ملزمان کو ہتھکڑیاں لگانا غیر شرعی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل

سید عمران

محفلین
آپ کی بات سے جزوی طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ ہر چوری پر ہاتھ کاٹ کر جدا کر دینے کی سزا نہ ہو ۔ معمولی درجے کے واقعات پر صرف علامت کے طور پر ہو۔
فقہاء کرام نے اس کی مکمل تفصیلات بیان فرمائی ہیں کہ چور کے ہاتھ کتنی مالیت کی چوری کرنے پر کاٹے جائیں گے نیز کن حالات میں اور کیسے چوری کی گئی ہے اس پر بھی بحث کی گئی ہے۔۔۔
یہ کافی سخت شرائط ہیں جن پر پورا اترنا بھی کافی مشکل ہے۔۔۔
عوام تو بس ایک ہی بات کو لے اڑے کہ ہر چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔۔۔
ایسا ہرگز نہیں ہےکہ ہر چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے!!!
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
پھر جب دیکھا ان عورتوں نے یوسف کو دنگ رہ گئیں اور کاٹ بیٹھیں اپنے ہاتھ
کیا آپ سزا کے طور پر چور کے ہاتھ پر اس طرح کی کاٹ لگانے کے حق میں ہیں ؟
پھر تو کچن میں کام کرنے والی ہر دوسری خاتون، جو بے دھیانی میں اکثر اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھتی ہے ، چور متصور ہو گی۔ :):)
 

عباس رضا

محفلین
میں کچھ مراسلے دیکھنے کے بعد ”بہار شریعت“ میں چوری کا بیان پڑھ رہا تھا۔ واقعی ہاتھ کاٹنے کی شرائط بہت سخت ہیں ذرا سے شبہے پر حد ساقط ہوجاتی ہے۔ یہ سزائیں نافذ کرنے میں اسلام بہت ہی زیادہ احتیاط رکھتا ہے۔ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ”جب تک تم سے ہوسکے مسلمانوں سے حدود (یعنی اسلام کی مقرر کردہ سزائیں) دور کرو۔ تم اگر تم مسلمان کے لیے کوئی راہِ خلاص پاؤ تو اس کا راستہ چھوڑ دو اس لیے کہ امام کا غلطی سے درگزر کردینا اس سے بہتر ہے کہ وہ غلطی سے سزا دے دے۔“
اور آقائے رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ”حدود (اسلام کی مقرر کردہ سزائیں) شبہات کے ذریعے دور کردو۔“
 
یعنی کہ فتح الباری سے پہلے صحیح البخاری نام کی کوئی کتاب موجو نہیں تھی؟
درست۔، اس کتاب کا کوئی لنک میری معلومات کے اضافے کے لئے فراہم کیجئے، جو امام بخاری نےلکھی ہو ، روایات کو یادواشت کے سہارے لڑنے کا علاج اس کتاب کی شکل میں کیا گیا تھا۔ یہ ایک اچھی کتاب ہے، نویں صدی میں اس کو لکھا گیا۔ اس کتاب پر کسی نبی نےبھی ایمان رکھنے کا حکم نہیں دیا۔ یہ کتاب کوئی تکلیف نہیں دیتی لیکن عام طور پر اس کتاب کا استعمال اس طرح کیا جاتا ہے کہ نماز کا طریقہ قرآن میں نہیں، یہ آپ کو حدیث سے ملتا ہے۔ اس اچھی کتاب کے دیگر اچھے استعمال ہیں ۔ لیکن قرآن کو غلط ثابت کرنے کے لئے کسی بھی کتب روایت کا سہارا لینا درست نہیں ۔

والسلام
 
آخری تدوین:
ہاتھ کاٹنے سے متعلق ایک اور مثال دیکھئے ، شاید بہتر تفہیم ممکن ہو سکے۔
‎اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ ؕ ذٰلِکَ لَہُمۡ خِزۡیٌ فِی الدُّنۡیَا وَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۳۳﴾
‎جو اللہ تعالٰی سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں ۔ یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے یہ تو ہوئی انکی دنیاوی ذلت اور خواری اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے ۔

