الشفاء
لائبریرین
ملامتی کسے کہتے ہیں۔۔۔
بعض صوفیہ کا ارشاد ہے کہ ملامتی وہ ہے جو خیر کو ظاہر نہ کرے اور اپنے شر کو بھی نہ چھپائے، اس کی توضیح یہ ہے کہ چونکہ ملامتی کے رگ و پے اخلاص سے لذت یاب ہوتے ہیں اور وہ سراپا صدق بن جاتا ہے اس لئے وہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے احوال و اعمال سے کسی کو خبر ہو (کہ یہ بات منافی اخلاص ہے)۔
شیخ ابو زرعہ طاہر بن ابوالفضل المقدمی نے اپنے شیوخ کی اسناد کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور اخلاص کیا ہے؟ سرور کائنات صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے اخلاص کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رب العزت جل شانہ سے اخلاص کے بارے میں معلوم کیا تو رب العزت نے فرمایا کہ وہ میرے رازوں میں سے ایک راز ہے جس کو میں اپنے بندوں میں سے اس شخص کے دل میں بطور امانت رکھ دیتا ہوں جس کو میں دوست رکھتا ہوں۔۔۔
پس ملامتہ کے لئے مزید اختصاص بس یہی ہے کہ وہ اخلاص کی راہ پر گامزن ہیں اور اخلاص سے متمسک ہیں، یہ لوگ اپنے احوال و اعمال کو لوگوں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی میں ان کو لطف آتا ہے۔ اپنے احوال کے چھپانے میں وہ اس قدر اہتمام کرتے ہیں کہ اگر ان کے احوال و اعمال کسی پر ظاہر ہو جائیں تو وہ اس طرح پریشان اور متوحش ہو جاتے ہیں جیسے ایک گنہگار اپنی معصیت کے انکشاف سے حیران و پریشان ہوتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
صوفی اور ملامتی کا فرق۔۔۔
پس ملامتی وقوع اخلاص اور اس کے محل وقوع کی اسی طرح قدرومنزلت کرتے ہیں اور اس کو اسی مضبوطی سے پکڑے رہتے ہیں۔ اور صوفی کی حالت یہ ہے کہ وہ اس کے اخلاص کو دیکھ کر اپنے اخلاص سے گم ہو جاتا ہے۔ صوفی ملامتی کے اخلاص کو دیکھ کر اپنے اخلاص کی حقیقت کو سمجھتا ہے اور پھر اس میں گم ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔
شیخ ابو عثمان المغربی نے صوفی اور ملامتی میں اس طرح فرق کیا ہے کہ ملامتی اپنے حال اور اپنے فعل میں مخلوق سے نکل گیا۔ اس کو مخلوق کی پروا نہیں۔ مخلوق کو ان سے الگ رکھتا ہے لیکن اپنے نفس کا ثبات رکھتا ہے (خود فراموش نہیں، اپنی ذات کو باقی رکھتا ہے) پس وہ مخلص ہے۔ اور صوفی اپنے حال اور اپنے نفس (اپنی ذات) کو بھی الگ کر دیتا ہے ، جس طرح اس نے دوسروں کو اس سے الگ کر دیا ہے۔ پس وہ بھی مخلص ہے لیکن مخلص خالص اور مخلص محض میں عظیم فرق ہے، مدعا یہ کہ ملامتی مخلص محض ہے اور صوفی مخلص خالص ہے۔۔۔بعض مشائخ کا ارشاد ہے کہ صدق اخلاص یہ ہے کہ صاحب اخلاص مخلوق کو دیکھنے کو فراموش کر کے ہمیشہ حق کی طرف نظر رکھے اور ملامتی مخلوق پر نظر رکھتا ہے اور پھر اپنے حال و اعمال کو اس سے چھپاتا ہے۔۔۔
ملامتی دو وجوہ سے اپنا حال چھپاتا ہے۔۔۔
ایک وجہ تو یہ کہ وہ چاہتا ہے کہ اسے اخلاص اور صدق کی تحقیق ہو جائے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کا یہ جذبہ اخفا اس وجہ سے ہے کہ غیرت کی وجہ سے وہ چاہتے ہیں کہ ان کا حال غیر سے پوشیدہ رہے۔ اس لئے کہ جو کوئی اپنے محبوب کے ساتھ خلوت نشین ہوتا ہے تو اس کو برا معلوم ہوتا ہے کہ غیر اس سے آگاہ ہو۔ جبکہ صدق محبت کی منزل پر تو اسے یہ بھی برا معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو یہ بھی معلوم ہو کہ وہ اپنے محبوب کو چاہتا ہے۔۔۔۔بہرحال ملامتی کا درجہ متصوف سے تو بلند ہے مگر صوفی سے کم ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام کےملامتی، صوفی۔۔۔
