مق طع ات

La Alma

لائبریرین
مق طع ات
مق طع ات ...یہ چند بے معنی حروف ہیں جو کسی انجانی سوچ كے تحت درج ہو گئے ہیں. گو یہ تا حال فہم اور شعور کا باضابطہ حصہ نہیں لیکن کتنی ہی مہمل سوچوں کا آلہءِ اظہار ہیں. ایسے کتنے ہی نا قابل فہم افکار و خیالات جو مروجہ علومِ زباں کی بدولت بیان ہونے سے رہ گئے ہیں لیکن نظامِ قدرت كے حساب کی رُو سے ممکنات كے کسی بھی سیٹ کا لازمی حصہ ہیں۔ جیسے صفر سے نو تک كے چند اعداد کی ترتیب كے رد و بدل سے سینکڑوں ممکنہ سیٹ وجود میں آتے ہیں. فکر و عمل كے سارے مقطعات ازلوں سے مختلف زمانوں کا ورثہ رہے ہیں. سوچ کی اِس وراثت میں ہر دور کا حصّہ ثبت ہے. خیال سے ممکن تک كے سفر میں شوقِ جستجو راہ کا سنگِ میل ہے، نشانِ منزل ہے. وقت کی رفتار كے سنگ سنگ ایک دور کا خواب دوسرے دور میں حقیقت بن کر داخل ہوجاتا ہے
محبت اور احساس كے کتنے ہی مقطعات فطرتِ انسانی میں بکھرے پڑے ہیں جو ابھی نام و شناخت نہیں پا سکے صرف ان چند خانوں تک محدود ہیں جن پر رائج علوم اور دستور و قوانین کی مہر لگی ہے. امید ہے کھوج اور ارتقاء كے اِس سفر میں آج كے یہ بے نام احساسات اور جذبے آنے والے کل میں وقت كے کسی پڑاؤ پر اپنی شناخت پا ہی لیں گے . ممکن کا یہ خواب کل کسی صدی میں کسی ذی روح كے لیے حقیقت ہو گا. ٹھکرائے ہوئے مہمل احساسات جن کو کہیں پناہ نہیں ملتی ، ممکنات كے کسی سیٹ میں اپنا ٹھکانہ معلوم کر ہی لیں گے. کیونکہ اِس عام فہم و فراست سے پرے بھی شعور کا ایک جہاں ہے جس کو دریافت ہونا ہے. رائج علم تو ایک در ہے جس پر لگا ممکنات اور امکانات کا بند قفل "ا ل م" کی کنجی سے ہی کھل گیا تھا
 

اکمل زیدی

محفلین
بڑے اچھا اختتام مگر سٹارٹنگ بڑی عجیب سی لگی کہ " مقطعات ...یہ چند بے معنی حروف ہیں جو کسی انجانی سوچ كے تحت درج ہو گئے ہیں. گو یہ تا حال فہم اور شعور کا باضابطہ حصہ نہیں لیکن کتنی ہی مہمل سوچوں کا آلہءِ اظہار ہیں" کلام الہی کے اسرار پر اس طرح لب کشائی سمجھ سے بالا تر ہے چاہے استعارہ کے طور پر ہی کیوں نہ ہو . ..
 

La Alma

لائبریرین
بڑے اچھا اختتام مگر سٹارٹنگ بڑی عجیب سی لگی کہ " مقطعات ...یہ چند بے معنی حروف ہیں جو کسی انجانی سوچ كے تحت درج ہو گئے ہیں. گو یہ تا حال فہم اور شعور کا باضابطہ حصہ نہیں لیکن کتنی ہی مہمل سوچوں کا آلہءِ اظہار ہیں" کلام الہی کے اسرار پر اس طرح لب کشائی سمجھ سے بالا تر ہے چاہے استعارہ کے طور پر ہی کیوں نہ ہو . ..
آپ کو مغالطہ ہوا ہے. یہ تحریر جس فریکوینسی پہ لکھی گئی ہے آپ شاید اس پہ پڑھ نہیں پائے . یہاں انسانی ذات کے مہمل افکار کا بیان ہے . موضوع ِ بحث قرانی حروفِ مقطعات نہیں۔ آخری سطر صرف اس طرز ِفکر کو رہنمائی دکھانے کے لیے لکھی گئی ہے .
 