غداری کی سزا یہی ہے، یہاں آپ کو آرڈر دیا جارہا ہے کہ تو ان لوگوں کے ہاتھ کاٹ دے ، کن لوگوں کے جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں، ان کی سزا "ٹرمینیشن" ہے ، موت اور زندگی کا ایک بہت بڑا فرق ہے۔ جس کو قتل کردیا گیا، یا سولی چڑھا دیا گیا ، اس کی زندگی ختم ہوگئی اب اس نے کام کاج نہیں کرنا ہے لہذا یہ واضح حکم موجود ہے۔ شکریہ شئر کرنے کا، یہاں ایک سے زائید آپشن دیا گیا ہے
 
محترم! آیت کے آخری حصّے سے اسی بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ آیت صریحًا مالِ غنیمت سے ہی متعلق ہے ۔
جب میدانِ جنگ میں فوجیں آمنے سامنے ہوں اور دشمن پر غلبہ پا لینے کے بعد اگر کسی کے ہاتھ کوئی شے لگ جائے تو اس کا پانچواں حصّہ خدا کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ انتہائی مخصوص حالات میں اس کا حکم ہے۔ اسے زکوة پر کیسے منطبق کیا جا سکتا ہے۔

بنیادی اصول ہے کہ اللہ تعالی کا حق پانچواں حصہ ہے، چاہے اضافہ کسی بھی شے سے ہوا ہو، یہی اصول مال غنیمت پر بھی لاگو ہوا۔ زکواۃ کی ادائیگی صرف حقوق اللہ کی ادائیگی نہیں بلکہ حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہے۔ زکواۃ یا ٹیکس صرف آپ کا اپنا تزکیہ ہی نہیں سارے معاشرے کا تزکیہ ہے ۔

ہمارا موضوع ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ان بڑے معاملات پر توجہ کیوں نہیں دیتی جن کا اثر سب پر پڑتا ہے۔ اس میں ایک بڑا سوال ٹیکس کی ادائیگی کا ہے ، جو کہ عین زکواۃ ہے۔
اگر لوگ ٹیکس دینا چھوڑ دیں تو کیا ہوگا، دولت کی گردش رک جائے گی ، جس کی وجہ سے مردوں میں چوری اور ڈاکہ کے رحجان بڑھے گا اور عورتوں میں عصمت فروشی کا رحجان بڑھے گا۔ ٹٰکس یا زکواۃ کی ادائیگی ، کسی بھی معاشرے میں دولت کی گردش میں اضافہ کرتی ہے ، جس کے باعث، معاشرے کا تزکیہ ہوتا ہے جو معیشیت میں خوشحالی کا باعث بنتا ہے۔

پاکستان کے بڑے شہروں میں چوری اور عصمت فروشی دونوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ پہلے چوری کی بات کرتے ہیں۔ عصمت فروشی میں اضافے کے
صرف ایسا نہیں ہے کہ گلی کے کونے پر یا سگنل پر فون چوری کرکے لے گئے یا پستول دکھا کر لوٹ لیا۔ یہاں ہر شخص چوری پر مجبور ہے۔ میں چوری کا ایک واقعہ شئیر کرتا ہوں۔ اس کے بعد سوالات کریں گے۔

