ملالہ کا اقوام متحدہ اور عالمی رہنماؤں سے کشمیر میں امن کیلیے اقدامات کا مطالبہ

جاسم محمد

محفلین
ملالہ کا اقوام متحدہ اور عالمی رہنماؤں سے کشمیر میں امن کیلیے اقدامات کا مطالبہ
ویب ڈیسک ہفتہ 14 ستمبر 2019
1808742-malala-1568471536-148-640x480.jpg

کشمیری دنیا سے کٹے ہوئے ہیں اور اپنی آواز دنیا تک پہنچانے سے قاصرہیں، ملالہ یوسفزئی (فوٹو: فائل)

نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ میں یو این جنرل اسمبلی سمیت باقی لیڈروں سے کشمیر میں امن کے لیے کام کرنے کا مطالبہ کرتی ہوں۔

اپنے ٹوئٹر بیان میں ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران میں نے کشمیر میں رہنے اور کام کرنے والوں کے ساتھ بات چیت کی، جن میں صحافی، انسانی حقوق کے وکلا اورطالب علم شامل ہیں، میں کشمیرمیں رہنے والی لڑکیوں سے براہ راست ان کے خیالات سننا چاہتی تھی مگر مواصلاتی پابندیوں کے باعث کشمیریوں کے حالات کے بارے میں مواد اکٹھا کرنے میں بہت محنت کرنا پڑی۔

ملالہ یوسف زئی نے لکھا کہ کشمیری دنیا سے کٹے ہوئے ہیں اور اپنی آواز دنیا تک پہنچانے سے قاصر ہیں، تین کشمیری لڑکیوں کے مطابق مقبوضہ کشمیرمیں مکمل خاموشی ہے، ان کے پاس کشمیرکی صورتحال کے بارے میں جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں، لڑکیوں کے مطابق ہم صرف کھڑکیوں کے باہر فوجیوں کے بوٹوں کی آواز سن سکتے تھے، یہ بہت ہی خوفناک تھا۔

بچیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم ملالہ یوسف زئی نے لکھا کہ مجھے بچوں سمیت 4000 افراد کو حراست میں لیے جانے سے متعلق رپورٹس اور طالب علموں کے 40 دنوں سے زائد سے اسکول نہ جانے پر سخت تشویش ہے، میں یو این جنرل اسمبلی سمیت باقی لیڈروں سے کشمیر میں امن کے لیے کام کرنے کا مطالبہ کرتی ہوں، کشمیریوں کی آواز کو سنا جائے اور بچوں کے بحفاظت اسکول واپسی میں مدد کی جائے۔
 
جاسمن آپو دیکھ لیجئے اور اُس لکھاری کو بھی بتا دیجئے کہ ملالہ بول رہی ہے اور کُھل کر بول رہی شاید موجودہ حکومت اور کشمیر کے نام پر زمینیں بٹورنے والوں سے بہتر ہی بولی ہے۔۔۔
 

جان

محفلین
قوم کو صرف بولنے والے پسند ہیں، کام کرنے والے نہیں اس لیے یہ اسی تاک میں رہتی ہے کہ کون بولا، کون نہیں بولا، کون کیوں نہیں بولا، کون کس وقت بولا۔ ہمارے ہاں حال میں ہیروز کا انتخاب زبان دیکھ کر کیا جاتا ہے اس کا عملی کام اور کردار دیکھ کر نہیں۔ شاید اسی لیے یہاں سیاسی اور مذہبی لوگ اکثر کام کی بنیاد پر نہیں بلکہ زبان کی بنیاد پر پسند کیے جاتے ہیں اور اسی لیے سائنسی اور ٹیکنیکل طبقہ ہمیشہ مزدور ہی رہتا ہے اور حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے مجھے ذاتی طور پر دو محرکات سمجھ آتے ہیں، ایک یہ ہے کہ شارٹ کٹ سے ہیرو بننے کا شوق، دوم وقت کو محض بول چال میں صرف کرنا کیونکہ جب آپ عملی طور پر کچھ نہیں کر رہے ہونگے تو پھر وقت گزارنے کے لیے گپ شپ اور زبان تک ہی محدود رہ جائیں گے۔ پہلے محرک کے پیچھے ہمارا وہ ماضی ہے جو ہمیں "ہیروازم" کی شکل میں تاریخ کی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے اور دوسرے محرک کے پیچھے ہمارا وہ مستقبل ہے جس کی بابت ہم کہتے ہیں کوئی ہیرو آئے گا اور امت مسلمہ کو یکجا کر کے پوری دنیا پہ حکومت کرے گا اور یوں پوری دنیا پہ اسلامی حکومت ہو گی، لہذا جب الٹیمیٹلی پوری دنیا پہ ہماری حکومت ہو گی تو مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ کہانی صرف انہی دو انتہاؤں کے درمیان ڈگمگا رہی ہے اور قوم حال میں جینے سے گھبرا رہی ہے۔ مستقبل میں کوئی ماضی جیسا ہیرو آئے گا اور ہماری جان چھڑائے گا۔ اللہ کریم ہمارے حال پہ رحم فرمائیں۔ آمین۔
 
