وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ ۔ یاسر بھائی، اشعار پسند کرنے کا بہت شکریہ ! بہت ممنون ہوں ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔
آپ نے جو دوتین اشعار پر سوالات کئے اس کے لئے بھی شکریہ! جواب دیکھ لیجئے۔
ملول خاطر و آزردہ دل ، کبیدہ بدن
شب ِ وصال میں روتے ہیں غم گزیدہ بدن
شب وصال میں بھی رونا -
کیوں نہیں بھئی! اس شعر میں کسی قرینے سے ظاہر نہیں ہوتا کہ یہاں محبوب سے وصال کی بات ہورہی ہے ۔ شعر کے تمام الفاظ دو مجبور (کردیئے گئے) لوگوں کے وصال کو ظاہر کرتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں ایک عام بات ہے ۔ شاہ صاحب ، ذرا چشمِ تصور کو وا کیجئے۔ اپنے اردگرد بھی دیکھئے ۔
ہم ایسے دنیا طلب تھے کہ بیچ کر دل کو
دکانِ سہل پرستی سے جا خریدا بدن
یہاں آپ نے اپنے مسلک ،کہ عربی فارسی الفاظ کے آخری ا اور و نہیں دب سکتے،کے برخلاف <دنیا> کو باندھا ہے -ہرچند میرا یہ ماننا ہے کہ ہندی فارسی اور عربی کے آخری سب حروف علّت گرائے جا سکتے ہیں بشرطیکہ روانی مجروح نہ ہوتی ہو اور دو ایک مثالیں بھی اساتذه کی اس باب میں موجود ہوں تو سونے پہ سہاگہ -اب واقعہ یہ ہے کہ <دنیا> کا الف گرانے سے روانی مجروح ہوتی ہے اور کوئی مثال اس کی کم از کم مجھے تو اساتذه کے کلام سے نہیں ملتی -آپ کی نظر میں ہو تو ضرور پیش کریں -
بھائی، یہ میرا مسلک قطعی نہیں ۔ میں بھی ہر اُس حرفِ علت کو گرانے کا قائل ہوں کہ جو روانی مجروح کئے بغیر گرایا جاسکے ۔
عروض کے تمام اختلافی مسائل پر میرا مسلک وہ ہے جو میں نے عملی طور پر اپنے شعر میں برتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی شعر پر تبصرے یا اصلاح کے ضمن میں جب بات ہوتی ہے تو لکھنا پڑتا ہے کہ عمومی اصول یہ ہے اور عمومًا ایسا کیا جاتاہے وغیرہ وغیرہ ۔ وہاں عروض کے مروجہ اصولوں اور عام طریقے کی بات کی جاتی ہے کہ سمجھانا مقصود ہوتا ہے ۔ ہر جگہ اختلافی بات نہیں کیجاتی ۔ میں عروض کی تسہیل اور تجدید کا شدت سے قائل ہوں ۔ بیجا عروضی پابندیوں کے خلاف ہوں اور اس محفل پر جابجا اس بارے میں لکھا ہے ۔ کسی ایک مراسلے میں آپ سے گفتگو کے دوران بھی میں نے کہا تھا کہ میں ہندی اورعربی فارسی الفاظ کو واؤ عطف سے جوڑنے اور اضافی تراکیب بنانے کے حق میں ہوں ۔ میری تو شعوری کوشش ہوتی ہے کہ جہاں ممکن ہوسکے ایسے الفاظ کو وقتاً فوقتاً اپنے شعر میں لایا جائے ۔ لیکن کوئی بدعت شروع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے روایتی اور مسلمہ اصولوں سے واقفیت اور ان پر عبور ثابت کیا جائے ۔ بہرحال ، یہ موضوع ایک طویل گفتگو کا متقاضی ہے جو بدقسمتی سے اس وقت ممکن نہیں ۔ ان شاء اللہ اس پر پھر بات ہوتی رہے گی ۔
باقی رہی بات اس شعر میں دنیا کا الف دبانے کی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں الف دبانے سے کوئی قباحت پیدا نہیں ہورہی ۔ روانی بالکل ٹھیک ہے ۔ میں بہت آسانی سے یہاں دنیا طلب کے بجائے دہر طلب، عیش طلب وغیرہ لکھ سکتا تھا لیکن دنیا طلب ہی کہنا مقصود تھا سو ایسے ہی کہا ۔ جہاں تک بات نظیر کی ہے تو مسئلہ یہیں پر آکر اٹکتا ہے ۔ پھر وہی کہوں گا کہ مجھے بارش کا پہلا قطرہ مان لیا جائے ۔ آگے کا اللہ مالک ہے ۔ کسی نہ کسی کو تو عملی قدم اٹھانا ہے ۔ کب تک زبانی کلامی ہوتی رہے گی ۔
