کچھ درد جمعہ کے لیے بچا رکھیے۔ ابھی آپ کو بہت رونا اور چلانا ہے۔
جمعہ کو کیا ہونے والا ہے؟
ملالہ کی کم عمری میں مغرب میں تعلیم حاصل کرنے پر اعتراض کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ قائداعظم کی کیا عمر تھی جو وہ مغرب گئے اور انہوں نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟ نیز "سر" محمد اقبال نے کہاں سے تعلیم حاصل کی اور سر کا خطاب کن کو ملتا ہے؟
نوبل پرائز کا اعلان ہونا ہے۔
کسی شخصیت کے قائد اعظم اور علامہ اقبال سے موازنے ہونے لگیں تو وزیرِ اعظم بننے کے امکانات کافی روشن ہو جاتے ہیں۔
ابھی تک تو وڈیرے، جاگیردار اور صنعت کار ہی وزیر اعظم بنے ہیں۔ ایک عام گھرانے کی خاتون بھی بن جائے تو کیا برا ہے؟
یہ نوبل صاحب وہی ہیں نا جنہوں نے ڈائنامائٹ سے دنیا کو روشناس کرایا تھا۔
ہمارے لئے تو ایک ہی بات ہے۔ یہ بھی امریکہ کے پروردہ اور وہ بھی۔
خیر ایسی بات بھی نہیں ہے۔ بھٹو جاگیردار تھا، امریکہ سے تعلیم حاصل کی لیکن امریکہ کا پروردہ نہیں تھا، بلکہ امریکہ کے ہاتھوں مارا گیا۔
جی وہی ہیں۔ بعد میں کفارہ ادا کرنے لئے نوبل پرائز کا اجراء کیا جو سائنس، لٹریچر، اکنومکس اور پیس کے لئے بڑا کام کرنے والوں کو ہر سال دیا جاتا ہے۔
اب آپ نے خود ہی بتا دیا کہ امریکہ کن لوگوں کو "پروموٹ" کرتا ہے اور کن کو موت کے گھاٹ اُتار دیتا ہے۔ اور یہ کہ امریکہ ہمارے معاملات میں اثر انداز ہونا اپنا حق سمجھتا ہے۔
ملالہ اگر خواتین کی تعلیم کے لئے کوشش کر رہی ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن امریکہ اور اُس کے حواریوں کی طرف سے "ایکسٹرا آرڈینری پروٹوکول" اور اس سے پچھلا منظر نامہ ایک کہانی ضرور سُناتا ہے اگر کوئی نہ سُننا چاہے تو اُس کی مرضی ہے۔
پھر ملالہ پاکستان کی واحد پڑھی لکھی لڑکی تو نہیں ہے۔تعلیم کے لئے اور بھی لوگ پاکستان میں کام کرتے رہے ہیں لیکن امریکہ ہر کسی پر اتنا مہربان نہیں ہوتا۔
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
بہرحال ہر کسی کا اپنا سوچنے کا انداز ہے اور ہر کوئی اپنے خیالات میں آزاد ہے۔ لیکن کسی اچھی چیز کو میں کم از کم اس لئے برا نہیں کہوں گا کہ امریکی لوگ اس کو اچھا کہہ رہے ہیں۔ میں اس قسم کی اندھی نفرت پر یقین نہیں رکھتا۔
اگر آپ یقین کریں تو اتنا ضرور کہوں گا کہ ملالہ سے مجھے کوئی پرخاش نہیں ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ جو لوگ آپ سے مختلف انداز میں سوچ رہے ہیں وہ متعصب ہی ہوں۔ پھر اس قسم کی سوچ کا ایک پاکستانی کے ذہن میں آجانا بعید از قیاس بھی نہیں ہے کہ وہ عموماً امریکہ اور اُن کے حواریوں کو اپنا دوست نہیں سمجھتا۔
سوال یہ ہے کہ ملالہ کو امریکہ کے حواریوں میں کیسے شامل کر دیا؟ اور اگر اس لئے شامل کیا کہ وہ طالبان مخالف ہے تو پھر تو اکثر پاکستانی طالبان کے حواری ہوئے کیونکہ وہ امریکہ مخالف ہیں؟
ویسے بھی تاج برطانیہ سے سر کا اعزاز لینے والے تو ہمارے قومی شاعر ہیں تو کسی ملک سے اعزاز حاصل کرنے میں کوئی خرابی نہیں۔ اگر ملالہ کو نوبل انعام ملتا ہے تو اس سے پاکستان کا نام روشن ہوگا۔ بس ایک پاکستانی ہی ہیں جو کسی پاکستانی کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں باقی دنیا میں تو ایسا نہیں ہوتا۔
اگرچہ اوبامہ کو نوبل انعام دئیے جانے کے بعد کم از کم میری نظر میں اس کی پہلی والی اہمیت نہیں رہی۔ لیکن مسلمان باحجاب خاتون توکل کارمان کو بھی تو اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ سائنس کے کسی مضمون میں کسی پاکستانی کو نوبل انعام ملتا تو مجھے بہت زیادہ خوشی ہوتی۔
میرے پروفیسر سے ایک مرتبہ میتھس کی بات ہو رہی تھی کہ میں انجنرئنگ کا سٹوڈنٹ ہوں اور جو کام پروفیسر نے مجھے دیا تھا اس میں ریاضی کا کافی استعمال تھا۔ میں نے کہا کہ میں اس کو غور سے پڑھتا ہوں پھر بتاوں گا کہ مجھے کتنا وقت لگے گا۔ تو پروفیسر نے کہا کہ تم پاکستانی تو میتھس میں اچھے ہوتے ہو، میں نے وجہ پوچھی کہ آپ ایسا کیوں سمجھتے ہیں تو کہا کہ ایک پاکستانی کو نوبل انعام مل چکا ہے۔ اس وقت مجھے بہت خوشی ہوئی کہ پاکستانیوں کے بارے میں ان کے اچھے خیالات ہیں۔