ایک شخص جسے میں اچھی طرح جانتا ہوں ، اس نے پاکستان سے باہر محنت سے کما کر ایک کمرشل پلاٹ 1987 میں سات لاکھ کا خریدا، تھوڑے دن بعد انکم ٹیکس ڈپارٹمنت کا نوٹس آ گیا کہ ۔ کیسے کمائے؟؟؟ ۔ وہ ملک سے باہر اپنی نوکری کا ثبوت، پاسپورٹ کی کاپیاں ، زرمبادلہ کی ترسیل کے ریکارڈ لے کر گیا لیکن ، یہ سب قابل قبول نہیں تھا۔ صاف صاف پچاس ہزار روپے کی ڈیمانڈ کی انکم ٹٰکس آفیسر نے۔ جو اس نے نہیں دئے اور معاملہ نو سال تک کھنچتا رہا ۔ پہلے ہی سال وہ ملک سے باہر چلا گیا، نوٹس، سمن وغیرہ تے رہے اور وہ ان کے مناسب جواب دیتا رہا۔ اس دوران لگ بھگ بارہ سال گذر گئے اور اس نے پاکستان جانے کا خیال ترک کردیا۔ اور پلاٹ بیچنے کی کوشش کی، کوئی بھی اس پلاٹ کو سیل ڈیڈ پر خریدنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ سب مانگتے تھے کہ پلاٹ "پاور آف آٹارنی" پر بیچو۔ بالآخر، اس نے پاور آف اٹارنی پر یہ پلاٹ 42 لاکھ روپے میں بیچ دیا اور پیسے کھرے کئے۔ یہ ناقابل تنسیخ پاور آف اٹارنی ، کے ڈی اے میں بھی رجسٹر ہوا ، لیکن اس کاغذ میں کسی رقم کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس طرح خریدار کو بیچنے برتنے، کمانے، اترانے اور فائیدہ اٹھانے کے تمام حقوق مل گئے لیکن "سیل ڈیڈ' کوئی نہیں ہوئی۔ کے ڈی اے نے یہ "پاور آف اٹارنی" رجسٹر کیا ، لیکن اس "اضافہ" پر میرے دوست کو کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑا۔ خریدار نے اس پلاٹ پر آٹھ فلیٹ بنائے اور بقول شخصے ، تین کروڑ 80 لاکھ میں "سب پاور آف اٹارنی" پر آگے بڑھا دئے ، ٹیکس، ٹیکس کا کوئی ذکر نہیں کیوں کہ ان تمام ڈاکومینٹس میں کسی رقم کا تذکرہ نہیں تھا، کیوں کہ حکومت کے ریکارڈ میں کوئی سیل تو ہوئی ہی نہیں۔

کوئی 4 یا 5 سال پہلے اس کے پاس کے ڈٰی اے سے نوٹس آیا کہ آپ کی زمین کا کرایہ ادا نہیں ہوا ہے۔ ادا کریں ورنہ قرقی۔ :) ۔۔۔ پر یہ تو زمین بیچ چکا تھا۔ لہذا ، اس کو کیا ڈر، بیچ والا خریدار بھی اپنے پیسے کھرے کر چکا تھا۔ لہذا اس کو بھی کیا ڈر۔ اہم بات یہ ہے کہ نا 35 لاکھ کے "اضافے " پر کوئی ٹیکس ادا کیا گیا اور نا ہی تین کروڑ 38 لاکھ کے اضافہ پر کوئی ٹہکس ادا کیا گیا۔ یہ ٹیکس چوری کی ایک مثال ہے ، صرف ایک پلاٹ کی کہانی۔ صرف کراچی میں کتنی جائیدادیں ہیں؟

سوالات:
یہ کیوں ہے کہ برتنے، بیچنے ، فائیدہ حاصل کرنے کی رجسٹری پورے پاکستان میں ہوتی ہے ، پاور آف اٹارنی کی شکل میں۔ ہم آپ تو بے وقوف ہو سکتے ہیں لیکن جن لوگوں نے اس کی رجسٹری کا انتظام کرایا ہے ، وہ بے وقوف ہر گز نہیں۔ جن لوگوں نے زکواۃ ، ٹیکس کی چوری کا یہ نظام تعمیر کیا ہے، جو اس کو چلا رہے ہیں ۔ وہ اصل چور ہیں۔ آپ اس پر آواز اٹھائیے، فوج پولیس، انتظامیہ سب حرکت میں آجائے گی کہ تو بولا تو بولا کیسے۔؟

سارے پاکستان میں کتنی ایسی جائیدادیں ہیں جو آج بھی پاور آف اٹارنی پر بناء ٹیکس دئے چل رہی ہیں۔ ؟

میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے دوستوں کا فوکس اپنے اپنے اکاؤنٹ پر ہے کہ اس اکاؤنٹ میں کتنی نمازیں، کتنے روزے، کتنا صدقہ ہے ، لیکن زیادہ تر کا فوکس زکواۃ یا ٹٰکس کے معاشرے پر اجتماعی اثر پر نہیں۔

