریبان چیتھڑے ہو ہو کر اڑ گئے۔
23- اے جنوں تجھ کو سودائے زلف کی قسم ہے جو گریبان کا ایک تار بھی بیکار جاتے دو۔

جس دیوان سے ہم نے یہ ایک مضمون کے 23 اسلوبِ بیان نقل کیے ہیں یہ کچھ اوپر دو سو صفحہ کا دیوان ہے۔ جب ایک مختصر دیوان کا یہ حال ہے تو اردو کے تمام دیوانوں میں دیکھنا چاہیئے کہ یہی ایک مضمون کتنی شکلوں میں باندھا گیا ہوگا اور اگر فارسی کے دواوین کو بھی شامل کر لیا جائے تو میں خیال کرتا ہوں کہ اسی ایک مضمون کے اشعار سے کئی ضخیم جلدیں تیار ہوسکتی ہیں۔ حالانکہ کہ مضمون ایسا تنگ ہے کہ اس میں ایک دو اسلوب سے زیادہ گنجائش نہیں معلوم ہوتی۔ اسی سے قیاس ہو سکتا ہے کہ غزل کے وہ معمولی مضامین جن میں اس مضمون کی نسبت زیادہ پہلو نکل سکتے ہیں، انکی کہاں تک نوبت پہنچی ہوگی۔ جیسے جفائے یار، رشکِ اغیار، شوقِ وصل، رنجِ فراق، زلفِ پریشاں، چشمِ فناں، بت پرستی، توبہ شکنی۔ رندی و بادہ خواری وغیرہ وغیرہ۔ اس میں بالکل مبالغہ نہیں معلوم ہوتا کہ اگر تمام فارسی و اردو کی غزلیات کا خلاصہ کیا جائے اور مکررات کو چھوڑ کر محض اصلی مضامین چھانٹے جائیں تو سو سوا سو صفحہ سے زیادہ کل مضامین کی مقدار نہ نکلے گی اور اگر یہ التزام کیا کہ ہر ایک مضمون جتنے عمدہ پہلوؤں سے باندھا گیا ہو ان سب کو انتخاب کر لیا جائے تو بے شک اس سے کسی قدر مقدار بڑھ جائے گی مگر اکثر عمدہ پہلو قدما کے کلام میں نکلیں گے اور ان کے فضلات متاخرین کے کلام میں۔

یہی چاکِ گریبان کا مضمون جو متاخرین میں سے ایک نے 23 طرح باندھا ہے، میر تقی کے ہاں اسطرح بندھا ہوا ہے۔

اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں

مجھ کو ہر گز امید نہیں کہ متاخرین میں سے کسی نے اس سے بہتر چاکِ گریبان کا مضمون باندھا ہو۔ مذکورہ بالا تقریر سے ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ متاخرین قدما کے کلام سے کوئی بات اخذ نہ کریں اور جو مضمون وہ باندھ گئے ہیں اب اسکو کسی پہلو نہ باندھیں یا اپنے بندھے ہوئے مضامین کا پھر اعادہ نہ کریں، کیونکہ بغیر اسکے نہ صرف شعر میں بلکہ ہر فن اور ہر صناعت میں کسی طرح کام نہیں چل سکتا۔

.
 

محمد وارث

لائبریرین
کعب ابن زہیر جو ایک مخضرمی شاعر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مداح ہے وہ کہتا ہے۔

ما ارانا نقول الا سعا را
او معاداً من قولنا مکرر را

(یعنی ہم جو کچھ کہتے ہیں یا تو اوروں کے کلام سے مستعار لے کر کہتے ہیں یا اپنے ہی کلام کو بار بار دہراتے ہیں)

پس جب کہ آج سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے شعراء کا ایسا خیال تھا تو ہم کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ قدما کی خوشہ چینی سے ہم کو استغنا حاصل ہے یا ہم کو یہ قدرت ہے کہ کوئی مضمون ایک دفعہ باندھ کر پھر اسکا اعادہ نہ کریں۔

عربی میں دو متناقص مثلیں مشہور ہیں۔ ایک یہ ہے کہ کم ترک الاول للآخرۃ یعنی اگلے بہت کچھ پچھلوں کے لیے چھوڑ گئے ہیں اور دوسری یہ مثل ہے کہ ما ترک الاول للآخرۃ شیاً (یعنی اگلوں نے پچھلوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔) ان دونوں مثلوں میں تطبیق یوں ہوسکتی ہے کہ اگلے بہت سی ادھوری باتیں چھوڑ گئے ہیں تا کہ پچھلے اس کو پورا کریں، لیکن انہوں نے پچھلوں کے لیے کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جسکا نمونہ موجود نہ ہو۔

اس بات پر تمام قوم کا اتفاق ہے کہ پچھلا شاعر کسی پہلے شاعر کے کلام سے کوئی مضمون اخذ کر کے اس میں کوئی ایسا لطیف اضافہ یا تبدیلی کر دے جس سے اس کی خوبی یا متانت یا وضاحت زیادہ ہو جائے، وہ در حقیقت اس مضمون کو پہلے شاعر سے چھین لیتا ہے۔ مثلاً سعدی شیرازی کہتے ہیں۔

از ورطۂ ما خبر نہ دارد
آسودہ کہ بر کنارِ دریا ست

اسی مضمون کو خواجہ حافظ نے اس طرح ادا کیا ہے۔

شب تاریک و بیم موج گردابے چنیں حائل
کجا دانند حالِ ما سبک سارانِ ساحل ہا

ظاہر ہے کہ حافظ نے اس مضمون میں گویا اس کمی کو پورا کر دیا ہے جو شیخ کے بیان میں رہ گئی تھی۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ حافظ نے شیخ سے یہ مضمون چھین لیا۔ اسی مطلب کو نظیری نے یوں تعبیر کیا ہے۔

بہ زیرِ شاخِ گل افعی گزیدہ بلبل را
نوا گرانِ نخوردہ گزند را چہ خبر

اگرچہ نظیری نے اصل مضمون پر کوئی ایسا اضافہ نہیں کیا جسکے لحاظ سے کہا جائے کہ خواجہ حافظ سے مضمون چھین لیا، لیکن اس نے مضمون کو ایسے بدیع اسلوب میں ادا کیا ہے کہ بالکل ایک نیا مضمون معلوم ہوتا ہے۔

ایک روز خواجہ حافظ کا یہی شعر ایک موقع پر پڑھا گیا، ایک صاحب جو شعر کا صحیح مذاق رکھتے تھے یہ شعر سن کر بولے۔ "کاش دوسرے مصرع میں بھی اسی قسم کی مشکلات اور سختیوں کا بیان ہوتا جیسی کہ پہلے مصرع میں بیان کی گئی ہیں اور اس بات کا کچھ اظہار نہ کیا جاتا کہ بیدردوں کو ہمارے حال کی کیا خبر ہے تا کہ اپنے حال میں مبتلا ہونے اور غیر کے تصور سے ذہول ہونے کا زیادہ ثبوت ہوتا۔" میں نے غالب مرحوم کا یہ شعر پڑھا۔

ہوا مخالف و شب تار و بحر طوفاں خیز
گسستہ لنگر کشتی و ناخدا خفت ست

وہ شعر سن کر پھڑک گئے اور کہا کہ ہاں بس میرا مطلب یہی تھا۔ ان مثالوں سے یہ بات بخوبی ظاہر ہے کہ قدما کے کلام میں بعض اوقات کوئی کمی رہ جاتی ہے۔ جس کو پچھلے پورا کر دیتے ہیں۔ کبھی قدما ایک مضمون کو کسی خاص اسلوب میں محدود سمجھ لیتے ہیں، متاخرین اس کیلیے ایک نرالا اسلوب پیدا کرتے ہیں اور کبھی متاخرین قدما کے اسلوب میں سے ایک خوبی کم کر کے ایک خوبی بڑھا دیتے ہیں اور اس سے شاعری کو بے انتہا ترقی ہوتی ہے۔ پس یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ شاعر اپنے محدود فکر اور تخیل پر بھروسہ کر کے قدما کی خوشہ چینی سے دست بردار ہو جائے۔

شفائی صفاہانی یا متاخرینِ شعرائے ایران میں سے کوئی اور شخص غزل میں کہتا ہے۔

مشاطہ را بگو کہ بر اسبابِ حُسنِ دوست
چیزے فزوں کند کہ تماشا بما رسید

قائل کا مطلب معلوم ہوتا ہے کہ ہماری پسند کیلیئے معشوق کے معمولی بناؤ سنگار کافی نہیں ہیں پس مشاطہ کو چاہیے کہ ان میں کچھ اور اضافہ کرے، کیونکہ اب اس کے دیکھنے کی نوبت ہم تک پہنچی ہے۔ شاعر نے مضمون میں جدت تو پیدا کی مگر پھسینڈی۔ اول تو اس نے جس کو دوست قرار دیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اسکی محبت کا نقش اس کے دل میں نہیں بیٹھا، پھر اس کو دوست کہنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ دوسرے اسکے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ معشوق کے حسنِ ذاتی سے کچھ دل بستگی نہیں رکھتا بلکہ عارضی بناؤ سنگار پر فریفتہ ہے۔ تیسرے عشق جو ہمیشہ بے قصد و بے ارادہ پیدا ہوتا ہے اسکو قصد و ارادہ سے پیدا کرنا چاہتا ہے۔ مرزا غالب مدح میں کہتے ہیں۔

زمانہ عہد میں ہے اس کے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے

ظاہراً یہ خیال اسی فارسی شعر سے قصداً یا بلا قصد پیدا ہوا ہے مگر مرزا نے اس مضمون کو اصل خیال کے باندھنے والے سے بالکل چھین لیا ہے۔ جو خلل تغزل کی حالت میں اس میں موجود تھے وہ مدح کی حالت میں بالکل نہیں رہے۔ مرزا نے ممدوح کو ایک ایسے کمال کے ساتھ موصوف کیا ہے جو تمام کمالات کی جڑ ہے، یعنی وہ ہر چیز کو کامل تر اور افضل تر حالت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے ہر شے اپنے تئیں کامل تر حالت میں اس کو دکھانا چاہتی ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگر یہی حال ہے تو شاید آسمان کی زیب و زینت کیلیئے اور ستارے پیدا کیے جائیں۔ اس پر سوا اس کے کہ کوئی منطقی اعتراض کیا جائے اور کسی طرح گرفت نہیں ہو سکتی، بخلاف فارسی شعر کے کہ اسکی بنا خود اصولِ شاعری اور آدابِ عشق و محبت کے بر خلاف ہے۔ عرفی شیرازی کہتا ہے۔

