ملا عمر امریکی فوجی اڈے سے صرف 3 میل کی دوری پر رہتے تھے

جاسم محمد

محفلین
ملا عمر امریکی فوجی اڈے سے صرف 3 میل کی دوری پر رہتے تھے
503DB933-CBA5-40D8-82EF-621E8B57FA4E_cx0_cy38_cw0_w1023_r1_s.jpg


کیا یہ بات عجیب نہیں کہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈے " فارورڈ آپریٹنگ بیس ولورین" سے صرف 3 میل کے فاصل پر رہنے والے شخص کے سر کی قیمت امریکا نے 10 ملین ڈالر مقرر کی؟ کیا ہم اسے امریکی انٹیلی جنس بہت بڑی ناکام نہیں کہیں کہ وہ شخص جو امریکی خفیہ ، فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سالوں سے مطلوب تھا وہ دراصل ان کی ناک کے نیچے اور ایسے فوجی اڈے کے قریب ہی مرتے دم تک موجود رہا، جہاں امریکی نیوی سیلز اور برطانوی ایس اے ایس کے 1000 فوجی تعینات تھے۔

معروف برطانوی جریدے گارجین کے صحافی بیٹ ڈیم نے اپنی کتاب میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ افغان طالبان کے بانی سمجھے جانے والے ملا عمر 2001ء کے بعد کبھی پاکستان میں نہیں رہے، بلکہ وہ افغانستان میں ہی امریکی فوجی بیس سے چند کلومیٹر دور ہی رہائش پذیر تھے۔ دی گارجین نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی فوج ملا عمر کو کئی برس تک تلاش کرنے میں ناکام رہی جب کہ وہ اپریل 2013 میں زابل میں انتقال کر گئے تھے۔

2040.jpg


امریکی تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ طالبان رہنما ملا عمر کے پاکستان میں رہنے کا دعویٰ بے بنیاد ہے، ملا عمر ہمیشہ سے ہی افغانستان میں موجود رہے، افغان طالبان کے بانی 2001ء کے بعد کبھی پاکستان میں نہیں رہے۔

4368.jpg


صحافی نے اس سوانح میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی فوجیوں نے ایک مرتبہ ان کے گھر میں کارروائی کی تھی لیکن وہ ملا عمر کے لیے تعمیر کیے گئے خفیہ کمرے کو تلاش کرنے میں ناکام رہے، جو یہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی شرم ناک ناکامی ہے۔

reports-mullah-omar-dead.jpg


کتاب کے چند شائع ہونے والے اقتباسات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکام کی جانب سے ملاعمر کو بھی القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کی طرح پاکستان میں موجود ہونے کا خیال ظاہر کیا جاتا رہا تھا حالانکہ وہ ان کے مرکز کے قریب موجود رہتے تھے۔ سال2001 کے بعد ملاعمر کے طالبان پر عملی کنٹرول کو بھی واضح کیا گیا ہے جب کہ طالبان 2013 میں ان کی وفات کے بعد دو سال تک بھی انہیں امیر تسلیم کرتے رہے اور تاحیات انہیں اپنا سربراہ تسلیم کررکھا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ملاعمر بی بی سی پشتو کی نشریات باقاعدگی سے سنتے تھے لیکن کسی خبر یا رپورٹ پر اپنا ردعمل بہت کم دیتے اور یہاں تک اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی خبر پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ جبار عمری کے مطابق ملا عمر ایک پرانے انداز کا نوکیا فون اپنے پاس رکھتے تھے، تاہم اس میں سم موجود نہیں تھی۔ وہ صرف اس سے ریکارڈنگ کیلئے اپنے پاس رکھتے تھے، جس میں وہ قرآن پاک کی آیات پڑھ پڑھ کر ریکارڈ کرتے تھے۔

5c85442d43e64.jpg


شائع ہونے والی کتاب میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے متعدد مواقع پر کیے گئے دعووں کے برعکس، ملا عمر اپنی تنظیم کو اپنی جائے پناہ سے چلانے میں ناکام تھے، تاہم یہ کہا گیا کہ انہی کی منظوری سے قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان کے دفتر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ڈچ صحافی بیٹ ڈیم نے ڈچ زبان میں سوانح تحریر کی ہے جو گزشتہ ماہ شائع ہوئی تھی اور اس کے چند اقتباسات کا زومیا تھنک ٹینک نے انگریزی میں ترجمہ کرکے شائع کیا تھا جو صرف دو اخباروں کو دیے گئے تھے۔ بیٹ ڈیم سال 2006 سے افغانستان میں صحافتی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ انہوں نے اس کتاب پر گزشتہ 5 برس سے زائد عرصے سے کام کیا۔ وہ اس سے قبل افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی پر بھی کتاب لکھ چکے ہیں۔

ملا عمر پر لکھی گئی کتاب میں شائع مواد کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ طالبان دور کے اہم رہنما جبار عمری سے ایک ملاقات ہوئی جو ملاعمر کی سچی کہانی سنانے کا مصدقہ ذریعہ تھے۔ جبار عمری نے سال 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملا عمر کے باڈی گارڈ کے طور پر خدمت انجام دی جب وہ زیر زمین چلے گئے تھے، تاہم متعدد بار دشمن اور امریکا سے بچنے کیلئے وہ کھیتی باڑی کیلئے بنائی گئی سرنگوں میں چھپ جاتے تھے۔ انتقال کے بعد انہیں ایک بے نشان قبر میں دفنایا گیا۔
 
Top