اگر آپ کے گھر میں دولت کی گردش رک جائے تو کیا ہوگا، پہلے قرض، پھر جرم، پھر فاقے۔

پاکستان میں بھی دولت کی گردش رک گئی ہے۔ پیسہ نا حکومت تک پہنچ رہا ہے ، نا ہی حکومت کے پاس ترقیاتی کاموں کے پیسے پیں ، نا ہی حکومتی اخراجات بڑھائے جاسکتے ہیں۔ لہذا ایک طرف تو معشیت کا گلا گھوٹا جارہا ہے دوسری طرف ان کاموں کے لئے بھی پیسہ قرض لیا جارہا ہے۔ جس میں باہر سے قرضے کی کوئی ضرورت ہی نیہں ہوتی۔ آپ میں سے جو لوگ، کراچی میں رہے ہیں وہ ، ملیز ندی کے پشتہ کو جاکر ملاحظہ کریں، اس میں مٹی یہیں کی، مزدور یہیں کے ، ندی یہیں کی ، لیکن اس پشتہ کی تعمیر پر قرضہ باہر کا ۔۔۔

جب معاشرے میں چوری، معمولی چوریوں سے لے کر بڑی چوریوں تک چلی جائے اور ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کی جائے جہاں لوگوں کا ایمان ہو کہ "جب ہندوستان سے جنگ کریں گے تو 20 فیصد ہندوستانی مال غنیمت سے حکومت کو ادا کریں گے" اور چھوتے ملاء ملانی سے لے کر بڑے ملا ، ملانی یو یقین ہو کہ زکواۃ نا تو ہونے والے اضافے پر بیس فی صد ہے، اور نا ہی کمانے پر واجب الدا ہے، اور نا ہی حکومت کو دی جانی ہے تو ایسے معاشرے میں معیشیت میں انحطاط تو آنا ہی آنا ہے، غیر ملکی قرضے میں اضافہ تو ہونا ہی ہونا ہے۔ دولت کی گردش اتنی مدھم ہوجانی نی ہے کہ لوگوں کو کھانے کے لئے چوری اور عصمت فروشی کی راہ اختیار کرنی پڑے، جو لوگ اللہ کا حق اپنے اضافے پر ادا نیہں کرتے وہی سود خور ہیں۔ اور وہ ایک دن ایسے اٹھیں گے کہ جیسے شیطان نے چھولیا ہے۔

کون ایسا ہے جس کو یہ نظر نہیں آتا کہ وہ قرآن سے دور اور شیطان سے قریب ہوگئے ہیں۔ لیکن مانتا کوئی نہیں۔

سب لوگ ایک سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں اور کوئی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ بھی گیلا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ معاملہ نظر نہیں آتا، وہ اب بھی اپنے حلوے مانڈوں میں لگے ہوئے ہیں۔

ذیلی نوٹ:
برادر محترم عمران، ظہر کی نماز میں فرض رکعت کی تعداد کیا ہے؟ کیا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم آپ تک پہنچا؟ کا سجدہ کرنے والوں کے ساتھ سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو، آپ تک پہنچا؟ کیا فرض کی نمازوں کی سنت جاریہ ، آپ تک پہنچی؟ پھر یہ سوال کیوں؟ اگر میں ظہر کی نماز میں پانچ رکعتیں پڑھ گیا تو یہ معاملہ میرا اور اللہ کا معاملہ ہے نا کہ سارے معاشرے کا؟

تو جب بات سارے معاشرے کی ہورہی ہو بہتر یہ ہے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں نمازوں، فرض رکعتوں کی گنتی، روزوں کی تعداد، جیسے سوالات کرکے موضوع کو ادھر ادھر کرنے کی کوشش سے گریز کیا جائے۔ ۔ میں سب کچھ نہیں جانتا اور جان بھی نہیں سکتا، میری کوشش اللہ تعالی کی آٰیات پر توجہ دلانے کی ہوتی ہے، رب کریم ، اللہ تعالی، سب کچھ جانتا ہے۔ اس کے احکامات پر غور کیجئے :)