ایک گمراہ جماعت نے جو فتنہ اور گمراہی میں مبتلا ہے خود کو ملامتیہ کہنا شروع کر دیا اور انہوں نے صوفیوں کا لباس پہن لیا تاکہ ان کو صوفی سمجھا جائے۔ حالانکہ صوفیہ یا صوفیت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ یہ ان کی خود فریبی ہے۔ وہ اہل اباحت(رندوں) کا راستہ چلتے ہیں اور بزعم خود یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے قلوب اللہ تعالیٰ کے اخلاص سے بہرہ یاب ہو گئے اور اس وقت وہ کہنے لگتے ہیں کہ ہم نے اپنا مقصد پا لیا۔ یہی مقصود ہماری کامیابی ہے۔ رسومات شریعہ کی پابندی کرنا عوام اور کم خردوں کا کام ہے۔ جو تقلید اور اقتداء کی گھاٹی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان کے یہ اقوال عین زندقہ اور بے دینی ہیں۔ اس لئے کہ ہر وہ حقیقت جو شریعت کے خلاف ہے زندقہ ہے، یہ مبتلائے فریب لوگ اس حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ شریعت نام ہے حق عبودیت کا۔ اور جو اہل حقیقت بننا چاہتا ہے وہ ضرور حق بندگی میں وابستہ ہو گا۔۔۔
ہم یہ دیکھیں گے کہ کوئی شخص حدود شرعی میں سستی کر رہا ہے ، فرض نماز کو چھوڑے ہوئے ہے اور دوسرے فرائض کی ادائیگی سے بھی اغماض و اہمال برت رہا ہے تو ہم ایسے شخص کو رد کر دیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور نہ ہمارے نزدیک اس کا یہ دعویٰ قابل قبول ہو گا کہ اس کا باطن نیک اور درست ہے۔۔۔
کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو خود کو کبھی قلندریہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور کبھی ملامتیہ کے نام سے۔ ملامتیہ کے بارے میں ہم پچھلے اوراق میں لکھ چکے ہیں۔اس(ملامتیہ) فرقے کے لوگوں کا حال شرف کی فضیلت رکھتا ہے اور عزت مآب ہے، یہ فرقہ سنت نبوی کا متبع اور اخبار و آثار کا پابند ہے۔ اور ان میں اخلاص و صدق موجود ہے اور یہ ملامتی حضرات ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جائے کہ یہ شریعت سے بیگانہ ہیں۔۔۔
قلندریہ سے ایک ایسے گروہ کی طرف اشارہ ہے جن کےدلوں پر خوش دلی اور ۔ کے نشہ نے قبضہ کر لیا ہے۔(جن کے دلوں پر خوش دلی چھائی ہوئی ہے) یہاں تک کہ ان کی عادتیں بگڑ گئی ہیں، ہمہ وقت ترنگ میں رہتے ہیں، خوش دلی کے میدان میں پھرنے کی بدولت روزہ نماز سے غافل ہوتے ہیں بس کچھ فرائض ادا کر لیتے ہیں۔۔۔۔ اس طبقہ میں اکثر لوگ ایسے ہیں جنہوں نے صرف اجازت پر اکتفا کیا ہے(رخصت شرعیہ پر عمل کرتے ہیں) لیکن عزیمت کے حقائق کے طلبگار نہیں بنتے،،، بس وہ اسی مسرت اور خوشدلی کو کافی سمجھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کو ہے۔ اور ان کو مزید معرفت شناسی کی خواہش نہیں۔۔۔
صوفی کا طریقہ کار۔۔۔