ہر کس نہ شناسندۂ راز است وگرنہ
ایں با ہمہ راز ست کہ معلومِ عوام ست

غالب مرحوم نے اسی مضمون کو دوسرے لباس میں اسطرح جلوہ گر کیا ہے۔

محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا

اگرچہ گمانِ غالب یہ ہے کہ عرفی کی رہبری اس خیال کی طرف قرآن مجید کی اس آیت سے ہوئی ہوگی۔ " (سورہ بنی اسرائیل جزو آیت 44") لیکن ہر حالت میں عرفی کا یہ شعر آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے اور جس اسلوب میں کہ یہ خیال اس سے ادا ہو گیا ہے اب اس سے بہتر اسلوب ہاتھ آنا دشوار ہے۔ بایں ہمہ مرزا کی جدت اور تلاش بھی کچھ کم تحسین کے قابل نہیں ہے کہ جس مضمون میں مطلق اضافہ کی گنجائش نہ تھی اس میں ایسا لطیف اضافہ کیا ہے جو باوجود الفاظ کی دلفریبی کے لطفِ معنی سے بھی خالی نہیں ہے۔ عرفی کا یہ مطلب ہے کہ جو باتیں عوام کو معلوم ہیں یہی در حقیقت اسرار ہیں۔ مرزا یہ کہتے ہیں کہ جو چیزیں مانع کشفِ راز معلوم ہوتی ہیں یہی در حقیقت کاشفِ راز ہیں۔

بہر حال اس قسم کے اقتباسات ہمیشہ متاخرین قدما کے کلام سے کرتے رہتے ہیں اور چراغ سے چراغ جلتا رہا ہے۔ شعرائے عرب جب کوئی اچھوتا مضمون باندھتے تھے اور لوگ متعجب ہو کر ان سے پوچھتے تھے کہ کس تقریب سے یہاں تک ذہن پہنچا؟ تو وہ صاف صاف اپنے خیال کا مآخذ بتا دیتے تھے۔ ابونواس نے فضل بن ربیع کی شان میں یہ شعر کہا تھا

لیس للہ بمستنکر
ان یجمع العالم فی واحدہ

(یعنی خدا سے یہ بات بعید نہیں کہ تمام عالم کو ایک شخص کی ذات میں جمع کر دے۔) اس پر کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ مضمون کیونکر سوجھا؟ ابونواس نے صاف کہہ دیا کہ یہ خیال جریر کے اس شعر سے پیدا ہوا جو اس نے بنی تمیم کی تعریف میں کہا ہے۔

اذا غضبت علیک بنو تمیم
حسبت الناس کلھم عصابا

(یعنی جب بنی تمیم تجھ سے ناراض ہو جائیں تو سمجھنا چاہیے کہ تمام بنی آدم تجھ سے ناراض ہیں۔)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شعر ہی پر کچھ موقوف نہیں بلکہ تمام علوم و فنون میں انسان نے اسی طرح ترقی کی ہے کہ اگلے جو ادھورے نمونے چھوڑتے گئے پچھلے ان میں تصرف کرتے رہے، یہاں تک کہ ہر ایک علم اور ہر ایک فن کمال کے درجے کو پہنچ گیا۔ شعر کی ترقی بھی اسی طرح متصور ہے کہ قدما کے خیالات میں کچھ کچھ معقول تصرفات ہوتے رہیں۔ لیکن اس قسم کے تصرفات کرنے کے لیے شاعری کی پوری لیاقت ہونی چاہیئے ورنہ جیسی ایجادات ہمارے ملک کے اکثر شعراء کرتے ہیں ان سے بجائے ترقی کے روز بروز شاعری نہایت ذلیل و پست و حقیر ہوتی جاتی ہے۔

فارسی میں کم اور عربی میں زیادہ اور انگریزی میں بہت زیادہ نہ صرف نظم میں بلکہ نثر میں نظم سے بھی زیادہ ہر قسم کے بلند، لطیف اور پاکیزہ خیالات کا ذخیرہ موجود ہے، پس ہمارے ہم وطنوں میں جو لوگ ایسے دماغ رکھتے ہیں کہ غیر زبانوں سے نئے خیالات اخذ کر کے ان میں عمدہ تصرفات کر سکتے ہیں وہ اپنے مبلغ فکر کے موافق تصرف کر کے اور جن کی قوت متخیلہ ان سے کم درجہ کی ہے وہ انہیں خیالات کو بعینیہ اپنی زبان میں صفائی اور سادگی کے ساتھ ترجمہ کر کے اردو شاعری کو سرمایہ دار بنائیں۔ سنسکرت اور بھاشا میں خیالات کا ایک دوسرا عالم ہے اور اردو زبان بہ نسبت اور زبانوں کے سنسکرت اور بھاشا کے خیالات سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے، اس لیے ان زبانوں سے بھی خیالات کے اخذ کرنے میں کمی نہ کریں اور جہاں تک اپنی زبان میں ادا کرنے کی طاقت ہو ان کو شعر کے لباس میں ظاہر کریں اور طرح اردو شاعری میں ترقی کی روح پھونکیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے شعراء نے جو کہیں کہیں فارسی اشعار کا ترجمہ اردو اشعار میں کر دیا ہے ان پر لوگوں نے اعتراض کئے ہیں لیکن ہمارے نزدیک یہ کوئی اعتراض کا محل نہیں ہے۔ ایک زبان کے شعر کا عمدہ ترجمہ دوسری زبان کے شعر میں کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے، ایک برزگوار نے سارا اسکندر نامہ بحری اردو میں ترجمہ کر ڈالا ہے اور ہم نے سنا ہے کہ وہ شاعر بھی تھے اور مولوی بھی۔

ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

کرے میوہ زیبا جوہر شاخ کو
کدیور فرامش کرے خاک کو

ہوا جب کہ آراستہ باغ خوش
بہر میوہ شیریں و ہم ترش

بہ شادی لبِ پستہ خنداں ہوا
رطب اس پہ بھی تیز دنداں ہوا

ہوا چہرۂ نار افروختہ
کہ ہوں تاج بر لعل جوں دوختہ

بہ رغبت بہ ہر شاخ انجیر دار
لٹکنے لگے مرغ انجیر خوار

اٹھایا اب خم نے جوشِ نفیر
ہم از بوئے شیرہ ہم از بوئے شیر

شاید اس مترجم کی نسبت یہ کہا جا سکے کہ وہ مشاق شاعر نہ تھا اس لیے عمدہ ترجمہ نہ کر سکا، لیکن ہم مشاق شاعروں سے کہتے ہیں کہ ازراہِ عنایت زیادہ نہیں تو انہی چھ شعروں کو فصیح اردو نظم میں تو ذرا لکھ دیں۔ جو شخص دوسری زبان کے شعر کو اپنی زبان کے شعر میں عمدگی کے ساتھ ترجمہ کرتا ہے گو اس سے اسکی قوتِ متخیلہ کا کمال ثابت نہیں ہوتا مگر وہ ایک دوسری لیاقت کا ثبوت دیتا ہے جو ہر ایک شاعر میں نہیں ہو سکتی۔

ہمارے بعض شعراء نے بعضے ایسے خیالات کو جو فارسی اشعار میں تھے اردو میں ایسی خوبی سے ادا کیا ہے کہ من وجہ اصل شعر سے بڑھ گئے ہیں۔

نظیری کا شعر ہے۔

بوئے یارِ من ازیں سست وفا می آید
گلم از دست بگیرید کہ از کار شدم

سودا کہتے ہیں

کیفیتِ چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

اس میں شک نہیں کہ سودا نے اپنے شعر کی بنیاد نظیری کے مضمون پر رکھی ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ تھوڑے سے تغیر کے ساتھ اسکا ترجمہ کر دیا ہے لیکن بلاغت کے لحاظ سے سودا کا شعر نظیری سے بہت بڑھ گیا ہے۔ دوست کے یاد آنے سے بھی ممکن ہے کہ عاشق از خود رفتہ ہو جائے لیکن ساغرِ شراب کو دیکھ کر معشوق کی نشیلی آنکھ کے تصور سے بے خود ہو جانا زیادہ قرینِ قیاس ہے۔ اسکے سوا "از کار شدم" میں وہ تعمیم نہیں ہے جو اس میں ہے کہ "چلا میں" اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ "چلا میں" ہمیشہ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب آدمی ہوش و بدحواس ہو کر گرنے کو ہوتا ہے اور "از کار شدم" میں یہ بات نہیں ہے۔ معطل ہونے، معزول ہونے، اپاہج اور نکمے ہونے کو بھی "از کار شدن" ہونے سے تعبیر کرتے ہیں۔

در محفل راہ مدہ ہمچومنے را
افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را

خواجہ میر درد
نہ کہیں عیش تمھارا بھی منغص ہو جائے
دوستو درد کو محفل میں نہ تم یاد کرو

ممکن ہے کہ خواجہ میر درد نے فارسی شعر سے یہ مضمون اخذ کیا ہو لیکن یقیناً ان کا شعر فارسی شعر سے بہت بڑھ گیا ہے، اول تو فارسی مطلع کے مضمون کو اپنے مقطع میں لانا جس میں خود درد کا لفظ ہی شاعر کے دعوے پر دلیل کا حکم رکھتا ہے پھر راہ مدہ کی جگہ یاد کرو بولنا جسکے دو معنی ہیں، ایک تو یہی کہ درد کا اپنی محفل میں ذکر نہ کرو، دوسرے یاد کرنے کے معنی ہیں اعلیٰ کو ادنیٰ کو اپنے پاس بلانا اور بڑی خوبی درد کے شعر میں یہ ہے کہ محفل میں نہ بلانے کی وجہ جو فارسی میں یقینی طور پر بیان کی گئی ہے اس کو میر درد نے احتمال کی صورت میں اس طرح بیان کیا ہے۔ "نہ کہیں عیش تمھارا بھی منغص ہو جائے"۔ ان دونوں اسلوبوں میں ایسا ہی فرق ہے جیسے ایک شخص کو پیار سے یوں کہے کہ "بد پرییزی سے آدمی ہلاک ہو جاتا ہے۔" اور دوسرا یہ کہے "کہ دیکھو کہیں بد پرہیزی میں جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھو۔" دوسرے اسلوب میں جیسا کہ ظاہر ہے بہ نسبت پہلے اسلوب کے زیادہ تخویف و تخدیر ہے۔