چوری کی کہانی تو آپ نے سن لی کہ اس میں ہر کوئی ڈوبا ہوا ہے، اب عصمت فروشی کے بارے میں مبشر لقمان کا یہ دردناک وڈیو ملاحضہ فرمائیے۔

پاکستان کہاں جارہا ہے


والسلام
 
اس آیت میں ہر نفع بخش تجارت میں، برضا و رغبت خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ کسی قسم کی کوئی شرح بھی مقرر نہیں کی۔ بلکہ الٹا اسراف سے منع کیا گیا ہے کیونکہ بعض لوگ احکامِ الہٰی کی بجا آوری میں حد سے گزر جاتے ہیں۔
آپ نے درست فرمایا، جس نکتے کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا وہ سرخ کردیا تھا کہ اللہ تعالی کا حق اسی دن ادا کرنا ہے جس دن فصل کاٹی، یعنی جب کمایا( یہ آیت) تو حق اد کرنا فرض ہوگیا۔ یہ ادائیگی آپ کس نام سے کرنا چاہتی ہیں؟ (ٹیکس، زکواۃ، صدقات ؟؟) کس کو کرنا چاہتی ہیں(سورۃ انفال آیت 41) ؟ کتنی کرنا چاہتی ہیں(سورۃ انفال آیت 41)؟ اس وصول شدہ رقم (ٹیکس، زکواۃ، صدقات لیکن خیرات نہیں) کا مصرف (سورۃ توبہ، آیت 60 اور سورۃ البقرۃ آیت 177) کیا ہوگا؟ اس کے جواب اللہ تعالی نے دیگر آیات میں فراہم کیا ہے۔ جو لوگ یہ حق ادا نہیں کرتے وہ کس کا حق مار رہے ہیں؟ اگر یہ منافع سے اللہ تعالی کا حق کھا جانا، سود (منافع) خوری نہیں ہے؟ اس جرم کی کیا سزا ہونی چاہئے؟ (جو اللہ کا حق مارتا ہے، اس سے جنگ؟؟) :)

اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس ان نکات پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں، ہم تو خواہ مخواہ وقت ضائع کررہے ہیں :)
 
کیا آپ سزا کے طور پر چور کے ہاتھ پر اس طرح کی کاٹ لگانے کے حق میں ہیں ؟
پھر تو کچن میں کام کرنے والی ہر دوسری خاتون، جو بے دھیانی میں اکثر اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھتی ہے ، چور متصور ہو گی۔ :):)

عرب اور افریقی ممالک میں "کاٹ کا نشان" لگانے کا رواج ہے ، جس سے ان لوگوں کے قبیلوں کی نشاندہی ہوتی تھی، آج یہ کام آئی ڈی کارڈ اور پاسپورٹ سے لیا جاتا ہے۔
چور کے ہاتھ پر کاٹ کا نشان ، آج کل کریڈٹ ہسٹری سے لیا جاتا ہے۔ بات وہی ہے کہ ہاتھ پر کاٹ کے مخصوص نشان لگا کر پہچانا جائے یا پھر کریڈٹ ہسٹری دیکھ لی جائے۔

والسلام
 

La Alma

لائبریرین
بنیادی اصول ہے کہ اللہ تعالی کا حق پانچواں حصہ ہے، چاہے اضافہ کسی بھی شے سے ہوا ہو، یہی اصول مال غنیمت پر بھی لاگو ہوا۔ زکواۃ کی ادائیگی صرف حقوق اللہ کی ادائیگی نہیں بلکہ حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہے۔ زکواۃ یا ٹیکس صرف آپ کا اپنا تزکیہ ہی نہیں سارے معاشرے کا تزکیہ ہے ۔

ہمارا موضوع ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ان بڑے معاملات پر توجہ کیوں نہیں دیتی جن کا اثر سب پر پڑتا ہے۔ اس میں ایک بڑا سوال ٹیکس کی ادائیگی کا ہے ، جو کہ عین زکواۃ ہے۔
اگر لوگ ٹیکس دینا چھوڑ دیں تو کیا ہوگا، دولت کی گردش رک جائے گی ، جس کی وجہ سے مردوں میں چوری اور ڈاکہ کے رحجان بڑھے گا اور عورتوں میں عصمت فروشی کا رحجان بڑھے گا۔ ٹٰکس یا زکواۃ کی ادائیگی ، کسی بھی معاشرے میں دولت کی گردش میں اضافہ کرتی ہے ، جس کے باعث، معاشرے کا تزکیہ ہوتا ہے جو معیشیت میں خوشحالی کا باعث بنتا ہے۔

