پیاسا صحرا
محفلین
مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کی رقم کا
حقا! کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا
اُس مسندِ عزت پہ کہ تو جلوہ نما ہے
کیا تاب؟ گزر ہووے تعقل کے قدم کا
بستے ہیں ترے سایہ میں سب شیخ و برہمن
آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیر و حرم کا
ہے خوف اگر جی میں تو ہے تیرے غضب سے
اور دل میں بھروسا ہے تو ہے تیرے کرم کا
مانندِ حباب آنکھ تو اے درد! کھلی تھی
کھینچا نہ پر اس بحر میں عرصہ کوئی دم کا
خواجہ میر درد
حقا! کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا
اُس مسندِ عزت پہ کہ تو جلوہ نما ہے
کیا تاب؟ گزر ہووے تعقل کے قدم کا
بستے ہیں ترے سایہ میں سب شیخ و برہمن
آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیر و حرم کا
ہے خوف اگر جی میں تو ہے تیرے غضب سے
اور دل میں بھروسا ہے تو ہے تیرے کرم کا
مانندِ حباب آنکھ تو اے درد! کھلی تھی
کھینچا نہ پر اس بحر میں عرصہ کوئی دم کا
خواجہ میر درد