علامہ اقبال اور ملالہ
(محمد خلیل الرحمٰن)
کوئی جوان یہ کہتا تھا کل ملالہ سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جاکے ڈوب مرے
تو لڑکی ذات ہے اور یہ غرور کیا کہنا
یہ ’’گُل مکئی ‘‘ کی سمجھ ، یہ شعور کیا کہنا
خدا کی شان ہے ، ناچیز چیز بن بیٹھیں
بس ایک آن میں سب کو عزیز بن بیٹھیں
تری بساط ہے کیا طالبان کے آگے
زمیں ہے پست جوانوں کی شان کے آگے
جو بات اُن میں ہے تُجھ کو بھلا نصیب کہاں
کہ طالبان کہاں اور تو غریب کہاں
کہا یہ سُن کے ملالہ نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا
جو میں قوی نہیں اُن کی طرح تو کیا غم ہے
میں لڑکی ذات ہوں ، یہ بات بھی بھلا کم ہے
ہر ایک جان سے پیدا خدا کی قدرت ہے
میں پڑھنے لکھنے کی شیدا، یہ اُس کی حکمت ہے
تجھے زمانے میں جاہل بنادیا اُس نے
مجھے کتاب جو پڑھنا سِکھادیا اُس نے
مجھے پڑھانے کی ہمت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دِکھا مجھ کو
یہ اِک کِتاب ذرا کھول کر دِکھا مجھ کو
نہیں ہے نار نکمی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں