جوش ملیح آبادی :::::یہ دُنیاذہن کی بازی گری معلُوم ہوتی ہے ::::: Josh Maleehabadi

طارق شاہ

محفلین

جوؔش ملیح آبادی

یہ دُنیا ذہن کی بازی گری معلُوم ہو تی ہے
یہاں ،جس شے کو جو سمجھو ، وہی معلُوم ہوتی ہے

نکلتے ہیں کبھی تو چاندنی سے دُھوپ کے لشکر!
کبھی خود دُھوپ، نکھری چاندنی معلُوم ہوتی ہے

کبھی کانٹوں کی نوکوں پرلبِ گُل رنگ کی نرمی
کبھی، پُھولوں کی خوشبُو میں انی معلُوم ہوتی ہے

وہ آہِ صُبح گاہی ، جس سے تارے کانپ ا ُٹھتے ہیں
ذرا سا رُخ بدل کر ، راگنی معلُوم ہوتی ہے

نہ سوچیں تو، نہایت لُطف آتا ہے تعلّی میں
جو سوچیں، تو بڑی ناپختگی معلُوم ہوتی ہے

جو سچ پُوچھو تو ، وہ اِک ضرب ہے عاداتِ ذہنی پر
وہ شے، جو نوعِ اِنساں کو بُری معلُوم ہوتی ہے

کبھی جن کارناموں پر جوانی فخر کرتی تھی
اب اُن کی یاد سے، شرمندگی معلُوم ہوتی ہے

بَلا کا ناز تھا کل جن مسائل کی صلابَت پر
اب اُن کی نیو، یک سر کھوکھلی معلُوم ہوتی ہے

کبھی پُر ہول بن جاتا ہے جب راتوں کا سنّاٹا!
سُریلے تار کی جھنکار سی معلُوم ہوتی ہے

اُسی نسبت سے آرائش پہ ہم مجبُور ہوتے ہیں
خُود اپنی ذات میں جتنی کجی معلُوم ہوتی ہے

پئے بیٹھا ہُوں جوؔش! علم و نظر کے سینکڑوں قُلزم
ارے، پھر بھی، بَلا کی تشنگی معلُوم ہوتی ہے

جوؔش ملیح آبادی

 
مدیر کی آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
سید ذیشان صاحب !
بہت اچھا کِیا ، اِس طرح لوگ غزل سے بھی مستفید ہوتے رہیں گے
اظہارِ پسندیدگی کے لیے بھی تشکّر

:)
 

اکمل زیدی

محفلین
یہ دُنیا ذہن کی بازی گری معلُوم ہوتی ہے
یہاں جس شے کو جو سمجھو وہی معلُوم ہوتی ہے


نکلتے ہیں کبھی تو چاندنی سے دُھوپ کے لشکر
کبھی خود دُھوپ نکھری چاندنی معلُوم ہوتی ہے

کبھی کانٹوں کی نوکوں پرلبِ گُل رنگ کی نرمی
کبھی پُھولوں کی خوشبُو میں انی معلُوم ہوتی ہے

وہ آہِ صُبح گاہی جس سے تارے کانپ اٹھتے ہیں
ذرا سا رُخ بدل کر راگنی معلُوم ہوتی ہے

نہ سوچیں تو نہایت لُطف آتا ہے تعلّی میں
جو سوچیں تو بڑی ناپختگی معلُوم ہوتی ہے

جو سچ پُوچھو تو وہ اِک ضرب ہے عاداتِ ذہنی پر
وہ شے جو نوعِ اِنساں کو بُری معلُوم ہوتی ہے

کبھی جن کارناموں پر جوانی فخر کرتی تھی
اب اُن کی یاد سے شرمندگی معلُوم ہوتی ہے

بَلا کا ناز تھا کل جن مسائل کی صلابَت پر
اب اُن کی نیؤ، یک سر، کھوکھلی معلُوم ہوتی ہے

کبھی پُر ہول بن جاتا ہے جب راتوں کا سنّاٹا
سُریلے تار کی جھنکار سی معلُوم ہوتی ہے