سعدی شیرازی
دوستاں منع کنندم کہ چرا دل بتو دادم
باید اول بتو گفتن کہ چنیں خوب چرائی؟

میر تقی
پیار کرنے کا جو خوباں ہم پہ رکھتے ہیں گناہ
ان سے بھی تو پوچھیے تم اتنے کیوں پیارے ہوئے

میر تقی کا یہ شعر ظاہراً سعدی کے شعر سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے مگر سعدی کے ہاں خوب کا لفظ ہے اور میر کے ہاں پیارے کا لفظ ہے، ظاہر ہے کہ خوب کا محبوب ہونا کوئی ضروری بات نہیں لیکن پیارے کا پیارا ہونا ضرور ہے پس سعدی کے سوال کا جواب ہو سکتا ہے مگر میر کے سوال کا جواب نہیں ہو سکتا۔

بہرحال ترجمہ کرنا بشرطیکہ ترجمہ کے فرائض پورے ہو جائیں کوئی عیب کی بات نہیں ہو سکتی۔ سعدی جو فارسی کا ہومر ہے خود اس کے کلام میں عربی اقوال و امثال کے ترجمے یا اسکے ماحصل موجود ہیں۔

سعدی
1-
سگ بدریائے ہفتگانہ بشوئے
چونکہ تر شد پلید تر باشد

اقوالِ عربی
الکلب انجس ما یکون
اذا اغتل

سعدی
2-
ترا خامشی اے خداوند
وقار است و نا اہل را پردہ

عربی اقوال
الصمت زینۃ العالم
و سرّ الجاہل

سعدی
3-
تو بجائے پدر چہ کردی خیر
تا ہمہ چشم داری از پسرت

عربی اقوال
راع اباک
یراع ابنک

سعدی
4-
شپرہ گر نورِ آفتاب نخواہد
رونقِ بازار آفتاب نکاہد

عربی اقوال
سناء ذکاء لایزول من
دعاءالحشفاش

سعدی
5-
نیک بخت آنکہ خورد و کشت
بدبخت آنکہ مُرد و ہشت

عربی اقوال
السعید من اکل
وزرع والشقے من مات و ودع

سعدی
6-
پادشاہان بخرد منداں محتاج ترند
کہ خرد منداں بہ پادشاہاں

اقوالِ عربی
السلطان احوج الی العقلاء
من العقلاء الی السلطان

.
 

محمد وارث

لائبریرین
اہلِ یورپ جو آج لٹریچر میں بھی مثلِ علوم و فنون و صنائع کے تمام دنیا سے فائق ہیں اسکا سبب اسکے سوا اور کچھ نہیں کہ دنیا میں کوئی مشہور قوم ایسی نہیں جسکی شاعری اور انشاء کا لب لباب انکی زبانوں میں موجود نہ ہو۔ پس ہم کو بھی چاہیئے کہ جس قوم اور جس زبان کے خیالات ہم کو بہم پہنچیں ان سے جہاں تک ممکن ہو فائدہ اٹھائیں اور صرف انہیں چند فرسودہ اور بوسیدہ خیالات پر جو صدیوں سے برابر بندھتے چلے آتے ہیں قناعت کر کے نہ بیٹھ رہیں کیونکہ علم و ہنر میں قناعت ویسی ہی قابلِ ملامت ہے جیسی مال و دولت میں حرص۔

4- جسطرح ہماری غزل کے مضامین محدود ہیں اسی طرح اسکی زبان بھی ایک خاص دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی کیونکہ چند معمولی مضمون جب صدیوں تک برابر رٹے جاتے ہیں تو زبان کا ایک خاص حصہ انکے ساتھ مخصوص ہو جاتا ہے جو کہ زبانوں پر بار بار آنے اور کانوں سے بار بار سننے کے سبب زیادہ مانوس اور گوارا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اگر ان الفاظ کی جگہ دوسرے الفاظ جو انہی کے ہم معنی ہوں استعمال کیے جائیں تو غریب اور اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔

عشقیہ مضامین ہمارے ہاں کچھ غزل ہی کے ساتھ خصوصیت نہیں رکھتے بلکہ قصیدے اور مثنوی میں بھی برابر انہیں کا عمل دخل رہا ہے۔ فارسی اور اردو زبانوں میں چند کے سوا کل مثنویاں عشقیہ مضامین میں لکھی گئی ہیں، اسی طرح قصائد کی تمہیدوں میں بھی زیادہ تر یہی دکھڑا رویا گیا ہے۔ واسوخت تو عشق کی پسلی ہی سے پیدا ہوا ہے لیکن چونکہ قصیدہ، مثنوی اور واسوخت کا میدان وسیع ہے لہذا ان میں غریب اور اجنبی الفاظ کی بہت کچھ کھپت ہو سکتی ہے بخلاف غزل کے کہ یہاں ایک لفظ بھی غیر مانوس ہو تو اولو معلوم ہوتا ہے۔ گلاب کے تختہ میں کانٹے بھی پھولوں کے ساتھ نبھ جاتے ہیں مگر گلدستہ میں ایک کانٹا بھی کھٹکتا ہے۔ اسی واسطے جن برزگوں نے غزل کی بنیاد تصوف اور اخلاق پر رکھی ہے انہیں بھی وہی زبان اختیار کرنی پڑی ہے جو غزل میں عموماً برتی جاتی ہے۔ عشقیہ مضامین میں جو الفاظ حقیقی معنوں پر اطلاق کئے جاتے تھے انہیں الفاظ کو ان برزگوں نے مجاز و استعارہ کے طور پر استعمال کیا ہے اور رمز و کنایہ میں اپنے اعلیٰ خیالات ظاہر کئے ہیں۔ پس غزل میں ضرور ہے کہ بہ نسبت اور اصناف کے سادگی اور صفائی کا زیادہ خیال رکھا جائے۔ آج تک فارسی یا اردو میں جن لوگوں کی غزل مقبول ہوئی ہے وہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اس اصول کو نصب العین بنا رکھا ہے۔ اردو میں ولی سے لیکر انشا اور مصحفی تک عموماً سب کی غزل میں صفائی، سادگی، روزمرہ کی پابندی، بیان میں گھلاوٹ اور زبان میں لچک پائی جاتی ہے۔ ان کے بعد دلی میں ممنون، غالب، مومن اور شیفتہ وغیرہ کے ہاں فارسی ترکیبوں نے اردو غزل میں بلا شک زیادہ دخل پایا مگر یہ لوگ بھی اعلیٰ درجہ کا شعر اسی کو سمجھتے تھے جس میں پاکیزہ اور بلند خیال ٹھیٹھ اردو کے محاروہ میں ادا ہو جاتا تھا۔ ان لوگوں کا یہ خیال تھا کہ غزل میں اعلیٰ درجہ کا شعر ایک یا دو سے زیادہ نہیں نکل سکتا، باقی برتی ہوتی ہے۔ اگلے شعرا شعر گربگی کی کچھ پروا نہ کرتے تھے، ایک دو شعر اچھا نکل آیا باقی کم وزن اور پھس پھس شعروں سے غزل کا نصاب پورا کر دیا۔ ہم لوگ یہ کرتے ہیں کہ اپنے بھرتی کے اشعار کو فارسی ترکیبوں سے چست کر دیتے ہیں تا کہ بادی النظر میں حقیر نہ معلوم ہوں۔ بات یہ ہے کہ لوگ انہی معمولی خیالات کو جو مدت سے مختلف شکلوں میں بندھتے چلے آتے تھے بہت کم باندھتے تھے بلکہ ہر شعر میں جدت پیدا کرنی چاہتے تھے اس لیے اردو روزمرہ کا سر رشتہ اکثر ہاتھوں سے جاتا رہتا تھا۔ بایں ہمہ غزلیت کی شان ان کے تمام کلام میں پائی جاتی ہے اور صاف و با محاروہ اور بلند اشعار انکے ہاں بھی نسبتاً اتنے ہی نکل سکتے ہیں جتنے کہ قدما کی غزلیات میں۔ ذوق کی غزل میں عموماً زبان کا چٹخارا اپنے معاصرین کے کلام سے زیادہ ہے مگر وہ بھی جہاں مضمون آفرینی کرتے ہیں صفائی سے بہت دور جا پڑتے ہیں۔ ظفر کا تمام دیوان زبان کی صفائی اور روزمرہ کی خوبی سے اول سے آخر تک یکساں ہے لیکن اس میں تازگیِ خیالات بہت کم پائی جاتی ہے۔ داغ کی غزل میں باوجود زبان کی صفائی، روزمرہ کی پابندی اور محاورہ کی بہتات کے طرزِ ادا میں ایک شوخی اور تیکھا پن ہے جو اسی شخص کا حصہ ہے۔ مگر نہایت تعجب ہے کہ لکھنؤ میں متاخرین نے سادگی اور صفائی کا غزل میں بہت کم خیال رکھا ہے باوجودیکہ زبان کے لحاظ سے دلی اور لکھنؤ میں کوئی معتد بہ فرق نہیں معلوم ہوتا، اسکے سوا شجاع الدولہ کے زمانہ سے سعادت علی خاں کے وقت تک اردو کے تمام نامور شعرا کا جمگھٹا لکھنؤ ہی میں رہا یہاں تک کہ میر، سودا، سوز، جرأت، مصحفی اور انشا وغیرہ اخیر دم تک وہیں رہے اور وہیں مرے۔ مگر متاخرین کی غزل میں انکے طرزِ بیان کا اثر بہت کم پایا جاتا ہے۔ ظاہراً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب دلی بگڑ چکی اور لکھنؤ سے زمانہ موافق ہوا اور دلی کے اکثر شریف خاندان اور ایک آدھ کے سوا تمام نامور شعرا لکھنؤ میں جا رہے اور دولت و ثروت کے ساتھ علومِ قدیمہ نے بھی ایک خاص حد تک ترقی کی اس وقت نیچرل طور پر اہلِ لکھنؤ کو ضرور یہ خیال پیدا ہوا ہوگا کہ جسطرح دولت اور منطق و فلسفہ وغیرہ میں ہم کو فوقیت حاصل ہے اسی طرح زبان اور لب و لہجہ میں بھی ہم دلی سے فائق ہیں لیکن زبان میں فوقیت ثابت کرنے کے لیے ضرور تھا کہ اپنی اور دلی کی زبان میں کوئی امر ما بہ الامتیاز پیدا کرتے۔ چونکہ منطق و فلسفہ و طب و علم الکلام وغیرہ کی ممارست زیادہ تھی، خود بخود طبیعتیں اس بات کی مقتضی ہوئیں کہ بول چال میں ہندی الفاظ رفتہ رفتہ ترک اور انکی جگہ عربی الفاظ کثرت سے داخل ہونے لگیں۔ یہاں تک کہ سیدھی سادھی اردو امرا اور اہلِ علم کی سوسائٹی میں متروک ہی نہ ہو گئی بلکہ جیسا ثقافت سے سنا گیا ہے معیوب اور بازاریوں کی گفتگو سمجھی جانے لگی اور یہی رنگ رفتہ رفتہ نظم و نثر میں پر غالب آ گیا۔ نظم میں جرأت اور ناسخ کے دیوان کا اور نثر میں باغ و بہار اور فسانہ عجائب کا مقابلہ کرنے سے اسکا کافی ثبوت ملتا ہے۔ با ایں ہمہ انصاف یہ ہے کہ مرثیہ اور مثنوی میں خاص خاص شخصوں پر (جیسا کہ آگے بیان کیا جائے گا) زمانہ کے اقتضا نے کچھ اثر نہیں کیا۔ انہوں نے زبان کے اصلی جوہر کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا، بلکہ اسکو بزرگوں کا تبرک سمجھ کر اس انقلاب کے زمانہ میں نہایت احتیاط سے محفوظ رکھا۔