صوفی ان دونوں (ملامتیہ و قلندریہ) سے الگ ہر چیز کو اس کے موقع و محل کے اعتبار سے دیکھتا اور عمل میں لاتا ہے، اپنے علم کے ذریعے اپنے اوقات کی تدبیر کرتا ہے، اس کا لائحہ عمل تیار کرتا ہے۔ خلق کو خلق کے مرتبہ پر رکھتا ہے اور امر حق کو اس کی جگہ پر۔ جس چیز کو چھپانا چاہیئے اس کو چھپاتا ہے اور جس کا ظاہر کرنا مناسب ہے اس کو ظاہر کرتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شریعت کی پابندی ہر حال میں ضروری ہے۔۔۔
میرے شیخ ضیاءالدین ابوالنجیب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیوخ کی اسناد کے ساتھ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بیان کیا ہے کہ وہ ایک شخص سے معرفت کا تذکرہ فرما رہے تھے تو اس شخص نے کہا کہ اہل تقویٰ اور عارف باللہ تو زہد و تقویٰ کو ترک کر کے اللہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت جنید نے فرمایا کہ یہ قول اس گروہ اور جماعت کہ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ نیک اعمال بجا لانے کی پابندی سے آزاد ہیں۔ اور میرے نزدیک یہ ایک بڑی بلا ہے، جو شخص چوری اور زنا کرے وہ ایسے شخص سے بہتر ہے جو ایسا کہتا ہے۔ اس میں کسی شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ عارف باللہ نے یہ اعمال اللہ ہی سے حاصل کئے ہیں اس سے یہ اعمال اس کو ملے ہیں اور انہی اعمال کے ساتھ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں گے، اگر میں ایک ہزار سال بھی زندہ رہوں تب بھی میں اعمال حسن سے ایک ذرہ کم نہیں کروں سوائے اس کے کہ کوئی رکاوٹ ان کی ادائیگی میں پیدا ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی اعمال میری معرفت کے مولد اور میرے حال کے لئے باعث تقویت ہیں۔۔۔
عقیدہ حلول۔۔۔
انہی گمراہوں میں سے ایک جماعت وہ ہے جو حلول کا عقیدہ رکھتی ہے، ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان میں حلول کرتا ہے۔ یہ حلول ہر ایک جسم میں نہیں ہوتا بلکہ وہ جن جسموں کو پسند فرماتا ہے ان میں حلول کرتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہ عقیدہ عیسائیوں کے لاہوت و ناسوت کے نظریہ سے ماخوذ ہے۔ اور اس سلسلے میں ان کو کچھ اشارے بعض صوفیہ کے ان کلمات سے ملے ہیں جو ان کی زبان سے غلبہ کی صورت میں نکل گئے ہیں۔ جیسے حلاج کا "اناالحق" کہنا یا جس طرح ابو یزید بسطامی کے قول "سبحانی" سے ظاہر ہوتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ہمارا عقیدہ ہو کہ ابو یزید کی زبان سے (سبحانی ما اعظم شانی) ایسے کلمات اپنی ذات کے بارے میں نکلے ہوں بلکہ بات یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کوئی قول نقل کیا ہو گا، ایسا ہی حلاج کے قول کے بارے میں قیاس کرنا چاہیئے۔۔۔
اگر ہم کو یہ یقین ہوتا کہ حلاج نے یہ قول ازروئے حلول بیان کیا ہے تو ہم منصور حلاج کو بھی رد کر دیتے بالکل اس طرح جیسے ہم نے اس فرقہ کی تردید کی۔ حضرت رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لئے ایک روشن شریعت لائے ہیں، اس شریعت عزا نے تمام نشیب و فراز ختم کردئے اور سب کو مستقیم کردیا۔ ہماری عقول نے ان چیزوں کی طرف ہماری رہنمائی کی ہے جن سے اللہ تعالیٰ کا متصف کرنا جائز ہے یا ناجائز ہے۔ اور اللہ تعالیٰ پاک ہے کہ کوئی شے اس میں حلول کرے یا وہ کسی چیز میں حلول کرے۔۔۔
