طارق شاہ
محفلین
جوشؔ ملیح آبادی
مَیں غُرفۂ شب، وقتَِ سَحر کھول رہا ہُوں
ہنگامِ سفر، زادِ سفر کھول رہا ہُوں
اِس منزلِ آسودَگئ شب نَم و یَخ میں
آغوش، سُوئے برق و شرر کھول رہا ہُوں
اُس وقت، کہ جب یاس مُسلّط ہے فَضا پر
مَیں، طائرِ اُمید کے پَر کھول رہا ہُوں
جب آیۂ والشمس سے جُنباں ہے لَبِ صُبح
مَیں، بابِ شَبِستانِ قَمر کھول رہا ہُوں
صد حیف، پئے مقدَمِ اصنامِ خِرَد سوز
مَیں، کعبَۂ اندیشہ کا در کھول رہا ہُوں
آتے تھے جِدھر سے کبھی ہیجان کے لشکر
پِھر، دُھوم سے، وہ راہ گُزر کھول رہا ہُوں
جب، خوابِ اَجَل کی طرف آنکھیں ہیں روانہ
اُس وقت، دَرِ ذوقِ نَظر کھول رہا ہُوں
ہاں، دِید کے قابِل، یہ تماشا ہے کہ اے جوشؔ!
مَیں کُوچ کے ہنگام، کَمَر کھول رہا ہُوں
جوشؔ ملیح آبادی