اُسی نسبت سے آرائش پہ ہم مجبُور ہوتے ہیں
خُود اپنی ذات میں جتنی کجی معلُوم ہوتی ہے

پئے بیٹھا ہُوں جوش! علم و نظر کے سینکڑوں قُلزم
ارے پھر بھی بَلا کی تشنگی معلُوم ہوتی ہے
 
آخری تدوین:
یہ دُنیا ذہن کی بازی گری معلُوم ہوتی ہے
یہاں جس شے کو جو سمجھو وہی معلُوم ہوتی ہے


نکلتے ہیں کبھی تو چاندنی سے دُھوپ کے لشکر
کبھی خود دُھوپ نکھری چاندنی معلُوم ہوتی ہے

کبھی کانٹوں کی نوکوں پرلبِ گُل رنگ کی نرمی
کبھی پُھولوں کی خوشبُو میں انی معلُوم ہوتی ہے

وہ آہِ صُبح گاہی جس سے تارے کانپ اٹھتے ہیں
ذرا سا رُخ بدل کر راگنی معلُوم ہوتی ہے

نہ سوچیں تو نہایت لُطف آتا ہے تعلّی میں
جو سوچیں تو بڑی ناپختگی معلُوم ہوتی ہے

جو سچ پُوچھو تو وہ اِک ضرب ہے عاداتِ ذہنی پر
وہ شے جو نوعِ اِنساں کو بُری معلُوم ہوتی ہے

کبھی جن کارناموں پر جوانی فخر کرتی تھی
اب اُن کی یاد سے شرمندگی معلُوم ہوتی ہے

بَلا کا ناز تھا کل جن مسائل کی صلابَت پر
اب اُن کی نیؤ یک سر کھوکلی معلُوم ہوتی ہے

کبھی پُر ہول بن جاتا ہے جب راتوں کا سنّاٹا
سُریلے تار کی جھنکار سی معلُوم ہوتی ہے

اُسی نسبت سے آرائش پہ ہم مجبُور ہوتے ہیں
خُود اپنی ذات میں جتنی کجی معلُوم ہوتی ہے

پئے بیٹھا ہُوں جوش! علم و نظر کے سینکڑوں قُلزم
ارے پھر بھی بَلا کی تشنگی معلُوم ہوتی ہے
خوب صورت انتخاب۔ داد قبول فرمائیے اکمل زیدی بھائی!
 

یاسر شاہ

محفلین
نہ سوچیں تو نہایت لُطف آتا ہے تعلّی میں
جو سوچیں تو بڑی ناپختگی معلُوم ہوتی ہے

جو سچ پُوچھو تو وہ اِک ضرب ہے عاداتِ ذہنی پر
وہ شے جو نوعِ اِنساں کو بُری معلُوم ہوتی ہے

کبھی جن کارناموں پر جوانی فخر کرتی تھی
اب اُن کی یاد سے شرمندگی معلُوم ہوتی ہے

اُسی نسبت سے آرائش پہ ہم مجبُور ہوتے ہیں
خُود اپنی ذات میں جتنی کجی معلُوم ہوتی ہے

واہ نہایت عمدہ اشعار !

ایک شعر پلے نہیں پڑھا 'سمجھا دیں :

بَلا کا ناز تھا کل جن مسائل کی صلابَت پر
اب اُن کی نیؤ یک سر کھوکلی معلُوم ہوتی ہے

دوسرے مصرع کےنشان زد الفاظ بھی میرے لئے نئے ہیں -مطلب سمجھا دیں -نوازش
 

شکیب

محفلین
بہت خوب۔ مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کی "یہ دنیا اہل دنیا کو بسی معلوم ہوتی ہے" یاد آ گئی۔
مقطع میں علم کے ع کو الف واصل کے طور پر استعمال کرنا میرے لئے نیا ہے (ویسے بھی کون سا بہت مطالعہ کر رکھا ہے:پ)
انتخاب کے لیے داد قبول فرمائیے اکمل بھائی۔ :)
 

اکمل زیدی

محفلین
واہ نہایت عمدہ اشعار !