پیاسی مٹی مجھے پی جائے گی مانا لیکن
قطرہ پہلا ہوں میں بارش کا مرے بعد تو دیکھ
مرے سخن کو وہ دیتا ہے امتحاں کیا کیا
وہ جان ِ مصرع ، غزل قامت و قصیدہ بدن
ظہیر بھائی معاف کیجیے گا یہ شعر آپ کا وزن سے خارج قرار پائے گا کیونکہ <مصرع> کا یہ وزن ناقابل قبول ہے -اور میرا ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت سے یہی مشوره ہے کہ ایسے تجربات سے گریز بہتر ہے جس سے آپ کی شاعرانہ ساکھ پہ گرہن لگے -
یاسر بھائی ، یہ بھی روایتی عروض سے میرے اختلاف کی ایک مثال ہے اور ایسا میں نے اپنے کئی اور اشعار میں بھی کیا ہے ۔ یہ مسئلہ بھی ایک طویل گفتگو کا متقاضی ہے ۔ لیکن فی الحال مختصراً یہ سمجھئے کہ میں عربی فارسی کے ان تمام حروف کو یکساں طور پر برتنے کا قائل ہوں کہ جن کا تلفظ اردو بولنے والوں میں الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی ہے ۔ یعنی ث ،س ، ص اور ز، ذ، ظ وغیرہ اردو بولنے والوں کے ہاں ہم صوت ہیں اس لئے میں ان کے صوتی قوافی کو جائز سمجھتا ہوں ۔ اسی طرح الف اور عین بھی اردو دنیا میں ہم صوت ہیں ۔ سو میں عین کو الف کی طرح برتنے کا قائل ہوں ۔ یعنی جہاں جہاں الف کو ساقط کیا جاسکتا ہے وہاں عین کو بھی کیا جاسکتا ہے ۔ عہدِ حاضر کے ثقہ شاعر و ادیب ، ماہرِ عروض اور استاد محبی و مکرمی سرورعالم راز سرور کا ایک مستقل مضمون " علمِ عروض اور اردو کے تقاضے" اس سلسلے میں پڑھنے کے لائق ہے ۔ تفصیلات کے لئے اُسے دیکھ لیجئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تقریباً ہر دور کے شعراء کے ہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں انہوں نے الف کی طرح عین کا اسقاط کیا ہے ۔ فی الوقت یہ کچھ مثالیں میں سرور صاحب کے مضمون سے آپ کے لئے لکھ رہا ہوں ۔
سودا تجھے کہتا ہوں نہ خوباں سے مل اتنا
تو اپنا غریب عاجز دل بیچنے والا
(سودا)
خرید عشق نے جس روز کی متاعِ چمن
جو نقدِ جاں پڑی قیمت تو دل بیعانہ تھا
(سودا)
نہ مانا کبھی دل نے کہنا ہمارا
نہایت ہم عاجز ہوئے بکتے بکتے
(نظیر اکبر آبادی)
بزرگوں بیچ کہیں بوئے میہمانی نہیں
تواضع کھانے کی ڈھونڈو سو جگ میں پانی نہیں
(شاہ حاتم)
کون عہدِ وفا اُس بتِ سفاک سے باندھے
سر کاٹ کے عاشق کا جو فتراک سے باندھے
(مصحفی)
ظفر خارِ کیوں گُل کے پہلو میں ہوتے
جو اچھے نصیب عندلیبوں کے ہوتے
(بہادر شاہ ظفر)
ہاں ابھی دور بہت دور مجھے جانا ہے
الوداع اے مہ و خورشید کہ ہوں پا بہ رکاب
(فراق گورکھپوری)
اُمید و یاس ، وفا و جفا ، فراق و وصال
مسائل عشق کے اِن کے سوا کچھ اور بھی ہیں
(فراق گورکھپوری)
پھر دل کے آئینے سے لہو پھوٹنے لگا
دیوارِ شب اور عکسِ رُخِ یار سامنے
(فیض احمد فیض)
لے جائیں مجھ کو مالِ غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا
(پروین شاکر)
اب تو میرے دل میں غم کا نام بھی باقی نہیں
عیش ہے اب عیش ہے ، دن عیش کا رات عیش کی
(عبدالحمید عدم)
نہیں کہ عرضِ تمنا پہ مان ہی جاؤ
ہمیں اِس عہدِ تمنا میں آزماؤ بھی
(مصطفٰے زیدی)
اک دواخانے کی کرسی پر بھرے بازار میں
تھی اک عورت چپکے چپکے ڈاکٹر سے ہمکلام
(احسان دانش)