سید ذیشان
محفلین
نہیں بھئی میں نے پول نہیں کروا رکھا ۔ میں خود پاکستان میں موجود ہوں اور مختلف علاقوں کے لوگوں کی آراء کا ہر وقت جائزہ لیتا رہتا ہوں۔
کیا آپ خیبر پختونخوا بھی گئے ہیں لوگوں کی آرا معلوم کرنے؟
نہیں بھئی میں نے پول نہیں کروا رکھا ۔ میں خود پاکستان میں موجود ہوں اور مختلف علاقوں کے لوگوں کی آراء کا ہر وقت جائزہ لیتا رہتا ہوں۔
جی نہیں۔ لیکن میرا خیبر پختونخواہ اور افغانستان کے لوگوں سے کافی میل جول رہتا ہے جو بزنس کے سلسلے میں لاہور آتے ہیں اور اکثریت اس واقعے کے بارے میں تحفظات رکھتی ہے۔کیا آپ خیبر پختونخوا بھی گئے ہیں لوگوں کی آرا معلوم کرنے؟
جی نہیں۔ لیکن میرا خیبر پختونخواہ اور افغانستان کے لوگوں سے کافی میل جول رہتا ہے جو بزنس کے سلسلے میں لاہور آتے ہیں اور اکثریت اس واقعے کے بارے میں تحفظات رکھتی ہے۔
جی بالکل حقیقت جاننے کے لئے تاریخ بھی کافی مدد کر دیا کرتی ہے کبھی کبھار۔بحرحال میں پچھلے دنوں پشاور میں تھا اور کافی لوگوں سے اس پر بات ہوئی ہے۔ لیکن مجھے آپ سے مختلف تاثر ملا۔
خیر اس سے فرق بھی کوئی نہیں پڑتا کہ لوگ کیا سوچتے ہیں کسی واقعے کے بارے میں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حقیقت کیا ہے۔
جی بالکل حقیقت جاننے کے لئے تاریخ بھی کافی مدد کر دیا کرتی ہے کبھی کبھار۔
تاریخ کی مدد کی ضرورت گزرے واقعات کے لئے کم بلکہ رواں حالات کو سمجھنے کے لئے زیادہ ہوتی ہے۔ جو لمحہ گزر گیا وہ تاریخ بن گیا اور 2009 بھی تاریخ ہی کا ایک حصہ ہے۔تاریخ کی مدد کی اسوقت ضرورت ہوتی ہے جب واقعے کو گزرے ہوئے بہت عرصہ گزر گیا ہو۔ یہاں تو ملالہ بھی زندہ ہے (اگرچہ بہت سے لوگ اس کے برعکس چاہتے ہوں گے) اور طالبان بھی زندہ ہیں۔ طالبان تو مان چکے ہیں کہ ہم نے ہی حملہ کیا ہے۔ اور ملالہ کو بھی طالبان کی سفاکی کا اندازہ تھا جس کا ذکر وہ کئی دفعہ 2009 کی ڈاکیومینٹری میں کر چکی ہے۔
اس کہانی کے کردار ابھی حیات ہیں۔ اور میں دعا کرتا ہوں کہ ملالہ زندہ رہے اور تعلیم کا خواب پورا کرے۔ باقی آپ کو پورا حق ہے کہ آپ اسے کسی گیم کا مہرا سمجھیں یا پھر ایک معصوم بچی جو کہ قاتلانہ حملے سے بچ گئی۔تاریخ کی مدد کی ضرورت گزرے واقعات کے لئے کم بلکہ رواں حالات کو سمجھنے کے لئے زیادہ ہوتی ہے۔ جو لمحہ گزر گیا وہ تاریخ بن گیا اور 2009 بھی تاریخ ہی کا ایک حصہ ہے۔
zeesh مشترکات بھی ہیں ہمارے درمیان اس لئے میں اس واقعاتی اختلاف کو ان پر فوقیت نہیں دیتا ۔ خوش رہیں۔اس کہانی کے کردار ابھی حیات ہیں۔ اور میں دعا کرتا ہوں کہ ملالہ زندہ رہے اور تعلیم کا خواب پورا کرے۔ باقی آپ کو پورا حق ہے کہ آپ اسے کسی گیم کا مہرا سمجھیں یا پھر ایک معصوم بچی جو کہ قاتلانہ حملے سے بچ گئی۔
جی بالکل ہیں، اور میں اتنا تنگ نظر نہیں کہ اختلاف کو برداشت نہ کر سکوں۔ آپ بھی خوش رہیںzeesh مشترکات بھی ہیں ہمارے درمیان اس لئے میں اس واقعاتی اختلاف کو ان پر فوقیت نہیں دیتا ۔ خوش رہیں۔
عزیزم zeesh !
یہ حقیقتہے کہ میں عموما ایسی بحث میں نہیں الجھتا میں بحث کر کے دوست کھونانہیں چاہتا ملالہ معصومبچیابھی سے نہ جانےکن کا نادنستہ آلہ کار بن رہی ہےچند سوالات میرے ذہن میں اٹھتے ہیں۱۔ کیا ملالہ نے کوئی مشنری تعلیم ادارہ کھولا تھا۲۔ کیا ملالہ ایک ایسی معلمہ تھی جو انتہائی نامساعد حالات میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہی تھی۳۔کیا ملالہ ایک ایسی طالبہ تھی جو حافظ آباد کی بی کام کی طالبہ کی طرح دن بھر معذور باپ کے ساتھ چائے کے سٹال پر کام کرتی ہے اور تعلیم بھی حاصل کرتی ہے۴۔کیا وہ پہلی طالبہ ہے جو دہشت گردی کا نشانہ بنی۵۔ تعلیم کے شعبے میں ملالہ کی خدمات کیا ہیں۶۔مغربی میڈیا نے ملالہ کو کن خدمات کی وجہ سے یہ مقام دیا ہےکیا کسی بچے کو اس کی ماں سے بھی زیادہ کوئی چاہ سکتا ہے اور اگر کوئ دوست نما دشمن بچے کو ماں سے زیادہ چاہے تو ماں کے کیا احساسات ہوتے ہیں کیا ماں بچے کی دشمن ہوتی ہے ۔
مجھے غائبانہ ٹیگ کا شکریہ۔پھر معرکہ شروع کرواتے ہیں۔۔۔
ذرا بقیہ شہسواروں کو بلالوں۔۔
کیا مسئلہ ہے بھئی کیوں بلایا ؟پھر معرکہ شروع کرواتے ہیں۔۔۔
ذرا بقیہ شہسواروں کو بلالوں۔۔