ایک شعر پلے نہیں پڑھا 'سمجھا دیں :

بَلا کا ناز تھا کل جن مسائل کی صلابَت پر
اب اُن کی نیؤ یک سر کھوکلی معلُوم ہوتی ہے

دوسرے مصرع کےنشان زد الفاظ بھی میرے لئے نئے ہیں -مطلب سمجھا دیں -نوازش

بہت شکریہ یاسر صاحب ۔ رہی بات تشریح کی تو ذوق صاحب کے اشعار کی مجھ سے تشریح کروانا ایسے ہی ہے جیسےالف سے انار اور ب سے بلی والے بندے سے "حیات نو" کی موشگافیوں پر روشنی ڈالنے کو کہیں ۔ ۔ ۔
آپ کے ساتھ خود بھی مستفیذ ہونے کے لیے میں محترم محمد وارث اور الف عین صاحب سے ملتمس ہوں کے کچھ روشنی ڈالیں مندر جہ بالا شعر پر۔۔
 

سید عمران

محفلین
واہ نہایت عمدہ اشعار !

ایک شعر پلے نہیں پڑھا 'سمجھا دیں :



دوسرے مصرع کےنشان زد الفاظ بھی میرے لئے نئے ہیں -مطلب سمجھا دیں -نوازش
اس شعر کو یوں پڑھیں۔۔۔
بَلا کا ناز تھا کل جن مسائل کی صلابَت پر
اب اُن کی نیؤ، یک سر، کھوکلی معلُوم ہوتی ہے

نئیو بنیاد کو کہتے ہیں۔۔۔
کھوکلی ، اصل میں کھوکھلی ہے۔۔۔
امید ہے عقدہ حل ہوگیا ہوگا!!!
 

اکمل زیدی

محفلین
اس شعر کو یوں پڑھیں۔۔۔
بَلا کا ناز تھا کل جن مسائل کی صلابَت پر
اب اُن کی نیؤ، یک سر، کھوکلی معلُوم ہوتی ہے

نئیو بنیاد کو کہتے ہیں۔۔۔
کھوکلی ، اصل میں کھوکھلی ہے۔۔۔
امید ہے عقدہ حل ہوگیا ہوگا!!!
واہ۔۔صاحب۔۔۔کیا بات ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آپ تو ہر فن مشتاق ہے عمران بھائی۔ ۔ ۔ ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ یاسر صاحب ۔ رہی بات تشریح کی تو ذوق صاحب کے اشعار کی مجھ سے تشریح کروانا ایسے ہی ہے جیسےالف سے انار اور ب سے بلی والے بندے سے "حیات نو" کی موشگافیوں پر روشنی ڈالنے کو کہیں ۔ ۔ ۔
آپ کے ساتھ خود بھی مستفیذ ہونے کے لیے میں محترم محمد وارث اور الف عین صاحب سے ملتمس ہوں کے کچھ روشنی ڈالیں مندر جہ بالا شعر پر۔۔
شعر میں املا کی غلطیاں ہے زیدی صاحب، کھوکلی کو کھوکھلی کر دیں، اور نیؤ کو نیو، مسئلہ حل ہو جائے گا۔ :)
 

اکمل زیدی

محفلین
شعر میں املا کی غلطیاں ہے زیدی صاحب، کھوکلی کو کھوکھلی کر دیں، اور نیؤ کو نیو، مسئلہ حل ہو جائے گا۔ :)
جی بجا فرمایا۔۔۔مگر یہ مِن ّ و عَن ریختہ سے کاپی پیسٹ کی تھی۔ ۔ ۔ ۔ بہرحال فورا" سے پیشتر مشورے پر عملدرامد کیا گیا
 

الف عین

لائبریرین
ریختہ میں شاید کسی نے یہ سوچ کر جوش کا تخلص لگا کر اچھے بھلے شعر میں ع کا وصل کرا کر سقم پیدا کر دیا ہے جس کی جوش جیسے قادر الکلام شاعر سے امید نہیں کی جا سکتی
 
Top