مقفل ہی سہی لیکن نظر کے اسم ِ اعظم سے : سیدہ سارا غزل ہاشمی

مقفل ہی سہی لیکن نظر کے اسم ِ اعظم سے​
کھلے ہیں وقت کے زنداں میں دروازے کئی ہم سے​
طلوعِ صبح کے منظر تراشے ہیں نگاہوں نے​
ہیولے ظلمتوں کے ہر طرف پھرتے ہیں برہم سے​
ہم اپنے جسم کی سرحد سے بھی آگے نکل آئے​
کبھی رکتی نہیں ہے بوئے گل دیوارِ شبنم سے​
پریشانی مرے چاروں طرف ہے گرد کی صورت​
بیابانِ بلا میں حشر برپا ہے مرے دم سے​
یہ میری ذات کا صحرا نہ گم کردے کہیں مجھ کو​
عجب ڈر ہے کہ خود کو دیکھتی ہوں چشمِ عالم سے​
ہری شاخوں سے لپٹی ہے پرانے موسموں کی باس​
ابھی فارغ نہیں ہوں میں گئے لمحوں کے ماتم سے​
یہ آسیبِ تمنا روح کے اجڑے مکانوں سے​
بدل کر صورتیں اب جھانکتے ہیں روزنِ غم سے​
غزل اس عہد میں ایسے دلوں کے خشک ہیں چشمے​
بدن کی پیاس بھی بجھتی نہیں ہے آنکھ کے نم سے​
 
واوووو سارا غزل صاحبہ۔
یہ میری ذات کا صحرا نہ گم کردے کہیں مجھ کو
عجب ڈر ہے کہ خود کو دیکھتی ہوں چشمِ عالم سے
کیا کہہ دیا آپ نے۔ دل کی ترجمانی آپ کی زبانی۔
 
واوووو سارا غزل صاحبہ۔
یہ میری ذات کا صحرا نہ گم کردے کہیں مجھ کو
عجب ڈر ہے کہ خود کو دیکھتی ہوں چشمِ عالم سے
کیا کہہ دیا آپ نے۔ دل کی ترجمانی آپ کی زبانی۔
شکرگزار ہوں پیارے شعیب بھیا، اللہ سوہنا سدا سلامت رکھے
 

یاسر اقبال

محفلین
غزل بلاشبہ ایک حد تک تازہ اور پختہ ہے ، یہ دو خوبیاں آج کی غزل کے رجحان میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ سارہ غزل کا نام شاید ادبی جرہدوں میں کہیں دیکھا ہے بہرحال یہ غزل متاثر کن ہے۔ اگر چہ غزل میں جس قدر تازگی اور انفرادیت ہے شاعرہ اس سے کہیں زیادہ صلاحیت رکھتی نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر مضامین کے حوالے سےغزل کا پرانا Paraphernalia یعنی سازو سامان بدلنے کی ضرورت ہے۔ میں یہ تقاضا ہر غزل سے نہیں کر سکتا مجھے لگتا ہے کہ یہ غزل اس قابل ہے کہ ایسے تقاضے کی متحمل ہو سکے۔

ہم اپنے جسم کی سرحد سے بھی آگے نکل آئے
کبھی رکتی نہیں ہے بوئے گل دیوارِ شبنم سے

ہری شاخوں سے لپٹی ہے پرانے موسموں کی باس
ابھی فارغ نہیں ہوں میں گئے لمحوں کے ماتم سے

یہ دو شعر ادعائے شاعرانہ poetic assertion اور شاعرانہ دلیل poetic proof کی عمدہ مثالیں ہیں اور ایسی خوبیوں کا اتمام ہمیں غالب میں جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے۔ بہت لطف دیا غزل نے ۔ بہت شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
بہت عمدہ، یہی دو اشعار میں نے بھی کاپی کر لئے تھے یہاں پیسٹ کرنے کے لئے جو یاسر نے اوپر پوسٹ کئے ہیں۔
 
غزل بلاشبہ ایک حد تک تازہ اور پختہ ہے ، یہ دو خوبیاں آج کی غزل کے رجحان میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ سارہ غزل کا نام شاید ادبی جرہدوں میں کہیں دیکھا ہے بہرحال یہ غزل متاثر کن ہے۔ اگر چہ غزل میں جس قدر تازگی اور انفرادیت ہے شاعرہ اس سے کہیں زیادہ صلاحیت رکھتی نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر مضامین کے حوالے سےغزل کا پرانا Paraphernalia یعنی سازو سامان بدلنے کی ضرورت ہے۔ میں یہ تقاضا ہر غزل سے نہیں کر سکتا مجھے لگتا ہے کہ یہ غزل اس قابل ہے کہ ایسے تقاضے کی متحمل ہو سکے۔

ہم اپنے جسم کی سرحد سے بھی آگے نکل آئے
کبھی رکتی نہیں ہے بوئے گل دیوارِ شبنم سے

ہری شاخوں سے لپٹی ہے پرانے موسموں کی باس
ابھی فارغ نہیں ہوں میں گئے لمحوں کے ماتم سے

یہ دو شعر ادعائے شاعرانہ poetic assertion اور شاعرانہ دلیل poetic proof کی عمدہ مثالیں ہیں اور ایسی خوبیوں کا اتمام ہمیں غالب میں جا بجا دیکھنے کو ملتا ہے۔ بہت لطف دیا غزل نے ۔ بہت شکریہ
ایک ادنی سی شاعرہ بہن کے لئے آپ جیسے عالمِ سخن کی حوصلہ افزائی ایک تمغہ سے کم نہیں۔ ڈھیروں دعائیں آپ کے لئے۔ سدا سلامت رہیں
 
بہت عمدہ، یہی دو اشعار میں نے بھی کاپی کر لئے تھے یہاں پیسٹ کرنے کے لئے جو یاسر نے اوپر پوسٹ کئے ہیں۔
بابا جانی سلام و آداب۔ بیحد شکریہ آپ کی شخصیت محبت ہی نہیں عقیدت کے لائق ہے۔ہمیشہ آپ کی صحت اور تندرستی کے لئے دعا گو ہوں ۔ اللہ سوہنا آپ کا دست شفقت ہم سب کے سر پر سدا سلامت رکھے
 
بہت ہی عمدہ رہی. یوں محسوس ہوا کے غالب کے بعد اقبال یا فیض کی جدید غزل کا امتیاز فی الوقت دنیاء ادب سے وقتی طور کے لئے خارج ہو گیا.
اپنے آپ میں کھودینے والی غزل تھی. خاص طور پے چند اشعار تو سبحان اللہ.

اللہ زور قلم کرے اور زیادہ.
 
تعریف کرنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کر رہے کیوں کہ اپنی پسند کا اظہار ریٹنگ کے ذریعہ کر دیا ہے۔ اب یہاں موجود کسی بھی اہل علم سے یہ جاننا ہے کہ "آنکھ کے نم سے" اس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے؟
 
تعریف کرنے کی ضرورت ہی نہیں محسوس کر رہے کیوں کہ اپنی پسند کا اظہار ریٹنگ کے ذریعہ کر دیا ہے۔ اب یہاں موجود کسی بھی اہل علم سے یہ جاننا ہے کہ "آنکھ کے نم سے" اس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے؟

میرے علم کے مطابق بالکل ہوسکتا ہے کیونکہ یہ صفت ہونے کے ساتھ ساتھ اسم بھی ہے۔
یعنی
نمی = نم۔
 
Top