الف نظامی
لائبریرین
چیئرمین نیب ایڈمرل سید فصیح بخاری کا یہ دعویٰ عوام کے لیے کسی میزائل سے کم نہیں کہ ملک میں کرپشن کا حجم بڑھ گیا ہے 12سے15ارب کی یومیہ کرپشن ہورہی ہے،اگر چوری اور سرکاری وسائل کے ضیاع اور بینکنگ کے شعبے سمیت دیگر اداروں میں ہونے والی بدعنوانیوں کو شامل کر لیا جائے تو یہ بھی یومیہ 15ارب روپے سے زیادہ کی کرپشن بنتی ہے ۔یوں لگتا ہے کہ ملک کا انتظامی ڈھانچہ تباہی اور زوال کی آخری حدوں کو چھونے لگا ہے ،ڈاکٹر ،وکیل ،صنعتکار،دکاندار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد ٹیکس چور ہے۔
2009ء میں ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستانی پہلے کے مقابلے میں زیادہ کرپٹ ہوتے جا رہے ہیں، سابق وزیرِاعظم گیلانی نے بھی پاکستان کی گرتی ہوئی ساکھ پر تشویش ظاہِر کی تھی ۔شوکت ترین کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے گورننس کے ایشوز کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی، ان کی سربراہی میں کمیٹی نے ٹرانس پیرنسی کے نتائج سے اختلاف نہیں کیا لیکن کرپشن پر قابو پانے اور گورننس کو بہتر بنانے کے لیے جامع رپورٹ پیش کی تھی لیکن رپورٹ کو داخلِ دفتر تو کر دیا گیا مگر عمل نہیں کیا گیا ۔ اس طرح کے بیشمار کیسز پاکستان میں مختلف ادوار میں بھرے پڑے ہیں جن پر عمل درآمد ندارِد ہے ۔
پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کے مطابق تین سو سے ساڑھے تین سو ارب روپے بدعنوانیوں کی نذر ہو رہے ہیں اس طرح سالانہ قومی دولت کے 4سے 5 ہزار ارب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں اس طرح 10سے12 ارب روپے کی یومیہ کرپشن ہورہی ہے جب کہ زرعی ریونیو ،قبضہ مافیا ، بینک قرضے ہڑپ کرنے، ٹیکسوں کی چوری کسٹمز ڈیوٹی کے ہیر پھیر لوڈ شیڈنگ کے نقصانات ،اختیارات کے نا جائز استعمال سے سرکاری وسائل کے ضیاع اور پیکنگ سیکٹر میں بدعنوانیاں ہمارے کرپشن جائزے میں شامل نہیں، اگر یہ بھی شامل کر لیے جائیں تو یہ بات چھ سات ارب کی نہیں یہ بھی یومیہ 15 ارب روپے سے زیادہ تک جا پہنچتی ہے ۔
کرپشن کی دیمک اور پاکستان کا مستقبل
2009ء میں ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستانی پہلے کے مقابلے میں زیادہ کرپٹ ہوتے جا رہے ہیں، سابق وزیرِاعظم گیلانی نے بھی پاکستان کی گرتی ہوئی ساکھ پر تشویش ظاہِر کی تھی ۔شوکت ترین کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے گورننس کے ایشوز کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی، ان کی سربراہی میں کمیٹی نے ٹرانس پیرنسی کے نتائج سے اختلاف نہیں کیا لیکن کرپشن پر قابو پانے اور گورننس کو بہتر بنانے کے لیے جامع رپورٹ پیش کی تھی لیکن رپورٹ کو داخلِ دفتر تو کر دیا گیا مگر عمل نہیں کیا گیا ۔ اس طرح کے بیشمار کیسز پاکستان میں مختلف ادوار میں بھرے پڑے ہیں جن پر عمل درآمد ندارِد ہے ۔
پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کے مطابق تین سو سے ساڑھے تین سو ارب روپے بدعنوانیوں کی نذر ہو رہے ہیں اس طرح سالانہ قومی دولت کے 4سے 5 ہزار ارب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں اس طرح 10سے12 ارب روپے کی یومیہ کرپشن ہورہی ہے جب کہ زرعی ریونیو ،قبضہ مافیا ، بینک قرضے ہڑپ کرنے، ٹیکسوں کی چوری کسٹمز ڈیوٹی کے ہیر پھیر لوڈ شیڈنگ کے نقصانات ،اختیارات کے نا جائز استعمال سے سرکاری وسائل کے ضیاع اور پیکنگ سیکٹر میں بدعنوانیاں ہمارے کرپشن جائزے میں شامل نہیں، اگر یہ بھی شامل کر لیے جائیں تو یہ بات چھ سات ارب کی نہیں یہ بھی یومیہ 15 ارب روپے سے زیادہ تک جا پہنچتی ہے ۔
کرپشن کی دیمک اور پاکستان کا مستقبل