بہرحال غزل میں زبان اور بیان کی صفائی کی غرض سے چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

1- ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ غزل کو محض عشقیات میں اور عشقیات کو محض ہوا و ہوس کے مضامین میں محدود رکھنا ٹھیک نہیں ہے بلکہ اس کو ہر قسم کے جذبات کا آرگن بنانا چاہیئے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ غزل میں معمولی مضامین بندھتے بندھتے اسکی ایک خاص زبان قرار پا گئی ہے اور وہ اس قدر کانوں میں رچ گئی ہے کہ اگر دفعتاً اس میں کثرت سے غیر مانوس اور اجنبی ترکیبیں اور اسلوبِ بیان داخل ہو جائیں تو غزل ایسی ہی گٹھل ہو جائے جیسی کہ بعض شعراء کی غزل عربی اور فارسی کے غیر مانوس الفاظ اور ترکیبیں اختیار کرنے سے ہو گئی ہے حالانکہ غزل کو با اعتبارِ مضامین کے وسعت دینا بظاہر اس بات کا مقتضی ہے کہ زبان اور طریقہ بیان کو بھی وسعت دی جائے پس ضرور ہے کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ طریقہ بیان میں دفعتاً کوئی بڑی تبدیلی واقع نہ ہو اور باوجود اسکے غزل میں ہر قسم کے خیالات عمدگی کے ساتھ ادا ہو سکیں۔

آج کل دیکھا جاتا ہے کہ شعر کے لباس میں اکثر نئے خیالات جو ہمارے اگلے شعراء نے کبھی نہیں باندھے تھے ظاہر کیے جاتے ہیں مگر چونکہ وہ اس خاص زبان میں جو شعرا کی کثرتِ استعمال سے کانوں میں رچ گئی ہے ادا نہیں کئے جاتے بلکہ نئے خیالات جن الفاظ میں براہ راست ظاہر ہونا چاہتے ہیں انہیں الفاظ میں ظاہر کر دیئے جاتے ہیں اس لیے وہ مقبولِ خاص و عام نہیں ہوتے۔ لیکن نئی طرز کی عام شاعری اگر سر دست مقبول نہ ہو تو کچھ ہرج نہیں، جب لوگوں کے مذاق رفتہ رفتہ اس سے آشنا ہو جائیں گے اور سچی باتوں کی لذت اور حلاوت سے واقف ہونگے اس وقت وہ خود بخود مقبول ہو جائے گی۔ البتہ غزل کو ابتدا ہی سے جہاں تک ممکن ہو عام پسند اور مطبوع طباع بنانا ضروری ہے کیونکہ یہی ایسی صفت ہے جو خاص و عام کی زبان پر جاری ہوتی ہے، اسی کے اشعار ہر شخص کو با آسانی یاد رہ سکتے ہیں اور یہی تمام خوشی کے جلسوں اور سماع کی مجلسوں اور یاروں کی صحبتوں میں گائی اور پڑھی جاتی ہے۔ پس ملک میں نیچرل شاعری کو پھیلانے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ غزل میں ہر قسم کے لطیف و پاکیزہ خیالات بیان کئے جائیں۔ اس کو تمام انسانی جذبات کے ظاہر کرنے کا آلہ بنایا جائے اور باوجود اسکے اس کو ایسے لباس میں ظاہر کیا جائے جو بادی النظر میں اجنبی اور غیر مانوس نہ ہو۔

سب سے بڑی دلیل اس بات کی کہ نئے اور اعلیٰ سے اعلیٰ خیالات بھی اول اول اسی روزمرہ میں ادا ہونے چاہئیں جس میں پرانے اور پست خیالات ادا کئے جاتے تھے، یہ ہے کہ کلامِ الٰہی میں تمام روحانی اور اخلاقی باتیں ویسے ہی محاورات و تشبیہات و استعارات و تمثیلات میں بیان کی گئی ہیں جن میں شعرائے جاہلیت عشقیات و خمریات اور تفاخر و مدح و ذم کے مضامین میں بیان کرتے تھے۔

یہ ممکن ہے کہ کسی قوم کے خیالات میں دفعتاً تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ نا معلوم طور پر بیان کے اسلوب آہستہ آہستہ اضافہ کیے جاتے ہیں اور انکو رفتہ رفتہ پبلک کے کانوں سے مانوس کیا جاتا ہے اور قدیم اسلوب جو کانوں میں رچ گئے ہیں انکو بدستور دائم و برقرار رکھا جاتا ہے یہاں تک کہ اگر علم کی ترقی سے بہت سے قدیم شاعرانہ خیالات محض غلط اور بے بنیاد ثابت ہو جائیں تو بھی جن الفاظ کے ذریعہ سے وہ خیالات ظاہر کئے جاتے تھے وہ الفاظ ترک نہیں کئے جاتے۔ فرض کرو کہ آسمان کا وجود اور اسکا گردش کرنا، زمین کا ساکن ہونا، پانی اور ہوا کا بسیط ہونا، عناصر کا چار میں منحصر ہونا، جام جم کا جہاں نما ہونا، ظلمات میں چشمۂ حیواں کا مخفی ہونا، سیمرغ اور دیو و پری کا موجود ہونا اور اسی قسم کی اور بہت سی باتیں علمِ انسان کی ترقی سے غلط ثابت ہو جائیں تو بھی شاعر کا یہ کام نہیں ہے کہ ان خیالات سے بالکل دست بردار ہو جائے بلکہ اسکا کمال یہ ہے کہ حقائق و واقعات اور سچے اور نیچرل خیالات کو انہی غلط اور بے اصول باتوں کے پیرایہ میں بیان کرے اور اس طلسم کو جو قدما باندھ گئے ہیں ہر گز ٹوٹنے نہ دے ورنہ وہ بہت جلد دیکھے گا کہ اس نے اپنے منتر میں وہی انچھر بھلا دیئے جو دلوں کو تسخیر کرتے تھے۔

بہرحال جو لوگ اردو شاعری کو ترقی دینا یا یوں کہو کہ اس کو صفحۂ روزگار پر قائم رکھنا چاہتے ہیں انکا فرض ہے کہ اصنافِ سخن میں عموماً اور غزل میں خصوصاً اس اصول کو ملحوظِ خاطر رکھیں کہ سلسلۂ سخن میں نئے اسلوب جہاں تک ممکن ہو کم اختیار کیے جائیں اور غیر مانوس الفاظ کم برتے جائیں مگر نا معلوم طور پر رفتہ رفتہ ان کو بڑھاتے رہیں اور زیادہ تر کلام کی بنا قدیم اسلوبوں اور معمولی الفاظ و محاورات پر رکھیں مگر الفاظ کے حقیقی معنوں ہی پر قناعت نہ کریں بلکہ ان کو کبھی حقیقی معنوں میں، کبھی مجازی معنوں میں، کبھی استعارہ اور کنایہ کے طور پر اور کبھی تمثیل کے پیرائے میں استعمال کریں ورنہ ہر قسم کے خیالات ایک نپی تلی زبان میں کیوں کر ادا کئے جا سکتے ہیں۔ ہم اس مقام پر علمِ بیان کے اصول جن سے ایک مطلب کو متعدد پیرایوں میں ادا کرنا، اور ایک ایک لفظ کو مختلف موقعوں پر برتنا آتا ہے، بیان کرنا نہیں چاہتے کیونکہ تفصیل عربی، فارسی اور نیز اردو رسالوں میں مل سکتی ہے مگر ہم فارسی اور اردو غزل کے کسی قدر اشعار بطور مثال نقل کرتے ہیں جن میں اخلاق اور تصوف کے مضامین، عشقِ مجازی اور تغزل کے پیرایہ میں ادا کئے گئے ہیں اور اجنبی خیالات کے ظاہر کرنے میں ایک محدود اور معمولی زبان سے یہ کام لیا گیا ہے۔


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
از دیوان خواجہ حافظ


مضمون

تمام عالم خدا کا نادیدہ و مستاق اور طالب ہے۔
خدا کے طالب صادق کبھی محروم نہیں رہتے۔
دوست کو الزام دے کر شرمندہ کرنا شرطِ دوستی کے بر خلاف ہے۔
اقبال مندی کا زمانہ ہمیشہ نہیں رہتا۔
جس طاعت میں ریا کار لگاؤ ہو اس سے معصیت بہتر ہے۔
باوجودیکہ خدا تک کسی کی رسائی نہیں پھر اس کے بھید دنیا میں کیونکر ظاہر ہو گئے۔
سب کوششوں میں ناکام ہو کر خدا کی طلب میں کوشش کرنی چاہیئے۔


