قرآن حکیم سے کوئی حوالہ عطا فرماسکتے ہیں؟
شرعی سزاؤں کے نفاذ کا مقصد معاشرے کی اصلاح اور درستگی ہے، لوگوں پر ظلم و زیادتی کرنا ہر گز نہیں۔ اور نہ ہی سزاؤں پر عمل درآمد کرنے سے معاشرے میں کسی قسم کی بے چینی اور تشویش پیدا کرنا مقصود ہے بلکہ لوگوں کو شرپسندوں کے آزار سے محفوظ رکھنا ہے۔
اسلام میں چور کی سزا قطع ید ہی ہے۔
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقۡطَعُوۡۤا اَیۡدِیَہُمَا جَزَآءًۢ بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۳۸﴾
چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا ، عذاب اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالٰی قوت و حکمت والا ہے.
(سورة المائدة, آیت: 38
تاہم یہاں معاشرتی رویوں کا بھی نہایت عمل دخل ہے ۔
نسائی کی ایک حدیث ہے۔
"سزاؤں کو آپس ہی میں معاف کر دیا کرو، کیونکہ جو معاملہ مجھ تک پہنچ جائے گا، اس میں سزا دینا لازم ہو جائے گا۔''
ارشاد باری تعالٰی ہے ۔
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ
بیشک اللہ انصاف اور احسان کا حکم دیتا ہے۔
یعنی انصاف کے ساتھ ساتھ احسان اور بھلائی کی بھی تلقین کی ہے ۔ احسان اضافی حکم ہے جس کا مطلب نرمی اور رعایت سے کام لینا ہے۔ انصاف ایسا ہونا چاہیے جس سے مزید بگاڑ کا اندیشہ نہ ہو۔
ایک مرتبہ کسی شخص کو نبی کریمؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس نے چوری کا ارتکاب کیا تھا۔ جب حضورؐ کو یہ بتایا گیا کہ اس سے یہ جرم سرزد ہوا ہے تو آپؐ کے چہرہ اقدس کی رنگت شدتِ غم سے متغیر ہو گئی۔ آپؐ نے فرمایا۔ ''میں اس پر سزا نافذ کرنے سے کیسے رک سکتا ہوں، جبکہ تم خود اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد کرنے والے ہو۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ حکمران کے سامنے جب سزا سے متعلق کوئی معاملہ پیش ہو جائے تو اس کے لیے سزا کو نافذ کرنا ہی مناسب ہے۔''
لہٰذا کچھ ذمہ داری معاشرے کے افراد پر بھی عائد ہوتی ہے کہ جرم کی سنگینی کے لحاظ سے ہی مقدمہ عدالت یا پنچائیت میں پیش کیا جائے۔ جہاں صرف تنبیہ، سرزنش اور ہلکی پھلکی سزا سے ہی اصلاح ممکن ہو، وہاں اس حد تک جانے کا آخر کیا جواز بنتا ہے۔
زکوٰة کا تعلق عبادات اور تزکیہِ نفس سے ہے اور اس کی شرح مقرر ہے۔ جبکہ ٹیکس کی ادائیگی سوشل سسٹم کا ایک حصّہ ہے اور اس کی مقدار حسبِ ضرورت گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے۔
جی مخیر حضرات پر حکومت کا ٹیکس ہے
غلط!!
گویا لاکھوں کی تعداد میں جو مسلمان غیر اسلامی ریاستوں میں سکونت پزیر ہیں وہاں کی حکومتوں کو ٹیکس ادا کرنے سے ان کی زکوٰة بھی ادا ہو جائے گی؟
یا پھر آپ کے خیال میں ان کے لیے کوئی اور قانون ہے اور اسلامی معاشرے میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اور قانون؟
کیا زکواۃ غریب غرباء کا حق ہے یا حکومت وقت کا حق ہے؟ اگر حکومت وقت کا کوئی حق نہیں تو پھر حکومت کیسے چلے گی اور سابقہ حکومتیں کیوں ٹیکس وصولتی رہیں ہیں؟ عمر رضی اللہ تعالی عنہہ کو کیا ضرورت تھی کے زکواۃ کے نا دہندگان کے خلاف تلوار اٹھاتے؟
ایک مہذب اور ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے ہر شخص کا یہ قومی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ حکومتِ وقت کو اس کا عائد کردہ ٹیکس ادا کرے تاکہ ملکی معاملات احسن انداز میں سر انجام دیے جا سکیں۔ اسلام میں مسلم حاکم کی اطاعت ویسے بھی لازم ہے جب تک وہ شریعت کے خلاف حکم نہ دے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ (النساء:۵۹)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکام وقت کی جو تم میں سے ہوں۔ پھر اگر کسی معاملے میں تم میں تنازعہ واقع ہوجائے تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو.
جو لوگ صدقہ و خیرات کے مستحق ہیں وہی زکوة کے حقدار بھی ٹھہرتے ہیں۔ زکوٰة کے مصارف درج ذیل ہیں۔
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ [التوبة:60]
اگر حکومتی سطح پر زکوة کی کولیکشن اور تقسیم کا خاطر خواہ انتظام موجود ہو تو یہ رقم وہاں بھی جمع کرائی جا سکتی ہے۔
جیسا کہ واضح ہے کہ زکوة کا ایک مصرف " فی سبیل اللہ " بھی ہے۔ لہٰذا مساجد اور درسگاہوں کا قیام، رفاہِ عامه کے پراجیکٹس، ہسپتالوں کی تعمیر ، دفاعی نظام، عوام الناس کی بھلائی کے تمام منصوبے، زلزلے، سیلاب ، جنگ اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات وغیرہ وغیرہ، یہ سب فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتے ہیں ۔ اگر ان کاموں میں زکوة کی رقم سے حکومت کا ہاتھ بٹایا جا سکتا ہے تو کیوں نہیں۔ لیکن جہاں حکمرانوں کو اپنی عیش و عشرت سے ہی فرصت نہ ہو، وہاں زکوة کے مصارف کا انتخاب خوب سوچ سمجھ کر کرنا ہی بہتر ہو گا۔