پاکستان کے بڑے شہروں میں چوری اور عصمت فروشی دونوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ پہلے چوری کی بات کرتے ہیں۔ عصمت فروشی میں اضافے کے
صرف ایسا نہیں ہے کہ گلی کے کونے پر یا سگنل پر فون چوری کرکے لے گئے یا پستول دکھا کر لوٹ لیا۔ یہاں ہر شخص چوری پر مجبور ہے۔ میں چوری کا ایک واقعہ شئیر کرتا ہوں۔ اس کے بعد سوالات کریں گے۔

ایک شخص جسے میں اچھی طرح جانتا ہوں ، اس نے پاکستان سے باہر محنت سے کما کر ایک کمرشل پلاٹ 1987 میں سات لاکھ کا خریدا، تھوڑے دن بعد انکم ٹیکس ڈپارٹمنت کا نوٹس آ گیا کہ ۔ کیسے کمائے؟؟؟ ۔ وہ ملک سے باہر اپنی نوکری کا ثبوت، پاسپورٹ کی کاپیاں ، زرمبادلہ کی ترسیل کے ریکارڈ لے کر گیا لیکن ، یہ سب قابل قبول نہیں تھا۔ صاف صاف پچاس ہزار روپے کی ڈیمانڈ کی انکم ٹٰکس آفیسر نے۔ جو اس نے نہیں دئے اور معاملہ نو سال تک کھنچتا رہا ۔ پہلے ہی سال وہ ملک سے باہر چلا گیا، نوٹس، سمن وغیرہ تے رہے اور وہ ان کے مناسب جواب دیتا رہا۔ اس دوران لگ بھگ بارہ سال گذر گئے اور اس نے پاکستان جانے کا خیال ترک کردیا۔ اور پلاٹ بیچنے کی کوشش کی، کوئی بھی اس پلاٹ کو سیل ڈیڈ پر خریدنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ سب مانگتے تھے کہ پلاٹ "پاور آف آٹارنی" پر بیچو۔ بالآخر، اس نے پاور آف اٹارنی پر یہ پلاٹ 42 لاکھ روپے میں بیچ دیا اور پیسے کھرے کئے۔ یہ ناقابل تنسیخ پاور آف اٹارنی ، کے ڈی اے میں بھی رجسٹر ہوا ، لیکن اس کاغذ میں کسی رقم کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس طرح خریدار کو بیچنے برتنے، کمانے، اترانے اور فائیدہ اٹھانے کے تمام حقوق مل گئے لیکن "سیل ڈیڈ' کوئی نہیں ہوئی۔ کے ڈی اے نے یہ "پاور آف اٹارنی" رجسٹر کیا ، لیکن اس "اضافہ" پر میرے دوست کو کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑا۔ خریدار نے اس پلاٹ پر آٹھ فلیٹ بنائے اور بقول شخصے ، تین کروڑ 80 لاکھ میں "سب پاور آف اٹارنی" پر آگے بڑھا دئے ، ٹیکس، ٹیکس کا کوئی ذکر نہیں کیوں کہ ان تمام ڈاکومینٹس میں کسی رقم کا تذکرہ نہیں تھا، کیوں کہ حکومت کے ریکارڈ میں کوئی سیل تو ہوئی ہی نہیں۔

کوئی 4 یا 5 سال پہلے اس کے پاس کے ڈٰی اے سے نوٹس آیا کہ آپ کی زمین کا کرایہ ادا نہیں ہوا ہے۔ ادا کریں ورنہ قرقی۔ :) ۔۔۔ پر یہ تو زمین بیچ چکا تھا۔ لہذا ، اس کو کیا ڈر، بیچ والا خریدار بھی اپنے پیسے کھرے کر چکا تھا۔ لہذا اس کو بھی کیا ڈر۔ اہم بات یہ ہے کہ نا 35 لاکھ کے "اضافے " پر کوئی ٹیکس ادا کیا گیا اور نا ہی تین کروڑ 38 لاکھ کے اضافہ پر کوئی ٹہکس ادا کیا گیا۔ یہ ٹیکس چوری کی ایک مثال ہے ، صرف ایک پلاٹ کی کہانی۔ صرف کراچی میں کتنی جائیدادیں ہیں؟

