بنیادی اصول ہے کہ اللہ تعالی کا حق پانچواں حصہ ہے، چاہے اضافہ کسی بھی شے سے ہوا ہو، یہی اصول مال غنیمت پر بھی لاگو ہوا۔ زکواۃ کی ادائیگی صرف حقوق اللہ کی ادائیگی نہیں بلکہ حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہے۔ زکواۃ یا ٹیکس صرف آپ کا اپنا تزکیہ ہی نہیں سارے معاشرے کا تزکیہ ہے ۔
ہمارا موضوع ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ان بڑے معاملات پر توجہ کیوں نہیں دیتی جن کا اثر سب پر پڑتا ہے۔ اس میں ایک بڑا سوال ٹیکس کی ادائیگی کا ہے ، جو کہ عین زکواۃ ہے۔
اگر لوگ ٹیکس دینا چھوڑ دیں تو کیا ہوگا، دولت کی گردش رک جائے گی ، جس کی وجہ سے مردوں میں چوری اور ڈاکہ کے رحجان بڑھے گا اور عورتوں میں عصمت فروشی کا رحجان بڑھے گا۔ ٹٰکس یا زکواۃ کی ادائیگی ، کسی بھی معاشرے میں دولت کی گردش میں اضافہ کرتی ہے ، جس کے باعث، معاشرے کا تزکیہ ہوتا ہے جو معیشیت میں خوشحالی کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں چوری اور عصمت فروشی دونوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ پہلے چوری کی بات کرتے ہیں۔ عصمت فروشی میں اضافے کے
صرف ایسا نہیں ہے کہ گلی کے کونے پر یا سگنل پر فون چوری کرکے لے گئے یا پستول دکھا کر لوٹ لیا۔ یہاں ہر شخص چوری پر مجبور ہے۔ میں چوری کا ایک واقعہ شئیر کرتا ہوں۔ اس کے بعد سوالات کریں گے۔
ایک شخص جسے میں اچھی طرح جانتا ہوں ، اس نے پاکستان سے باہر محنت سے کما کر ایک کمرشل پلاٹ 1987 میں سات لاکھ کا خریدا، تھوڑے دن بعد انکم ٹیکس ڈپارٹمنت کا نوٹس آ گیا کہ ۔ کیسے کمائے؟؟؟ ۔ وہ ملک سے باہر اپنی نوکری کا ثبوت، پاسپورٹ کی کاپیاں ، زرمبادلہ کی ترسیل کے ریکارڈ لے کر گیا لیکن ، یہ سب قابل قبول نہیں تھا۔ صاف صاف پچاس ہزار روپے کی ڈیمانڈ کی انکم ٹٰکس آفیسر نے۔ جو اس نے نہیں دئے اور معاملہ نو سال تک کھنچتا رہا ۔ پہلے ہی سال وہ ملک سے باہر چلا گیا، نوٹس، سمن وغیرہ تے رہے اور وہ ان کے مناسب جواب دیتا رہا۔ اس دوران لگ بھگ بارہ سال گذر گئے اور اس نے پاکستان جانے کا خیال ترک کردیا۔ اور پلاٹ بیچنے کی کوشش کی، کوئی بھی اس پلاٹ کو سیل ڈیڈ پر خریدنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ سب مانگتے تھے کہ پلاٹ "پاور آف آٹارنی" پر بیچو۔ بالآخر، اس نے پاور آف اٹارنی پر یہ پلاٹ 42 لاکھ روپے میں بیچ دیا اور پیسے کھرے کئے۔ یہ ناقابل تنسیخ پاور آف اٹارنی ، کے ڈی اے میں بھی رجسٹر ہوا ، لیکن اس کاغذ میں کسی رقم کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس طرح خریدار کو بیچنے برتنے، کمانے، اترانے اور فائیدہ اٹھانے کے تمام حقوق مل گئے لیکن "سیل ڈیڈ' کوئی نہیں ہوئی۔ کے ڈی اے نے یہ "پاور آف اٹارنی" رجسٹر کیا ، لیکن اس "اضافہ" پر میرے دوست کو کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑا۔ خریدار نے اس پلاٹ پر آٹھ فلیٹ بنائے اور بقول شخصے ، تین کروڑ 80 لاکھ میں "سب پاور آف اٹارنی" پر آگے بڑھا دئے ، ٹیکس، ٹیکس کا کوئی ذکر نہیں کیوں کہ ان تمام ڈاکومینٹس میں کسی رقم کا تذکرہ نہیں تھا، کیوں کہ حکومت کے ریکارڈ میں کوئی سیل تو ہوئی ہی نہیں۔
کوئی 4 یا 5 سال پہلے اس کے پاس کے ڈٰی اے سے نوٹس آیا کہ آپ کی زمین کا کرایہ ادا نہیں ہوا ہے۔ ادا کریں ورنہ قرقی۔