بعض صوفیہ کا ارشاد ہے کہ ملامتی وہ ہے جو خیر کو ظاہر نہ کرے اور اپنے شر کو بھی نہ چھپائے، اس کی توضیح یہ ہے کہ چونکہ ملامتی کے رگ و پے اخلاص سے لذت یاب ہوتے ہیں اور وہ سراپا صدق بن جاتا ہے اس لئے وہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے احوال و اعمال سے کسی کو خبر ہو (کہ یہ بات منافی اخلاص ہے)۔
شیخ ابو زرعہ طاہر بن ابوالفضل المقدمی نے اپنے شیوخ کی اسناد کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور اخلاص کیا ہے؟ سرور کائنات صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے اخلاص کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رب العزت جل شانہ سے اخلاص کے بارے میں معلوم کیا تو رب العزت نے فرمایا کہ وہ میرے رازوں میں سے ایک راز ہے جس کو میں اپنے بندوں میں سے اس شخص کے دل میں بطور امانت رکھ دیتا ہوں جس کو میں دوست رکھتا ہوں۔۔۔
پس ملامتہ کے لئے مزید اختصاص بس یہی ہے کہ وہ اخلاص کی راہ پر گامزن ہیں اور اخلاص سے متمسک ہیں، یہ لوگ اپنے احوال و اعمال کو لوگوں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی میں ان کو لطف آتا ہے۔ اپنے احوال کے چھپانے میں وہ اس قدر اہتمام کرتے ہیں کہ اگر ان کے احوال و اعمال کسی پر ظاہر ہو جائیں تو وہ اس طرح پریشان اور متوحش ہو جاتے ہیں جیسے ایک گنہگار اپنی معصیت کے انکشاف سے حیران و پریشان ہوتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
صوفی اور ملامتی کا فرق۔۔۔
پس ملامتی وقوع اخلاص اور اس کے محل وقوع کی اسی طرح قدرومنزلت کرتے ہیں اور اس کو اسی مضبوطی سے پکڑے رہتے ہیں۔ اور صوفی کی حالت یہ ہے کہ وہ اس کے اخلاص کو دیکھ کر اپنے اخلاص سے گم ہو جاتا ہے۔ صوفی ملامتی کے اخلاص کو دیکھ کر اپنے اخلاص کی حقیقت کو سمجھتا ہے اور پھر اس میں گم ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔
شیخ ابو عثمان المغربی نے صوفی اور ملامتی میں اس طرح فرق کیا ہے کہ ملامتی اپنے حال اور اپنے فعل میں مخلوق سے نکل گیا۔ اس کو مخلوق کی پروا نہیں۔ مخلوق کو ان سے الگ رکھتا ہے لیکن اپنے نفس کا ثبات رکھتا ہے (خود فراموش نہیں، اپنی ذات کو باقی رکھتا ہے) پس وہ مخلص ہے۔ اور صوفی اپنے حال اور اپنے نفس (اپنی ذات) کو بھی الگ کر دیتا ہے ، جس طرح اس نے دوسروں کو اس سے الگ کر دیا ہے۔ پس وہ بھی مخلص ہے لیکن مخلص خالص اور مخلص محض میں عظیم فرق ہے، مدعا یہ کہ ملامتی مخلص محض ہے اور صوفی مخلص خالص ہے۔۔۔بعض مشائخ کا ارشاد ہے کہ صدق اخلاص یہ ہے کہ صاحب اخلاص مخلوق کو دیکھنے کو فراموش کر کے ہمیشہ حق کی طرف نظر رکھے اور ملامتی مخلوق پر نظر رکھتا ہے اور پھر اپنے حال و اعمال کو اس سے چھپاتا ہے۔۔۔
ملامتی دو وجوہ سے اپنا حال چھپاتا ہے۔۔۔
ایک وجہ تو یہ کہ وہ چاہتا ہے کہ اسے اخلاص اور صدق کی تحقیق ہو جائے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کا یہ جذبہ اخفا اس وجہ سے ہے کہ غیرت کی وجہ سے وہ چاہتے ہیں کہ ان کا حال غیر سے پوشیدہ رہے۔ اس لئے کہ جو کوئی اپنے محبوب کے ساتھ خلوت نشین ہوتا ہے تو اس کو برا معلوم ہوتا ہے کہ غیر اس سے آگاہ ہو۔ جبکہ صدق محبت کی منزل پر تو اسے یہ بھی برا معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو یہ بھی معلوم ہو کہ وہ اپنے محبوب کو چاہتا ہے۔۔۔۔بہرحال ملامتی کا درجہ متصوف سے تو بلند ہے مگر صوفی سے کم ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام کےملامتی، صوفی۔۔۔