سوالات:
یہ کیوں ہے کہ برتنے، بیچنے ، فائیدہ حاصل کرنے کی رجسٹری پورے پاکستان میں ہوتی ہے ، پاور آف اٹارنی کی شکل میں۔ ہم آپ تو بے وقوف ہو سکتے ہیں لیکن جن لوگوں نے اس کی رجسٹری کا انتظام کرایا ہے ، وہ بے وقوف ہر گز نہیں۔ جن لوگوں نے زکواۃ ، ٹیکس کی چوری کا یہ نظام تعمیر کیا ہے، جو اس کو چلا رہے ہیں ۔ وہ اصل چور ہیں۔ آپ اس پر آواز اٹھائیے، فوج پولیس، انتظامیہ سب حرکت میں آجائے گی کہ تو بولا تو بولا کیسے۔؟

سارے پاکستان میں کتنی ایسی جائیدادیں ہیں جو آج بھی پاور آف اٹارنی پر بناء ٹیکس دئے چل رہی ہیں۔ ؟

میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے دوستوں کا فوکس اپنے اپنے اکاؤنٹ پر ہے کہ اس اکاؤنٹ میں کتنی نمازیں، کتنے روزے، کتنا صدقہ ہے ، لیکن زیادہ تر کا فوکس زکواۃ یا ٹٰکس کے معاشرے پر اجتماعی اثر پر نہیں۔

اگر آپ کے گھر میں دولت کی گردش رک جائے تو کیا ہوگا، پہلے قرض، پھر جرم، پھر فاقے۔

پاکستان میں بھی دولت کی گردش رک گئی ہے۔ پیسہ نا حکومت تک پہنچ رہا ہے ، نا ہی حکومت کے پاس ترقیاتی کاموں کے پیسے پیں ، نا ہی حکومتی اخراجات بڑھائے جاسکتے ہیں۔ لہذا ایک طرف تو معشیت کا گلا گھوٹا جارہا ہے دوسری طرف ان کاموں کے لئے بھی پیسہ قرض لیا جارہا ہے۔ جس میں باہر سے قرضے کی کوئی ضرورت ہی نیہں ہوتی۔ آپ میں سے جو لوگ، کراچی میں رہے ہیں وہ ، ملیز ندی کے پشتہ کو جاکر ملاحظہ کریں، اس میں مٹی یہیں کی، مزدور یہیں کے ، ندی یہیں کی ، لیکن اس پشتہ کی تعمیر پر قرضہ باہر کا ۔۔۔

جب معاشرے میں چوری، معمولی چوریوں سے لے کر بڑی چوریوں تک چلی جائے اور ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کی جائے جہاں لوگوں کا ایمان ہو کہ "جب ہندوستان سے جنگ کریں گے تو 20 فیصد ہندوستانی مال غنیمت سے حکومت کو ادا کریں گے" اور چھوتے ملاء ملانی سے لے کر بڑے ملا ، ملانی یو یقین ہو کہ زکواۃ نا تو ہونے والے اضافے پر بیس فی صد ہے، اور نا ہی کمانے پر واجب الدا ہے، اور نا ہی حکومت کو دی جانی ہے تو ایسے معاشرے میں معیشیت میں انحطاط تو آنا ہی آنا ہے، غیر ملکی قرضے میں اضافہ تو ہونا ہی ہونا ہے۔ دولت کی گردش اتنی مدھم ہوجانی نی ہے کہ لوگوں کو کھانے کے لئے چوری اور عصمت فروشی کی راہ اختیار کرنی پڑے، جو لوگ اللہ کا حق اپنے اضافے پر ادا نیہں کرتے وہی سود خور ہیں۔ اور وہ ایک دن ایسے اٹھیں گے کہ جیسے شیطان نے چھولیا ہے۔