۔۔۔ پر یہ تو زمین بیچ چکا تھا۔ لہذا ، اس کو کیا ڈر، بیچ والا خریدار بھی اپنے پیسے کھرے کر چکا تھا۔ لہذا اس کو بھی کیا ڈر۔ اہم بات یہ ہے کہ نا 35 لاکھ کے "اضافے " پر کوئی ٹیکس ادا کیا گیا اور نا ہی تین کروڑ 38 لاکھ کے اضافہ پر کوئی ٹہکس ادا کیا گیا۔ یہ ٹیکس چوری کی ایک مثال ہے ، صرف ایک پلاٹ کی کہانی۔ صرف کراچی میں کتنی جائیدادیں ہیں؟
سوالات:
یہ کیوں ہے کہ برتنے، بیچنے ، فائیدہ حاصل کرنے کی رجسٹری پورے پاکستان میں ہوتی ہے ، پاور آف اٹارنی کی شکل میں۔ ہم آپ تو بے وقوف ہو سکتے ہیں لیکن جن لوگوں نے اس کی رجسٹری کا انتظام کرایا ہے ، وہ بے وقوف ہر گز نہیں۔ جن لوگوں نے زکواۃ ، ٹیکس کی چوری کا یہ نظام تعمیر کیا ہے، جو اس کو چلا رہے ہیں ۔ وہ اصل چور ہیں۔ آپ اس پر آواز اٹھائیے، فوج پولیس، انتظامیہ سب حرکت میں آجائے گی کہ تو بولا تو بولا کیسے۔؟
سارے پاکستان میں کتنی ایسی جائیدادیں ہیں جو آج بھی پاور آف اٹارنی پر بناء ٹیکس دئے چل رہی ہیں۔ ؟
میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے دوستوں کا فوکس اپنے اپنے اکاؤنٹ پر ہے کہ اس اکاؤنٹ میں کتنی نمازیں، کتنے روزے، کتنا صدقہ ہے ، لیکن زیادہ تر کا فوکس زکواۃ یا ٹٰکس کے معاشرے پر اجتماعی اثر پر نہیں۔
اگر آپ کے گھر میں دولت کی گردش رک جائے تو کیا ہوگا، پہلے قرض، پھر جرم، پھر فاقے۔
پاکستان میں بھی دولت کی گردش رک گئی ہے۔ پیسہ نا حکومت تک پہنچ رہا ہے ، نا ہی حکومت کے پاس ترقیاتی کاموں کے پیسے پیں ، نا ہی حکومتی اخراجات بڑھائے جاسکتے ہیں۔ لہذا ایک طرف تو معشیت کا گلا گھوٹا جارہا ہے دوسری طرف ان کاموں کے لئے بھی پیسہ قرض لیا جارہا ہے۔ جس میں باہر سے قرضے کی کوئی ضرورت ہی نیہں ہوتی۔ آپ میں سے جو لوگ، کراچی میں رہے ہیں وہ ، ملیز ندی کے پشتہ کو جاکر ملاحظہ کریں، اس میں مٹی یہیں کی، مزدور یہیں کے ، ندی یہیں کی ، لیکن اس پشتہ کی تعمیر پر قرضہ باہر کا ۔۔۔
جب معاشرے میں چوری، معمولی چوریوں سے لے کر بڑی چوریوں تک چلی جائے اور ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کی جائے جہاں لوگوں کا ایمان ہو کہ "جب ہندوستان سے جنگ کریں گے تو 20 فیصد ہندوستانی مال غنیمت سے حکومت کو ادا کریں گے" اور چھوتے ملاء ملانی سے لے کر بڑے ملا ، ملانی یو یقین ہو کہ زکواۃ نا تو ہونے والے اضافے پر بیس فی صد ہے، اور نا ہی کمانے پر واجب الدا ہے، اور نا ہی حکومت کو دی جانی ہے تو ایسے معاشرے میں معیشیت میں انحطاط تو آنا ہی آنا ہے، غیر ملکی قرضے میں اضافہ تو ہونا ہی ہونا ہے۔ دولت کی گردش اتنی مدھم ہوجانی نی ہے کہ لوگوں کو کھانے کے لئے چوری اور عصمت فروشی کی راہ اختیار کرنی پڑے، جو لوگ اللہ کا حق اپنے اضافے پر ادا نیہں کرتے وہی سود خور ہیں۔ اور وہ ایک دن ایسے اٹھیں گے کہ جیسے شیطان نے چھولیا ہے۔
کون ایسا ہے جس کو یہ نظر نہیں آتا کہ وہ قرآن سے دور اور شیطان سے قریب ہوگئے ہیں۔ لیکن مانتا کوئی نہیں۔
سب لوگ ایک سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں اور کوئی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ بھی گیلا ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کو یہ معاملہ نظر نہیں آتا، وہ اب بھی اپنے حلوے مانڈوں میں لگے ہوئے ہیں۔