محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
ملتے رہو کہ عاشق دیوانہ ہو نہ جائے
جو بات ہے غزل کی افسانہ ہو نہ جائے
جو جو نہیں ہے وہ بھی پروانہ ہو نہ جائے
یوں مت بھڑک کہ عالم ویرانہ ہو نہ جائے
وہ چاہتے ہیں محرم مستانہ ہو نہ جائے
یعنی کوئی قلندر ایسا نہ ہو نہ جائے
ساقی کے بھرتے بھرتے ساغر چھلک نہ اٹھے
لبریز تشنگی کا پیمانہ ہو نہ جائے
ہم رمزِ آشنائی کہنے کو کہہ تو دیں گے
جو آشنا ہے لیکن بیگانہ ہو نہ جائے
کرتے ہیں جس کی باتیں منبر پہ شیخ صاحب
مسجد میں ہو تو مسجد میخانہ ہو نہ جائے
کھلتا تو ہے خرد پر بھی وہ مگر بس اتنا
دیوانہ ہر حکیمِ فرزانہ ہو نہ جائے
راحیلؔ پینے والے مسجد میں آ تو جائیں
مُلّا کی زندگی بھی رندانہ ہو نہ جائے
راحیلؔ فاروق
جو بات ہے غزل کی افسانہ ہو نہ جائے
جو جو نہیں ہے وہ بھی پروانہ ہو نہ جائے
یوں مت بھڑک کہ عالم ویرانہ ہو نہ جائے
وہ چاہتے ہیں محرم مستانہ ہو نہ جائے
یعنی کوئی قلندر ایسا نہ ہو نہ جائے
ساقی کے بھرتے بھرتے ساغر چھلک نہ اٹھے
لبریز تشنگی کا پیمانہ ہو نہ جائے
ہم رمزِ آشنائی کہنے کو کہہ تو دیں گے
جو آشنا ہے لیکن بیگانہ ہو نہ جائے
کرتے ہیں جس کی باتیں منبر پہ شیخ صاحب
مسجد میں ہو تو مسجد میخانہ ہو نہ جائے
کھلتا تو ہے خرد پر بھی وہ مگر بس اتنا
دیوانہ ہر حکیمِ فرزانہ ہو نہ جائے
راحیلؔ پینے والے مسجد میں آ تو جائیں
مُلّا کی زندگی بھی رندانہ ہو نہ جائے
راحیلؔ فاروق