کون ایسا ہے جس کو یہ نظر نہیں آتا کہ وہ قرآن سے دور اور شیطان سے قریب ہوگئے ہیں۔ لیکن مانتا کوئی نہیں۔

سب لوگ ایک سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں اور کوئی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ بھی گیلا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ معاملہ نظر نہیں آتا، وہ اب بھی اپنے حلوے مانڈوں میں لگے ہوئے ہیں۔

دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، رشوت، چور بازاری، ٹیکس کی عدم ادائیگیوں ،معاشی بدعنوانیوں اور ان سب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشرتی نا ہمواریوں سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا۔آپ کے مراسلہ جات یقیناً ایک دردمندانہ سوچ کے عکاس ہیں. اعتراض صرف ٹیکس، زکواۃ، عشر اور صدقات کو خلط ملط کرنے پہ ہے۔
 

La Alma

لائبریرین
چور کے ہاتھ پر کاٹ کا نشان ، آج کل کریڈٹ ہسٹری سے لیا جاتا ہے۔ بات وہی ہے کہ ہاتھ پر کاٹ کے مخصوص نشان لگا کر پہچانا جائے یا پھر کریڈٹ ہسٹری دیکھ لی جائے۔
یہ بھی خوب رہی۔
ایک عام آدمی کی رسائی چور کی کریڈٹ ہسٹری تک کیسے ہو گی۔ یہ کام تو صرف نیب والے ہی کر سکتے ہیں۔:)
 
ملزمان کو ہتھکڑیاں لگانا غیر شرعی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل
ویب ڈیسک جمعرات 4 اپريل 2019
1618914-handcuff-1554383678-544-640x480.jpg

الزام ثابت ہونے تک ہتھکڑیاں لگانا غلط فعل ہے، قبلہ ایاز، فوٹو: فائل

اسلام آباد: اسلامی نظریاتی کونسل نے ملزمان کو ہتھکڑیاں لگانے کے عمل کو غیر شرعی قرار دیدیا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز نے کہا کہ نیب پولیس یا کوئی بھی ادارہ ملزمان کو ہتھکڑیاں نہ لگائیں کیونکہ ہتھکڑی صرف ملزم کی طرف سے تشدد کی صورت میں لگ سکتی ہے اور الزام ثابت ہونے تک ہتھکڑیاں لگانا غلط فعل ہے اس لیے نیب کی جانب سے ملزموں کو ہتھکڑیاں پہنانا پاکستانی اور شرعی قوانین کی خلاف ورزی ہے، انہوں نے کہا کہ آئین میں طے کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جاسکتا۔

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے مغرب میں اسلامو فوبیا کے خطرناک رحجان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یورپ، امریکا اور دیگر ممالک مسلمان اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں کردار ادا کریں۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے کراچی میں معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ کی مذمت بھی کی۔
تین صفحات چھان مارے، عنوان والے موضوع پر کوئی اور مراسلہ نہیں مل پایا۔ :)
 
یہ بھی خوب رہی۔
ایک عام آدمی کی رسائی چور کی کریڈٹ ہسٹری تک کیسے ہو گی۔ یہ کام تو صرف نیب والے ہی کر سکتے ہیں۔:)
جی ابھی پاکستان وہاں پہنچا ہی نہیں ہے جہاں دنیا کے دوسرے ممالک پہنچ چکے ہیں۔ جن میں انڈیا بھی شامل ہے
 
دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، رشوت، چور بازاری، ٹیکس کی عدم ادائیگیوں ،معاشی بدعنوانیوں اور ان سب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشرتی نا ہمواریوں سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا۔آپ کے مراسلہ جات یقیناً ایک دردمندانہ سوچ کے عکاس ہیں. اعتراض صرف ٹیکس، زکواۃ، عشر اور صدقات کو خلط ملط کرنے پہ ہے۔
جی، اوپن برہان ڈاٹ نیٹ پر زیادہ تر مترجمین نے زکواۃ کا ترجمہ چیریٹی (یعنی خیرات ) کیا ہے ۔ اس پر کس نے اعتراض کیا ؟
 
Top