کاشفی
محفلین
غزل
(ساغر نظامی)
مقسوم دل کروں خلش نشتر کو میں
اب کے تری نظر سے لڑادوں نظر کو میں
میرا مذاق عشق زمانے پہ کھل گیا
اب کیا کہوں چھپا نہ سکا چشم تر کو میں
خاموشیء جمود میں پھونکونگا صورِ حشر
تیری خبر سنا کے دلِ بے خبر کو میں
یا آرزو نے عمرِ محبت سنوار دی
یا دستِ آرزو سے گیا عمر بھر کو میں
کتنی گداز بخش ہے صبحِ تجلیات
پاتا ہوں ہر نفس میں نسیمِ سحر کو میں
گر یہ نشاطِ چشم ہے اے بیخودی مگر
کس دھوپ میں سکھاؤنگا دامانِ تر کو میں
ساغر یہ ہے شباب میں معیار مے کشی
آنکھوں سے کھنچتا ہوں شرابِ نظر کو میں