آخری تدوین:

شکیب

محفلین
قوم کو صرف بولنے والے پسند ہیں، کام کرنے والے نہیں اس لیے یہ اسی تاک میں رہتی ہے کہ کون بولا، کون نہیں بولا، کون کیوں نہیں بولا، کون کس وقت بولا۔ ہمارے ہاں حال میں ہیروز کا انتخاب زبان دیکھ کر کیا جاتا ہے اس کا عملی کام اور کردار دیکھ کر نہیں۔ شاید اسی لیے یہاں سیاسی اور مذہبی لوگ اکثر کام کی بنیاد پر نہیں بلکہ زبان کی بنیاد پر پسند کیے جاتے ہیں اور اسی لیے سائنسی اور ٹیکنیکل طبقہ ہمیشہ مزدور ہی رہتا ہے اور حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے مجھے ذاتی طور پر دو محرکات سمجھ آتے ہیں، ایک یہ ہے کہ شارٹ کٹ سے ہیرو بننے کا شوق، دوم وقت کو محض بول چال میں صرف کرنا کیونکہ جب آپ عملی طور پر کچھ نہیں کر رہے ہونگے تو پھر وقت گزارنے کے لیے گپ شپ اور زبان تک ہی محدود رہ جائیں گے۔ پہلے محرک کے پیچھے ہمارا وہ ماضی ہے جو ہمیں "ہیروازم" کی شکل میں تاریخ کی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے اور دوسرے محرک کے پیچھے ہمارا وہ مستقبل ہے جس کی بابت ہم کہتے ہیں کوئی ہیرو آئے گا اور امت مسلمہ کو یکجا کر کے پوری دنیا پہ حکومت کرے گا اور یوں پوری دنیا پہ اسلامی حکومت ہو گی، لہذا جب الٹیمیٹلی پوری دنیا پہ ہماری حکومت ہو گی تو مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ کہانی صرف انہی دو انتہاؤں کے درمیان ڈگمگا رہی ہے اور قوم حال میں جینے سے گھبرا رہی ہے۔ مستقبل میں کوئی ماضی جیسا ہیرو آئے گا اور ہماری جان چھڑائے گا۔ اللہ کریم ہمارے حال پہ رحم فرمائیں۔ آمین۔
کیا بات ہے۔ زبردست!
ایک طرف "پدرم سلطان بود "
اور دوسری طرف "ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو"
 

سید ذیشان

محفلین
ہندوستان کے بھگت ملالہ کے اس بیان پر تلملائے ہوئے ہیں اور ملالہ پر سوشل میڈیا پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ اور اسے پاکستان نہ جا سکنے کے طعنے دئیے جا رہے ہیں۔ برکھا دت تک نے ایسا ٹویٹ کیا ہے:

 

سید ذیشان

محفلین
ملالہ پر پہلے پاکستانی شدت پسند ڈرامہ کرنے کا الزام لگاتے تھے اور اب یہی کام ہندوستانی شدت پسند کر رہے ہیں۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ شدت پسندی اور جہالت کے لئے بارڈر اور دین کی کوئی قید نہیں ہے۔
 

سین خے

محفلین
ابھی ٹوئٹر پر ملالہ کی کشمیر کی لڑی میں تبصرے پڑھے۔ زیادہ تر کو یہ اعتراض ہے کہ ملالہ نے فلاں فلاں مسئلے پر نہیں بولا تو کشمیر کے لئےکیوں بول رہی ہے۔

یعنی ہر کوئی صرف اپنی مرضی کی بات سننا چاہتا ہے چاہے بھارتی ہو یا پاکستانی۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
شاید اسی لیے یہاں سیاسی اور مذہبی لوگ اکثر کام کی بنیاد پر نہیں بلکہ زبان کی بنیاد پر پسند کیے جاتے ہیں اور اسی لیے سائنسی اور ٹیکنیکل طبقہ ہمیشہ مزدور ہی رہتا ہے اور حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
دل کی بات جان سے کہہ دی۔ زبردست!
 
Top