ایک گمراہ جماعت نے جو فتنہ اور گمراہی میں مبتلا ہے خود کو ملامتیہ کہنا شروع کر دیا اور انہوں نے صوفیوں کا لباس پہن لیا تاکہ ان کو صوفی سمجھا جائے۔ حالانکہ صوفیہ یا صوفیت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ یہ ان کی خود فریبی ہے۔ وہ اہل اباحت(رندوں) کا راستہ چلتے ہیں اور بزعم خود یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے قلوب اللہ تعالیٰ کے اخلاص سے بہرہ یاب ہو گئے اور اس وقت وہ کہنے لگتے ہیں کہ ہم نے اپنا مقصد پا لیا۔ یہی مقصود ہماری کامیابی ہے۔ رسومات شریعہ کی پابندی کرنا عوام اور کم خردوں کا کام ہے۔ جو تقلید اور اقتداء کی گھاٹی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان کے یہ اقوال عین زندقہ اور بے دینی ہیں۔ اس لئے کہ ہر وہ حقیقت جو شریعت کے خلاف ہے زندقہ ہے، یہ مبتلائے فریب لوگ اس حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ شریعت نام ہے حق عبودیت کا۔ اور جو اہل حقیقت بننا چاہتا ہے وہ ضرور حق بندگی میں وابستہ ہو گا۔۔۔
ہم یہ دیکھیں گے کہ کوئی شخص حدود شرعی میں سستی کر رہا ہے ، فرض نماز کو چھوڑے ہوئے ہے اور دوسرے فرائض کی ادائیگی سے بھی اغماض و اہمال برت رہا ہے تو ہم ایسے شخص کو رد کر دیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور نہ ہمارے نزدیک اس کا یہ دعویٰ قابل قبول ہو گا کہ اس کا باطن نیک اور درست ہے۔۔۔
کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو خود کو کبھی قلندریہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور کبھی ملامتیہ کے نام سے۔ ملامتیہ کے بارے میں ہم پچھلے اوراق میں لکھ چکے ہیں۔اس(ملامتیہ) فرقے کے لوگوں کا حال شرف کی فضیلت رکھتا ہے اور عزت مآب ہے، یہ فرقہ سنت نبوی کا متبع اور اخبار و آثار کا پابند ہے۔ اور ان میں اخلاص و صدق موجود ہے اور یہ ملامتی حضرات ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جائے کہ یہ شریعت سے بیگانہ ہیں۔۔۔
قلندریہ سے ایک ایسے گروہ کی طرف اشارہ ہے جن کےدلوں پر خوش دلی اور ۔ کے نشہ نے قبضہ کر لیا ہے۔(جن کے دلوں پر خوش دلی چھائی ہوئی ہے) یہاں تک کہ ان کی عادتیں بگڑ گئی ہیں، ہمہ وقت ترنگ میں رہتے ہیں، خوش دلی کے میدان میں پھرنے کی بدولت روزہ نماز سے غافل ہوتے ہیں بس کچھ فرائض ادا کر لیتے ہیں۔۔۔۔ اس طبقہ میں اکثر لوگ ایسے ہیں جنہوں نے صرف اجازت پر اکتفا کیا ہے(رخصت شرعیہ پر عمل کرتے ہیں) لیکن عزیمت کے حقائق کے طلبگار نہیں بنتے،،، بس وہ اسی مسرت اور خوشدلی کو کافی سمجھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کو ہے۔ اور ان کو مزید معرفت شناسی کی خواہش نہیں۔۔۔
صوفی کا طریقہ کار۔۔۔
