فرخ منظور
لائبریرین
ملائم ہو گئیں دل پر برہ کی ساعتیں کڑیاں
پہر کٹنے لگے اُن بن جنہوں بن کاٹتیں گھڑیاں
گُتھی نکلی ہیں لخت دل سے تارِ اشک کی لڑیاں
یہ آنکھیں کیوں مرے جی کے گلے کی ہار ہو پڑیاں
ہنوز آئینہ گرد اس غم سے اپنے منہ کو مَلتا ہے
خدا جانے کہ کیا کیا صورتیں اس خاک میں گَڑیاں
گرہ لاکھوں ہی غنچوں کی صبا اک دم میں کھولے ہے
نہ سلجھیں تجھ سے اے آہِ سحر اس دل کی گل جھڑیاں
دوانہ اُن لٹوں کا ہوں قسم ہے روحِ مجنوں کی
نہ مارو چوبِ گل مجھ کو بغیر از بید کی چھڑیاں
چھری تلوار یک دیگر گل و بلبل ہیں گلشن میں
تمہاری، سچ کہو دونوں میں کس سے انکھڑیاں لڑیاں
کُھلائے گو کہ شانے سے تم اپنی زلف کے عقدے
نہ سمجھے یہ کسی دل میںہزاروں ہیں گرہ پڑیاں
تسلی اس دوانے کی نہ ہو جھولی کے پتھروں سے
اگر سودا کو چھیڑا ہے تو لڑکو مول لو پھڑیاں
(مرزا رفیع سودا)
پہر کٹنے لگے اُن بن جنہوں بن کاٹتیں گھڑیاں
گُتھی نکلی ہیں لخت دل سے تارِ اشک کی لڑیاں
یہ آنکھیں کیوں مرے جی کے گلے کی ہار ہو پڑیاں
ہنوز آئینہ گرد اس غم سے اپنے منہ کو مَلتا ہے
خدا جانے کہ کیا کیا صورتیں اس خاک میں گَڑیاں
گرہ لاکھوں ہی غنچوں کی صبا اک دم میں کھولے ہے
نہ سلجھیں تجھ سے اے آہِ سحر اس دل کی گل جھڑیاں
دوانہ اُن لٹوں کا ہوں قسم ہے روحِ مجنوں کی
نہ مارو چوبِ گل مجھ کو بغیر از بید کی چھڑیاں
چھری تلوار یک دیگر گل و بلبل ہیں گلشن میں
تمہاری، سچ کہو دونوں میں کس سے انکھڑیاں لڑیاں
کُھلائے گو کہ شانے سے تم اپنی زلف کے عقدے
نہ سمجھے یہ کسی دل میںہزاروں ہیں گرہ پڑیاں
تسلی اس دوانے کی نہ ہو جھولی کے پتھروں سے
اگر سودا کو چھیڑا ہے تو لڑکو مول لو پھڑیاں
(مرزا رفیع سودا)