طرزِ بیان

روئے تو کس ندید و ہزارت رقیب ہست
در غنچہ ہنوز و صدت عندلیب ہست

عاشق کہ شد یار بحالش نظر نہ کرد
اے خواجہ درد نیست وگرنہ طبیب ہست

صبحدم مرغِ چمن با گلِ نوخاستہ گفت
ناز کم کن کہ دریں باغ بسے چوں تو شگفت

گل بخندید کہ از راست نرنجیم ولے
ہیچ عاشق سخنِ تلخ بمعشوق نہ گفت

گفتم اے مسند خم جام جہاں بینت گو
گفت افسوس کہ آں دولت بیدا بخفت

ساقی بیار بادہ کہ ماہِ صیام رفت
در دہ قدح کہ موسمِ ناموس و نام رفت

وقتِ عزیز رفت بیا تا قضا کنیم
عمرے کہ بے حضور صراحی و جام رفت

صبا ز روئے تو با ہر گُلے حدیثے کرد
رقیب چوں رہِ غماز داد در حرمت

عشق مے ورزم و امید کہ ایں فنِ شریف
چوں ہنر ہائے دگر موجب حرماں نہ شود



از دیوان خواجہ میر درد


دنیا میں سب سے ملنا مگر سب سے بے تعلق رہنا۔
قربِ الٰہی میں بڑے بڑے خطرات ہیں۔
سالک کی غایت مقصود فنا ہے۔
سرّ باطن کسی پر ظاہر کرنا نہیں چاہیئے۔
بندہ اور خدا کے بیچ میں کسی واسطہ کی گنجائش نہیں۔
کائنات کے تمام جلوے مظہرِ تجلیاتِ الٰہی ہیں۔
کل یوم ھو فی شان۔
با خدا لوگوں کی صحبت میں خدا یاد آتا ہے۔
عشق الٰہی تمام تعلقات سے نجات دیتا ہے۔
جہاں موت کا کھٹکا ہو وہاں ایک دم یادِ خدا سے غافل نہ رہنا چاہیئے۔


اے درد یہاں کسو سے نہ دل کو لگائیو
لگ چلیو سب سے یوں تو پہ جی مت پھنسائیو

کاش تا شمع نہ ہوتا گذرِ پروانہ
تم نے کیا قہر کیا بال و پرِ پروانہ

ایک ہی جست میں لی منزلِ مقصود اس نے
راہ رو رشک کی جا ہے سفرِ پروانہ

ہر گھڑی کان میں وہ کہتا ہے
کوئی اس بات سے نہ ہو آگاہ (16)

قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے

گزرا ہے صبا کون بتا آج ادھر سے
گلشن میں ترے پھولوں کی یہ باس نہیں ہے

دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے

بسا ہے کون ترے دل میں گلبدن اے درد
کہ بو گلاب کی آئی ترے پسینے سے

اس کے خیالِ زلف نے سب سے ہمیں چھڑا دیا
گرچہ پھنسے ہیں دام میں دل کو مگر فراغ ہے

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
از دیوانِ سودا


شیخ کو چاہیئے کہ سالک کو تعلیمِ فنا سے پہلے دنیا کے تعلقات سے متنفر کرے۔

دنیا میں فی الحقیقت کوئی چیز دل بستگی کے قابل نہیں۔

دنیا کی کسی نعمت کو ثبات نہیں۔

دنیا میں عروج کے ساتھ ہی تنزل لگا ہوا ہے۔

جو دنیا کو بے ثبات جانتے ہیں وہ بھی اپنی بے ثباتی کے قائل ہیں۔

خدا کی، بندے کی، قوم کی، ملک کی کسی کی محبت کیوں نہ ہو، اس پر ملامت ہونی ضرور ہے۔

جو کام کرنے ہیں ان میں دیر کرنی نہیں چاہیئے۔

جس قدر دنیا کی محبت بڑھتی جاتی ہے اسی قدر مشکلات زیادہ ہوتی جاتی ہیں۔


خانہ پروردِ چمن ہیں آخر اے صیاد ہم
اتنی رخصت دے کہ ہو لیں گل سے ٹک آزارد ہم

خندۂ گُل بے نمک، فریادِ بُلبُل بے اثر
اس چمن سے کہہ تو جا کر کیا کریں گے یاد ہم

پائی نہ بُو وفا کی ترے پیرہن میں مَیں (17)
اے گل صبا کی طرح پھرے اس چمن میں ہم

نہ دیکھا اس سوا کچھ لطف اے صبحِ چمن تیرا
گل ادھر لے گئے گلچیں، گئی روتی ادھر شبنم

بھلا گُل تُو تو ہنستا ہے ہماری بے ثباتی پر
بتا روتی ہے کس کی ہستیٔ موہوم پر شبنم

دلا اب سر کو اپنے پھیر مت سنگِ ملامت سے
یہی ہوتا ہے ناداں عشق کا انجام دنیا میں

ساقی ہے اک تبسمِ گُل فرصتِ بہار
ظالم بھرے ہیں جام تو جلدی سے بھر کہیں

اس کشمکش سے دام کی کیا کام تھا ہمیں
اے الفتِ چمن ترا خانہ خراب ہو



ذوق

اگر دلوں میں دنیا کی محبت نہ رہے تو دنیا کے سب کام بند ہو جائیں۔

بہت سے جوہرِ قابل پہلے اس سے کہ اپنے جوہر دکھلائیں خاک میں مل جاتے ہیں۔

توکل کی شان

تعلقاتِ دنیاوی کے نتائج


بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

کِھل کے گُل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ پے جو بن کھلے مرجھا گئے

احسان نا خدا کے اٹھائے مری بلا
کشتی خدا پہ چھوڑ دوں، لنگر کو توڑ دوں

اگر اٹھّے تو آزردہ، جو بیٹھے تو خفا بیٹھے
لگایا جی کو اپنے روگ جب سے دل لگا بیٹھے



غالب

عزلت نشینی میں کوئی خطرہ نہیں۔

تیز زبان آدمی کی ہر کوئی شکایت کرتا ہے۔

رنج اور تکلیف سب خدا کی طرف سے ہے۔

غلبۂ یاس میں مطلب ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔

خدا تک کسی کی رسائی نہیں ہوئی۔


نے تیر کماں میں ہے یہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے

گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی

جلاد سے لڑتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے
ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس بھیس میں جو آئے

سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے

تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں



شیفتہ

خدا غریبوں کے جھونپڑے میں ہے۔

مشائخ کے ہر ایک سلسلہ کی نسبت میں جدا کیفیت ہوتی ہے۔

نفس کی رعونت جس طریقہ سے کم ہو سکے بہتر ہے۔

خدا کی ذات مکان اور جہت سے پاک ہے۔

لہو و لعب سے دفعتہً کنارہ کش ہو کر اطمینانِ کلی حاصل کرنا۔


فانوس و شیشہ و لِکن زر سے کیا حصول
وہ ہے وہاں جہاں نہیں روغن چراغ میں

ہے امتزاجِ مشک مئے لعل فام میں
آتی ہے بوئے غیر ہمارے مشام میں

نفسِ سرکش کی کسی ڈھنگ سے رعونت کم ہو
چاہتا ہوں وہ صنم جس میں محبت کم ہو

وہ آہوئے رمیدہ کہ ہم جس کے صید ہیں
نے وادیٔ تتار نہ دشتِ ختن میں ہے

ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے


.
 

محمد وارث

لائبریرین
اگرچہ اس قسم کے اشعار سے فارسی کے خاص خاص دیوان بھرے ہوئے ہیں اور اردو میں بھی تلاش کرنے سے ایسے اشعار اور زیادہ دستیاب ہو سکتے ہیں مگر یہ اسلوب زیادہ تر تصوف کے مضامین سے خصوصیت رکھتے ہیں۔ ہر قسم کے نیچرل خیالات ادا کرنے کیلیئے صرف یہی اسلوب کافی نہیں ہو سکتے جب تک کہ شاعر ان کو عمدہ طور پر ہر موقع کے مناسب استعمال کرنے کی لیاقت اور انہیں میں ملتے جلتے نئے اسلوب پیدا کرنے کا ملکہ نہ رکھتا ہو، ہمارے نزدیک اسکا گُر یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے استعارہ و کنایہ و تمثیل کے استعمال اور محاورات کے بدلنے پر قدرت حاصل کرنی چاہیئے۔

استعارہ و کنایہ اور تمثیل کی تعریف اور انکی قسمیں علمِ بیان کی کتابوں میں دیکھنی چاہیئں، یہاں ہم صرف اس قدر کہنا چاہتے ہیں کہ استعارہ بلاغت کا ایک رکنِ اعظم ہے اور شاعر کو اسکے ساتھ وہی نسبت ہے جو قالب کو روح کے ساتھ۔ کنایہ اور تمثیل کا حال بھی استعارہ ہی کے قریب قریب ہے۔ یہ سب چیزیں شعر میں جان ڈالنے والی ہیں، جہاں اصلی زبان کا قافیہ تنگ ہو جاتا ہے وہاں شاعر انہیں کی مدد سے اپنے دل کے جذبات اور دقیق خیالات عمدگی کے ساتھ ادا کر جاتا ہے اور جہاں اس کا اپنا منتر کارگر ہوتا نظر نہیں آتا وہاں انہیں کے زور سے وہ لوگوں کے دلوں کو تسخیر کر لیتا ہے۔

بعض مضامین فی نفسہ ایسے دلچسپ ہوتے ہیں کہ ان کو محض صفائی اور سادگی سے بیان کر دینا کافی ہوتا ہے مگر بہت سے خیالات ایسے ہوتے ہیں کہ معمولی زبان ان کو ادا کرتے وقت رو دیتی ہے اور معمولی اسلوب ان میں اثر پیدا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ایسے مقام پر اگر استعارہ اور کنایہ یا تمثیل وغیرہ سے مدد نہ لی جائے تو شعر شعر نہیں رہتا بلکہ معمولی بات ہو جاتی ہے۔ مثلاً داغ کہتے ہیں۔

گیا تھا کہہ اب آتا ہوں قاصد کو تو موت آئی
دلِ بیتاب واں جا کر کہیں تو بھی نہ مر جانا