صوفی ان دونوں (ملامتیہ و قلندریہ) سے الگ ہر چیز کو اس کے موقع و محل کے اعتبار سے دیکھتا اور عمل میں لاتا ہے، اپنے علم کے ذریعے اپنے اوقات کی تدبیر کرتا ہے، اس کا لائحہ عمل تیار کرتا ہے۔ خلق کو خلق کے مرتبہ پر رکھتا ہے اور امر حق کو اس کی جگہ پر۔ جس چیز کو چھپانا چاہیئے اس کو چھپاتا ہے اور جس کا ظاہر کرنا مناسب ہے اس کو ظاہر کرتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شریعت کی پابندی ہر حال میں ضروری ہے۔۔۔
میرے شیخ ضیاءالدین ابوالنجیب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیوخ کی اسناد کے ساتھ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بیان کیا ہے کہ وہ ایک شخص سے معرفت کا تذکرہ فرما رہے تھے تو اس شخص نے کہا کہ اہل تقویٰ اور عارف باللہ تو زہد و تقویٰ کو ترک کر کے اللہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت جنید نے فرمایا کہ یہ قول اس گروہ اور جماعت کہ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ نیک اعمال بجا لانے کی پابندی سے آزاد ہیں۔ اور میرے نزدیک یہ ایک بڑی بلا ہے، جو شخص چوری اور زنا کرے وہ ایسے شخص سے بہتر ہے جو ایسا کہتا ہے۔ اس میں کسی شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ عارف باللہ نے یہ اعمال اللہ ہی سے حاصل کئے ہیں اس سے یہ اعمال اس کو ملے ہیں اور انہی اعمال کے ساتھ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں گے، اگر میں ایک ہزار سال بھی زندہ رہوں تب بھی میں اعمال حسن سے ایک ذرہ کم نہیں کروں سوائے اس کے کہ کوئی رکاوٹ ان کی ادائیگی میں پیدا ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی اعمال میری معرفت کے مولد اور میرے حال کے لئے باعث تقویت ہیں۔۔۔
عقیدہ حلول۔۔۔
انہی گمراہوں میں سے ایک جماعت وہ ہے جو حلول کا عقیدہ رکھتی ہے، ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان میں حلول کرتا ہے۔ یہ حلول ہر ایک جسم میں نہیں ہوتا بلکہ وہ جن جسموں کو پسند فرماتا ہے ان میں حلول کرتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہ عقیدہ عیسائیوں کے لاہوت و ناسوت کے نظریہ سے ماخوذ ہے۔ اور اس سلسلے میں ان کو کچھ اشارے بعض صوفیہ کے ان کلمات سے ملے ہیں جو ان کی زبان سے غلبہ کی صورت میں نکل گئے ہیں۔ جیسے حلاج کا "اناالحق" کہنا یا جس طرح ابو یزید بسطامی کے قول "سبحانی" سے ظاہر ہوتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ہمارا عقیدہ ہو کہ ابو یزید کی زبان سے (سبحانی ما اعظم شانی) ایسے کلمات اپنی ذات کے بارے میں نکلے ہوں بلکہ بات یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا کوئی قول نقل کیا ہو گا، ایسا ہی حلاج کے قول کے بارے میں قیاس کرنا چاہیئے۔۔۔
اگر ہم کو یہ یقین ہوتا کہ حلاج نے یہ قول ازروئے حلول بیان کیا ہے تو ہم منصور حلاج کو بھی رد کر دیتے بالکل اس طرح جیسے ہم نے اس فرقہ کی تردید کی۔ حضرت رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لئے ایک روشن شریعت لائے ہیں، اس شریعت عزا نے تمام نشیب و فراز ختم کردئے اور سب کو مستقیم کردیا۔ ہماری عقول نے ان چیزوں کی طرف ہماری رہنمائی کی ہے جن سے اللہ تعالیٰ کا متصف کرنا جائز ہے یا ناجائز ہے۔ اور اللہ تعالیٰ پاک ہے کہ کوئی شے اس میں حلول کرے یا وہ کسی چیز میں حلول کرے۔۔۔