اکمل زیدی

محفلین
آپ کو مغالطہ ہوا ہے. یہ تحریر جس فریکوینسی پہ لکھی گئی ہے آپ شاید اس پہ پڑھ نہیں پائے . یہاں انسانی ذات کے مہمل افکار کا بیان ہے . موضوع ِ بحث قرانی حروفِ مقطعات نہیں۔ آخری سطر صرف اس طرز ِفکر کو رہنمائی دکھانے کے لیے لکھی گئی ہے .
میڈم . . سہی کہہ رہی ہونگی آپ مگر . جو چیز جس فہم سے معروف ہو وہی آتی ہے ذہن میں ...آپ کسی کے سامنے صرف یہ ورڈ کہیں اس کے ذہن میں فورا سے پیشتر یہی ائے گا جو میں نے کہا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مق طع ات
مق طع ات ...یہ چند بے معنی حروف ہیں جو کسی انجانی سوچ كے تحت درج ہو گئے ہیں. گو یہ تا حال فہم اور شعور کا باضابطہ حصہ نہیں لیکن کتنی ہی مہمل سوچوں کا آلہءِ اظہار ہیں. ایسے کتنے ہی نا قابل فہم افکار و خیالات جو مروجہ علومِ زباں کی بدولت بیان ہونے سے رہ گئے ہیں لیکن نظامِ قدرت كے حساب کی رُو سے ممکنات كے کسی بھی سیٹ کا لازمی حصہ ہیں۔ جیسے صفر سے نو تک كے چند اعداد کی ترتیب كے رد و بدل سے سینکڑوں ممکنہ سیٹ وجود میں آتے ہیں. فکر و عمل كے سارے مقطعات ازلوں سے مختلف زمانوں کا ورثہ رہے ہیں. سوچ کی اِس وراثت میں ہر دور کا حصّہ ثبت ہے. خیال سے ممکن تک كے سفر میں شوقِ جستجو راہ کا سنگِ میل ہے، نشانِ منزل ہے. وقت کی رفتار كے سنگ سنگ ایک دور کا خواب دوسرے دور میں حقیقت بن کر داخل ہوجاتا ہے
محبت اور احساس كے کتنے ہی مقطعات فطرتِ انسانی میں بکھرے پڑے ہیں جو ابھی نام و شناخت نہیں پا سکے صرف ان چند خانوں تک محدود ہیں جن پر رائج علوم اور دستور و قوانین کی مہر لگی ہے. امید ہے کھوج اور ارتقاء كے اِس سفر میں آج كے یہ بے نام احساسات اور جذبے آنے والے کل میں وقت كے کسی پڑاؤ پر اپنی شناخت پا ہی لیں گے . ممکن کا یہ خواب کل کسی صدی میں کسی ذی روح كے لیے حقیقت ہو گا. ٹھکرائے ہوئے مہمل احساسات جن کو کہیں پناہ نہیں ملتی ، ممکنات كے کسی سیٹ میں اپنا ٹھکانہ معلوم کر ہی لیں گے. کیونکہ اِس عام فہم و فراست سے پرے بھی شعور کا ایک جہاں ہے جس کو دریافت ہونا ہے. رائج علم تو ایک در ہے جس پر لگا ممکنات اور امکانات کا بند قفل "ا ل م" کی کنجی سے ہی کھل گیا تھا
حروف مقطعات سے اس کا ربط کوئی ڈھکا چھپا نہیں لگتا، کیونکہ جیسے ہی ہم اس عنوان کو دیکھتے ہیں ہمارے ذہن میں قرآن پاک کے وہ حروف مقطعات ہی آتے ہیں۔ اسے ہماری ذہنی الجھن کہہ لیجئے۔
خیر، یہ تو عنوان کی بات ہے، آپ کو اس سے اختلاف کا حق ہے کیونکہ اول تو آپ نے مقطعات کو مق طع ات لکھا، دوم اس میں حروف کا لفظ شامل نہیں کیا۔
ناقابل فہم خیالات کی جو بات آپ نے کی ہے، کہ وہ اپنی جگہ خود ڈھونڈتے ہیں، اس سے ملتا جلتا غالب کا ایک فلسفہ تھا کہ :
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا

احساسات جن کا کوئی نام نہیں ہوتا، ان کی ایک تصویر ہوتی ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
جیسے آپ کے لیے@خالد محمود چوہدری کا "ا ل م الف لام میم" مہمل تھا، میرے لیے آپ کی "ا ل م" کی کنجی ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
مق طع ات
مق طع ات ...یہ چند بے معنی حروف ہیں جو کسی انجانی سوچ كے تحت درج ہو گئے ہیں. گو یہ تا حال فہم اور شعور کا باضابطہ حصہ نہیں لیکن کتنی ہی مہمل سوچوں کا آلہءِ اظہار ہیں. ایسے کتنے ہی نا قابل فہم افکار و خیالات جو مروجہ علومِ زباں کی بدولت بیان ہونے سے رہ گئے ہیں لیکن نظامِ قدرت كے حساب کی رُو سے ممکنات كے کسی بھی سیٹ کا لازمی حصہ ہیں۔ جیسے صفر سے نو تک كے چند اعداد کی ترتیب كے رد و بدل سے سینکڑوں ممکنہ سیٹ وجود میں آتے ہیں. فکر و عمل كے سارے مقطعات ازلوں سے مختلف زمانوں کا ورثہ رہے ہیں. سوچ کی اِس وراثت میں ہر دور کا حصّہ ثبت ہے. خیال سے ممکن تک كے سفر میں شوقِ جستجو راہ کا سنگِ میل ہے، نشانِ منزل ہے. وقت کی رفتار كے سنگ سنگ ایک دور کا خواب دوسرے دور میں حقیقت بن کر داخل ہوجاتا ہے
محبت اور احساس كے کتنے ہی مقطعات فطرتِ انسانی میں بکھرے پڑے ہیں جو ابھی نام و شناخت نہیں پا سکے صرف ان چند خانوں تک محدود ہیں جن پر رائج علوم اور دستور و قوانین کی مہر لگی ہے. امید ہے کھوج اور ارتقاء كے اِس سفر میں آج كے یہ بے نام احساسات اور جذبے آنے والے کل میں وقت كے کسی پڑاؤ پر اپنی شناخت پا ہی لیں گے . ممکن کا یہ خواب کل کسی صدی میں کسی ذی روح كے لیے حقیقت ہو گا. ٹھکرائے ہوئے مہمل احساسات جن کو کہیں پناہ نہیں ملتی ، ممکنات كے کسی سیٹ میں اپنا ٹھکانہ معلوم کر ہی لیں گے. کیونکہ اِس عام فہم و فراست سے پرے بھی شعور کا ایک جہاں ہے جس کو دریافت ہونا ہے. رائج علم تو ایک در ہے جس پر لگا ممکنات اور امکانات کا بند قفل "ا ل م" کی کنجی سے ہی کھل گیا تھا

اس تحریر میں 1 سے 9 تک اعداد کی سمجھ نہیں آئی کہ مصنفہ نے کیوں استعمال کیے ۔ کیونکہ ان کی سمجھ آتی ہے اور ان سے بننے والے سیٹس کی بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک در پر کھڑی ہیں یا در کھل گیا ہے؟
 

La Alma

لائبریرین
اس تحریر میں 1 سے 9 تک اعداد کی سمجھ نہیں آئی کہ مصنفہ نے کیوں استعمال کیے ۔
سعدیہ، بنیادی نیچرل نمبرز یہی ہوتے ہیں اس لیے ان اعداد کا ذکر کیا .
ایک در پر کھڑی ہیں یا در کھل گیا ہے؟
در تو الحمدللہ ایک ہی ہے اور یہ کبھی کسی پر بند نہیں ہوا. ہمیشہ کھلا ہی ملتا ہے .
 

نور وجدان

لائبریرین
سعدیہ، بنیادی نیچرل نمبرز یہی ہوتے ہیں اس لیے ان اعداد کا ذکر کیا .

در تو الحمدللہ ایک ہی ہے اور یہ کبھی کسی پر بند نہیں ہوا. ہمیشہ کھلا ہی ملتا ہے .

حروف مق طع ات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے معانی نمبر ہیں مگر 1 سے 9 کے اعداد کے معانی دنیا جانتی ہے ۔۔

در تو کھل گیا ا ل م کی کنجی سے مگر دریافت کا در بند نہیں ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ''اسے دریافت ہونا ہے'' آپ دریافت کرچکی ہیں یا دریافت کی سعی میں ہیں
 

La Alma

لائبریرین
حروف مق طع ات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے معانی نمبر ہیں مگر 1 سے 9 کے اعداد کے معانی دنیا جانتی ہے ۔۔
ان کا حوالہ تو Probability & Possibility کے ضمن میں بطور تمثیل دیا ہے .
در تو کھل گیا ا ل م کی کنجی سے مگر دریافت کا در بند نہیں ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ''اسے دریافت ہونا ہے'' آپ دریافت کرچکی ہیں یا دریافت کی سعی میں ہیں
اجتماعی سطح پہ زمانے کے ساتھ دریافت کے ارتقائی مراحل میں ہوں .
 
Top