اس شعر میں دیر لگانے کو موت آنے اور مر رہنے سے تعبیر کیا گیا ہے اگر یہ دونوں لفظ نہ ہوں بلکہ اسطرح بیان کیا جائے کہ قاصد نے تو بہت دیر لگائی، اے دل کہیں تو بھی دیر نہ لگائیو تو شعر میں کچھ جان باقی نہیں رہتی۔ یا مثلاً مرزا غالب کہتے ہیں۔

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

دوسرے مصرع میں طنزاً بطور استعارہ کے "دیر پشیماں" کی جگہ "زود پشیماں" کہا گیا ہے جس سے شعر میں جان پڑ گئی ہے۔ یہ ویسا ہی استعارہ ہے جیسا قرآن مجید میں انذرھم کی جگہ بشرھم بعذاب الیم فرمایا ہے۔ اسی طرح میر تقی کہتے ہیں

کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
ہاں کہو، اعتماد ہے ہم کو

یہاں بھی "اعتماد نہیں ہے" کی جگہ طنزاً "اعتماد ہے" کہا گیا ہے۔ مرزا غالب کہتے ہیں۔

وفا داری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانہ میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو

دوسرے مصرع کا اصل مدعا یہ تھا کہ وفا داری ایسی عمدہ صفت ہے کہ اگر برہمن وفا داری کے ساتھ ساری عمر بت خانہ میں نباہ دے تو اسکے ساتھ وہ برتاؤ کرنا چاہیئے جو اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کے مسلمان کے ساتھ کرنا زیبا ہے۔ اس مطلب کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ اگر وہ بت خانے میں مرے تو اس کو کعبہ میں دفن کرنا چاہیئے، جو خوبی اس عنوانِ بیان میں ہے وہ ظاہر ہے۔ دوسری جگہ مرزا غالب کہتے ہیں۔

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

دوسرے مصرع میں بطور کنایہ کے "خوف معلوم ہوا" کی جگہ "گھر یاد آیا" کہا گیا ہے کیونکہ جنگل میں خوف معلوم ہونے کو گھر یاد آنا لازم ہے اور چونکہ اس میں صنعتِ ایہام بھی ملحوظ رکھی گئی ہے اس لیے شعر میں اور زیادہ لطف پیدا ہو گیا ہے یعنی اس میں یہ معنی بھی نکلتے ہیں کہ ہمارا گھر اس قدر ویران ہے کہ دشت کو دیکھ کر گھر یاد آتا ہے۔ مرزا غالب کا فارسی شعر ہے۔

ہوا مخالف و شب تار و بحر طوفاں خیز
گسستہ لنگرِ کشتی و ناخدا خفت ست

اس شعر میں اپنی مشکلات اور سختیوں کو بطور تمثیل کے بیان کیا گیا ہے۔ جس حالت کو شاعر نے اس عنوان سے بیان کیا ہے وہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں اگر اس کو صاف اور سیدھے طور پر جیسی کہ وہ ہے بیان کیا جائے تو وہ ہر گز دو مصرعوں میں نہیں سما سکتی اور با وجود اس کے جس ہیبت ناک صورت میں اسکو یہ تمثیل کا پیرایہ ظاہر کرتا ہے یہ بات ہر گز پیدا نہیں ہو سکتی۔ مرزا غالب کا اردو شعر ہے۔

پنہاں تھا دام سخت قریب آشیانہ کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

اس شعر میں بھی اس بات کو کہ آدمی نے جہاں ہوش سنبھالا اور تعلقاتِ دنیوی میں پھنسا بطور تمثیل کے بیان کیا ہے اور اس عنوان سے بیان کی خوبی ظاہر ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہر حال شاعر کا یہ ضروری فرض ہے کہ مجاز و استعارہ و کنایہ و تمثیل وغیرہ کے استعمال پر قدرت حاصل کرے تا کہ ہر روکھے پھیکے مضمون کو آب و تاب کے ساتھ بیان کر سکے لیکن استعارہ وغیرہ میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مجازی معنی فہم سے بعید نہ ہوں ورنہ شعر چیستاں اور معمہ بن جائے گا۔ مثلاً شاہ نصیر کہتے ہیں۔

چرائی چادرِ مہتاب میکش نے جیحوں پر
کٹورا صبح دوڑانے لگا خورشید گردوں پر

چادرِ مہتاب چرانے سے چاندنی کا لطف اٹھانا اور اس سے ممتع ہونا مراد رکھا ہے جو نہایت بعید الفہم ہے۔ جن لوگوں نے استعارہ وغیرہ کے استعمال میں مذکورہ بالا اصول کو ملحوظ نہیں رکھا انکا کلام ہمیشہ نا مقبول اور متروک رہا ہے، جیسے بدر چاچی کے قصائد جن میں نہایت بعید الفہم استعارے استعمال کیے گئے ہیں، کہیں آہوئے مادہ سے آفتاب مراد لی ہے، کہیں اشکِ زلیخا سے کواکب، کہیں اعمیٰ سے برجِ عقرب، کہیں برگِ بنفشہ سے حروف، کہیں آبِ خشک سے پیالہ، کہیں پنج دریا سے پانچ انگلیاں اور اسی طرح کہیں زمین سے آسمان اور کہیں آسمان سے زمین۔

اردو میں شعراء نے استعارہ کا استعمال زیادہ تر محاورات کے ضمن میں کیا ہے کیونکہ اکثر محاورات کی بنیاد اگر غور کر کے دیکھا جائے تو استعارہ پر ہوتی ہے، مثلاً جی اچٹنا، اس میں جی کو ان چیزوں سے تشبیہ دی گئی ہے جو منقسم اور متفرق ہو سکے۔ آنکھ کھلنا، دل کملانا، غصہ بھڑکنا، کام چلنا اور اسی طرح ہزار ہا محاورے استعارہ پر مبنی ہیں اور یہ وہ استعارے ہیں جن میں شعرا کی کارستانی کو کچھ دخل نہیں ہے بلکہ نیچرل طور پر بغیر فکر اور تصنع کے اہلِ زبان کے منہ سے وقتاً فوقتاً نکل کر زبان کا جزو بن گئے ہیں۔ کنایہ بھی زیادہ تر محاورات ہی کے ضمن میں استعمال ہوا ہے۔

مگر اردو شعراء نے تمثیل کو بہت کم برتا ہے، البتہ نئی طرز کی شاعری میں اسکا کچھ کچھ رواج ہو چلا ہے اور ضرورت نے لوگوں کو اسکے برتنے پر مجبور کیا ہے۔ چونکہ اس موقع پر استعارہ کی تقریب سے محاورہ کا ذکر آ گیا ہے اسلیئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ محاورہ کے متعلق چند ضروری باتیں بیان کی جائیں۔

محاورہ لغت میں مطلقاً بات چیت کرنے کو کہتے ہیں، خواہ وہ بات چیت اہلِ زبان کے روز مرہ کے موافق ہو خواہ مخالف، لیکن اصطلاح میں خاص اہلِ زبان کے روز مرہ یا بول چال یا اسلوبِ بیان کا نام محاورہ ہے پس ضرور ہے کہ محاورہ تقریباً ہمیشہ دو یا دو سے زیادہ الفاظ میں پایا جائے کیونکہ مفرد الفاظ کو روز مرہ یا بول چال یا اسلوبِ بیان نہیں کہا جاتا، بخلاف لغت کے کہ اس کا اطلاق ہمیشہ مفرد الفاظ پر یا ایسے الفاظ پر جو بمنزلہ ( 18 ) مفرد کے ہیں کیا جاتا ہے۔ مثلاً پانچ اور سات دو لفظ ہیں جن پر الگ الگ لغت کا اطلاق ہو سکتا ہے مگر ان میں سے ہر ایک کو محاورہ نہیں کہا جائے گا بلکہ دونوں کو ملا کر پان سات بولیں گے تب محاورہ کہا جائے گا۔ یہ بھی ضرور ہے کہ وہ ترکیب جس پر محاورہ کا اطلاق کیا جائے قیاسی نہ ہو بلکہ معلوم ہو کہ اہلِ زبان اسکو اسطرح استعمال کرتے ہیں مثلاً اگر پان سات یا آٹھ سات پر قیاس کر کے چھ آٹھ یا آٹھ چھ یا سات نو بولا جائے گا تو اسکو محاورہ نہیں کہنے کے کیونکہ اہلِ زبان کبھی اسطرح نہیں بولتے۔ یا مثلاً بلا ناغہ پر قیاس کر کے اسکی جگہ بے ناغہ، ہر روز کی جگہ ہر دن، روز روز کی جگہ دن دن یا آئے دن کی جگہ آئے روز بولنا، ان میں سے کسی کو محاورہ نہیں کہا جائے گا کیونکہ یہ الفاظ اسطرح اہلِ زبان کی بول چال میں کبھی نہیں آئے۔

کبھی محاورہ کا اطلاق خاص کر ان افعال پر کیا جاتا ہے جو کسی اسم کے ساتھ مل کر اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں جیسے اتارنا، اسکے حقیقی معنی کسی جسم کو اوپر سے نیچے لانے کے ہیں مثلاً گھوڑے سے سوار کو اتارنا، کھونٹی سے کپڑا اتارنا، کوٹھے پر سے پلنگ اتارنا لیکن ان میں سے کسی محاورہ کے یہ دوسرے معنی صادق نہیں آتے کیونکہ ان سب مثالوں میں اتارنا اپنے حقیقی معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ ہاں نقشہ اتارنا، نقل اتارنا، دل سے اتارنا، دل میں اتارنا، ہاتھ اتارنا، پہنچا اتارنا یہ سب محاورے کہلائیں گے کیونکہ ان سب مثالوں میں اتارنے کا اطلاق مجازی معنوں پر کیا گیا ہے۔ یا مثلاً کھانا، اسکے حقیقی معنی کسی چیز کو دانتوں سے چبا کر یا بغیر چپائے حلق سے اتارنے کے ہیں مثلاً روٹی کھانا، دوا کھانا، افیم کھانا وغیرہ لیکن ان میں سے کسی کو دوسرے معنی کے لحاظ سے محاورہ نہیں کہا جائے گا کیونکہ ان سب مثالوں میں کھانا اپنے حقیقی معنوں میں مستعمل ہوا ہے، غم کھانا، قسم کھانا، دھوکا کھانا، پچھاڑیں کھانا، ٹھوکر کھانا، یہ سب محاورے کہلائیں گے۔


.
 

