فرخ منظور
لائبریرین
ملنا ہمارے ساتھ صنم عار کچھ نہ تھا
تم چاہتے تو تم سے یہ دشوار کچھ نہ تھا
سن کر کے واقعے کو مرے اُس نے یوں کہا
کیا سچ ہے یہ؟ وہ اتنا تو بیمار کچھ نہ تھا
میری کشش سے آپ عبث مجھ سے رک رہے
روٹھا تھا یوں ہی جی سے میں بیزار کچھ نہ تھا
ہاں شب صدائے پاسی تو آئی تھی کچھ ولے
دیکھا جو اٹھ کے میں، پسِ دیوار کچھ نہ تھا
افسوس اس میں آتے ہی دل اپنا لگ گیا
باغِ زمانہ گرچہ ہوادار کچھ نہ تھا
بے کل رکھے تھی لاگ طبیعت کی رات دن
ہر چند اس سے مجھ کو سرو کار کچھ نہ تھا
کٹتا نہ کیونکہ دیکھ کے ابرو کی چیں کو میں
یہ خطِّ تیغ تھا، خطِ زنّار کچھ نہ تھا
ق
اِک بوسہ چاہتا تھا تصور کے لب سے جان
میں جنسِ حسن کا تو خریدار کچھ نہ تھا
پر حیف تم سے اتنی بھی ہمت نہ ہو سکی
اس میں زبانِ خوبیِ رُخسار کچھ نہ تھا
ظالم نے کیا سمجھ کے کیا مصحفی کو قتل
یارو! وہ اس قدر تو گنہگار کچھ نہ تھا
(غلام ہمدانی مصحفی)
تم چاہتے تو تم سے یہ دشوار کچھ نہ تھا
سن کر کے واقعے کو مرے اُس نے یوں کہا
کیا سچ ہے یہ؟ وہ اتنا تو بیمار کچھ نہ تھا
میری کشش سے آپ عبث مجھ سے رک رہے
روٹھا تھا یوں ہی جی سے میں بیزار کچھ نہ تھا
ہاں شب صدائے پاسی تو آئی تھی کچھ ولے
دیکھا جو اٹھ کے میں، پسِ دیوار کچھ نہ تھا
افسوس اس میں آتے ہی دل اپنا لگ گیا
باغِ زمانہ گرچہ ہوادار کچھ نہ تھا
بے کل رکھے تھی لاگ طبیعت کی رات دن
ہر چند اس سے مجھ کو سرو کار کچھ نہ تھا
کٹتا نہ کیونکہ دیکھ کے ابرو کی چیں کو میں
یہ خطِّ تیغ تھا، خطِ زنّار کچھ نہ تھا
ق
اِک بوسہ چاہتا تھا تصور کے لب سے جان
میں جنسِ حسن کا تو خریدار کچھ نہ تھا
پر حیف تم سے اتنی بھی ہمت نہ ہو سکی
اس میں زبانِ خوبیِ رُخسار کچھ نہ تھا
ظالم نے کیا سمجھ کے کیا مصحفی کو قتل
یارو! وہ اس قدر تو گنہگار کچھ نہ تھا
(غلام ہمدانی مصحفی)