محمد وارث

لائبریرین
محاورہ کے جو معنی ہم نے اول بیان کئے ہیں وہ عام یعنی دوسرے معنوں کو بھی شامل ہیں، لیکن دوسرے معنی پہلے معنی سے خاص ہیں، پس جس ترکیب کو پہلے معنوں کے لحاظ سے محاورہ کہا جائے گا اسکو دوسرے معنوں کے لحاظ سے بھی محاورہ کہا جا سکتا ہے لیکن یہ ضرور نہیں کہ جس ترکیب کو پہلے معنوں کے لحاظ سے محاورہ کہا جائے اس کو دوسرے معنوں کے لحاظ سے بھی محاورہ کہا جائے۔ مثلاً تین پانچ کرنا (یعنی لڑنا جھگڑنا) اس کو دونوں معنوں کے لحاظ سے محاورہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ ترکیب اہلِ زبان کی بول چال کے بھی موافق ہے اور نیز اس میں "تین پانچ" کا لفظ اپنے حقیقی معنوں میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں بولا گیا ہے۔ لیکن روٹی کھانا یا میوہ کھانا یا پان سات یا دس بارہ وغیرہ پہلے معنوں کے لحاظ سے محاورہ قرار پا سکتے ہیں نہ دوسرے معنوں کے لحاظ سے کیونکر یہ تمام ترکیبیں اہلِ زبان کی بول چال کے موافق تو ضرور ہیں مگر ان میں کوئی لفظ مجازی معنوں میں مستعمل نہیں ہوا۔ آئندہ ہم ان دونوں معنوں میں تمیز کے لئے پہلی قسم کے محاورہ پر روزمرہ کا اور دوسری قسم پر محاورہ کا اطلاق کریں گے۔

روزمرہ اور محاورہ میں من حیثیت الاستعمال ایک اور بھی فرق ہے۔ روزمرہ کی پابندی جہاں تک ممکن ہو تقریر و تحریر اور نظم و نثر میں ضروری سمجھی گئی ہے یہاں تک کہ کلام میں جس قدر روزمرہ کی پابندی کم ہوگی اسی قدر وہ فصاحت کے درجہ سے ساقط سمجھا جائے گا۔ مثلاً "کلکتہ سے پشاور تک سات آٹھ کوس پر ایک پختہ سرا اور ایک کوس پر مینار بنا ہوا تھا۔" یہ جملہ روزمرہ کے موافق نہیں ہے بلکہ اسکی جگہ یوں ہونا چاہیئے۔ "کلکتہ سے پشاور تک سات سات، آٹھ آٹھ کوس پر ایک ایک پختہ سرا اور کوس کوس بھر پر ایک ایک مینار بنا ہوا تھا۔" یا مثلاً "آج تک ان سے ملنے کا موقع نہ ملا۔" یہاں 'نہ ملا' کی جگہ 'نہیں ملا' چاہیئے۔ یا "وہ خاوند کے مرنے سے در گور ہوئی۔" یہاں زندہ در گور ہو گئی چاہیئے۔

"سو گئے جب بخت تب بیدار آنکھیں ہوگئیں"

یہاں ہو گئیں کہ جگہ ہوئیں چاہیئے۔

"دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ہوا"

یہاں کیا ہو گیا چاہیئے۔

الغرض نظم ہو یا نثر دونوں میں روزمرہ کی پابندی جہاں تک ممکن ہو نہایت ضروری ہے مگر محاورہ کا ایسا حال نہیں ہے۔ محاورہ اگر عمدہ طور سے باندھا جائے تو بلا شبہ پست شعر کو بلند اور بلند کو بلند تر کر دیتا ہے، لیکن ہر شعر میں محاورہ باندھنا ضروری نہیں بلکہ ممکن ہے کہ شعر بغیر محاورہ کے بھی فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ درجہ پر واقع ہو اور ممکن ہے کہ ایک پست اور ادنیٰ درجہ کے شعر میں بے تمیزی سے کوئی لطیف و پاکیزہ محاورہ رکھ دیا گیا ہو۔ ایک مشہور شاعر کا شعر ہے۔

گوہرِ اشک سے لبریز ہے سارا دامن
آج کل دامنِ دولت ہے ہمارا دامن

اس شعر میں کوئی محاورہ نہیں باندھا گیا۔ باوجود اسکے شعر تعریف کے قابل ہے، دوسری جگہ یہی شاعر کہتا ہے۔

اس کا خط دیکھتے ہیں جب صیاد
طوطے ہاتھوں کے اڑا کرتے ہیں

اس شعر میں نہ کوئی خوبی ہے نہ مضمون ہے، صرف ایک محاورہ بندھا ہوا ہے اور وہ بھی روزمرہ کے خلاف یعنی اڑ جاتے ہیں کہ جگہ اڑا کرتے ہیں۔ محاورہ کو شعر میں ایسا سمجھنا چاہیئے جیسا کوئی خوبصورت عضو بدن انسان میں اور روزمرہ کو ایسا جاننا چاہیئے جیسے تناسبِ اعضا بدنِ انسان میں۔ جسطرح بغیر تناسب اعضا کے کسی خاص عضو کی خوبصورتی سے حسن بشری کامل نہیں سمجا جا سکتا اسی طرح بغیر روزمرہ کی پابندی کے محض محاورات کے جا و بے جا رکھ دینے سے شعر میں کچھ خوبی پیدا نہیں ہو سکتی۔

شعر کی معنوی خوبی کا اندازہ اہل زبان اور غیر اہل زبان دونوں کر سکتے ہیں، لیکن لفظی خوبیوں کا اندازہ کرنا صرف اہل زبان کا حصہ ہے۔ اہل زبان عموماً اس شعر کو زیادہ پسند کرتے ہیں جس میں روزمرہ کا لحاظ کیا گیا ہو اور اگر روزمرہ کے ساتھ محاورہ کی چاشنی بھی ہو تو وہ انکو اور زیادہ مزا دیتی ہے مگر عوام اور خواص کی پسند میں بہت بڑا فرق ہے۔ عوام میں محاورہ یا روزمرہ کے ہر شعر کو سنکر سر دھننے لگتے ہیں اگرچہ شعر کا مضمون کیسا ہی مبتذل یا رکیک اور سبک ہو اور اگرچہ محاورہ کیسا ہی بے سلیقگی سے باندھا گیا ہو۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جن اسلوبوں میں وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں جب انہیں اسلوبوں میں وزن کی کھچاوٹ اور قافیوں کا تناسب دیکھتے ہیں اور معمولی بات چیت کو شعر کے سانچے میں ڈھلا ہوا پاتے ہیں تو انکو ایک نوع کا تعجب اور تعجب کے ساتھ خوشی پیدا ہوتی ہے۔ مگر خواص کی پسند اور تعجب کے لیے صرف روزمرہ کا وزن کے سانچے میں ڈھال دینا کافی نہیں ہے، انکے نزدیک محض تک بندی اور معمولی بات چیت کو موزوں کر دینا کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے، ہاں اگر وہ دیکھتے ہیں کہ ایک سنجیدہ مضمون معمولی روزمرہ میں کمال خوبی اور صفائی اور بے تکلفی سے ادا کیا گیا ہے تو بلا شبہ انکو بے انتہا تعجب اور حیرت ہوتی ہے کیونکہ فن شعر میں اور خاص کر اردو زبان میں کوئی بات اس سے زیادہ مشکل نہیں ہے کہ عمدہ مضمون معمولی بول چال اور روزمرہ میں پورا پورا ادا ہو جائے۔ جن لوگوں نے روزمرہ کی پابندی کو سب چیزوں سے مقدم سمجھا ہے انکے کلام کو بھی نکتہ چینی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو جا بجا فروگزاشتیں اور کسریں نظر آتی ہیں۔ پس جب کوئی شعر باوجود مضمون کی متانت اور سنجیدگی کے روزمرہ اور محاورہ میں بھی پورا اتر جائے تو لا محالہ اس سے ہر صاحب ذوق کو تعجب ہوتا ہے۔ مثلاً میر انشاءاللہ خاں اس بات کو کہ افسردگی کے عالم میں خوشی اور عیش و عشرت کی چھیڑ چھاڑ سخت ناگوار گزرتی ہے اسطرح بیان کرتے ہیں۔

نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں

یا مثلاً مرزا غالب اتنے بڑے مضمون کو (کہ میں جو معشوق کے مکان پر پہنچا تو اول تو خاموش کھڑا رہا، پاسبان نے سائل سمجھ کر کچھ نہ کہا، جب معشوق کے دیکھنے کا حد سے زیادہ شوق ہوا اور صبر کی طاقت نہ رہی تو پاسبان کے قدموں پر گر پڑا، اب اس نے جانا کہ اسکا مطلب کچھ اور ہے، اسنے میرے ساتھ وہ سلوک کیا کہ نا گفتہ بہ ہے) دو مصرعوں میں اسطرح بیان کرتے ہیں۔

گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئے
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے

یا مرزا غالب کہتے ہیں

رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے
دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے

قاعدہ ہے کہ جب تک انسان عشق و محبت کو چھپاتا ہے اسکو ہر ایک بات کا پاس و لحاظ رہتا ہے لیکن جب راز فاش ہو جاتا ہے تو پھر اسکو کسی سے شرم اور حجاب نہیں رہتا۔ اس شعر میں یہی مضمون ادا کیا گیا ہے، دھویا جانا، بے حیا اور بے لحاظ ہو جانے کو کہتے ہیں اور پاک آزاد اور شہدے کو کہتے ہیں۔ رونے کے لیے دھویا جانا اور دھوئے جانے کے لیے پاک ہونا، باوجود اتنی لفظی مناسبتوں کے اور محاورہ کی نشست اور روزمرہ کی صفائی کے مضمون پورا پورا ادا ہو گیا ہے اور کوئی بات ان نیچرل نہیں ہے۔ یا مثلاً مومن خاں کہتے ہیں۔

کل تم جو بزمِ غیر میں آنکھیں چُرا گئے
کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے

آنکھیں چرانا، اغماض اور بے توجہی کرنا ہے، کھویا جانا شرمندہ اور کھسیانا ہونا ، پا جانا، سمجھ جانا یا تاڑ جانا، معنی ظاہر ہیں۔ اس شعر کا مضمون بھی بالکل نیچرل ہے اور محاورات کی نشست اور روزمرہ کی صفائی قابلِ تعریف ہے۔ اگرچہ اسکا ماخذ مرزا غالب کا یہ شعر ہے۔

گرچہ ہے طرزِ تغافل پردہ دارِ رازِ عشق
پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے

مگر مومن کے ہاں زیادہ صفائی سے بندھا ہے، اسی قبیل کے یہ اشعار ہیں۔

ذوق
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

آتش
چال ہے مجھ ناتواں کی مرغ بسمل کی تڑپ
ہر قدم پر ہے یقیں یاں رہ گیا واں رہ گیا

میر
جو بے اختیاری یہی ہے تو قاصد
ہمیں آ کے اس کے قدم دیکھتے ہیں

شیفتہ
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ
اک آگ سی ہے سینہ کے اندر لگی ہوئی

داغ
یوں وفا اٹھ گئی زمانے سے
کبھی گویا جہاں میں تھی ہی نہیں

الغرض روزمرہ کی پابندی تمام اصنافِ سخن میں عموماً اور غزل میں خصوصاً جہاں تک ہو سکے نہایت ضروری چیز ہے، اور محاورہ بھی بشرطیکہ سلیقے سے باندھا جائے شعر کا زیور ہے۔ چونکہ یہ بحث بہت طولانی ہے اس لیے ہم اس کو یہیں ختم کر دیتے ہیں، اگر موقع ملا تو پھر کبھی اس مضمون پر علیحدہ اپنے خیالات ظاہر کریں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ج- صنائع بدائع پر کلام کی بنیاد رکھنے سے اکثر معنی کا سر رشتہ ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اور کلام میں بالکل اثر باقی نہیں رہتا، کیونکہ مخاطب کے دل میں یہ خیال گزرتا ہے کہ شاعر نے شعر کی ترتیب میں تصنع کیا ہے اور الفاظ میں اپنی کاریگری ظاہر کرنی چاہی ہے، اور بالکل شعر کی تاثیر کو زائل کر دیتا ہے۔ پس صنائع کی پابندی اور التزام سے تمام اصناف سخن اور عموماً اور غزل میں خصوصاً ہمیشہ بچنا چاہیے۔ صنعتیں جیسا کہ علم بلاغت میں مفصل مذکور ہے، دو قسم کی قرار دی گئی ہیں۔ ایک معنوی جیسے طباق، مشاکلہ، عکس، توریہ، حسن تعلیل، تجاہل عارفانہ، تعجب وغیرہ، دوسری لفظی ہیں جیسے تجنیس، ردّالعجز، علی الصدور، منقوط، رقطا، خیفا، مقطع، موصل، ترصیع وغیرہ۔ پہلی قسم کی کل صنعتیں اور دوسری قسم کی خاص خاص صنائع عربی اور فارسی کے تمام نامور شعرا نے برتی ہیں مگر کبھی انکا التزام نہیں کیا اور کلام کی بنیاد ان پر نہیں رکھی۔ ہاں اگر حسنِ اتفاق سے کبھی کوئی ایسا مناسب لفظ سوجھ گیا جس سے معنی مقصود میں خلل واقع نہ ہو اور بیان میں زیادہ حسن پیدا ہو جائے تو ایسے موقع کو بلا شبہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ جیسے خواجہ حافظ کہتے ہیں۔

بزیرِ دلق ملمع کمند ہا دارند
دراز دستیِ ایں کوتہ آستیناں بیں

اس شعر میں دراز اور کوتہ کے لحاظ سے صنعتِ طباق اور دست و آستین کے اعتبار سے مراعات النظیر ہے مگر دونوں صنعتیں ایسی بے تکلف اور مناسب طور پر واقع ہوئی ہیں کہ معنی مقصود میں بجائے اس کے کہ مخل ہوں اور زیادہ قوت پیدا کر دی ہے اور شعر کا حسن دوبالا کر دیا ہے۔ یا جیسے میر تقی کہتے ہیں۔

یہ جو چشمِ پُر آب ہیں دونوں
ایک خانہ خراب ہیں دونوں

اس میں ایک لفظ ایسا بے ساختہ اور بے تکلف واقع ہوا ہے کہ گویا شاعر نے اسکا قصد ہی نہیں کیا۔ یہاں ایک کے معنی ہیں نہایت، بے مثل، لا جواب، چھٹا ہوا، جیسے کہتے ہیں وہ ایک بد ذات ہے یا وہ لوگ ایک شورہ پشت ہیں۔ دونوں کے مقابلہ میں ایک کے لفظ نے آ کر شعر کو نہایت بلند کر دیا ہے ورنہ نفسِ مضمون کے لحاظ سے اسکی کچھ بھی حقیقت نہ تھی۔ یہاں فی الحقیقت محض مراعات النظیر نے اس شعر میں اعلٰی درجہ کی بلاغت پیدا نہیں کی بلکہ اس بات نے پیدا کی ہے کہ دو چیزوں پر لفظ ایک کا اطلاق ایسی خوبی اور بے تکلفی سے ہوا ہے کہ اس سے بہتر تصور میں نہیں آ سکتا ورنہ ایک شعر یا ایک مصرعہ میں ایک اور دو کا جمع کر دینا کہ اسی کا نام مراعات النظیر ہے کوئی بڑی بات نہ تھی۔

حسنِ مطلع

ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں

اس شعر میں بھی آگ اور پانی کا مقابلہ نہایت بے تکلفی سے واقع ہوا ہے پس اگر اس قسم کی مناسبتِ لفظی اتفاق سے شعر میں پیدا ہو جائے تو یہ شاعری کا زیور ہے مگر قصداً ایسی رعایتوں کی جستجو کرنے سے آخر کار شاعری شاعری نہیں رہتی بلکہ مسخرا پن ہو جاتا ہے، ایک مشہور شاعر فرماتے ہیں۔

مرغِ دل کو توڑے گی بلی ترے دروازہ کی
رختِ تن کو کترے گا چوہا تمھاری ناک کا

چونکہ بلی کے لیے چوہا لانا واجبات سے تھا اس لیے جب اصلی چوہا نہ ملا ناچار ناک ہی کے چوہے پر قناعت کی۔

کھانے کی اصل خوبی یہ ہے کہ لذیذ ہو، مفید ہو، جزو بدن بننے کے لائق ہو، بو باس اور رنگ روپ بھی اچھا رکھتا ہو، اگر باوجود ان سب باتوں کے چینی کے بانسوں میں کھایا جائے تو اور بھی بہتر ہے، یہی حال شعر کا ہے، شعر کی اصلی خوبی یہ ہے کہ نیچرل ہو، مؤثر ہو، لفظاً اور معناً سانچے میں ڈھلا ہو، اگر اسکے ساتھ کوئی لفظی رعایت بھی اس میں پائی جائے تو اور بہتر ہے ورنہ اسکی کچھ ضرورت نہیں۔

ہر زبان میں صنعتِ الفاظ (اگر ہمارا قیاس غلط نہیں ہے) متقدمین کی نسبت متاخرین کے کلام میں زیادہ پاؤ گے، کیونکہ اکثر متاخرین انہیں مضامین کو دہراتے ہیں جو ان سے پہلے قدماء باندھ گئے ہیں۔ پس تاوقتیکہ وہ صنعتِ الفاظ کو کام میں نہ لائیں، انہیں معمولی باتوں میں کوئی کرشمہ نہیں دکھا سکتے۔

متاخرین میں صنائع کا خیال زیادہ تر اس سبب سے پیدا ہوتا ہے کہ قدماء کے کلام میں کچھ اشعار ایسے پائے جاتے ہیں جن میں باوجود حسنِ معنی کے اتفاق سے کوئی لفظی مناسبت بھی پیدا ہو گئی ہے، چونکہ وہ اشعار پسند کیئے جاتے ہیں بعض لوگ غلطی سے خیال کر لیتے ہیں کہ انکی مقبولیت کا سبب وہی لفظی مناسبت ہے اور بس۔ اس وہ بے تکلف انہیں صنعتوں کو اپنے کلام میں جا و بے جا استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں اور جو اصل خوبی قدماء کے کلام میں ہوتی ہے اسکا مطلق خیال نہیں کرتے۔ اسکی مثال بعینہ ایسی ہے کہ ایک جامہ زیب اور حسین آدمی جس پر کوئی لباس بدنما نہیں معلوم ہوتا اتفاق سے بنت کی ٹوپی یا کار چوبی انگرکھا پہن کر نکلے اور لوگ اسکی ریس سے ویسے ہی کپڑے پہننے لگیں اور یہ نہ سمجھیں کہ اسکی زیبائش کا اصلی سبب حسن و جمال ہے نہ بنت کی ٹوپی اور کار چوبی انگرکھا۔

صنعت لفظ نے ہماری شاعری بلکہ تمام لٹریچر کو بے انتہا صدمہ پہنچایا ہے جسکی تفصیل کے لیے ایک جدا کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جسطرح عجائب قدرت کی تعظیم ہوتے ہوتے آخر کار دنیا میں عجائب پرستی ہونے لگی اور خدا کا خیال جاتا رہا اسی طرح ہمارے لٹریچر میں صنائع لفظی کی لے بڑھتے بڑھتے آخر کار محض الفاظ پرستی باقی رہ گئی اور معنی کا خیال جاتا رہا۔ صنائع و بدائع کی پابندی دلی کے شعرا میں عموماً بہت کم پائی جاتی ہے البتہ لکھنؤ کے بعض شعرا نے اسکا سخت پابندی کے ساتھ التزام کیا ہے اور بمقابلہ اہلِ دلی، لکھنؤ کے عام شعرا بھی رعایت لفظی کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ لیکن پھر بھی فارسی کے مقابلہ میں اردو شاعری اس آت سے بہت محفوظ ہے۔ جہاں تک ہم کو معلوم ہے وہ بیہودہ لفظی صنعتیں جن میں معنی سے بالکل قطع نطر کر لی جاتی ہے اور محض ایک لفظوں کا گورکھ دھندا بنایا جاتا ہے جیسے منقوط، غیر منقوط، رقطا، خیفا، ذوقافیتین، ذو بحرین وغیرہ وغیرہ، اردو شاعری میں کمیاب ہیں۔ مگر بجائے صنائع لفظی اردو غزل میں ایک اور روگ پیدا ہو گیا ہے جو صنائع سے بھی زیادہ معنی کا خون کرنے والا ہے۔
 
Top